صفحہ 75
دسویں فصل
سید حاضر کا میر متّقی کے خط سے متاثر اور متنبہ ہو کر بہن کو اس کا حق دینے پر آمادہ ہونا اور دونوں بھائیوں کی اسی بات پر باہمی رنجش
میر متّقی کے چلے جانے کے بعد بھی سیّد حاضر دیر تک سکتے کی حالت میں تھا۔ اپنے یہاں کے معاملات میں سے جس معاملے میں نظر کرتا تھا، کسی کو دخلِ فساد سے اتلاف حقوق العباد سے خالی نہیں پاتا تھا۔ جن باتوں پر اس کو بڑا ناز تھا اب اُس کی نظر میں نہایت ذلیل اور پاجی پن کی دلیل معلوم ہوتی تھیں۔ وہ گھبرایا ہوا دالان میں ٹہل رہا تھا اور اس قدر بے قرار تھا کہ جاڑے کے دن اور شام کے وقت اس کو پسنے پر پسینے چلے آ رہے تھے۔ اور دیکھتا تھا کہ کھانا اور پینا اور اوڑھنا اور بچھونا اور ساز و سامان اور مال و متاع اور نقد و جنس حتّیٰ کہ اپنا گوشت پوست کوئی چیز بھی لوثِ حرمت سے پاک نہیں پاتا تھا کہ بدکرداری اور بدمعاملگی ہماری برادری اور ہمارے خاندان
صفحہ 76
خاندان میں اباً عن (1) جدٍّ چلی آتی ہے۔ اگرچہ حاضر ناظر دونوں باپ کے مرنے سے معاملات کرنے لگے تھے مگر حاضر نے احتساب کیا، تو اتنے ہی دنوں میں صد ہا مظلمے اُن کے نامۂ اعمال پر چڑھ چکے تھے ۔ اور ان میں اکثر ایسے تھے جن کا تدارک محال تھا اور تلافی ناممکن۔ ہم کو اس کی اتنی ہی بات سے تعلق ہے کہ جہاں اس کو اپنے وقت کے اور بہت سے معاملے یاد آئے ان میں سے ایک معاملہ غیرت بیگم کا بھی تھا۔ اگر غیرت بیگم کے معاملے میں ابتدا تحریک ناظر کی طرف سے ہوئی اور اُسی کو اُس میں زیادہ اصرار بھی تھا، مگر پھر بھی حاضر کا اتنا قصور تو تھا کہ بڑا بھائی ہو کر اس نے ناظر کو سمجھایا نہیں۔ غیرت بیگم کا خیال آنا تھا کہ فوراً گھوڑا کسوا، سوار ہو راتوں رات شہر میں ناظر کے مکان پر جا دستک دی، اگلے دن کسی مقدمے کی پیشی تھی اور ناظر آدھی رات تک گواہوں کی تعلیم اور کاغذات کی درستی میں مصروف تھا۔ ابھی اچھی طرح نیند بھری نہ تھی کہ بھائی کی آواز سُن کر چونک پڑا اور لگا خیریت پوچھنے۔ ”خیر تو ہے! آپ ایسے سویرے کیونکر آئے۔“ حاضر۔ ”خیر ہے تم باطمینان وقتی ضرورتوں سے فارغ ہو لو تو میں اپنے آنے کی وجہ بیان کروں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔“ تھوڑی دیر بعد جب دونوں بھائی ایک جا ہوئے تو حاضر نے پوچھا۔ ”چھوٹے ماموں آئے ہیں، تم ان سے ملے۔“ ناظر ”ماموں کا آنا تو مجھ کو معلوم ہوا مگر میں ملا نہیں، اور ملنے کا ارادہ بھی نہیں۔“ حاضر۔ ”کیوں؟“ حاظر۔ ”میں جانتا ہوں وہ آپا کا جھگڑا ضرور نکالیں گے اور مجھ کو کسی طرح آپ کا حق دینا منظور نہیں۔ بے فائدہ باتوں ہی باتوں میں تکرار ہو پڑے گی۔“ حاضر۔ ”کیوں بے چاری غیرت نے ایسا قصور کیا کیا ہے؟ کیا وہ ہماری حقیقی بہن اور متروکۂ پدری میں عند اللہ اور عند الرّسول حقدار نہیں ہے؟“ حاضر کے مُنہ سے یہ سوال سُن کر ناظر کے کان
1) یعنی یہ بطور میراث باپ دادا سے متوارث چلی آتی ہے۔
صفحہ 77
