امریکی حکومت کا پاکستان کےجنرل مشرف کی فوجی حکومت کو اعلانیہ نہ مانے کے دو سال بعد پاکستانی لیڈر، واشنگٹن میں امریکہ کے دفاعی سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈانلڈ رمسفیلڈ کے ساتھ چبوترے پر کھڑا ہوا۔ ہنسی مذاق کے دوران ڈانلڈ رمسفیلڈ نے جنرل مشرف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دوستانہ انداز میں کہا۔ “ جناب صدر ۔ہم ۔ ہمارا ملک ۔۔۔ اور خاص طور پر دنیا، دنیا کے اس حصہ میں جہاں آپ کا ملک واقع ہے اس کام میں کامیابی کےخواہیش مند ہیں“۔
نائین الیون کے بعد حالات کی ڈرامائی تبدیلیاں پاکستان کو ایک نئ روشنی میں لائیں۔ طالبان کی مدد اور کشمیر کے اندر حملوں کی بناء پر عالمی برادری سے خارج کیا ہو پاکستان، دہشت گری کی جنگ میں امریکہ کا حربی ساتھی بن گیا۔ وہی فوجی سربراہ جنہوں نے جہادیوں کو ان کے لیے افغانستان اور کشمیر میں لڑنے کے لیے آسانیاں فراہم کی تھیں اور وہ فوجی سربراہ جنہوں نے ایٹمی مواد کی تجارت کو نظر انداز کردیا تھا اب اسی فوجی سربراہ کو اس خطے میں امریکہ کی قدروں کا علم بردار کہا جارہا تھا۔
اس کایا پلٹ کی ذمداری جنرل مشرف پر آتی ہے۔ انتہا پسندوں سے الگ نہ ہونا چاہنے والی فوج اور امریکہ کی قدروں کااس خطے میں علم بردار بنے کے درمیان مشرف ایک نازک دھاگے پر چلا۔ کیونکہ مشرف نے امریکن کی جانب داری کی، لہذا اب وہ نشانہ بن گیا۔ اسلامی دہشت پسند جن کو پاکستان کے بہترین جاسوسی کے ماہرین پاکستان انٹرانٹیلیجینس نے ٹرینگ دی تھی انہوں نےاب اپنی بندوق کی نالیاں فوجی حکمرانوں پرموڑ دیں جنہوں نے ان کے ساتھ دغا کیا۔
جیسا کہ ہم اس کتاب میں جائزہ لیں گے کہ درحقیقت مشرف کا امریکہ سے دہشت کی جنگ میں ناطہ جوڑنا ، پاکستان کو خود سے جنگ لڑانے کے برابر ہے۔ اس کشمکش کا نتیجہ نہ صرف پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا بلکہ نظریاتی آب و ہوا اور دنیا کی حفاظت کا بھی ۔ یہ وہ جنگ ہے جس کا گہرا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ پاکستانی اور بیرونی مشاہد اس کو پاکستان کی سطحی سیاست سے پرکھتے ہیں۔ مشرف اور اس کے امریکن دوست یہ حقیقت بتانے سےگریز کرتے ہیں کہ جن جہادیوں کو پاکستان کی حکومت دبانے کی کوشش کر رہی ہے ان کا پاکستانی سوسائٹی پر اگر زیادہ نہیں تو مشرف کے برابراثر ہے۔ جیسےجیسےعراق اور افغانستان میں جنگ زیادہ سے زیادہ وحشانہ پن اختیار کررہی ہے اور مشرقی شہروں جن میں لندن بھی شامل ہے تجربہ کار جہادیوں دہشت پھیلا رہے ہیں ویسے ویسے مشرف کا “ جنگ دِہشت“ پر مخصوص خیال کیا اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
میرے لئے ایک جرنلسٹ کی حیثیت سے ان تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے واقعات سے واقف رہنا ایک مشکل آزمایش ہے۔ یوں تو لڑائی کے میدان سے خبریں اکھٹا کرکے بھیجنا ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے لیکن میرا کام اور بھی دشوار ہوگیا جب نائین الیوین کے بعد اس علاقہ کی پیچیدہ سیاسی آب و ہوا میں حربی رشتےسر کے بل ہوگے۔ اور سرکاری بیانوں اور اصلیت میں زمین آسمان کا فاصلہ پیدا ہوگیا۔
میں یو۔ ایس۔ اے کی فوجوں کے افغانستان پر حملہ کے چار ہفتوں کے اندر یعنی آٹھ نومبر ٢٠٠١ کو افغانستان میں ایک ہیومینیٹیرین تنظیم کے ایک ڈاکٹر کے روپ میں داخل ہوگیا تھا ۔ مورچہ بند طالبان حکومت نےغیرملکی اخبار نویسوں کی موجودگی ممنوع کردی تھی اور پکڑے جانا، جان کا وبال بن سکتا تھا۔ خطرہ بہت سنگین تھا لیکن اس کا صلہ بھی بڑا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں افغانستان کی تورخم سرحد کی طرف جارہا تھا “ ٹائمز “ کے ڈپٹی اڈیٹر پریسٹن اور فارین اڈیٹر برنوین میڈاکس نے مجھے کال کیا ۔ انہیں میری طرف سےفکر تھی۔ اگرچہ وہ میرے فیصلہ سے مکمل طور پر مطمئن نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی مجھے یقین دلایا کہ وہ میری مدد کریں گے۔
