فرہاد احمد فگار
محفلین
انٹرویو.. ... فرہاد احمد فگار
انٹرویو و ملاقات - عیشا صائمہ... نمائندہ ہفت روزہ لاہور انٹرنیشنل...
ایک ایسا خطہ جو اپنی مثال آپ ہے اور جسے کرہ ارض پر جنت نظیر کہا جاتا ہے یہ خطہ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے یہاں کے لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہیں اور سخت موسمی حالات میں بھی کام کرتے ہیں ۔خود مختار زندگی گزارتے
ہیں، یہ خوب صورت وادی اپنا منفرد ثقافتی ورثہ رکھتی ہے اور یہاں کے لوگ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے فن پہ بھی مہارت رکھتے ہیں-
اور اگر ادب کی بات کی جائے تو یہاں بہت سے نام ور شعرانے جنم لیا جن میں سیدہ آمنہؔ بہار، پروفیسر اعجازنعمانی ، فرزانہ فرح ؔ، ایم یامین، احمد عطاءؔ اللہ، سید شہبازؔ گردیزی ، لطیف آفاقی، ایازؔ عباسی ، کاشفؔ رفیق شامل ہیں۔ یہ تمام شعرا آزاد کشمیر میں ادبی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور فروغ شعروادب کے لیے کوشاں ہیں۔
ان شعرا نے ادبی تنظیموں اور محافل کے ذریعے آزاد کشمیر میں شعروادب کو فروغ دیا۔
دور حاضر میں ایک ایسی ہی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر فرہاد احمد فگار صاحب کی ہے۔
ان سے غیر رسمی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں جو ہمارے قارئین کی نذر ہے امید ہے کہ ان سے کی گئی گفتگو آپ کو بھی پسند آئے گی -
سوال - آپ کا نام فرہاد کس نے رکھا اور فگار کا مطلب کیا ہے؟
جواب - میرا نام فرہاد علاقے کے ایک معزز بزرگ مسکین بابا نے رکھا۔
میرے بڑے بھائی کا شہزاد احمد اعوان نام ہے انھی کا قافیہ لگا کر فرہاد احمد رکھا گیا۔"فگار" کا مطلب تو زخمی یا مجروح ہے تاہم میرے مرحوم دوست سید فگار حسین شاہ گردیزی کے نام کی وجہ سے یہ تخلص سن ٢٠٠٠ءمیں اپنے نام کا حصہ بنایا۔
سوال - آپ کی تعلیم کیا ہے؟
جواب - میری تعلیم کی داستان بھی خاصی دل چسپ ہے۔ میں نے میٹرک سائنس مضامین کے ساتھ مکمل کیا ۔ اس کےبعد گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور کا رخ کیا ۔اس کالج میں سول کے شعبے میں داخلہ لیا لیکن دوسرے سال تنگ ہو کر کالج چھوڑ دیا۔ واپس مظفرآباد آنے کے بعد ایک نجی کالج میں آئی سی ایس میں داخلہ لیا لیکن یہاں بھی امتحان کے وقت اکتا گیا اور چھوڑ دیا۔ میرے ایک محسن "نذیر حسین صاحب" نے شفقت فرمائی اور مجھے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے آئی کام کا امتحان دلوایا۔اس امتحان کی تیاری اور کتب کی دستیابی سب نذیر بھائی نے اپنے ذمے لی۔ یوں آئی کام پاس کر لیا۔ ایک مرتبہ پھر سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا۔ میں نے زلزلہ ٢٠٠٥ء کے بعد کاروبار شروع کیا اور فرینڈز فوٹو اسٹیٹ کے نام سے دکان بنا لی۔ یہاں میری ملاقات ایک محسن" شوکت اقبال صاحب" سے ہوئی ۔ شوکت صاحب شاہین کالج کے سربراہ تھے ۔ انھوں نے مجھے تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور یوں بی ایس سی میں داخلہ ہو گیا ۔ یہ تعلیم بھی جلد ہی چھوڑ دی۔ ما بعد کئی نشیب وفراز کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بیچلر کا امتحان پاس کیا۔ شوکت صاحب کے علاوہ میرے پھوپھو ذاد تسکین محبوب اور سالک محبوب نے بہت ہمت بڑھائی۔ بی اے کے بعد کچھ عرصہ صحافت کی اور پھر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ایم اے کرنے کے بعد اسی ادارے سے ڈاکٹر نعیم مظہر کی زیر نگرانی مقالہ بہ عنوان"آزاد کشمیر کے منتخب غزل گو شعرا کا تحقیقی و تقابلی جائزہ" لکھ کر ایم فل کی ڈگری کا حق دار ٹھہرا۔ بعد ازاں اسی ادارے میں پی ایچ ڈی اردو میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر شفیق انجم صاحب کی نگرانی میں " اردو املا اور تلفظ کے بنیادی مباحث" کے موضوع پر تحقیقی مقالہ زیر تکمیل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پیشہ ورانہ ڈپلومے جیسا کہ صحافت، لائبریرین،کمپیوٹر وغیرہ بھی حاصل کر رکھے ہیں۔
سوال - آپ کا تعلق جنت نظیر خطے سے ہے بچپن آپ کا کتنا خوب صورت تھا؟
جواب - میرا تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے نہایت اہم اور حساس علاقے چھتر سے ہے۔ حساس اس لیے کہ تمام اہم دفاتر جیسا کہ وزیراعظم ، وزرا ، سیکرٹریز، چیف سیکرٹری ، آئی جی، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ، اسٹیٹ بنک وغیرہ اسی علاقے میں ہیں۔ جہاں تک بچپن کی بات ہے تو بچپن بہت ہی خوب صورت تھا۔ دادا ابو اور دادی امی کی محبتوں میں ملفوف، ثقافت سے جڑے ہوئے، کچا گھر تھا، چولھا جلتا تھا، دادی مرحومہ کہانیاں سناتی تھیں، گلی ڈنڈا، بنٹے، غلیل سمیت کئی ثقافتی کھیل کھیلتے تھے۔ سائیں سخی سہیلی سرکار کا سالانہ میلہ لگتا جس سے ہم بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوتے۔ کبوتر، بٹیر، توتے، مرغیاں وغیرہ پالنے کا شوق تھا ۔ دادی اور دادا ابو ہر ہر خواہش کا احترام کرتے المختصر بچپن کا وہ زمانہ بہت قیمتی اور نایاب تھا۔
سوال - پڑھنے کا شوق کس حد تک تھا یا کسی شخصیت سے متاثر تھے؟
جواب - مطالعہ گویا میری گھٹی میں پڑا تھا۔ بچپن میں دادا جان "جنگ نامہ زیتون" پنجابی کی ایک منظوم داستان بہت شوق سے پڑھتے وہاں سے مجھے بھی شوق ہوا۔دادا ابو میرے لیے ابتدا میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے کتاب چے لاتے ۔ چار آنے، آٹھ آنے، ایک اور دو روپے کے وہ کتاب چے عمرو عیار،ٹارزن اور اخلاقی کہانیوں پر مشتمل ہوتے۔ گویا یہاں سے آغاز ہوا ۔ بعد کو ڈائجسٹ اور ناول سے ہوتا ہوا شاعری اور افسانے تک پہنچا۔ لکھنے والوں میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کے افسانے بہت متأثر کن ہیں۔
سوال - طبعیت میں شرارتی پن تھا یا شرمیلے تھے؟
جواب - ابتدا میں شرارتی تھا، شرمیلا کسی حد تک تھا۔ اب بھی شرارتی ہوں۔ ہنسی مذاح پسند کرتا ہوں ۔
سوال - ادب کی طرف کیسے آنا ہوا؟
جواب - ادب کی طرف آنے کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ بچپن میں مطالعے کا شوق تھا۔ ٢٠٠٠ءمیں میرا داخلہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور میں ہوا تو ہوسٹل کے ماحول میں کچھ لکھنے کی طرف راغب ہوا۔ مابعد اسی کے اثر میں تک بندی شروع کی اور قافیہ ردیف جوڑنے لگ گیا۔ باضابطہ طور پر کالم نگاری سے آغاز کیا ۔ اس کے بعد تحقیق اور ہلکی پھلکی شاعری بھی کرنے لگا۔ افسانے اور کہانیوں پر بھی طبع آزمائی کی اور مختصراً سفر نامے بھی لکھے۔
سوال - آپ نے ادب کی کس صنف پہ پہلے کام کیا؟
جواب - جیسا کہ اوپر بتا چکا تک بندی سے آغاز کیا مابعد کالم نگاری سے باضابطہ لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔
سوال - آپ کا تحقیقی کام زیادہ ہے شاعری کی نسبت اس میں دلچسپی زیادہ ہے کیا؟
جواب - جی میں خود کو شاعر نہیں سمجھتا ۔ گاہے گاہے کچھ لکھ لیتا ہوں۔ تحقیق سے دل چسپی زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ نمل کا ماحول اور حسن ظہیر راجا اور ظہیر عمر جیسے دوستوں کی صحبت ہے۔دوسرا ایماے کی سطح سے پی ایچ ڈی تک مقالات اور مشقیں لکھنا تحقیقی کام سے قریب لائے۔
اشعار اور املا پر تحقیق میری شناخت بن گئی۔
سوال - کسی کی شخصیت میں کون سی چیز آپ کو زیادہ متاثر کرتی ہے؟
جواب - کسی بھی شخص کا اخلاق میرے لیے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کا اخلاق عمدہ ہے تو باقی چیزیں ثانوی ہیں۔ نماز پانچ وقت کی فرض ہے جب کہ اخلاق چوبیس گھنٹے فرض ہے۔ میں جن لوگوں سے متاثر ہوا انکو نہایت بااخلاق پایا۔
سوال - آپ تدریس سے بھی وابستہ ہیں
یہ بتائیں آج کل کے بچوں یا نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان کا کس حد تک ہے؟
جواب - جی بالکل میں ٢٠١٤ء سے مختلف اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتا رہا۔SKANSکالج ایف ایٹ اسلام آباد سے تدریس کا اغاز کیا۔ پنڈی اور اسلام آباد کے کئی اداروں میں پڑھانے کے علاوہ مظفرآباد کے معروف اداروں میں پڑھاتا رہا۔آزاد کشمیر یونی ورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں پڑھایا۔ افسوس کے ساتھ ہمارے طلبہ میں مطالعے کا رجحان نہ ہونے کے برابرہے۔ ایم اے کی سطح پر بھی طلبہ گائیڈذ اور نقل کے سہارے پر رہتے ہیں۔وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انھیں سب بنا بنایا تیار مل جائے اور ان کے نمبر بھی اچھے ہوں۔میں سمجھتا ہوں اس میں ایک بڑا قصور وار ہم اساتذہ بھی ہیں جو طلبہ کو مطالعے کی عادت نہیں ڈالتے اور بے جا نمبر دے کر ان کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ طلبہ تحریر اور تقریر میں بھی صفر ہو جاتے ہیں اور زندگی میں بھی پشیمان ہی رہتے ہیں۔
سوال - کیا آپ سمجھتے ہیں آجکل والدین تربیت کی زمہ داری احسن طریقے سے پوری کر رہے ہیں؟
جواب - آج کے والدین بالکل اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے۔ وہ اپنی ذمے داری بھی استاد پر ڈال دیتے ہیں۔ہمارے پاس کئی والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا کہا نہیں مانتا، بائک چلاتا ہے، آوارہ گردی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ذمے داری والدین کی ہے کہ وہ بچے کو سنبھالیں۔اب وہ زمانہ ہے بھی نہیں کہ استاد سختی کرے گا یا سزا دے کر اور ڈنڈے کے زور پر بچے کو قابو کرے گا۔ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔اب استاد سزا دیتا ہے تو خود مجرم بنجاتا ہے ۔یہی وجہ ہوئی کہ استاد کی عزت اور احترامبھی جاتا رہا۔بہرحال والدین کی جو ذمے داریاں ہیں اگر وہ بہ طریق احسن پوری کریں تو بچے بھی بااخلاق اور باکردار ہوں۔
سوال - نوجوانوں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
جواب - نوجوان شاعر حسن ظہیر راجا نے کتاب آشوب کا نوحہ یوں لکھا کہ:
"قصے کہانیوں کی وہ دنیا تو خوب تھی
پھر یوں کہ میں کتاب سے آگے نکل گیا"
نوجوانوں میں کتب بینی کا شوق نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب مجموعی طور پر کتاب پڑھنے کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔کتاب ایک سستی تفریح تھی مگر اب کئی دیگر ذرائع سے کتاب سے دوری ہو چلی ہے۔ طلبہ کے اندر کتاب کی افادیت اور اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو ابتدا سے ہی اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کو دی جائیں۔ تعلیمی اداروں کے رسائل اور جرائد کا اجرا مستقل بنیادوں پر ہو جس میں طلبہ کی تحریریں خاطر خواہ شامل ہوں۔ مختلف سیمینارکے ذریعے مطالعے کی افادیت کو اجاگر کیا جائے اور کتاب کی محبت پڑھنے والوں کے دلوں میں ڈالی جائے۔
سوال - آپ کی اب تک کتنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں؟
جواب - میری شائع ہونے والی کتب تین ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب " آزاد کشمیر میں اردو شاعری" ڈاکٹر افتخار مغل کی تصنیف ہے جسے میں نے شائع کیا۔ اس کی ترتیب و اہتمام میں نے کیا ۔ باقی دو میری کتابیں"احمد عطا اللہ کی غزل گوئی" دراصل میری ایم اے اردو کی سطح پر لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہے جسے کتابی صورت میں شائع کیا اور دو ایڈیشن منظر عام پر آئے۔ اسی طرح ادبی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب"بزمِ فگار" بھی شائع ہو چکی ہے۔ کچھ کتب تیار ہیں لیکن تاحال تشنۂ اشاعت ہیں۔
سوال - کتنے ایوارڈز یا اعزازات اپنے نام کروا چکے ہیں؟
