فرہاد! دن گیا تو ہے، اچھا نہیں گیا

نوید ناظم

محفلین
فرہاد! دن گیا تو ہے، اچھا نہیں گیا
تیشے سے غم کے خود کو تراشا نہیں گیا

وہ جا چُکا ہے اور میں اب بھی اِدھر ہی ہوں
مطلب گیا میں آدھا، تو آدھا نہیں گیا

خُوشبو نے ایک لمس کی زندہ رکھا مجھے
وہ ایک جو ہوا کا تھا جھونکا، نہیں گیا

سب خواب لے گیا ہے وہ میرے سمیٹ کر
لمبا سفر تھا، شُکر ہے تنہا نہیں گیا

اک یاد مجھ کو ساتھ کہیں لے کے جا چکی
ہوں اُس قدر مرا ہُوا جتنا نہیں گیا

اے دوست مجھ کو مار مگر مار ٹھیک سے
خنجر بھی تجھ سے پیٹھ پہ گھونپا نہیں گیا

دیکھا اُسے تو گھونٹ پئے خون کے نوید
مطلب میں اُس کی بزم سے پیاسا نہیں گیا

(نوید ناظم )
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نوید بھائی! اچھی غزل ہے ماشاءاللہ، خیالات بھی عمدہ ہیں۔ پہلے تو ڈھیروں داد قبول فرمائیں
دوسری بات ذرا معذرت سے کہنا چاہوں گا۔ مجھے کچھ تعقیدِ لفظی کا شکار محسوس ہو رہی ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
نوید بھائی! اچھی غزل ہے ماشاءاللہ، خیالات بھی عمدہ ہیں۔ پہلے تو ڈھیروں داد قبول فرمائیں
دوسری بات ذرا معذرت سے کہنا چاہوں گا۔ مجھے کچھ تعقیدِ لفظی کا شکار محسوس ہو رہی ہے۔
جی بہت شکریہ، اس میں معذرت کیسی بھلا آپ کی بات سے اتفاق ہے مجھے، یہ خیال اور مضمون اچھا لگا اس لیے زیادہ کانٹ چھانٹ کر نہیں سکا ورنہ یہ عیب دور کرنے میں اشعار کچھ اور ہو جاتے۔
 
Top