میرا جنگ کے میدان میں ایک پورا دن گزارنا میری ساری جرنلسٹ زندگی کا سب سے خطرناک دن تھا۔ اس سفر میں کئ حقیقتیں ظاہر ہوئیں۔ میں دیکھا کہ آاسامہ بن لادن کے بلاوے پر، ( حکومت پاکستان کا امریکہ سے طالبان کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کے وعدے کے باوجود ) ہزاروں پاکستانی جلال آباد پہنچ رہے تھے۔ چوڑی شلوار اور قمیض میں ان کو پہچاننا مشکل نہیں تھا۔ سرگرم نوجوان پہلے ہی محاذ پر بھیجےجاچکے تھے۔ عمر رسیدہ جنہوں نے اپنی زندگی پاکستان کےغیر پابندِ قانون قبائلی علاقوں میں گزاری ہے اپنےاحکاموں کے منتظر تھے۔ طالبان ایک ہفتہ بعد ہار کر منتشر ہوگے۔ لیکن دہشت کےخلاف جنگ نہیں ختم نہیں ہوئی۔ یہاں تک کے ایک سال بعد میں نے پاکستان کے شمال مغربی سرحدوں پرجنگ آورطالبان کو پایا جو غیرملکی قابض فوجوں سے لڑنےکے لئے اپنے لیڈر کے احکام کا انتظار کررہے تھے
نائن الیوین کے بعد میں نے القاعدہ کے لیڈروں کی تلاش سے متعلق خبروں کو جمع کرنے کے لیے پاکستان کے غیر پابندِ قانون وزیرستان کے سفر کئے۔ وزیرستان، دینا کے دشوار ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے جو اب دہشت گروں کا اڈا بن گیا ہے۔ اور شاید یہ بن لادن اور الزواری کا باڑہ ہے۔ پاکستان کے ہزارہا سپاہی اس پہاڑی علاقہ میں ان قبائلیوں سے لڑ رہے ہیں جو اپنے ان “مہمانوں“ سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے۔
جہادی گروہ کی فوجی حرکات وسکنات اور انکا پاکستانی آرمی سے رشتے کا علم مجھے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنےسے ملا۔ میں پچھلے سالوں میں سینکڑوں چھوٹے بڑے اسلامی جنگجوؤں سے ملا ہوں جو شہادت کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان انتہا پسند مسلم لیڈروں سےملا ہوں جن کے مطابق مسلمانوں پر جبر و ستم کرنے والوں کو تباہ کرنے کا اور دنیا میں اسلام کی برتریت لانے کا صرف ایک وصلیہ ہے جو جہاد کہلاتا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف اسلامی مدرسے بلکہ غیرمذہبی تعلیمی اداروں کی بھی پیداوار ہیں۔
خود قسمتی کہیں کہ بعض اوقات میں ان جگہوں پرموجود تھا جہاں مجھے کچھ اہم چیزوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ٣١ دسمبر کو میں قندھار ائرپورٹ پرموجود تھا جب پاکستانی جنگجو مسعود اظہر اور برطانیہ میں پیدا ہوئے احمد عمر سعید شیخ کا ہائی جیک کی ہوئی انڈین ائرلائن کے پیسنجروں سے تبادلہ کیا گیا تھا۔ ایک ہفتہ بعد میں نےمسعود اظہر کو کراچی کی ایک مسجد میں پُرجوش تقریر کرتے دیکھا۔ پاکستان انٹر سروس انٹیلیجینس اور جنگجو لوگوں کا رشتہ صاف ظاہر تھا۔
جنرل مشرف سےانٹرویوز ( جنرل مشرف کے میں نے کئی انٹرویو لئے ہیں ان میں سے ایک نیوز ویک کے جنوری ٢٠٠٢ کی کور اسٹوری کے لیے کیا گیا تھا ) اور پاکستان کے دوسرے بڑے اور پرانے ملٹری اور سول لیڈروں سےملاقاتوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان نسبت سمجھنے میں مدد دی ہے۔
یہ اور دوسرے تجربات کی بنا پرمیری خواہش تھی کہ میں ایک کتاب لکھوں جو پاکستان کی “ جنگِ دہشت“ کی حقیقت بتائے۔ “ فرنٹ لائن“ اس کاوش کا نتیجہ ہے۔ مجھے امید ہے کے میری یہ کتاب سرکاری جنگِ دہشت کے نظریہ میں خانہ پوری کرسکےگی۔
یہ کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصے میں ان وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو نائن الیون کے بعد مشرف کو امریکہ کی طرف لاتی ہیں اور کیوں یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ دوسرے حصہ ان طاقتوں سے مطالق ہے جو اس کے خلاف ہیں ۔ یہ طاقتیں جہادی اور ان کے طرفدار ہیں۔ اور تیسرا حصہ ان کے درمیان جنگ سے مطالق ہے۔ جنگ کس طرح لڑی جارہی ہے اور اس جنگ کو کون جیت رہا ہے۔
تمہید
[line] پریسیڈنٹ مشرف اپنی تیز رفتار مرسیڈیز کے ہلکے رنگ کی کھڑکی سے ایک وین کو اپنےموٹر کیڈ کی جانب آتا دیکھ رہا تھا جو ایک سپاہی کو کچلتی ہوئی آرہی تھی جس نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ٢٥ دسمبر ٢٠٠٣ ایک قومی چھٹی کا دن تھا اس لئے سڑکوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کچھ ہی سیکنڈ کے بعد وین ، موٹر کیڈ کی آخری حفاظی کار سے ٹکرا کر دھماکہ کے ساتھ ٹکرے ٹکڑے ہوگئی۔ ہرطرف اندھیرساچھا گیا۔ ڈرائیور نے غیراختیاری طور پر بریک لگائے۔
“رفتار بڑھاؤ اور مت روکو“۔ پریسیڈنٹ چلایا۔
ابھی ان کی کار ١٥٠ گز ہی چلی ہوگی کہ ٦٠ پونڈ آتشگیر اسلحہ سے لدی ہوئی ایک اور وین مرسیڈیز کے پیچھے والی حفاظی کار سے ٹکرائی۔ پریسیڈنیٹ کی کار اب دو دھماکوں کے درمیان تھی۔ زرہ بکتر مرسیڈیز کے تین ٹائر پنکچر ہوچکے تھے۔ خون اور جسمانی ٹکڑوں نےگاڑی کولپٹ لیا تھا۔ ڈرائیور نے رفتار تیز کی اور ایک ٹائر پرگاڑی چلاتا ہوا گھر پہنچا۔ اس بار حملہ آور کامیاب ہوجاتے مگر تیسرا حملہ آور صحیح وقت پر اپنی مقررہ جگہ نہیں پہنچ سکا۔
“ اس دفعہ میں بال بال بچ گیا“۔ پریسیڈنیٹ نے اس سانحہ کو یاد کر کے کہا۔
دو ہفتہ کے اندر ہی اندر یہ جنرل مشرف کی جان لینے کی دوسری ناکام کوشش تھی۔ دونوں حملے پاکستان کے ملٹری ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ہوئے۔ یہ بات چکرانے والی تھی کہ حملہ آور آتشگیر اسلحہ اس پل کے نیچے چھپا سکے جہاں سے پریسیڈنیٹ کے موٹر کیڈ کوگزرنا تھا اور جہاں حفاظتی اقدامات کی بنا پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ حملہ آوروں نے دونوں دفعہ وہ ہی مقام چنا۔ پریسیڈنٹ مشرف ہر روز اسی راستہ سے اپنے آفس اسلام آباد کو جاتا تھا۔ اس کی حفاظت کے سخت اقدام لئے جاتے تھے۔ سڑک کو عام ٹرافیک کے لیے بند کردیا جاتا تھا تاکہ موٹر کیڈ تیزی سےگزر سکے۔ خاص طور پر کرسمس کی چھٹی کی وجہ سے اور بھی حفاظتی اقدام کیے گئے تھے۔ دونوں حملہ میں یہ بات ظاہر تھی کہ ارتکاب کرنے والوں کے پاس کھوج کے سامان تھے۔ عموماً اس قسم کی مدد کرنے والا سامان عام دہشت گر کے پاس نہیں ہوتا۔
اس شام کے کھانے کی ایک دعوت میں مشرف نے کہا۔“ اللہ کی نگہبانی ، والدہ کی دعاؤں اور قوم کی خیرخواہی کی بناء پر میری جان بچی“۔
[line]
اس میں کوئی شک نہیں کے کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے! اس حملہ کو بنانے والے پیشہ وار تھے۔ اور تمام علامتیں بین الا قوامی دہشت پسندوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ جن کے لے جنرل مشرف ایک نشانہ ہے۔١٣ ستمبر ٢٠٠١ کو جب مشرف نے پاکستان کو امریکن “دہشت کے خلاف جنگ“ میں شامل کردیا سرکاری اعلان کے مطابق اس کو مارنے کی تین کوششیں ہوچکی تھیں ۔ لیکن عام خبروں کے مطابق یہ پانچویں یا چھٹی کوشش تھی۔ جنرل بہت سےگروہ کے لئے ایک کالی بھیڑ ہے خاص طور پر انتہا پسند اسلامی گروہ ۔
گیارہ ستمبر کے بعد مشرف نے اسلامی جنگجوگروپوں کے خلاف جا کر اپنی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔ اس کی حفاظت کے اقدام سخت کردیے گئے ہیں۔ اس کے آنے جانے کی اطلاعات خفیہ ہیں اور آنے جانے کے راستوں کا انتخاب تبدیل ہوتا رہتا ہے تاکہ مشرف کا بھی وہی حشر نہ ہو جو مصر کے انوار سعادات کا اسرئیل سے امن کے معاعدے کے بعد اسلامی جنگجو گروہ نے کیا تھا۔ دنیا میں جن لوگون کی سخت حفاظت کی جاتی ہے ان گنے چنے لوگوں میں اب مشرف بھی شامل ہے۔ آدھا گھنٹہ پہلے اس کے آنے جانے کا راستے پر ٹرفیک بند کردیا گیا تھا اور بم اسکواڈ نے راستہ کو چیک کرلیا تھا - مگر جب کوئی اندر کا شخص ارتکاب کرنے والوں سے ملا ہوا ہو تو یہ کوششیں رائیگاں ہیں۔
آرمی ہیڈکوارٹر کے بیچ میں قتل کی کوشش بغیر اندر کے آدمی کا اسلامی جنگجوگروہ سے ملے ہوئے ممکن نہیں تھی اور پاکستان کی انٹیلیجینس برادری کو اس گروہ اور اس کے لیڈر کا نا پتہ ہونا ممکن نہیں۔ مشرف نے انٹیلجنس آگنائزیشن کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر مکمل کامیابی نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کو جو اسلامی خیال پرست ہیں ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا۔ لیکن پھر بھی کچھ اسلامی خیال پرست اب بھی کافی بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور وہ اسلامی جنگجو گروہ کی مدد کررہے ہیں۔ آخر کار یہ سامنے آگیا کے اکتوبر ٢٠٠١ میں امریکہ کے افغانستان پر حملہ کے فوری بعد مشرف کے قتل کا منصوبہ بنانے کے لیے بیس اسلامی جنگجو افراد اسلام آ باد کے ایک گھر میں جمع ہوئے جن میں بہت سے افغانستان اور کشمیر تھے۔ یہ بُلاوہ عمر سعید شیخ اور امجد حسین فاروقی کی طرف سے تھا۔ یہ وہی دو اسلامی جنگجو ہیں جنہوں نے انڈین ائر لائن کا طیارہ اغوا کیا تھا۔ قتل کا منصوبہ بنانے میں پاکستانی آرمی کی خصوصی اسپیشل فورس کے دو اشخاص بھی تھے۔