کھڑے ہوئے۔ آدمی تھا معاملہ فہم، معاملہ شناس، فوراً تاڑ گیا کہ بھائی ماموں سے ملے اور ماموں نے پتّی پڑھائی۔ تو کہتا کیا ہے کہ اگر ماموں کوئی فتویٰ مکّے سے لکھوا کر لائے ہوں تو اس کو اپنی قدوری(1) میں چپکا دیں۔ ان کو شاید یہ معلوم نہ ہو گا کہ یہاں شریفِ مکّہ کا حکم نہیں چلتا، انگریز بہادر کی عمل داری ہے۔ میں نے برسوں کی جستجو میں پریوی کونسل اور عدالت ہائے عالیہ، ہائی کورٹ اور چیف کورٹ اور جوڈیشل کمشنر کے فیصلوں اور میکناٹن اور سر ہنری لا کی شرعِ محمدی سے وہ وہ نظائر اور احکام چھانٹ کر رکھے ہیں کہ اگر آپا سے جہیز واپس کرا لوں تو سیّد نہیں چمار۔“ حاضر کو بھی بھائی کی اس قدر خشونت(2) دیکھ کر نہایت استعجاب (3) ہوا، کیوں کہ اس نے آج تک حاضر کے رو در رو ایسی شوخ چشمی کے ساتھ کبھی بات نہیں کی تھی اور بولا کہ ”ماموں سے ناحق بدگمان ہوتے ہو۔ میں ان سے ملا، بے شک! اور وہ تعزیت کے لیے سیّد نگر تشریف لے گئے۔ بلاشبہ! مگر غیرت بیگم کا نام تک ان بے چارے نے نہیں لیا۔ اور افسوس کہ تم نے ان کی شان میں خورد ہو کر اس قدر گستاخی کی اور وہ بھی غائبانہ! پس تم نے ایک بزرگ کا حق تلف کیا۔“ ناظر۔ ”انہوں نے آپا کا نام نہ لیا ہو گا اَلکِنَایَۃُ اَبلَغُ مِنَ الصَّرَاحَۃ (4) اور فرض کیا کہ میں نے گستاخی کی، تو قانون نے صرف ایک ہی گستاخی کو جُرم قرار دیا ہے۔ یعنی حاکمِ عدالت کے ساتھ گُستاخی کرنا، جب کہ وہ عدالت کا اجلاس کر رہا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ماموں اس کے مصداق نہیں ہو سکتے۔“ ناظر کے اس جواب سے حا ضر کو سیّد متّقی کی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ حکّام ظاہر کے انتظام سے پورے طور پر حقوق العباد کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ سیّد متّقی کے وعظ سے
1) علم فقہ کی ایک کتاب کا نام ہے۔
2) سختی
3) تعجّب
4) یعنی بعض اوقات صراحت سے اشارہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
صفحہ 78
سید حاضر کے خیالات دفعتاً اس قدر متبدّل ہو گئے تھے کہ دونوں بھائیوں میں التیام کا ہونا محال تھا۔ ناظر اپنے اسی پرانے موروثی ڈھرّے پر چلتا تھا کہ قانونی گرفت بچا کر جہاں تک، اور جس طرح ممکن ہو، اپنا فائدہ کرنا چاہیے۔ کسی کا اختلاف ہو تو مضائقہ نہیں۔ کسی کا دل دُکھے تو پروا نہیں۔ عاقبت تباہ ہو کچھ حرج نہیں۔ اور سید حاضر کو اب اس بلا کا اہتمام تھا کہ ایک غیبت کو بھی وہ اِتلافِ حق سمجھا۔ غرض یہ جو سُنا کرتے تھے کہ الدنّيا والدّين و ضرتان۔ (1) یا
ہم خدا خود ہی وہم دنیائکے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
اب وہ معمّہ حل ہوا کہ حقیقت میں وہ دنیا جو دین کی دشمن ہے اور اس کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی، وہ یہ دنیا ہے جیسی ناظر کی تھی، جس میں حلال و حرام کا امتیاز نہیں، جائز و ناجائز کا تفرقہ نہیں، خدا و رسول کا اطلاق نہیں، روزِ قیامت کا اندیشہ نہیں۔ ناظر کی اتنی ہی باتوں سے حاضر کو پورا یقین ہو گیا کہ اس کو سمجھانا یا اس کے ساتھ بحث کرنا محض بے سود اور لا حاصل ہے۔ اس پر قانون کی پھٹکار ہے اور اس کے سر پر چڑھا ہوا جن سوار۔ اس لیے زیادہ ردّ و کد مناسب نہ سمجھ کر اس نے دو ٹوک بات ناظر کو سُنا دی کہ ”تم اس کو ماموں کا اغوا سمجھو یا میرا حُمق، میں تو غیرت بیگم کا حق اب ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکھ سکتا۔“ ناظر۔ ”دیکھے ایسا کیجیے گا تو مجھ سے آپ سے بگاڑ ہو جائے گا۔“ حاضر ”اگر اتنی ہی بات پر کہ میں ایک حق دار کا حق مارنا نہیں چاہتا، تم مجھ سے بگڑو تو تمہاری خوشی! اگرچہ تمہارے بگڑنے کا مجھ کو سخت افسوس ہو گا، مگر اس سے ہزار درجے زیادہ افسوس ہو گا اگر یتیم کا حق غصباً میرے
1) یہ دنیا اور دین دو سوکنیں ہیں۔
صفحہ 79
پاس رہے۔“ ناظر ”یہ آپ کی خصوصیت کیا ہے۔“ حاضر ”خصوصیت پوچھو تو وہ ہماری حقیقی بہن ہے۔ مگر ایصالِ حق کے لیے اس کی مطلق خصوصیت نہیں۔ انشاء اللہ سب حق داروں کے ساتھ میں ایسا ہی معاملہ کر دوں گا۔“ ناظر ”تو آپ سیدھی بات ہی کیوں نہیں کہتے کہ آپ ترکِ دنیا پر آمادہ ہیں۔“ حاضر ”اگر مغصوبات کا واپس کر دینا تمہارے نزدیک ترکِ دُنیا ہے تو اس سے مجھ کو انکار نہیں۔“ ناظر ”بیٹھے بٹھائے یہ آپ کو ہوا کیا ہے؟ پہلے تو میں ماموں کو مولوی اور حاجی اور جیسا ان کا نام ہے متّقی سمجھتا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ تسخیر اور سحر کے بھی حامل ہیں۔“ حاضر ”ماموں کی شان میں تمہاری طرف سے یہ دوسری گُستاخی اور دوسری غیبت اور دوسرا اتلافِ حق ہے۔ ناظر ”میں آپ کو آگاہ کیے دیتا ہوں کہ یہ گھر کی تباہی کے سامان ہیں۔“ حاضر۔ ”جس گھر کی آبادی دوسروں کے غصب کرنے پر موقوف ہو، اُس کا تباہ ہونا بہتر ہے۔“ ناظر ”آپ نے انجام کار بھی نظر کر لی ہے۔ حاضر ”انجام کار پر نظر کرنا ہی مجھ کو اس ارادے کا باعث ہوا ہے۔ اگر تو آپ مجھ کو بھی اپنے ساتھ برباد کرتے ہیں! کیسی کیسی محنتوں اور کیسی کیسی تدبیروں سے میں نے ملکیت کو درست کیا۔ اب ایک ڈھنگ پر آ چلی تھی تو آپ ساری عمارت کو جڑ بنیاد سے ڈھائے دیتے ہیں۔“ حاضر ”کیا تم نے مجھ کو مجنوں قرار دیا ہے یا مخبوط الحواس سمجھا ہے؟ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا ہے جو دیدہ دانستہ اپنے پاؤں میں آپ کلہاڑی مارے، یا سمجھ بُوجھ کر اپنے رہنے کے مکان میں آپ آگ لگائے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بات کا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دنیا کو دین پر ترجیح نہ دوں۔ اور دنیاوی فائدے میں دین کا ضرر ہے اُس کی طمع نہ کروں۔ اگر ایسا کرنے سے میری دنیا برباد ہوتی ہو تو ہو۔ اور اگر مجھ پر دنیاوی تباہی آتی ہے تو آئے۔ جب میں نے دین کے خلاف دنیاوی فائدے کا لالچ نہ کیا تو دُنیاوی نقصان کی میں کیا پروا کر سکتا ہوں!“ ناظر! ”میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں تمہارے فائدوں کو بہت عزیز رکھتا ہوں۔ مگر وہیں تک کہ وہ فائدے جائز طور پر حاصل کیے جائیں۔
صفحہ 80
