درج بالا عملی اقدامات سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔
یہ جملے تو کم و بیش ہر بندہ کہہ رہا ہے ۔۔۔ لیکن اللہ کی رسی کونسی ہے ؟ تھامی کیسے جائے گی ؟ فرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارا کیسے ممکن ؟ اس کو کائی حل ؟
کیونکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ فرقہ واریت جن بنیادوں پر قائم ہے وہ ہمارے نزدیک ایمان کا لازمی جز ہیں تو جسے ہم ایمان کا لازمی جز سمجھتے ہوں انھیں پس پشت ڈال کر فرقہ واریت کا سد باب کیسے ممکن ہے ؟
مثلا قران کی حد تک تو قریب قریب سبھی متفق ہیں ۔۔۔ مگر بات جب قران کے ابدی اصولوں کی روشنی میں اسلام کو سجھنے ، بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کی آتی ہے اس وقت غیر قرانی اصطلاحات مثلا روایات یا احادیث ، فقہ وغیرہ کے معاملات سے ان کی توجیح مسائل پیدا کر دیتی ہے ۔۔۔ مثلا اگر میں نماز کے معاملے میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں نماز آخری بار ناف پر ہاتھ باندھ کر پڑھی گئی مگر دوسرا سینے پر ہاتھ باندھنے کو ہی صحیح سمجھتا ہے تو یہ ایک بنیادی اختلاف ٹھہرے گا کیونکہ نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اس کے طریقے و کردار پر دو مختلف رائے ممکن نہیں ۔۔۔ تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی چیز کو دو چار طریقوں سے بیان کیا جائے اور اس پر اصرار کیا جائے کہ وہی طریقہ سہی ہے بلکہ بعض خوش فہم حضرات کے مطابق سبھی طریقے درست ہیں ۔۔۔ تو فرقہ واریت کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے ۔۔۔
نوٹ ::::یہ سوال ہے نا کہ رائے۔۔۔
وسلام