یہ یقین نہیں آتا کہ مشرف جو ملٹری انٹیلجنس میں جہادیوں اور اسلامی جنگجو گرو کا حمایتی تھا اب وہ ان کا نشانہ ہے۔ اکتوبر ١٩٩٩کی بغاوت کے دس دن بعد جنرل مشرف سے میری پہلی ملاقات اس کے سرکاری گھر میں ہوئی جو ایک سفید انگریزوں کے زمانے کی حویلی ہے ۔ یہ سرکاری گھر راولپنڈی کے لشکری شہر کے درمیان واقع ہے۔ مشرف کی شوخ مزاجی، صاف گوئی اور خوش اخلاقی جنرل ضیاالحق سے تضاد تھی۔ مشرف سے پہلے پاکستان کے انقلابی حالات کے دوران ١٩٧٧ سے ١٩٨٨ میں ضیاالحق نے آہنی شکنجہ سے حکومت کی تھی۔ برخلاف ضیا کے مشرف اچھے کپڑے پہنے کا شوقین اور موسیقی اور ناچ کا دلداد ہے۔ وہ پرانے زمانے کا غیرمذہبی آفیسر ہے۔ ایک دفعہ جب وہ عوام کے سامنے اپنے دو کتوں کے ساتھ آیا تو اس نے اسلامی انتہا پسندوں کے غصہ کو ہوا دی۔ اس کی نئی حکومت کے مسائل اور ان کے حل کے مطالق گفتگو کے دوران وہ ایک معتدل عملی آدمی نظر آیا۔ اسے کامل سپاہی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے مگر ایسا لگا کہ وہ اس مشکل قوم کی رہبری کو زیادہ پسند کرتا ہے۔
“ یہ ایک مشکل کام ہے ۔ لیکن آپ کو اپنے پر اعتماد ہو تو اس مشکل کام کو کرنے میں مزا آتا ہے“۔ وہ دعویٰ کرتا ہے۔
جب عوام نے اس انقلاب کا پرجوش استقبال کیا تو مشرف کا اعتماد اور بڑھ گیا لیکن انٹرنیشل کمیونٹی کا ردعمل اس تبدیلی پر نرم تھا۔ جنرل مشرف نے کہا کہ اسے مجبوراً تختہ الٹنا پڑا اور صاف طور پر کہا کہ سوال ہی نہیں اٹھتا کہ ملک واپس کی جمہوریت طرف نہ جائے۔
[line]
مشرف کا پس منظر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ گروپ بندی میں شامل نہیں ہوتا۔ مگر اس کے مستقبل میں ایک منجھا ہوا ساستداں بنا تھا۔ مشرف دہلی کی ایک میڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوا۔ اس کا ایک چھوٹا اور ایک بڑا بھائی ہے۔ ١٩٤٧ میں فیملی کراچی پاکستاں آگئی۔ جہاں اس کے والد فارن منسٹری میں کام کرنے لگے۔ اس کی والدہ پڑھی مسلم عورت تھیں اور کافی عرصہ تک انٹر نشنل لیبر آرگنائزیشن میں کام کرچکی تھیں۔ مشرف کو١٩٦٤ میں آرمی کمیشن ملا۔ نظم وضبط کے فقدان کی وجہ سے کچھ کی عرصہ بعد اس کو تقریباً نکالنے کی نوبت آئی تھی۔ ١٩٦٥ کی ہندوستان سے جنگ کی وجہ سے کاروائی روک دی گئ ۔ اس کے بعد جب وہ سیکنڈ لیفٹننٹ بنا تو اصولوں کی خلاف ورزی پر اس کا کورٹ مارشل ہوتے ہوتے بچا۔ ١٩٧١ میں اسے بہادری کا تمخہ ملا اس کارگردی کے باوجود بھر ایک نظم و ضبط کی کمی بنا پر لیفٹننٹ کرنل مشرف کی پوسٹ خطرے میں پڑ گئی۔
“ میرا آرمی چیف کے عہدے تک پہونچنا ایک عجوبہ ہے“۔ جنرل مشرف اقرار کرتا ہے۔
جب مشرف منگلا پر پلٹن کمانڈر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ نواب شریف نے اس کو آرمی چیف کے عہدے کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس عہدہ کا مستحق جنرل قلی خان تھا جس کی ملٹری تعلیم سینڈہرسٹ میں ہوئی تھی۔ جنرل قلی خان کا تعلق ایک طاقت ور پٹھانی سیاسی فیملی سے تھا - یہ وجہ دو میں سے ایک تھی کے نواب شریف، قلی خان کو آرمی چیف کا عہدہ دینے سے ہچکچایا۔ دوسری وجہ قلی خان کی جنرل وحید خان سے قربت۔ جنرل وحید خان نے نواب شریف کو ١٩٩٣ میں پرائم منسٹری چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مشرف اس کی بہ نسبت مہاجر اقلیت سے تعلق رکھتا تھا نواب شریف نے ایسا سوچا۔ اور یہ بات نواب شریف کے حق میں تھی۔ مشرف کو نواب شریف کو یقین دلانے میں کو زیادہ وقت نہیں لگا کہ وہ اس کی طرف ہے۔
آرمی کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے جنرل مشرف ایک خفیہ ملٹری آپریش میں شامل تھا جو پرائم منسٹر کی لاعملی سے ہورہا تھا اور جس کےگہرے اثرات تھے۔ جب مئی کےموسم سرما میں انڈین فوج برفانی کارگل کی چوٹیوں سے اپنے مقبوضہ علاقوں میں لوٹی ، پاکستان کی آرمی نے ان کی جگہ لے لی۔ اس نے نواز شرف کو حیران کردیا اور یہ حادثہ اس کا سر درد بن گیا۔ نہ صرف انڈیا سے جنگ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا بلکہ امریکن پریسیڈنٹ کے مجبور کرنے پر اسے انڈیا کو ذلت آمیز مراعات دینی پڑیں بلکہ اندرونی طور پر اس کی حکومت کمزور ہوگئی۔
اسلام آباد کی غیر فوجی اور راولپنڈی کی فوجی لیڈر شپ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے نوازشریف نے جنرل مشرف کو چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کی بھی ذمداری سونپ دی اور مشرف کو یقین دلایا کہ وہ اس کو نہیں نکالےگا۔اُس نے ایسا مشرف کو غیر مشکوک رکھنے کے لیے کیا۔ مشرف اس داؤ میں نہیں آیا اور اس نے ایک سینئر پلٹن کمانڈر کو صرف اس بات پر نکالدیا کہ وہ مشرف کی بغیر اجازت نواز شریف سے جاکر ملاتھا۔