جواب - ایوارڈذ کی یا اعزازات کی جہاں تک بات ہے تو میں بلا مبالغہ یہ کہ رہا ہوں کہ اللہ نے میری اوقات سے بڑھ کر مجھے نوازا ہے۔الحمدللہ میری لیے بہت بڑا اعزاز ہے نمل میں پڑھنا،ڈاکٹر عابد سیال صاحب ، ڈاکٹر شفیق انجم صاحب، ڈاکٹر نعیم مظہر صاحب، ڈاکٹر فوزیہ اسلم صاحبہ، ڈاکٹر روبینہ شہناز صاحبہ، ڈاکٹر صائمہ نذیر صاحبہ، ڈاکٹر ظفر احمد صاحب ، ڈاکٹر عنبرین شاکر جان تبسم صاحبہ اور کئی قابل اساتذہ کا شاگرد ہونا۔ افتخار عارف صاحب، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب، امجد اسلام امجد صاحب، انور مسعود صاحب، ظفر اقبال صاحب جیسی قد آور شخصیات سے فیض یاب ہونا۔ظفر اقبال صاحب کا اپنے کالم " دال دلیہ" میں بارہا میرا ذکر کرنا میرے لیے اعزاز ہی ہے۔ میرے تحقیقی مضامین پر سپئریر کالج پشاور(ملحق جامعہ پشاور) سے عدنان خاننے تحقیقی مقالہ لکھا یہ بھی میرے لیے اعزاز ہے۔ میری شخصیت اور کام پر آصف ثاقب صاحب، ڈاکٹر مزمل حسین صاحب، شہباز گردیزی صاحب ، ڈاکٹر آمنہ بہار صاحبہ، ڈاکٹر رحمت عزیز خانچترالی، آصف اسحاق، مقبول ذکی مقبول صاحب سمیت بیسیوں لکھنے والوں نے مضامین لکھے۔ رہی بات ایوارڈز کی تو کئی اداروں اور ادبی تنظیموں کی طرف سے ملنے والی اسناد ، ایوارڈذ کی ایک فہرست ہے تاہم میں نے کبھی ریکارڈ رکھا نہیں۔ بزم غالب ایوارڈ، علامہ اقبال ایوارڈ، مولانا ظفر علی خاں ایوارڈ، بھیل ادبی ایوارڈ، الوکیل ایوارڈ، طالب نظر حسن کارکردگی ایوارڈ، بزم مصنفین ہزارہ کا اعتراف فن ایوارڈ، زم زم ویلفیئر ایوارڈ، مصور فاؤنڈیشن گوجرہ ایوارڈ، اثریہ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سمیت کئی ایک ایوارڈذ ملے۔
سوال - تنقید یا حوصلہ افزائی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب - تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ہمارے اداروں میں اس چیز کا فقدان ہے۔ بے شمار نجی تنظیمیں حوصلہ افزائی کے حوالے سے احسن کام۔ سر انجام دی رہی ہیں سو سالانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے خرچ کر کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ کئی ادبی انجمنیں وہ کام کر رہی ہیں جو حکومت کے کرنے والے ہیں۔ تنقید کرنا بھی اچھا ہے۔ دراصل ہم اس لفظی کے معانی ہی غلط لیتے ہیں۔ تنقید کا مطلب خامیاں تلاش کرنا ہر گز نہیں بل کہ سراہنا بھی ہے۔ کسی چیز کی خامیاں بتانا اور ان کی نشان دہی کرنا دراصل اس۔ فن پارے کے قد میں اضافہ کرنا ہے۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کا شکر گزار رہا جنھوں نے میری اصلاح کی۔ میرے دوست حسن ظہیر راجا نے ایک لفظ'تعلُق" کے تلفظ کی اصلاح کرنے میں باقاعدہ مجھے تھپڑ مارا اور یہی ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ میری حوصلہ افزائی کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ میں سمجھتا ہوں تنقید کرنا اور حوصلہ افزائی کرنا آپ کو مہمیز کرتا ہے بہتر سے بہتر کام کرنے کے لیے۔
سوال - تدریسی امور مشکل ہیں یا تخلیقی کام یعنی لکھنا؟
جواب - تدریس نہایت سعادت کا کام ہے۔ یہ اللہ پاک کا کرم ہوا کہ مجھے استاد بنایا۔دیکھا جائے تو کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا ۔ تاہم میرے نزدیک تخلیقی کام زیادہ مشکل ہے۔ پڑھانا تو فرائض میں شامل ہے اور اس میں غفلت ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن لکھنا ایک اضافی کام ہے میں اس میں بہت سست اور غافل واقع ہوا ہوں۔ تدریس کی نسبت تخلیق کو مشکل سمجھتا ہوں۔
سوال - کون سی اچھی عادات ہیں جو آپ اپنے بچوں میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں؟
جواب - ہمارے لیے بہترین نمونہ ہمارے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہے۔ میں طلبہ سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میری تقلید نہ کریں، اپنے کسی اور استاد یا رشتے دار کی نہ کریں پیروی کریں تو اس عزتوں اور رفعتوں والے نبی کی کریں جس کی سیرت کو اپنانا ضروری بھی ہے۔ باقی میں طلبہ کو تیمم یعنی دائیں ہاتھ کے استعمال کا ہمیشہ کہتا ہوں۔ اخلاقیات اور ہم دردی کی تلقین کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ صرف نماز کو دین سمجھ بیٹھے ہیں باقی دنیا جہاں کی خرابی ہو لیکن نماز پڑھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور حکم ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہو جاؤ۔ حقوق العباد کو ہم کچھ سمجھتے نہیں، اخلاقیات پر کوئی بات کرتا نہیں۔ میں ہمیشہ بچوں کو یہی کہتا ہوں کہ اخلاقیات اور انسانیت کو اپنائیں۔
سوال - کشمیر کے حوالے سے بھی آپ نے کچھ لکھا؟
جواب - اپنے مرزبوم سے محبت کرنا فطرت میں شامل ہے۔ کشمیر میرا دیس ہے ۔ اسی نے شناخت بخشی لیکن میں اس دھرتی کا وہ نالائق بیٹا ہوں جو اس سے محبت تو کرتا ہے مگر اس کی محبت میں عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہا۔ میں نے کشمیر کے حوالے سے بہت کم لکھا ہے چند مضامین اور بس۔۔۔
سوال -زندگی کے سفر میں کبھی کسی سے جان بوجھ کربھی ہارے ہیں؟
جواب - زندگی میں ہارنا بھی چاہیے ہر کوئی جیت جائے یہ ضروری بھی نہیں ہوتا۔ کسی سے ہارا تو نہیں لیکن پبلک سروس کمشن کے امتحان میں میرا ایک شاگرد رانا خالد توفیق صدیقی میرے مقابلے پر آ گیا تو میری خواہش ہوئی کہ میں اس کے مقابلے میں فیل ہو جاؤں۔ اس وجہ سے اس شاگرد کا اخلاص اور مجھ سے محبت کے علاوہ اس کی محنت اور قابلیت بھی تھی۔ میری کام یابی ہر اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کھلے دل سے مبارک باد پیش کی۔ باقی کچھ ایسا غیر ارادی طور پر کبھی ہوا بھی تو یاد نہیں مجھے۔
