نور وجدان
لائبریرین
آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا .....، اسکا درد کون جان پائے! ہائے رے میرا دل،چُنر رنگ دی گئی اور بے رنگی دی گئی!
اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر، برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ...
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،
باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!
کھاگیا بدن، پی گیا لہو، کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے
ملیں ترے وصل کے اشارے، ملن نہ ہو
ڈھونڈو ملنے کے بہانے، بات نہ ہو! ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی، روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں
الہی، دست وصال لیے، دست کمال ملا ہے
الہی، ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی
الہی، آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا، پھر بگڑ گیا
الہی، داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں
الہی، کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے
الہی، اشک تھمتے نہیں، زخم بھرتا نہیں، رفو گر کا کیا سوال؟
الہی، شدت درد نے مریض کردیا ہے،
ایک فریاد وقت ِصبا سے!
ایک بات، اک دل کی لگی کا قصہ
اے وقت نسیم!
سن جا! محبوب کو بتانا
ادب سے،
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا
یہ عشق کی نماز ہے ....!
کہنا، جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے، جام جم یاد نہ رہا، جب سے دیوانہ بنایا ہے، آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،
قرار نہیں ہے، فرار نہیں ہے، تپتا تھل ہے، آبلہ پا! کیا کروں؟
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟
یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!
حکم الہی اور احساس کی تلوار
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے!
تجھے شوق سے دیکھوں ، تو کدھر؟
میں تو گم ہوں، نہ جانوں کدھر،
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے! اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے!
قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں، شمس کیا، سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ
دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
ریشم ریشم دھواں ہے، دل میں لرزتا رواں رواں ہے، ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟ مصفی ہو؟ معجل ہو؟
او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے
جنہاں کیتی نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے
اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر، برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ...
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،
باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!
کھاگیا بدن، پی گیا لہو، کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے
ملیں ترے وصل کے اشارے، ملن نہ ہو
ڈھونڈو ملنے کے بہانے، بات نہ ہو! ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی، روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں
الہی، دست وصال لیے، دست کمال ملا ہے
الہی، ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی
الہی، آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا، پھر بگڑ گیا
الہی، داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں
الہی، کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے
الہی، اشک تھمتے نہیں، زخم بھرتا نہیں، رفو گر کا کیا سوال؟
الہی، شدت درد نے مریض کردیا ہے،
ایک فریاد وقت ِصبا سے!
ایک بات، اک دل کی لگی کا قصہ
اے وقت نسیم!
سن جا! محبوب کو بتانا
ادب سے،
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا
یہ عشق کی نماز ہے ....!
کہنا، جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے، جام جم یاد نہ رہا، جب سے دیوانہ بنایا ہے، آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،
قرار نہیں ہے، فرار نہیں ہے، تپتا تھل ہے، آبلہ پا! کیا کروں؟
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟
یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!
حکم الہی اور احساس کی تلوار
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے!
تجھے شوق سے دیکھوں ، تو کدھر؟
میں تو گم ہوں، نہ جانوں کدھر،
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے! اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے!
قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں، شمس کیا، سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ
دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
ریشم ریشم دھواں ہے، دل میں لرزتا رواں رواں ہے، ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟ مصفی ہو؟ معجل ہو؟
او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے
جنہاں کیتی نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے