نوید ناظم
محفلین
فرہاد! دن گیا تو ہے، اچھا نہیں گیا
تیشے سے غم کے خود کو تراشا نہیں گیا
وہ جا چُکا ہے اور میں اب بھی اِدھر ہی ہوں
مطلب گیا میں آدھا، تو آدھا نہیں گیا
خُوشبو نے ایک لمس کی زندہ رکھا مجھے
وہ ایک جو ہوا کا تھا جھونکا، نہیں گیا
سب خواب لے گیا ہے وہ میرے سمیٹ کر
لمبا سفر تھا، شُکر ہے تنہا نہیں گیا
اک یاد مجھ کو ساتھ کہیں لے کے جا چکی
ہوں اُس قدر مرا ہُوا جتنا نہیں گیا
اے دوست مجھ کو مار مگر مار ٹھیک سے
خنجر بھی تجھ سے پیٹھ پہ گھونپا نہیں گیا
دیکھا اُسے تو گھونٹ پئے خون کے نوید
مطلب میں اُس کی بزم سے پیاسا نہیں گیا
(نوید ناظم )
تیشے سے غم کے خود کو تراشا نہیں گیا
وہ جا چُکا ہے اور میں اب بھی اِدھر ہی ہوں
مطلب گیا میں آدھا، تو آدھا نہیں گیا
خُوشبو نے ایک لمس کی زندہ رکھا مجھے
وہ ایک جو ہوا کا تھا جھونکا، نہیں گیا
سب خواب لے گیا ہے وہ میرے سمیٹ کر
لمبا سفر تھا، شُکر ہے تنہا نہیں گیا
اک یاد مجھ کو ساتھ کہیں لے کے جا چکی
ہوں اُس قدر مرا ہُوا جتنا نہیں گیا
اے دوست مجھ کو مار مگر مار ٹھیک سے
خنجر بھی تجھ سے پیٹھ پہ گھونپا نہیں گیا
دیکھا اُسے تو گھونٹ پئے خون کے نوید
مطلب میں اُس کی بزم سے پیاسا نہیں گیا
(نوید ناظم )