سوال - پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں سے کس کو طاقتور سمجھتے ہیں؟
جواب - پرنٹ میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے کئی اعلی لکھنے والوں کو جنم دیا ۔ آج بھی اس کا وجود باقی تو ہے مگر بہت کم زور ۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں بھرپور اور آسان ذریعہ ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے باآسانی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔ اخبار چھپنا کم ہو چکا ہے۔ کتاب بینی کی طرف لوگ بہت کم جاتے ہیں۔ ان حالات میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اخبارات کے مقابلے میں سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی بھی جگہ اپنے جذبات و خیالات کو اس کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر، انسٹا گرام ، یو ٹیوب تک عام آدمی کی باآسانی رسائی ہے۔ اخبارات میں لکھنا ان کو بھیجنا اور پھر انتظار کرنے کے جھنجٹ میں اب کوئی نہیں پڑتا ۔
سوال - کیا آپ کو لگتا ہے سوشل میڈیا کا کردار مثبت سے زیادہ منفی ہے؟
جواب - سوشل میڈیا کے کردار کی جہاں تک بات ہے تو یہاں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ کئی اچھے اور با کردار لوگوں کے ساتھ ساتھ بیشتر بد کردار اور جاہل بھی موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سبھی غلط ہیں۔ میرے خاندان کے ایک بزرگ جو ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے سے سبک دوش ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ساری زندگی میں اتنا نہیں سیکھا جتنا چار پانچ سال میں سوشل میڈیا سے سیکھا۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے استعمال سے منفی کے ساتھ ساتھ مثبت چیزیں بھی ملتی ہیں۔ میں نے فیس بک کو اصلاح کا ایک ذریعہ بنایا اور کئی مضامین اس کے سپرد کیے جس نے اکثر احباب کو فائدہ حاصل ہوا۔
سوال - ایک میگزین کے مدیر بھی ہیں یہ میگزین نکالنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب - جی میں ایک نہیں دو رسائل کا مدیر اعلا ہوں۔ایک رسالہ میرے ادارے گورنمٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ سے جاری ہونے والا "بساط" ہے۔جب کہ دوسرا ایک نجی تعلیمی ادارے گرین ایرا ہائی اسکول چھتر مظفرآباد سے جاری ہونے والا"کاوش" ہے۔ جب میری تعیناتی گورنمنٹ کالج میرپورہ میں ہوئی تواس سے پہلے میں کچھ نجی اداروں میں پڑھاتا رہا۔ان اداروں کے سربراہان سے میگزین کی بابت بات ہوتی رہتی لیکن کسی نے بھی ہمت نہ کی۔ صحافت کا ڈپلومہ بھی کر رکھا تھا اور عملی صحافت بھی کچھ عرصے تک کی تو ذہن میں تھا کہ کوئی میگزین نکلے جو طلبہ کے لیے مواقع فراہم کرے ۔ میرپورہ کالج میں آ کر یہاں ایک مخلص دوست ملک مبشر احمد سے ملاقات ہوئی جو ہیں تو کمپیوٹر کے لیکچرار مگر رسالے کی تیاری میں میرا مکمل ساتھ دیا۔ ہمارے سربراہ پروفیسر محمد رفیق شیخ صاحب نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اخراجات کے حوالے سے بھی پورا پورا تعاون کیا۔ یوں ٢٠٢٠ء میں بساط پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ تاحال اس کے تین شمارے چھپ چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم سے شائع ہونے والا یہ پہلا اور تاحال آخری میگزین ہے۔
"کاوش" مظفرآباد کے نجی اسکولز کا پہلا رسالہ ہے۔ جس کے مدیر اعلا کے طور پر میرا نام درج ہے۔
سوال - کشمیر کے لوگوں کی خاصیت جو آپ سمجھتے ہیں کسی اور علاقے کے لوگوں میں نہیں ہے اور وہ خاصیت آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟
جواب - کشمیر کے لوگوں کی خاص بات مہمان نوازی ہے۔ پنڈت چکبست نارائن کے مطابق:
ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہمان نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیاپانی مجھے
مہمان نوازی کئی علاقوں کی مشہور ہے لیکن کشمیر کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مہمانوں کی کتنی تکریم کرتے ہیں۔
سوال.. اپنی پسند کی غزل اگر ہمارے قارئین کی نذر کرنا چاہیں؟
جواب - غزل تو نہیں چند اشعار پیش کر دیتا ہوں۔
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفیٰ کے گھرانے کا ہے
مشکلیں آرہی ہیں تیر بہ دست
دوست شانہ بہ شانہ ہو جائیں
پیٹھ پیچھے سے وار ہوتے رہے
اب ذرا سامنا بھی ہو جائے
اداسیوں سے اٹے ہوں گے سب درودیوار
جو آنگنوں میں ہمارے نہ بیٹیاں بولیں
ایک مفلس کا جھونپڑا جس سے
آرہی ہے صدا سکوں کی مجھے
کس سہولت سے جان لی میری
اس نے ہر بات مان لی میری
جہان بھر کی خوشی ساتھ ساتھ چل رہی تھی
ہمارے بیچ محبت کی بات چل رہی تھی
کلیوں کے رخ پہ دیکھنا کیسا نکھار ہے
تو ان کو گر نظر نہ آئے تو کیا بنے
یزید تیرا ہر عمل شدید شرم ناک ہے
حسین تاب ناک تھا، حسین تاب ناک ہے
سوال - کوئی اہم پیغام جو دینا چاہیں ؟
جواب - پیغام یہی ہے کہ اپنے آپ کو پہچانیں۔ کوئی کام بھی ایسا نہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو بس ذرا ہمت اور حوصلہ چاہیے۔تکبر اور خود نمائی سے خود کو دور رکھیں۔پھل دار درخت ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے جب کہ بانجھ درخت اکڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور مسلسل محنت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ستاروں پہ کمندیں نہ ڈالیں۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہم نے فرہاد احمد فگار سے اجازت چاہی اس دعا کے ساتھ کہ وہ اپنے خوب صورت خطے کے لیے یوں ہی کام کرتے رہیں گے اور اس کی خوب صورت ثقافت اور ثقافتی قدروں
کو لوگوں تک پہنچائیں گے -
انٹرویو و ملاقات - عیشا صائمہ... نمائندہ ہفت روزہ لاہور انٹرنیشنل...
ایک ایسا خطہ جو اپنی مثال آپ ہے اور جسے کرہ ارض پر جنت نظیر کہا جاتا ہے یہ خطہ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے یہاں کے لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہیں اور سخت موسمی حالات میں بھی کام کرتے ہیں ۔خود مختار زندگی گزارتے
ہیں، یہ خوب صورت وادی اپنا منفرد ثقافتی ورثہ رکھتی ہے اور یہاں کے لوگ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے فن پہ بھی مہارت رکھتے ہیں-
اور اگر ادب کی بات کی جائے تو یہاں بہت سے نام ور شعرانے جنم لیا جن میں سیدہ آمنہؔ بہار، پروفیسر اعجازنعمانی ، فرزانہ فرح ؔ، ایم یامین، احمد عطاءؔ اللہ، سید شہبازؔ گردیزی ، لطیف آفاقی، ایازؔ عباسی ، کاشفؔ رفیق شامل ہیں۔ یہ تمام شعرا آزاد کشمیر میں ادبی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور فروغ شعروادب کے لیے کوشاں ہیں۔
ان شعرا نے ادبی تنظیموں اور محافل کے ذریعے آزاد کشمیر میں شعروادب کو فروغ دیا۔
دور حاضر میں ایک ایسی ہی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر فرہاد احمد فگار صاحب کی ہے۔
ان سے غیر رسمی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں جو ہمارے قارئین کی نذر ہے امید ہے کہ ان سے کی گئی گفتگو آپ کو بھی پسند آئے گی -
سوال - آپ کا نام فرہاد کس نے رکھا اور فگار کا مطلب کیا ہے؟
جواب - میرا نام فرہاد علاقے کے ایک معزز بزرگ مسکین بابا نے رکھا۔
میرے بڑے بھائی کا شہزاد احمد اعوان نام ہے انھی کا قافیہ لگا کر فرہاد احمد رکھا گیا۔"فگار" کا مطلب تو زخمی یا مجروح ہے تاہم میرے مرحوم دوست سید فگار حسین شاہ گردیزی کے نام کی وجہ سے یہ تخلص سن ٢٠٠٠ءمیں اپنے نام کا حصہ بنایا۔
سوال - آپ کی تعلیم کیا ہے؟
جواب - میری تعلیم کی داستان بھی خاصی دل چسپ ہے۔ میں نے میٹرک سائنس مضامین کے ساتھ مکمل کیا ۔ اس کےبعد گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور کا رخ کیا ۔اس کالج میں سول کے شعبے میں داخلہ لیا لیکن دوسرے سال تنگ ہو کر کالج چھوڑ دیا۔ واپس مظفرآباد آنے کے بعد ایک نجی کالج میں آئی سی ایس میں داخلہ لیا لیکن یہاں بھی امتحان کے وقت اکتا گیا اور چھوڑ دیا۔ میرے ایک محسن "نذیر حسین صاحب" نے شفقت فرمائی اور مجھے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے آئی کام کا امتحان دلوایا۔اس امتحان کی تیاری اور کتب کی دستیابی سب نذیر بھائی نے اپنے ذمے لی۔ یوں آئی کام پاس کر لیا۔ ایک مرتبہ پھر سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا۔ میں نے زلزلہ ٢٠٠٥ء کے بعد کاروبار شروع کیا اور فرینڈز فوٹو اسٹیٹ کے نام سے دکان بنا لی۔ یہاں میری ملاقات ایک محسن" شوکت اقبال صاحب" سے ہوئی ۔ شوکت صاحب شاہین کالج کے سربراہ تھے ۔ انھوں نے مجھے تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور یوں بی ایس سی میں داخلہ ہو گیا ۔ یہ تعلیم بھی جلد ہی چھوڑ دی۔ ما بعد کئی نشیب وفراز کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بیچلر کا امتحان پاس کیا۔ شوکت صاحب کے علاوہ میرے پھوپھو ذاد تسکین محبوب اور سالک محبوب نے بہت ہمت بڑھائی۔ بی اے کے بعد کچھ عرصہ صحافت کی اور پھر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ایم اے کرنے کے بعد اسی ادارے سے ڈاکٹر نعیم مظہر کی زیر نگرانی مقالہ بہ عنوان"آزاد کشمیر کے منتخب غزل گو شعرا کا تحقیقی و تقابلی جائزہ" لکھ کر ایم فل کی ڈگری کا حق دار ٹھہرا۔ بعد ازاں اسی ادارے میں پی ایچ ڈی اردو میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر شفیق انجم صاحب کی نگرانی میں " اردو املا اور تلفظ کے بنیادی مباحث" کے موضوع پر تحقیقی مقالہ زیر تکمیل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پیشہ ورانہ ڈپلومے جیسا کہ صحافت، لائبریرین،کمپیوٹر وغیرہ بھی حاصل کر رکھے ہیں۔
سوال - آپ کا تعلق جنت نظیر خطے سے ہے بچپن آپ کا کتنا خوب صورت تھا؟
جواب - میرا تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے نہایت اہم اور حساس علاقے چھتر سے ہے۔ حساس اس لیے کہ تمام اہم دفاتر جیسا کہ وزیراعظم ، وزرا ، سیکرٹریز، چیف سیکرٹری ، آئی جی، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ، اسٹیٹ بنک وغیرہ اسی علاقے میں ہیں۔ جہاں تک بچپن کی بات ہے تو بچپن بہت ہی خوب صورت تھا۔ دادا ابو اور دادی امی کی محبتوں میں ملفوف، ثقافت سے جڑے ہوئے، کچا گھر تھا، چولھا جلتا تھا، دادی مرحومہ کہانیاں سناتی تھیں، گلی ڈنڈا، بنٹے، غلیل سمیت کئی ثقافتی کھیل کھیلتے تھے۔ سائیں سخی سہیلی سرکار کا سالانہ میلہ لگتا جس سے ہم بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوتے۔ کبوتر، بٹیر، توتے، مرغیاں وغیرہ پالنے کا شوق تھا ۔ دادی اور دادا ابو ہر ہر خواہش کا احترام کرتے المختصر بچپن کا وہ زمانہ بہت قیمتی اور نایاب تھا۔
سوال - پڑھنے کا شوق کس حد تک تھا یا کسی شخصیت سے متاثر تھے؟
جواب - مطالعہ گویا میری گھٹی میں پڑا تھا۔ بچپن میں دادا جان "جنگ نامہ زیتون" پنجابی کی ایک منظوم داستان بہت شوق سے پڑھتے وہاں سے مجھے بھی شوق ہوا۔دادا ابو میرے لیے ابتدا میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے کتاب چے لاتے ۔ چار آنے، آٹھ آنے، ایک اور دو روپے کے وہ کتاب چے عمرو عیار،ٹارزن اور اخلاقی کہانیوں پر مشتمل ہوتے۔ گویا یہاں سے آغاز ہوا ۔ بعد کو ڈائجسٹ اور ناول سے ہوتا ہوا شاعری اور افسانے تک پہنچا۔ لکھنے والوں میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کے افسانے بہت متأثر کن ہیں۔
سوال - طبعیت میں شرارتی پن تھا یا شرمیلے تھے؟
جواب - ابتدا میں شرارتی تھا، شرمیلا کسی حد تک تھا۔ اب بھی شرارتی ہوں۔ ہنسی مذاح پسند کرتا ہوں ۔
سوال - ادب کی طرف کیسے آنا ہوا؟
جواب - ادب کی طرف آنے کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ بچپن میں مطالعے کا شوق تھا۔ ٢٠٠٠ءمیں میرا داخلہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور میں ہوا تو ہوسٹل کے ماحول میں کچھ لکھنے کی طرف راغب ہوا۔ مابعد اسی کے اثر میں تک بندی شروع کی اور قافیہ ردیف جوڑنے لگ گیا۔ باضابطہ طور پر کالم نگاری سے آغاز کیا ۔ اس کے بعد تحقیق اور ہلکی پھلکی شاعری بھی کرنے لگا۔ افسانے اور کہانیوں پر بھی طبع آزمائی کی اور مختصراً سفر نامے بھی لکھے۔
سوال - آپ نے ادب کی کس صنف پہ پہلے کام کیا؟
جواب - جیسا کہ اوپر بتا چکا تک بندی سے آغاز کیا مابعد کالم نگاری سے باضابطہ لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔
سوال - آپ کا تحقیقی کام زیادہ ہے شاعری کی نسبت اس میں دلچسپی زیادہ ہے کیا؟
جواب - جی میں خود کو شاعر نہیں سمجھتا ۔ گاہے گاہے کچھ لکھ لیتا ہوں۔ تحقیق سے دل چسپی زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ نمل کا ماحول اور حسن ظہیر راجا اور ظہیر عمر جیسے دوستوں کی صحبت ہے۔دوسرا ایماے کی سطح سے پی ایچ ڈی تک مقالات اور مشقیں لکھنا تحقیقی کام سے قریب لائے۔
اشعار اور املا پر تحقیق میری شناخت بن گئی۔
سوال - کسی کی شخصیت میں کون سی چیز آپ کو زیادہ متاثر کرتی ہے؟
جواب - کسی بھی شخص کا اخلاق میرے لیے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کا اخلاق عمدہ ہے تو باقی چیزیں ثانوی ہیں۔ نماز پانچ وقت کی فرض ہے جب کہ اخلاق چوبیس گھنٹے فرض ہے۔ میں جن لوگوں سے متاثر ہوا انکو نہایت بااخلاق پایا۔
سوال - آپ تدریس سے بھی وابستہ ہیں
یہ بتائیں آج کل کے بچوں یا نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان کا کس حد تک ہے؟
جواب - جی بالکل میں ٢٠١٤ء سے مختلف اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتا رہا۔SKANSکالج ایف ایٹ اسلام آباد سے تدریس کا اغاز کیا۔ پنڈی اور اسلام آباد کے کئی اداروں میں پڑھانے کے علاوہ مظفرآباد کے معروف اداروں میں پڑھاتا رہا۔آزاد کشمیر یونی ورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں پڑھایا۔ افسوس کے ساتھ ہمارے طلبہ میں مطالعے کا رجحان نہ ہونے کے برابرہے۔ ایم اے کی سطح پر بھی طلبہ گائیڈذ اور نقل کے سہارے پر رہتے ہیں۔وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انھیں سب بنا بنایا تیار مل جائے اور ان کے نمبر بھی اچھے ہوں۔میں سمجھتا ہوں اس میں ایک بڑا قصور وار ہم اساتذہ بھی ہیں جو طلبہ کو مطالعے کی عادت نہیں ڈالتے اور بے جا نمبر دے کر ان کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ طلبہ تحریر اور تقریر میں بھی صفر ہو جاتے ہیں اور زندگی میں بھی پشیمان ہی رہتے ہیں۔
سوال - کیا آپ سمجھتے ہیں آجکل والدین تربیت کی زمہ داری احسن طریقے سے پوری کر رہے ہیں؟
جواب - آج کے والدین بالکل اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے۔ وہ اپنی ذمے داری بھی استاد پر ڈال دیتے ہیں۔ہمارے پاس کئی والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا کہا نہیں مانتا، بائک چلاتا ہے، آوارہ گردی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ذمے داری والدین کی ہے کہ وہ بچے کو سنبھالیں۔اب وہ زمانہ ہے بھی نہیں کہ استاد سختی کرے گا یا سزا دے کر اور ڈنڈے کے زور پر بچے کو قابو کرے گا۔ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔اب استاد سزا دیتا ہے تو خود مجرم بنجاتا ہے ۔یہی وجہ ہوئی کہ استاد کی عزت اور احترامبھی جاتا رہا۔بہرحال والدین کی جو ذمے داریاں ہیں اگر وہ بہ طریق احسن پوری کریں تو بچے بھی بااخلاق اور باکردار ہوں۔
سوال - نوجوانوں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
جواب - نوجوان شاعر حسن ظہیر راجا نے کتاب آشوب کا نوحہ یوں لکھا کہ:
"قصے کہانیوں کی وہ دنیا تو خوب تھی
پھر یوں کہ میں کتاب سے آگے نکل گیا"
نوجوانوں میں کتب بینی کا شوق نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب مجموعی طور پر کتاب پڑھنے کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔کتاب ایک سستی تفریح تھی مگر اب کئی دیگر ذرائع سے کتاب سے دوری ہو چلی ہے۔ طلبہ کے اندر کتاب کی افادیت اور اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو ابتدا سے ہی اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کو دی جائیں۔ تعلیمی اداروں کے رسائل اور جرائد کا اجرا مستقل بنیادوں پر ہو جس میں طلبہ کی تحریریں خاطر خواہ شامل ہوں۔ مختلف سیمینارکے ذریعے مطالعے کی افادیت کو اجاگر کیا جائے اور کتاب کی محبت پڑھنے والوں کے دلوں میں ڈالی جائے۔
سوال - آپ کی اب تک کتنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں؟
جواب - میری شائع ہونے والی کتب تین ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب " آزاد کشمیر میں اردو شاعری" ڈاکٹر افتخار مغل کی تصنیف ہے جسے میں نے شائع کیا۔ اس کی ترتیب و اہتمام میں نے کیا ۔ باقی دو میری کتابیں"احمد عطا اللہ کی غزل گوئی" دراصل میری ایم اے اردو کی سطح پر لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہے جسے کتابی صورت میں شائع کیا اور دو ایڈیشن منظر عام پر آئے۔ اسی طرح ادبی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب"بزمِ فگار" بھی شائع ہو چکی ہے۔ کچھ کتب تیار ہیں لیکن تاحال تشنۂ اشاعت ہیں۔
سوال - کتنے ایوارڈز یا اعزازات اپنے نام کروا چکے ہیں؟
