وارث صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہی غزل مکمل کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو معاف رکھیے گا کیونکہ یہ کسی مستند نسخے سے پوسٹ نہیں کر رہا۔ سہوِ کاتب کا امکان بہت زیادہ ہے۔
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
قبائے گُل کو پھاڑا جب مرا گُل پیرہن بگڑا
بن آئی کچھ نہ غنچے سے، جو وہ غنچہ دہن بگڑا
نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخمِ شہیداں کا
تری تلوار کا منہ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا
تکلف کیا کوہیِ جاں شیریں پھوڑ کر سر کو
جو غیرت تھی تو پھر خسرو سے ہوتا کوہکن بگڑا
کسی چشمِ سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ
تو مجھ سے مست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا
اثر اکسیر کا یمنِ قدم سے تیرے پاتا ہے
جذامی خاکِ رہ مَل کر بناتے ہیں بدن بگڑا
تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا
زوالِ حسن کھلوائے، ہے میوے کی قسم مجھ سے
لگایا داغ خط نے آن کر، سیبِ ذقن بگڑا
رخِ سادہ نہیں اس شوخ کا نقشِ عداوت ہے
نظر آتے ہی آپس میں ہر اہلِ انجمن بگڑا
جو بدخو طفل اشک اے چشم کا، کیا اقبال نے کشتہ
گھروندے کی طرح سے گنبدِ چرخِ کہن بگڑا
صفِ مژگاں کی جنبش کا، کیا اقابال نے کشتہ
شہیدوں کے ہوئے سالار، جب ہم سے تمن بگڑا
کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے میں روتا ہوں
ہنسا گُل کی طرح غنچہ کہاں، اس کا دہن بگڑا
کمالِ دوستی اندیشۂ دشمن نہیں رکھتا
کسی بھنورے سے کس دن کوئی مارِ یاسمن بگڑا
رہی نفرت ہمیشہ داغِ عریانی کو پھاہے سے
ہوا جب قطع جامے پر ہمارے پیرہن بگڑا
رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے
ہوا مسدوس رستہ جادۂ راہِ وطن بگڑا
کہا بلبل نے جب توڑا، گلِ سوسن کو گُل چیں نے
الٰہی، خیر کیجو، نیلِ رخسارِ چمن بگڑا
ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجو
وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا دہندوں سے
ہوا ناسورِ نو پیدا، اگر زخمِ کہن بگڑا
تونگر تھا، بنی تھی جب تک اس محبوبِ عالم سے
میں مفلس ہو گیا ہوں جس روز سے وہ سیم تَن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کُھل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمانِ شکن بگڑا
(خواجہ حیدر علی آتش)