غصب اور ظلم اور دغا اور فساد اور اتلاف حقوق العباد کو نہ میں اپنے لیے جائز رکھتا ہوں اور نہ تمہارے لیے۔“ ناظر ”یہی تو میں کہتا ہوں کہ آپ پر ماموں نے جادو کر دیا ہے۔“ حاضر ”اگر تمہارے نزدیک یہ جادُو ہے تو جادو تمام پیغمبر صلوٰت اللہ و سلامہ علیہم اجمعین، تمام اولیاء، تمام انبیاء تمام اتصیا کرتے آئے ہیں۔ مگر جادو ایک مکروہ لفظ ہے۔ اس کا استعمال بزرگانِ دین کے حق میں میرے نزدیک تو درست نہیں۔“ ناظر ”اچھا تو ایک کام کیجیے، آپ اپنے حصّے کا بٹوارہ کر لیجیے اور علیٰحدہ ہو جائیے۔“ حاضر ”میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا تھا، مگر اس صورت یہ مشکل یہ ہے کہ جب تک ملکیت تمام مظالم سے پاک نہ ہو، میں اُس میں سے حصّہ نہیں لے سکتا۔“ ناظر ”آپ نے ساری ملکیت کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ اپنے مذہب کے رُو سے حصّۂ پدری میں سے جتنا حصّہ آپ اپنا سمجھتے ہوں، الگ کر لیجیے۔“ حاضر ”والد مرحوم کی جگہ میرا اور تمہارا اور غیرت بیگم تینوں کا نام لکھا جانا چاہیے ۔ لِلّذَ اکِرِ مِنُلُ حَظِّ الاُنثَيَین (1) ہم دونوں نے ناحق اور نا روا بہن کر محروم کر کے اپنے ہی نام چڑھوائے تو نصٖف نصف ہم دونوں کا ہوا۔ پس سرکاری کاغذات میں میرا نصف حصّہ لکھا ہے، اس میں بھی تو غیرت بیگم کا ایک عُشر شامل ہے جس کو میں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتا۔“ ناظر ”آپ بٹوارے کی درخواست میں لکھ دیجیے کہ اگرچہ میرے نام نصف حصّہ لکھا ہے مگر حقیقت میں میرا دو خُمس ہوتا ہے۔ اسی قدر کا میں بٹوارہ چاہتا ہوں۔ حاکم آپ کی درخواست تصدیق کر کے آپ کے دو خُمس کا بٹوارہ کر دے گا۔“ حاضر ”تو غیرت بیگم کا یہ ایک عُشر بھی تمہاری طرف منتقل ہو جائے گا۔“ ناظر ”آپ کا اس میں حرج کیا ہے؟ غیرت بیگم کا مطالبہ میرے سر رہے گا۔“ حاضر ”تو اس کے یہ معنی ہیں کہ میں غیرت بیگم کا ایک عُشر جو میرے نام ہے، تمہارے نام مُنتقل کر دوں؟“ ناظر ”خیر معنی مطلب تو میں سمجھتا نہیں، ایک
ا) مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
صفحہ 81
راہ کی بات جو میں نے آپ کو بتائی، اگر آپ کو مجھ سے پُرخاش نہیں ہے۔ تو جس طرح میں نے بیان کیا، درخواست لکھیے اور پیشِ حاکم اس کو چل کر تصدیق کرائیے۔ باقی مراتب میں دیکھ بھال لوں گا۔ آپ کو وہی دو خمس ملے گا جو آپ چاہتے ہیں۔“ حاضر ”غیرت بیگم کا ایک وُشر تمہارے نام تو منتقل نہیں کرا سکتا۔ وہ بھی تو ناجائز ہے۔ حق دار کو تو اس کا حق نہ ملا۔ ہاں! اگر کہو تو درخواست میں یہ بات بے شک لکھ دوں کہ میرے نام جو نصف حصّہ لکھا ہے، اس میں دو خمس میرا ہے اور ایک عُشر غیرت بیگم کا۔“ ناظر ” اس سے میری تو نصفی میں فتور پڑے گا۔“ حاضر ”پڑے گا تو تم جانو، میرے اختیار کی بات نہیں“ ناظر ”آپ کے اس اصرار سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف تقاضائے دین داری نہیں ہے، بلکہ ماموں کے سب فساد ہیں۔“ حاضر ”تم بار بار ہر پھر کر ماموں کو ان کی پیٹھ پیچھے بُرا کہتے جاتے ہو۔ مجھ کو اس بات سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے تم سے کہا کہ ماموں نے غیرت بیگم کا نام تک نہ لیا، اور تم نے میرے کہنے کو سبچ نہ جانا۔ فرض کرو ماموں ہی نے ہم کو غیرت بیگم کاحق مغصوب واپس کرنے پر آمادہ کیا تو کیا احقاقِ حق میں کوشش کرنا فساد ہے؟“ ناظر یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ ”بہت خوب معلوم ہوا۔ آپ آپا کو اُن کا حصّہ دیجیے اگر آپ سے دیا جائے، اور وہ لیں اگر ان سے لیا جائے۔ اور ماموں جس غرض سے بھانجی کی خوشامد میں لگے ہیں، مجھ کو معلوم ہے۔ مبتلا بھائی کو انہوں نے دیکھ پایا ہے، بھولا بے وقوف۔ چاہتے ہیں کہ بھانجی کے نام سے بڑے ماموں کی تمام املاک پر خُود قابض ہو جائیں۔ لیکن (مونچھوں پر تاؤ دے کر ) اگر ناظر کے دم میں دم ہے، تو ماموں کو ایسا مزا چکھاؤں کہ سات برس بعد تو حج سے پھر کر آنا نصیب ہوا، اب ان کو ہجرت ہی کرنی پڑے تو سہی۔ آپا کا حصّہ لینا ایسا کیا ہنسی کھیل ہے۔“ حاضر بے چارہ اپنا سا منہ لے کر سیّد نگر واپس گیا۔ غمگین، اُداس، کیا خدا کی شان ہے کہ کل شاموں شام سیّد متّقی کے وعظ سے حاضر متنبہ ہوا، تونہ کی، تلافئ مافات پر آمادہ ہوا، راتوں رات بھاگا ہوا بھائی پاس آیا،
صفحہ 82
ابھی جی کھول کر بھائی سے باتیں نہیں کرنے پایا تھا کہ سخت امتحان میں پڑ گیا۔ وہ خُوب واقف تھا کہ ناظر ایک سانپ ہے، اس بلا کا زہریلا کہ اس کا کاٹا پانی نہ مانگے، اس کا ڈسا ہوا پھٹکا نہ کھائے۔ وہ اچھّی طرح جانتا تھا کہ ناظر اگر بگڑا اور اب اس کے بگڑنے میں کسر ہی کیا باقی تھی؟ تو کیسی زمین داری، اور کس کی حصّہ داری گاؤں کا رہنا دشوار کر دے گا، اور اس کے ہاتھوں سے زندگی و بالِ دوش ہو جائے گی۔ یہ خیال کر کے وہ جی ہی جی میں اپنے آپ کو سمجھاتا تھا، کہ ’تجھ کو بھائی کے ساتھ بگاڑنا کیا ضرور ہے؟ اگر وہ غیرت بیگم کا حصّہ نہیں دیتا نہ دے، وہ جانے اس کا کام جانے، اپنا اپنا کرنا، اپنا اپنا بھرنا۔ غیرت بیگم کو حصّہ لینا ہو گا تو آپ سے آپ نالش کریں گی۔ ہر کسے مصلحتِ خویش نکومی داند۔ میری طرف سے اتنا کافی ہے کہ ابھی سے غیرت بیگم کے حصّے سے دست بردار ہو جاؤں۔ اور اگر نالش ہو تو دعوے کی تردی نہ کروں۔ پھر سوچتا تھا کہ اب تک جو غیرت بیگم حصّے سے ہے دخل رہیں، اس کا وبال جیسا ناظر پر، ویسا مجھ پر۔ کیونکہ ہم دونوں نے مل کر غیرت بیگم کو محروم کیا ۔بلکہ ایک اعتبار سے مجھ پر زیادہ اور ناظر پر کم، کیونکہ میں پٹّی کا نمبردار ہوں، اور پٹّی کی تحصیل وصول میرے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ علاوہ اس نے کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ ہم دونوں بھائی تو بے زحمت اپنے حقوق پر قابض ہوں اور غیرت بیگم کو نالش کرنے پر مجبور کریں، صرف اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے، پردہ نشین، اور کوئی اس کے حق کی حفاظت کرنے والا نہیں؟ دنیا میں آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے؟ اور مانا کہ میں غیرت بیگم کے حصّے سے دست بردار ہو بیٹھا، تو وہی بات پھر آئی کہ میں نے نہ لیا، ناظر کو لینے دیا۔ غیرت بیگم کو تو اس کا حق نہ پہنچا۔ علاوہ بریں آج تک تو ایک غیرت بیگم کا معاملہ ہے، اس میں یہ حجت ہے۔ ابھی تو ایسے ایسے صد ہا معاملے نکلیں گے۔ غرباء کے ضعفاء کے اور ایسے لوگوں کے جن کو سوا خدا