جواب - ایوارڈذ کی یا اعزازات کی جہاں تک بات ہے تو میں بلا مبالغہ یہ کہ رہا ہوں کہ اللہ نے میری اوقات سے بڑھ کر مجھے نوازا ہے۔الحمدللہ میری لیے بہت بڑا اعزاز ہے نمل میں پڑھنا،ڈاکٹر عابد سیال صاحب ، ڈاکٹر شفیق انجم صاحب، ڈاکٹر نعیم مظہر صاحب، ڈاکٹر فوزیہ اسلم صاحبہ، ڈاکٹر روبینہ شہناز صاحبہ، ڈاکٹر صائمہ نذیر صاحبہ، ڈاکٹر ظفر احمد صاحب ، ڈاکٹر عنبرین شاکر جان تبسم صاحبہ اور کئی قابل اساتذہ کا شاگرد ہونا۔ افتخار عارف صاحب، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب، امجد اسلام امجد صاحب، انور مسعود صاحب، ظفر اقبال صاحب جیسی قد آور شخصیات سے فیض یاب ہونا۔ظفر اقبال صاحب کا اپنے کالم " دال دلیہ" میں بارہا میرا ذکر کرنا میرے لیے اعزاز ہی ہے۔ میرے تحقیقی مضامین پر سپئریر کالج پشاور(ملحق جامعہ پشاور) سے عدنان خاننے تحقیقی مقالہ لکھا یہ بھی میرے لیے اعزاز ہے۔ میری شخصیت اور کام پر آصف ثاقب صاحب، ڈاکٹر مزمل حسین صاحب، شہباز گردیزی صاحب ، ڈاکٹر آمنہ بہار صاحبہ، ڈاکٹر رحمت عزیز خانچترالی، آصف اسحاق، مقبول ذکی مقبول صاحب سمیت بیسیوں لکھنے والوں نے مضامین لکھے۔ رہی بات ایوارڈز کی تو کئی اداروں اور ادبی تنظیموں کی طرف سے ملنے والی اسناد ، ایوارڈذ کی ایک فہرست ہے تاہم میں نے کبھی ریکارڈ رکھا نہیں۔ بزم غالب ایوارڈ، علامہ اقبال ایوارڈ، مولانا ظفر علی خاں ایوارڈ، بھیل ادبی ایوارڈ، الوکیل ایوارڈ، طالب نظر حسن کارکردگی ایوارڈ، بزم مصنفین ہزارہ کا اعتراف فن ایوارڈ، زم زم ویلفیئر ایوارڈ، مصور فاؤنڈیشن گوجرہ ایوارڈ، اثریہ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سمیت کئی ایک ایوارڈذ ملے۔
سوال - تنقید یا حوصلہ افزائی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب - تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ہمارے اداروں میں اس چیز کا فقدان ہے۔ بے شمار نجی تنظیمیں حوصلہ افزائی کے حوالے سے احسن کام۔ سر انجام دی رہی ہیں سو سالانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے خرچ کر کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ کئی ادبی انجمنیں وہ کام کر رہی ہیں جو حکومت کے کرنے والے ہیں۔ تنقید کرنا بھی اچھا ہے۔ دراصل ہم اس لفظی کے معانی ہی غلط لیتے ہیں۔ تنقید کا مطلب خامیاں تلاش کرنا ہر گز نہیں بل کہ سراہنا بھی ہے۔ کسی چیز کی خامیاں بتانا اور ان کی نشان دہی کرنا دراصل اس۔ فن پارے کے قد میں اضافہ کرنا ہے۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کا شکر گزار رہا جنھوں نے میری اصلاح کی۔ میرے دوست حسن ظہیر راجا نے ایک لفظ'تعلُق" کے تلفظ کی اصلاح کرنے میں باقاعدہ مجھے تھپڑ مارا اور یہی ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ میری حوصلہ افزائی کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ میں سمجھتا ہوں تنقید کرنا اور حوصلہ افزائی کرنا آپ کو مہمیز کرتا ہے بہتر سے بہتر کام کرنے کے لیے۔
سوال - تدریسی امور مشکل ہیں یا تخلیقی کام یعنی لکھنا؟
جواب - تدریس نہایت سعادت کا کام ہے۔ یہ اللہ پاک کا کرم ہوا کہ مجھے استاد بنایا۔دیکھا جائے تو کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا ۔ تاہم میرے نزدیک تخلیقی کام زیادہ مشکل ہے۔ پڑھانا تو فرائض میں شامل ہے اور اس میں غفلت ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن لکھنا ایک اضافی کام ہے میں اس میں بہت سست اور غافل واقع ہوا ہوں۔ تدریس کی نسبت تخلیق کو مشکل سمجھتا ہوں۔
سوال - کون سی اچھی عادات ہیں جو آپ اپنے بچوں میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں؟
جواب - ہمارے لیے بہترین نمونہ ہمارے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہے۔ میں طلبہ سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میری تقلید نہ کریں، اپنے کسی اور استاد یا رشتے دار کی نہ کریں پیروی کریں تو اس عزتوں اور رفعتوں والے نبی کی کریں جس کی سیرت کو اپنانا ضروری بھی ہے۔ باقی میں طلبہ کو تیمم یعنی دائیں ہاتھ کے استعمال کا ہمیشہ کہتا ہوں۔ اخلاقیات اور ہم دردی کی تلقین کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ صرف نماز کو دین سمجھ بیٹھے ہیں باقی دنیا جہاں کی خرابی ہو لیکن نماز پڑھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور حکم ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہو جاؤ۔ حقوق العباد کو ہم کچھ سمجھتے نہیں، اخلاقیات پر کوئی بات کرتا نہیں۔ میں ہمیشہ بچوں کو یہی کہتا ہوں کہ اخلاقیات اور انسانیت کو اپنائیں۔
سوال - کشمیر کے حوالے سے بھی آپ نے کچھ لکھا؟
جواب - اپنے مرزبوم سے محبت کرنا فطرت میں شامل ہے۔ کشمیر میرا دیس ہے ۔ اسی نے شناخت بخشی لیکن میں اس دھرتی کا وہ نالائق بیٹا ہوں جو اس سے محبت تو کرتا ہے مگر اس کی محبت میں عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہا۔ میں نے کشمیر کے حوالے سے بہت کم لکھا ہے چند مضامین اور بس۔۔۔
سوال -زندگی کے سفر میں کبھی کسی سے جان بوجھ کربھی ہارے ہیں؟
جواب - زندگی میں ہارنا بھی چاہیے ہر کوئی جیت جائے یہ ضروری بھی نہیں ہوتا۔ کسی سے ہارا تو نہیں لیکن پبلک سروس کمشن کے امتحان میں میرا ایک شاگرد رانا خالد توفیق صدیقی میرے مقابلے پر آ گیا تو میری خواہش ہوئی کہ میں اس کے مقابلے میں فیل ہو جاؤں۔ اس وجہ سے اس شاگرد کا اخلاص اور مجھ سے محبت کے علاوہ اس کی محنت اور قابلیت بھی تھی۔ میری کام یابی ہر اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کھلے دل سے مبارک باد پیش کی۔ باقی کچھ ایسا غیر ارادی طور پر کبھی ہوا بھی تو یاد نہیں مجھے۔