١٩٩٩میں باوجود اس کے کشدگی جاری تھی مشرف نے سری لنکا کے آرمی چیف کی ایک پرانی دعوت قبول کرلی۔ ایک ماہ قبل آرمی کے لیڈر یہ منصوبہ بناچکے تھےکے اگر نواز شریف نے مشرف کو نکالنے کی کوشش کی تو وہ اس کے جواب میں کیا کریں گے۔ مشرف نے اپنےطرفدار بریگیڈیر صلاح الدین ساٹی کو ١١١ بریگیڈ کا زمدار بنادیا تھا۔ اس بریگیڈ کی ذمہ داری اسلام باد کی حفاظت کرنا تھا۔ ملٹری کا حکومت پر قبصہ کرنے کے ارادہ کی صورت میں اس بریگیڈ کی ذمہ داری اسلام آباد پرقبضہ کرنا تھا۔ ملٹری انٹیلجنس نواب شریف کی حرکات پر نظر رکھ رہی تھی۔جنرل عزیز، چیف آف اسٹاف نے مشرف کو یقین دلایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
واپسی کی فلائٹ پرجنرل مشرف اس بات پر نوٹس بنارہا تھا کہ آرمی ملک پر حکومت کرنے میں کیسے مفید ہوسکتی ہے۔ جیسے ہی مشرف کا طیارہ پاکستاں کی حدود میں داخل ہوا کراچی کے کنٹرول ٹاور نے طیارہ کے پائلٹ کو اطلاع دی کہ وہ پاکستان میں نہیں اترسکتا۔ ٦ بج کر پچاس پر بریگیڈیر تاج نے مشرف کو بتایا کہ پائلٹ اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔ طیارے کے پائلٹ کیپٹن سرور نے مشرف کو کراچی کنٹرول ٹاور کے پیغام سے آگاہ کیا۔
بعد میں اس واقعہ کو یاد کرتے ہوے مشرف نے ایک دفعہ کہا تھا۔“ شاید یہ میری ٣٥ سالہ فوجی ملازمت سب سے زبردست امتحان تھا“۔
دو بجے ہونگے کہ پرائم منسٹر نواب شریف پنجاب سے اسلام آباد کی طرف ہوائی جہاز میں سفر کررہا تھا۔ یہ وہی وقت ہے جب مشرف کولمبو، سری لنکا سے اپنے جہاز میں چڑھا۔ یہ کہا جاتاہے کہ پرائم منسٹر اپنی کسی سوچ میں گم تھا۔ ائیرپورٹ پر ڈیفینس منسٹر ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل علی خان اس کا انتظار کررہا تھا۔ پرائم منسٹر کی رہائش کی جانب سفر کرتے ہوئے نواز شریف نے اس سے کہا کہ میں نے مشرف کو نکال دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
حیرت ذدہ ڈیفینس منسٹر نے پوچھا کیا اس وقت تک انتظار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرف واپس آجائے۔ “
" نہیں میں نے جنرل ضیا کو نیا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے“۔ پرائمنسٹر نے جواب دیا۔
ایک سابقہ سینیر ملٹری آفسر کی حیثیت سے جنرل علی خان اس فیصلہ سے پیدا ہونے والےنتائج دیکھ سکتا تھا۔ لیکن شریف نے جواء کھیل لیا تھا۔ ایک سال ہی تو ہوا اس نے ایک دوسرے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو برخواست کیا تھا۔ اور اس کامیابی نے اس کا اعتماد بڑھا دیا تھا کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ مشرف کا طیارہ اترے وہ نئے آرمی چیف کو مشرف کی گدی پر بیٹھانا چاہتا تھا۔٥ بجے شام اس نے جنرل ضیا کے تقرری کے آرڈر دے دیئے اور یہ اہم فیصلہ آرمی کے اس پلان کو عمل میں لادیا جو مشرف نے اپنے بچاؤ کے لئےایک ماہ پہلے بنایا تھا۔
شریف نواز کے فیصلے کی خبر راولپنڈی کے پلٹن کمانڈر لفٹینینٹ جنرل محمود اور چیف آف اسٹاف لفٹینینٹ جنرل محمد عزیز کو اس وقت ملی جب کہ وہ دونوں ٹینس کھیل رہے تھے ۔ دونوں جنزل راولپندی کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی طرف دوڑے تاکہ وہ اپنی حمایتی فوجوں کو بغاوت کے خلاف حرکت میں لائیں۔ موقع حال صاف نہیں تھا کون کس طرف ہے ۔ پرائم منسٹر ہاوس میں پھنسا جنرل ضیا الدین نئے عہدے بانٹ رہا تھا۔ بلا تامل وہ کمانڈروں کو اپنی طرف لانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس نے نکالے ہوے جنرل عزیز اور جنرل محمود کی مدد بھی چاہی۔ لیکن دیر ہوچکی تھی۔ برگیڈئیر ساتی کا ١١١ برگیڈ پرائم منسٹر ہاوس کا احاطہ کرنے روانہ ہو چکا تھا۔ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے بند ہونے سے عوام میں افراتفری ہونی شروع ہوچکی تھی۔ ایک گھنٹہ کے اندر یہ پتہ چل گیا کہ نواز شریف ہار رہا تھا۔ لیکن وہ ابھی ہار کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے خیال میں اگر مشرف کا ملک سے باہر رکھا گیا تو زیادہ کمانڈر اس کی طرف آجائیں گے۔
