فرقہ واریت

اسی فرقہ واریت کے باعث ہم عروج کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہیں وہ مساجد و امام بارگاہیں جو امن و آشتی کا مرکز تھیں آج لوگ قتل و غارت گری کے خوف سے ان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے آج فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

محترم نظامی صاحب جو لنک آپ نے پیش کیا تھا میں نے اُس کو ابھی پڑھنا ہی شروع کیا تھا کہ میری نظر ان سطور پر پڑی اور بڑی حیرت ہوئی کے طاہر القادری صاحب نے مساجد کے ساتھ لفظ امام بارگاہیں استعمال کیا۔۔۔ کیونکہ جس عروج کے دور کی وہ بات کر رہے ہیں کیااُس دور میں امام بارگاہوں کا تصور تھا؟؟؟۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کارتوس خان نے کہا:
مساجد کے ساتھ لفظ امام بارگاہیں استعمال کیا۔۔۔ کیونکہ جس عروج کے دور کی وہ بات کر رہے ہیں کیااُس دور میں امام بارگاہوں کا تصور تھا؟؟؟۔۔۔
وسلام۔۔۔
زوال کے دور کی یادگار مسجد و امام بارگاہ میں خون ،بھی عروج کے دور میں تھا؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
میرا سوال اب بھی وہیں ہے۔۔۔
وسلام۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کارتوس خان، کیا یہی سوال آپ وہاں نہیں پوچھ سکتے جہاں کا ربط فراہم کیا گیا ہے؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

نبیل بھائی معذرت کے ساتھ لڑی یہاں پر لگائی گئی ہے تو اس لئے میں نے سوال یہیں کرنا مناسب سمجھا اور اُس فورم پر میری حاضری ممنوع ہے۔۔۔ اب کیوں ممنوع ہے یہ ایک لمبی داستان ہے اس لئے میں نے سوچا کہ چلیں جو سوال مجھے وہاں کرنے پر ممنوع قرار دے دیا گیا اُن سوالوں میں نظامی بھائی کے توسط سے یہاں کر لو اور جواب وہ وہاں سے لاکر یہاں پیش کردیں۔۔۔ اگر آپ کو میری ادا بُری لگی تو میں معذرت چاہتا ہوں وہ اس لئے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور امام بارگاہ۔۔۔ اس کی تعریف مجھے آج تک کوئی پیش نہیں کر سکا۔۔۔ تو میں سوچا شاید نظامی بھائی اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں ‌ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں آئمہ رحمۃ اللہ کے دور میں کتنی امام بارگاہیں تھیں؟؟؟۔۔۔ اور کہاں کہاں تھیں؟؟؟۔۔۔ اگر اس کا جواب بھی موصول ہو جاتا تو اس ناچیز کے علم میں مزید اضافہ ہوجائے گا

وسلام۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
برادرم کارتوس، دوسری چوپالوں پر آپ کی کارگزاریوں سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آپ براہ کرم ہمارے قواعدوضوابط کا خیال رکھیں۔ آپ کے سوال کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الف نظامی نے محض ایک تحریر کا ربط یہاں پیش کیا تھا۔ آپ اس کو زبردستی دوسری جانب لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

نبیل بھائی آپ نے ہوچھا میں نے بتا دیا۔۔۔ رہی بات اس موضوع کے تعلق سے میری درخواست ہے کہ اسیے لنک نہ دیئے جائیں۔۔۔اب دیکھیں بقول آپ کے میرے سوال کا موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو پھر مسجد اور امام بارگاہ کا فرقہ واریت سے تعلق کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ فرقہ پرستی کا تعلق نظریات ہے۔۔۔ مسجد یا امام بارگاہ سے نہیں۔۔۔ خیر میں اس چوپال میں نیا ہوں اس لئے مجھے زیادہ بات ویسے بھی نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر بھی میری یہ مودبانہ درخواست ہے اس فورم پر لنک دینے سے گریز کیا جائے ورنہ لنک تو ہمارے پاس بھی بہت ہیں دینے کو لیکن یہ طریقہ نہیں ہوتا کسی کے نظریات کے پرچار کا۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کارتوس خان، یہاں کیا اور کس طرح پوسٹ ہونا چاہیے، اس کے بارے میں آپ ضرور اپنی رائے رکھتے ہوں گے اور ہم آپ کی رائے کا احترام کرتے ہیں، لیکن براہ کرم اس کا استحقاق ہمارے پاس رہنے دیجیے۔ مذکورہ ربط پوسٹ کرنے میں مجھے کوئی بات قابل گرفت نہیں نظر آتی اور میں گزارش کروں گا کہ ہمیں اس مسجد اور امام بارگاہ کی بحث سے بھی معاف رکھیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