سوال - پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں سے کس کو طاقتور سمجھتے ہیں؟
جواب - پرنٹ میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے کئی اعلی لکھنے والوں کو جنم دیا ۔ آج بھی اس کا وجود باقی تو ہے مگر بہت کم زور ۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں بھرپور اور آسان ذریعہ ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے باآسانی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔ اخبار چھپنا کم ہو چکا ہے۔ کتاب بینی کی طرف لوگ بہت کم جاتے ہیں۔ ان حالات میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اخبارات کے مقابلے میں سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی بھی جگہ اپنے جذبات و خیالات کو اس کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر، انسٹا گرام ، یو ٹیوب تک عام آدمی کی باآسانی رسائی ہے۔ اخبارات میں لکھنا ان کو بھیجنا اور پھر انتظار کرنے کے جھنجٹ میں اب کوئی نہیں پڑتا ۔
سوال - کیا آپ کو لگتا ہے سوشل میڈیا کا کردار مثبت سے زیادہ منفی ہے؟
جواب - سوشل میڈیا کے کردار کی جہاں تک بات ہے تو یہاں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ کئی اچھے اور با کردار لوگوں کے ساتھ ساتھ بیشتر بد کردار اور جاہل بھی موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سبھی غلط ہیں۔ میرے خاندان کے ایک بزرگ جو ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے سے سبک دوش ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ساری زندگی میں اتنا نہیں سیکھا جتنا چار پانچ سال میں سوشل میڈیا سے سیکھا۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے استعمال سے منفی کے ساتھ ساتھ مثبت چیزیں بھی ملتی ہیں۔ میں نے فیس بک کو اصلاح کا ایک ذریعہ بنایا اور کئی مضامین اس کے سپرد کیے جس نے اکثر احباب کو فائدہ حاصل ہوا۔
سوال - ایک میگزین کے مدیر بھی ہیں یہ میگزین نکالنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب - جی میں ایک نہیں دو رسائل کا مدیر اعلا ہوں۔ایک رسالہ میرے ادارے گورنمٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ سے جاری ہونے والا "بساط" ہے۔جب کہ دوسرا ایک نجی تعلیمی ادارے گرین ایرا ہائی اسکول چھتر مظفرآباد سے جاری ہونے والا"کاوش" ہے۔ جب میری تعیناتی گورنمنٹ کالج میرپورہ میں ہوئی تواس سے پہلے میں کچھ نجی اداروں میں پڑھاتا رہا۔ان اداروں کے سربراہان سے میگزین کی بابت بات ہوتی رہتی لیکن کسی نے بھی ہمت نہ کی۔ صحافت کا ڈپلومہ بھی کر رکھا تھا اور عملی صحافت بھی کچھ عرصے تک کی تو ذہن میں تھا کہ کوئی میگزین نکلے جو طلبہ کے لیے مواقع فراہم کرے ۔ میرپورہ کالج میں آ کر یہاں ایک مخلص دوست ملک مبشر احمد سے ملاقات ہوئی جو ہیں تو کمپیوٹر کے لیکچرار مگر رسالے کی تیاری میں میرا مکمل ساتھ دیا۔ ہمارے سربراہ پروفیسر محمد رفیق شیخ صاحب نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اخراجات کے حوالے سے بھی پورا پورا تعاون کیا۔ یوں ٢٠٢٠ء میں بساط پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ تاحال اس کے تین شمارے چھپ چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم سے شائع ہونے والا یہ پہلا اور تاحال آخری میگزین ہے۔
"کاوش" مظفرآباد کے نجی اسکولز کا پہلا رسالہ ہے۔ جس کے مدیر اعلا کے طور پر میرا نام درج ہے۔
سوال - کشمیر کے لوگوں کی خاصیت جو آپ سمجھتے ہیں کسی اور علاقے کے لوگوں میں نہیں ہے اور وہ خاصیت آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟
جواب - کشمیر کے لوگوں کی خاص بات مہمان نوازی ہے۔ پنڈت چکبست نارائن کے مطابق:
ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہمان نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیاپانی مجھے
مہمان نوازی کئی علاقوں کی مشہور ہے لیکن کشمیر کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مہمانوں کی کتنی تکریم کرتے ہیں۔
سوال.. اپنی پسند کی غزل اگر ہمارے قارئین کی نذر کرنا چاہیں؟
جواب - غزل تو نہیں چند اشعار پیش کر دیتا ہوں۔
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفیٰ کے گھرانے کا ہے
مشکلیں آرہی ہیں تیر بہ دست
دوست شانہ بہ شانہ ہو جائیں
پیٹھ پیچھے سے وار ہوتے رہے
اب ذرا سامنا بھی ہو جائے
اداسیوں سے اٹے ہوں گے سب درودیوار
جو آنگنوں میں ہمارے نہ بیٹیاں بولیں
ایک مفلس کا جھونپڑا جس سے
آرہی ہے صدا سکوں کی مجھے
کس سہولت سے جان لی میری
اس نے ہر بات مان لی میری
جہان بھر کی خوشی ساتھ ساتھ چل رہی تھی
ہمارے بیچ محبت کی بات چل رہی تھی
کلیوں کے رخ پہ دیکھنا کیسا نکھار ہے
تو ان کو گر نظر نہ آئے تو کیا بنے
یزید تیرا ہر عمل شدید شرم ناک ہے
حسین تاب ناک تھا، حسین تاب ناک ہے
سوال - کوئی اہم پیغام جو دینا چاہیں ؟
جواب - پیغام یہی ہے کہ اپنے آپ کو پہچانیں۔ کوئی کام بھی ایسا نہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو بس ذرا ہمت اور حوصلہ چاہیے۔تکبر اور خود نمائی سے خود کو دور رکھیں۔پھل دار درخت ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے جب کہ بانجھ درخت اکڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور مسلسل محنت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ستاروں پہ کمندیں نہ ڈالیں۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہم نے فرہاد احمد فگار سے اجازت چاہی اس دعا کے ساتھ کہ وہ اپنے خوب صورت خطے کے لیے یوں ہی کام کرتے رہیں گے اور اس کی خوب صورت ثقافت اور ثقافتی قدروں
کو لوگوں تک پہنچائیں گے -