کراچی ائر پورٹ پر ملٹری آفسیر کے درمیان افراتفری تھی کہ کون وہاں ہے جو چیف کی خوش آمدید کرے گا۔ کئی دفعہ اسٹاف کار سے جھنڈا اتارا اور لگایا گیا ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے لینڈینگ لائٹس کو آف کردیا اور رن وے پر فائر ٹرکوں سے روکاوٹیں پیدا کیں۔ شام کے سات بیس پر ملیر کی چھاونی سے آرمی نے آکر ایرپورٹ کا نظام چھین لیا۔ مشرف کے پی کے ٨٠٥ کو ہوا میں رکھنے کے لیے صرف آدھا گھنٹے کا پیٹرول باقی تھا۔ اور مشرف کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ نیچے کیا ہورہا ہے۔ اس کے جہاز کا رخ دو سو میل دور نواب شاہ کے چھوٹے ائرپورٹ کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس وقت کمانڈینگ آفیسرمیجر جنرل افتخار نے مشرف کو بتایا کہ آپ کراچی ایرپورٹ واپس آئیں۔ ہم نے ائر پورٹ کا نظام اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ مشرف جہاز سے اترتے وقت تک حالات کا علم نہیں تھا۔ اس نےفوراً مقامی کمانڈر عشمانی سے بات کرنی چاہی۔ رات تک ملٹری کی بغاوت کامیاب ہو چکی تھی۔
مارچ ٢٠٠٠ میں نواز شریف جیل میں تھا۔ لیکن فوراً ہی سعودی حکومت کے دباؤ پر مشرف نے اس کی سزا ملک بدر میں تبدیل کرکے اس کو جدہ روانہ کردیا۔ ١٠ دسمبر کو کالے رات کےاندھیرے میں سولوی صدی کے بنے ہوئے ملٹری قعلہ کی جیل سے سعودی سفارت خانے کی ایک کالی مرسیڈیز پرائم منسٹر کو لئے گی۔ آدھی رات کو ایک اعلان میں حکومت نے کہا کہ مشرف کی عمر قید کو ملک بدری میں تبدیل کیا گیا ہے اور اس کی آٹھ ملین کی ملکیت ضبط کرلی گی ہے۔ اور معاعدے کہ مطابق وہ اکیس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔
[line]
کچھ دنوں بعد ایک ملکی نشریات میں مشرف نے اپنے فیصلہ کی وجہ سیاسی نفرت کو ختم کرنا بتائی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے لوگوں کو خبردار کیا کہ ملک بدر فیملی ١٠ سال تک ملک واپس نہیں آسکتی۔
اگرچہ نواز شریف کی رہائی، سعودی شاہی فیملی کی کوشش تھی۔ مگر ان کو امریکہ کی طرف داری حاصل تھی۔ کلینٹن ایڈمینسٹریشن کو آسما بن لادن کی گرفتاری کی کوشش میں نواز شریف سے کافی مدد ملی تھی۔ اس بغاوت سے کچھ ہی مہینہ پہلے اس نے اس بھاگے ہوئے سعودی کو گرفتار کرنے اور جنگجو اسلامیوں پر سختی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکہ نے نواز شریف کی حکومت کو ٢٥ میلین ڈالر دے تھے تاکہ پاکستان انٹر سروس انٹیلیجینس ، آسما بن لادن کو گرفتار کرنے کے لیے ایک کمانڈو فورس تیار کرئے۔ انڈیا سے تعلقات بحال کرنے اور پاکستانی فوج کو کارگل سے واپس لانے پر نواز شریف کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے یہ تعجب کی بات نہیں تھی جب امریکہ نے نواز شریف کے لئے عام معافی کا مطالبہ کیا۔عجیب بات ہے کہ جس شحص نے امریکہ سے اس کا اس علاقی مطیع دوست چھین لیا ، وہی امریکہ کی فارن پالسی کے لئے اپنا پاور، اپنی زندگی لگادے گا۔
١٢ اکتوبر پاکستان کی تاریخ میں ایک داستاں ہے۔ کھبی تحکمانہ حکومت چنے ہوئے لیڈر کرتے ہیں اور کبھی تحکمانہ حکومت آرمی کےآفیسر ۔ پاکستان سول لیڈروں کی نا اہلیت سے بیزار تھے۔ انہوں نے مشرف کی حکومت کو احتیاط کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ جنرل مشرف کے لیے یہ صورت دوسرے پاکستاں آرمی کے جنرلوں سے مختلف تھی ۔ ایک ملک جس کے پاس اٹیمی بم تھا۔ اور نسلی اور فرقہ پرستی کا شکار تھا۔ سالا ہا سال کی مالی بے انتظامی ، بے ترتیبی اور بد چلنی کی بنا پر اس کا دیوالیہ نکل رہا تھا۔
اس دفعہ ملٹری کا سول حکومت سے قبضہ چھینا مختلف تھا۔ مشرف نے پریس اور سیاست کی آزادی کو برقرار رکھا ۔ایسا لگا جیسے وہ “ نیک نیت“ حکمران ہے۔ اس نے سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لئے مارشل لا یا دوسرے زورآور طریقے نہیں استعمال کئے۔ ترکی کے غیر مذہبی بانی مصطفٰی کمال اتاترک سے متاثر مشرف نے اپنے آپ کو ایک اصلاح کار کی طرح پیش کیا جو پاکستان کو آزاد خیال راستہ پر لائے گا۔ جنرل مشرف ملٹری حکمران کے بجائے ایک پہلے پاکستانی ملٹری حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرح لگا ۔ عوام نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا جب اس نے اپنی پہلی بڑی پالیسی کی تقریر میں سات نکات پیش کئے جن میں اسلامی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کو جڑ سے نکالنے بھی شامل تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں جنرل ضیا کی انتہا پسند میراثت کو ختم کرکے پاکستان کو ایک تعدل پسند اسلامی ملک میں تبدیل کردے گا۔ جب اس نے اپنی حکومت میں آزاد خیال ، مغرب میں تعلیم یافتہ لوگوں کا شامل کیا لوگوں کی امیدیں بڑھ گئیں۔ یہ آزادنہ خیالی ، اسلامی انتہا پسندوں سے پریشان بین الاقومی ملکوں کو اپنے ساتھ کرنے کے لیے ضروری تھی۔ لیکن مشرف کی پالیسیاں بعیدالعقل تھیں۔