نبیل بھائی ہم سب کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔۔۔ رہی بات مذکورہ ربط پوسٹ پر قابل گرفت بات جو آپ کو نظر نہیں آئی تو کیا یہ ضروری ہے کہ میں بھی آپ کی بات سے اتفاق کروں؟؟؟۔۔۔ سیدھی سی بات ہے انسان سبز رنگ کا چشمہ لگائے تو منظر سبز نظر آئے گا ہوسکتا ہے آپ نے لڑی کو گرفت کی نظر سے دیکھا ہی نہ ہو؟؟؟۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جی ہم سب نے یہاں بشمول منتظمین رنگین چشمے لگا رکھے ہیں۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو کیا قابل گرفت نظر آتا ہے اور کیا نہیں۔ میری صرف اتنی گزارش تھی کہ ہم فورم کی نظامت اپنی سمجھ کے مطابق چلاتے ہیں، خواہ صحیح ہے یا غلط۔ اور اتنی فالتو عقل مجھ میں بھی نہیں ہے کہ اس ربط پر گرفت کی نگاہ ڈالوں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔وبعد!۔

نبیل بھائی منتظمین کو بیچ میں نہ لائیں اپنی اور میری بات کریں۔۔۔ جیسا آپ نے کہا کہ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو حیرت ہوئی یہ جان کر۔۔۔ حالانکہ اس لائن پر جواب کا حق میں محفوظ رکھتا ہوں لیکن بات کسی اور مرحلے میں داخل ہو جائے گی لیکن میں یہاں پر ایک بات واضع کروں کے عقل اور شعور دو مختلف چیزیں ہیں۔۔۔ عقل ہے آپ میں اس ہی لئے جواب دے رہیں۔۔۔۔ خیر آپ بھائی ہیں ہمارے اگر ہماری باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوئی تو معذرت میرا مقصد ہر گز آپ کو نفسیائی تکلیف میں مبتلا کرنا نہیں تھا۔۔۔ بہرحال میں پھر معذرت چاہوں گا۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

برادر

محفلین
نبیل صاحب لکھتے ہیں۔

یہاں کیا اور کس طرح پوسٹ ہونا چاہیے، اس کے بارے میں آپ ضرور اپنی رائے رکھتے ہوں گے اور ہم آپ کی رائے کا احترام کرتے ہیں، لیکن براہ کرم اس کا استحقاق ہمارے پاس رہنے دیجیے۔ مذکورہ ربط پوسٹ کرنے میں مجھے کوئی بات قابل گرفت نہیں نظر آتی اور میں گزارش کروں گا کہ ہمیں اس مسجد اور امام بارگاہ کی بحث سے بھی معاف رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت معقول بات ہے ۔ میرا خیال ہے رائے دہی اور رائے نفاذی میں فرق ہونا چاہیئے۔

رائے دہی = رائے دینا
رائے نفاذی= رائے زبردستی ٹھونسنا یا نافذ کرنا :wink:
 

الف نظامی

لائبریرین
فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟


اسلام دینِ اعتدال ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام کا لغوی مفہوم ہی سلامتی، امن، سکون اور تسلیم و رضا ہے۔ امن و سکون مہذب انسانی معاشرے کی اعلیٰ خصوصیت ہے جہاں توازن و اعتدال نہیں وہاں ظلم و تشدد ہے اور ظلم درندگی کی علامت ہے انسانیت کی نہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینِ اعتدال کی حیثیت سے اسلام زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف اور میانہ روی کا داعی ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ وہ نظامِ سیاست و معیشت ہو یا جہاں فکرو نظر، میدانِ جہاد ہو یا تبلیغ و اقامتِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی ہو یا حقوق اﷲ کی بجا آوری سماجی اقدار کا معاملہ ہو یا مذہبی اعتقادات کا الغرض جس جس گوشے کو جس جس زاویے سے بھی دیکھا جائے اس میں حسنِ توازن جھلکتا نظر آئے گا۔

اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔ اس کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں اشارہ کرتے ہیں:


کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں
سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک


اگر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔

جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک اثرات کا احساس و ادراک ہر شخص کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے ہمارے گردو پیش میں تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کی نزاکت اور سنگینی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نوشتہء دیوار کو پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور انتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگت، یکجہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری فلاح و بقا اور نجات مضمر ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔

فرقہ واریت کے نقصانات

وہ مسلمان جو کبھی جسد واحد کی مانند تھے فرقہ واریت کی لہر نے انہیں گروہوں اور طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی امر کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں اشارہ کیا ہے:


فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اسی فرقہ واریت کے باعث ہم عروج کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہیں وہ مساجد و امام بارگاہیں جو امن و آشتی کا مرکز تھیں آج لوگ قتل و غارت گری کے خوف سے ان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے آج فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

دورِ جدید کے چیلنجز

عصر حاضر میں باعزت مقام اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے امت مسلمہ کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں آج ہمیں عقیدے اور مسلک کے نام پر پروان چڑھنے والے فتنوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری باہمی چپقلشوں کے باعث اسلام دشمن قوتیں اپنی بھرپور یلغار کے ذریعے چراغ مصطفوی کو بجھانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ مسلمانوں کے متحد نہ ہونے کے باعث اسلام پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں اسلام کو دنیا کے سامنے دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید میں تحریف کی ناپاک جسارتیں ہو رہی ہیں اگر ہم نے عصر حاضر کے ان چیلنجز کو نہ سمجھا اور ان کے مقابلے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی تو ہمارا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا جائے گا کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

1۔ اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کا ممکنہ لائحہ عمل

2۔ اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے درج ذیل اصول و ضوابط پر مشتمل ایک ہمہ گیر لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے۔

3۔ عقائد و اعمال کے مشترک پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔

4۔ متنازعہ اور تنقیدی کی بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔
حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدمِ اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔

5۔ دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔

6۔ علماء کے لئے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔

7۔ تہذیبِ اخلاق کے لئے مؤثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔

فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے درج ذیل قانونی اقدامات کے جائیں:

1۔ منافقانہ اور خفیہ فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

2۔ تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔

3۔ ہنگامی نزاعات کے حل کے لئے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔

4۔ مذہبی سطح پر منفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

درج بالا عملی اقدامات سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔


تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
 

طالوت

محفلین
ربط کی بجائے اگر آپ یہ تحریر ہی کاپی پیسٹ کرتے تو وقت بچتا ۔۔۔۔ اچھی تحریر ہے اسے آپ "اتحاد اسلامی" والی تھریڈ میں بھی کاپی کر چکے ہیں غالبا بغیر رائٹر کے نام کے جسے میں آپ کی تحریر سمجھا تاہم وہاں میں نے کچھ سوالات کیئے ہیں امید ہے آپ اس طرف توجہ دیں گے
وسلام
 

طالوت

محفلین
درج بالا عملی اقدامات سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔
یہ جملے تو کم و بیش ہر بندہ کہہ رہا ہے ۔۔۔ لیکن اللہ کی رسی کونسی ہے ؟ تھامی کیسے جائے گی ؟ فرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارا کیسے ممکن ؟ اس کو کائی حل ؟
کیونکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ فرقہ واریت جن بنیادوں پر قائم ہے وہ ہمارے نزدیک ایمان کا لازمی جز ہیں تو جسے ہم ایمان کا لازمی جز سمجھتے ہوں انھیں پس پشت ڈال کر فرقہ واریت کا سد باب کیسے ممکن ہے ؟
مثلا قران کی حد تک تو قریب قریب سبھی متفق ہیں ۔۔۔ مگر بات جب قران کے ابدی اصولوں کی روشنی میں اسلام کو سجھنے ، بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کی آتی ہے اس وقت غیر قرانی اصطلاحات مثلا روایات یا احادیث ، فقہ وغیرہ کے معاملات سے ان کی توجیح مسائل پیدا کر دیتی ہے ۔۔۔ مثلا اگر میں نماز کے معاملے میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں نماز آخری بار ناف پر ہاتھ باندھ کر پڑھی گئی مگر دوسرا سینے پر ہاتھ باندھنے کو ہی صحیح سمجھتا ہے تو یہ ایک بنیادی اختلاف ٹھہرے گا کیونکہ نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اس کے طریقے و کردار پر دو مختلف رائے ممکن نہیں ۔۔۔ تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی چیز کو دو چار طریقوں سے بیان کیا جائے اور اس پر اصرار کیا جائے کہ وہی طریقہ سہی ہے بلکہ بعض خوش فہم حضرات کے مطابق سبھی طریقے درست ہیں ۔۔۔ تو فرقہ واریت کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے ۔۔۔
نوٹ ::::یہ سوال ہے نا کہ رائے۔۔۔
وسلام
 
Top