مشرف کی پہلی بڑی پالیسی کی نامطابقت ، محقق علوم اسلامیہ سے لڑائی میں کھل گئی۔ اپریل ٢٠٠٠ میں جب مشرف نے جب مشہور “ کلمہ کفر “ کے قانون میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی اس نے اپنے آپ کو کٹر مسلمانوں کے گروپوں کے مقابل پایا۔ یہ قانوں ١٩٨١ میں جنرل ضیا نے ملک کو کٹر اسلامی ملک بنانے کے لیے نافذ کیا تھا۔ اس قانوں کے تخت کوئی بھی کیسی شخص کے خلاف الزام لگا کر کہ اس نے قران یا رسول کی بے حرمتی کی ہے اس کو گرفتار کرا سکتا ہے۔ یہ وہ قانون تھا جس میں سزائے موت تھی۔اور ملّا ، اسے اپنے دشمنوں ، خاص طور پر عسائیوں اور آزاد خیال لوگوں کے خلاف استعمال کرتے تھے۔
مشرف نے اس قانون کی کاروائ میں تبدیلی چاہی تھی۔ اس تبدیلی میں تجویز کیا گیا تھا کہ قانونی کاروائی مقامی ایڈمیشٹریشن کی تخقیق کے بعد کی جائے گی۔ صرف ایک طریقہ کار کی تبدیلی نے مذہی جمیعت کو بھڑکادیا۔ انہوں نے تجویز کو استعمال کرکے مشرف کی حکومت پر حملے شروع کردیے۔ پزاروں مُلّاوں کو مانے والوں نے کراچی اور دوسرے شہروں میں ہنگامے کیے اور ضیا کے نافذ کیے ہوئے اسلامی قانون کی حفاظت کے عہد کئے ۔ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کا مالی اور تجارتی شہر کراچی مذہی جمیعت کے قبضہ میں ہے۔ مئی ٢٠٠٠ میں کئی دنوں تک کراچی کا کاروبار ڈھپ ہوگیا۔
[line]
مشرف کے لیے یہ پہلا امتحان تھا جب اس نے ملک کو ضیا کی وراثت جدا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اس دباؤ پر تیزی سے اپنی تجویز واپس لے لی۔ اس طرح ہار مان لینے پر ماڈریٹ کا اس پر اعتیبار مجروع ہوا۔ اسلامی انتہا پسندی سے مقابلہ میں مشرف کا ایک قدم آگے اور ایک قدم پیچھے جانا ، مشرف کی خاصیت بن گیا۔ ملٹری حکومت کا اسطرح دفاعی طور پر پیچھے ہٹنے سے اسلامی انتہا پسندوں کو اور بھی ہمت بڑھی۔ اور اب انہوں نے ایک مکمل اسلامی نظام کے مطالبے شروع کردیے۔
[line]
سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ مشرف کی حکومت کے پہلے سال جہادی آرگینائزیشن کا حوصلہ بڑھ رہا تھا۔ ان کا اثر کلمہ کفر کی لڑائ کے بعد بڑھ گیا تھا۔ سیکڑوں مسلح جہادیوں نے اس احتجاج میں حصہ لیا - یہ لوگ پاکستان انٹیلیجینس سروس کی مدد سےعرصہ دراز سے کشمیر اور افغانستان میں لڑ رہے تھے۔ ان کی پہنچ پاکستان انٹیلیجینس سروس میں گہری تھی۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ ملٹری ان سے پنگا لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ملٹری حکومت اندرونی معملات میں تقسیم اور ان کی اسلامی انتہا پسندوں کی کشمیر میں مدد نے ایک بے یقینی اورا فراتفی کاماحول پیدا کردیا تھا۔
کلمہ کفر پر اختلاف نے ملٹری لیڈر میں بھی تقسیم کردی۔ وہ جنرل ، جنہں جہادیوں سے ہمدردی تھی انہوں نے کھلے عام ان اسلامی انتہا پسدنوں سے ہمدردی ظاہر کی۔ وہ اسلامی قانون میں کسی بھی تبدیلی کے خلاف تھے۔ بیس سال کی افغانستان کی جنگ اور کشمیر کی جدوجہد نے ایسے لوگ پیدا کیے تھے جو خود کو اسلام کا محافظ سمجھتے تھے۔ ملکی پالیسیوں میں تضاد اور ابتری سے یہ ثابت ہوا کہ ملک میں ایک سے زیادہ لوگ حکومت کررہے ہیں۔
اس بے یقینی سیاسی حالات نے انتہا پسند اور قدامت پسند وں کو بڑھنے کا موقع دیا۔ وہ جہادی گروپ اور فرقہ پسند جنہیں ملٹری کی حمایت حاصل تھی وہ دونوں مل گئے اور وہ پیراملٹری کے گروپ آٹومیٹیک اسلحہ کے ساتھ عوام میں آنے لگے۔ یہ لوگ مذہبی اسکولوں ۔۔۔ مدرسوں میں چھا گئے۔
وہ ملٹری آفیسر جہنوں نے مئی ١٩٩٩ میں کارگل پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس ملٹری بغات نے ان کو بڑ ھا دیا۔ اب مشرف نے جنگجوی انداز میں کشمیر کی پالسی کی پیروی شروع کردی۔ باوجود اس کے کہے ہوئے الفاظ کہ اس کی پالیسیاں غیر مذہبی ہیں اس نے افغانستاں کے مجاہدین کی مدد میں اضافہ کردیا۔ جب ایک انڈین ائیر لائن جو کھٹمنڈو، نیپال سے ننی دہلی جارہی تھی اغوا کر لی گئی۔ ١٩٩٩ کے آخر میں انڈیا اور پاکستان میں تناؤ اور بھی بڑھ گیا۔ اس میں سانحہ میں پاکستان انٹیلیجینس پر شبہ ہوا ۔ امریکہ ، پاکستان کو ایک دہشت پسند ملک کا درجہ تک دینے والا تھا۔
جنوری ٢٠٠٠ میں امریکہ کے سینئر آفیشیل سے ایک وفد نے ان جنگجو اسلامی گروہ کو قابو میں لانے کا مطالبہ کیا جو دہشت پھیلا رہے تھے۔ ان کا مطلب صاف تھا اگر پاکستاں حرکت المجاہدین کو غیر قانونی قرار نہیں دیا تو اس کو دہشت پسند ملکوں میں شامل کردیا جائے گا۔ امریکہ کو یقین تھا کہ حرکت المجاہدین ، انڈیا کے طیارے کو اغوا کرنے کی ذمدار ہے۔
[line]
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ امریکہ نے پاکستان سے اس کی اور افغانستاں کی سرحد کا ان انتہا پسند اسلامی کا اڈا بن جانے کے مطلق اور ان لوگوں کے مطلق اپنی تشویس ظاہر کی تھی جو کے دنیا بھر میں دہشت گری کررہے تھے ۔ طیارے کے اغوا اور کچھ انتہا پسند اسلامی جن کا تعلق افغانستان اور پاکستان سے تھا ان انتہا پسند اسلامی کے امریکہ ، اردن اور دوسرے ملکوں میں پکڑے جانے کے بعد اس دباؤ نے شدت اختیار کرلی۔ ٢٠٠٠ کے شروع میں کارل اندرفرتھ اس وقت کے یو ایس اسیسٹینٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستان کے لیڈروں کو کہا کہ امریکہ پاکستان انٹیلیجنس سروس اور حرکات المجاہدین کے تعلق سے خوش نہیں۔ اگرچہ یو ایس آفیشل نے روائٹ ایکٹ کا ذژکر نہیں کیا مگر ان کی تنبہہ صاف تھی۔ اگر پاکستان کی ملٹری حکومت اور جنگجو اسلامی گروہ کو قابو میں نہیں رکھےگی ۔ پاکستان کی ورلڈ بنک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ سے مدد ختم کردی جائے گی۔
مشرف نے یہ مانے سے انکار کردیا کہ کشمیر میں لڑنے والی تنظیمیں دہشت پسند ہیں اور امریکہ پاکستان انٹیلیجنس سروس کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت پسند اور آزادی کے خلاف جنگ کرنے والے ایک نہیں ہیں۔ امریکہ اور اسلام آباد کے درمیان رنجیشیں اور بھی بڑھ گئیں جب کارل اندرفرتھ نے ایک پریس کانفرینس میں یہ بات دہرائی ۔
مشرف نے اس مطالبہ کو بغیر ہاں یا نا کہے ٹال دیا۔ اس کی توجہ اس وقت ملک کے اندورنی معلامات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے پر تھی۔اور یہ صاف ظاہر ہوا جب اس نے چیف ایزیکٹیو کا خطاب چھوڑ کر پریسیڈنٹ کا عہدہ سنھبال لیا۔ اس نے اسلام آباد میں پریسیڈنٹ کے ماربل سے سجے عظیم محل میں یونیفارم کے بجائے کالی شروانی میں حلف اٹھایا۔ اس دربار ہال میں کیشدگی تھی ۔ اس دربار میں حاضر وزراء اور حکومت کے سینئر لوگوں کو یہ خبر ، اخباروں سے ملی تھی۔ برطانیہ اور امریکہ کے سفیر موجود نہیں تھے۔ یہ دوسرا انقلاب تھا جن مشرف نے خود کو صدر بنالیا تھا اور ایک چنے سربراہ رفق طرار کو نکال دیا۔ اور پارلیمنٹ جو دو سال سے شش و پنج میں تھی اس کوختم کردیا۔
[line]
پریسیڈنٹ کے حلف کی خبر پلٹن کمانڈروں اور کابینہ سے ایک دن پہلے تک چھپائی گئی۔ صرف تین جنرل، پاکستان انٹیلیجنس سروس کا چیف لیفٹینینٹ جنرل محمود احمد، چیف آف اسٹاف لیفٹینینٹ جنرل محمد یوسف اور چیف آف آرمی لیفٹینینٹ جنرل غلام احمد کو اس بات کا علم تھا۔ پاکستان کا وزیر خارجہ عبدل ستار اس وقت امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کوہن پاول کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔ میٹینگ ختم ہونے کے بعد اسے اس تبدیلی کا پتہ چلا۔
امریکہ اور دوسرے مالک نے مشرف کے اس قدم کی مذمت کی۔ ان کی نظروں پاکستان ، جمہوریت سے ایک اور قدم دور ہوگیا۔ یہ اس وقت ہوا جب کہ پ پریسیڈنٹ بُش امریکہ اور پاکستان کے رشتہ استوار کرنے کے اشارے کررہا تھا۔ اور وہ اقدام جو پاکستان کے اٹیمی تجربہ کے بعد عائد کے گئے تھے ان کو ختم کرنے کی سوچ رہا تھا۔ ایک سینر آفیشل کے کہنے کے مظابق “ کام اب رک جائے گا“ برطانیہ جس نے ملٹری بغاوت کے بعد پاکستان کو کامن ویلتھ سے نکال دیا تھا اس نے بھی پاکستان سخت لفظوں میں مذمت کی۔
لیکن گیارہ ستمبر کے واقعات نے مشرف کو ایک موقع دیا کہ وہ دنیا سے علحیدگی کو ختم کرسکے۔ “ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو“ بُش کی اس سوچ نے مشرف کو اور کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا۔ اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس قدم نے پاکستان کو پھر سے بیچ میدان میں لا کر کھڑا کردیا جسکا کے پہلے روس کے افغانستان پر حملہ کرنے کے وقت ہوا تھا۔ جس مشرف کو پہلے ایک ملٹری حکمراں کہا جاتا تھا ۔ اب وہ مغرب کا دوست تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلائے گا۔
پالسی بنانا ایک بات ہے اور اس پر عمل کرنا دوسری بات۔ مشرف کے خلاف نہ صرف بیرونی قوتیں تھیں بلکہ وہ لوگ بھی جن نے دوست ملٹری میں تھے۔ مشرف کو پتہ چلا کہ دسمبر ٢٠٠٣ کو پتہ چلا کہ یہ راستہ بہت ہی تنگ اور دشوار ہے۔