صفحہ 83
کے کہیں پناہ نہیں۔ اور ناظر کا منشاء تو معلوم ہوچکا کہ وہ تو سوائے قانون کے، خدا اور رسول کسی سے ڈرنے دبنے والا نہیں، تو بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ بھائی سے تو ایک نہ ایک دن بگڑے ہی گئی۔ اور آج اگر غیرت بیگم کے معاملے میں میں نے ذرا بھی اپنا ضعف ظاہر کیا، پھر تو ناظر کی جیت ہے۔ غرض یہ تزلزل ٹھیک نہیں بلکہ وسوسۂ شیطانی ہے۔
صفحہ 84
گیارہویں فصل
سیّد حاضر نے بتقاضائے دین داری علی زعم انف (1) سیّد ناظر اپنی بہن کو اس کا حق دلایا
ایسے اِبتلاء کے وقت میں خدا نے حاضر کی مدد کی۔ اس کو معلوم تھا کہ ناظر کے پاس سادہ اسٹامپ کا ایک بستہ تھا۔ آخر ڈھونڈنے سے ملا۔ کھول کر دیکھتا ہے تو اس میں پُرانے پچھلے سنوں کے متعدد قطعات ہیں۔ سمجھا کہ ناظر نے کسی ارادۂ فاسد سے ان کو بہم پہنچایا ہے۔ اس نے اٹھنّی کا ایک قطعہ نیا سا دیکھ کر تو لے لیا اور باقی اس فساد کی پوٹ کو چولھے میں جھونک دیا۔ جو قطعہ اس نے نکال لیا تھا اس پر ایک درخواست لکھی، جس کی عبارت یہ تھی (نقل درخواست) کہ میں اور سیّد ناظر اور غیرت بیگم تینوں حقیقی بھائی بہن ہیں۔ غیرت بیگم کا نام پٹّی داری میں داخل ہونے سے رہ گیا ہے۔ میں پٹّی داری کا نمبردار ہوں۔ اور میرے ہاتھوں پٹّی کی تحصیل وصول ہوتی ہے۔ غیرت بیگم کے حق اور قبضہ کو میں تصدیق کرتا ہوں۔ اس لیے غیرت بیگم کا نام ایک خُمس حصّے پر چڑھا دیا جائے۔ اور اسی وقت درخواست کو رجسٹری کرا، حاکمِ پرگنہ کے نام روانہ کر دیا۔ وہاں سے معمول کے مطابق اشتہات
1) بر خلاف
صفحہ 85
جاری ہوا۔ اشتہار کا آنا تھا کہ سیّد ناظر نے عذر داری کی۔ مقدمہ لڑنے لگا۔ کلکٹری میں تو سرسری کارروائی ہوتی ہے اور صرف قبضہ دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ نمبردار پٹّی نے، جس کے ہاتھ سے پٹّی کی تحصیل وصول تھی غیرت بیگم کے قبضے کی تصدیق کی، اس سبب سے ناظر کی عزرداری نامنظور اور غیرت بیگم کا نام ایک خُمس پر داخل ہونے کا حکم ہو گیا۔ مگر سیّد ناظر محکمۂ کلکٹری کو کیا مال سمجھتا تھا۔ جس وقت داخل خارج کا تک پہنچا تو اس کے مختار نے تسلّی کے طور پر اس سے کہا کہ نمبردار کے بیانِ مجرد پر حُکم ہو گیا ہے۔ حاکم کی رائے ہے۔ اپیل کی بڑی گنجائش ہے۔“ ناظر نے کہا ”اے میاں! کہاں کیا اپہل؟ اور کب کا مرافعہ؟ کل تو نہیں، پرسوں تم کو والد کا تحریری وصیّت نامہ لا کر دیتا ہوں۔ اس کی بنیاد پر اثباتِ حقّیت کا دعویٰ (خاک از تودۂ کلاں بردار) دیوانی میں دائر کرو۔ تو نمبر دار صاحب کی ساری شیخی کرکری ہو جائے گی“ناظر وصیّت نامہ لینے گھر دوڑا ہوا آیا اور اشٹامپ کے بستے کی تلاش میں سیدھا کوٹھڑی میں گھُسا۔ بستہ ندارد۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔ معلوم ہوا کہ ایک بستہ تو بڑے میاں کوئی ڈیڑھ مہینہ ہوا جلا چکے ہیں۔ یہ سُنتے ہی پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ حاضر ناظر کا جھگڑا ہمارے قصّے سے متعلق نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ دونوں بھائیوں میں ایسی چلی کہ سیّد نگر والوں میں بھی جو سُنتا، دانتوں میں انگلی رکھ لیتا تھا۔ قاعدہ ہے کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ سیّد حاضر کے ساتھ غیرت بیگم اور غیرت بیگم کی لپیٹ میں متّقی کی بھی شامت آئی۔
صفحہ 86
بارھویں فصل
سیّد ناظر کے میر متّقی کی نسبت عرضی گمنام، میر متّقی کے سمجھانے سے صلح ذات البین کا ہونا
ناظر کو شروع میں صرف اسی پر اصرار تھا کہ غیرت بیگم کو حصّہ نہ دوں۔ اسٹامپ کے بستہ کا جلانا سن کر بھائی پر نہایت برافروختہ ہوا، اور اُس نے دیوانی میں سالم حقیقت کا دعویٰ دائر کیا۔ اس بیان سے کہ نہ حاضر میر باقر کا بیٹا ہے اور نہ غیرت بیگم میر باقر کی بیٹی، اس نے بات کی بنائی کہ میر باقر کا اکلوتا بیٹا میں ہوں، میرے پیدا ہونے میں دیر ہوئی تو میر باقر لَے پالک کے طور پر حاضر کی پرورش اور پرداخت کرنے لگے۔ اور اس بیان کی تائید میں اسٹامپ کے کاغذ پر ایک وصیت نامہ پیش کیا، جس پر میر باقر کی مہر تھی اور اس کا سوا دخط بھی میر صاحب کے خط سے اشبہ۔ میر متّقی کی نسبت ایک گمنام عرضی لفٹنٹی مین پہنچی کہ سلطان روم کی طرف سے جاسوسی بن کر آئے ہیں، اور لوگوں کو چُپکے چُپکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں، اور عن قریب ہندو مسلمانوں میں ان کے اغوا سے فسادِ عظیم ہونے والا ہے۔
سیّد حاضر کو جب دیوانی کے دعوے کیا معلوم ہوا، تو عرضی دعوی کی نقل لے کر سیّد متّقی کے پاس دوڑا ہوا آیا۔ سیّد متّقی کو اس وقت تک داخل خارج کے سوا کچھ حال معلوم نہ تھا۔ دور سے حاضر کو دیکھتے ہی خوش ہو کر لگے تحسین و رضا کی
صفحہ 87
باتیں کرنے۔ حاضر نے پاس آ کر ناظر کے عرضی دعویٰ کی نقل دکھائی تو إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ کہہ کر ایسے سنّاٹے میں گئے کہ بہت دیر ہو گئی، اور بھلا یا بُرا کوئی لفظ مُنہ سے نہ نکالا تو حاضر نے خود ابتدا کی اور کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا تھا کہ میں تو اپنے میں ناظر کے مقابلے کی طاقت نہیں پاتا۔ عزّت کو، آبرو کو، سچّائی کو، دین کو، ایمان کو، خوفِ خدا کو سب کو بالائے طاق رکھ دوں، تو ناظر کے ساتھ لڑنے کا نام لوں۔ اور یہ مجھ سے اب نہیں ہو سکتا۔ ہر چند رہ رہ کر غصّہ آتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اس مردک کو اُسی قانون سے جس پر اس کو بڑا گھمنڈ ہے، اس کے کیے کی ایسی سزا دلواؤں کہ ساری عُمر اس کو قید سے نجات نہ ہو۔ اور اس کی تدبیریں سمجھ میں آتی ہیں اور میرے اختیار میں بھی ہیں۔ ناظر کتنا ہی قاعدہ داں اور ضابطہ شناس کیوں نہ ہو مگر آخر ہے تو مجھ سے چھوٹا۔ لیکن آپ کے ارشاد کے مطابق میں خدا سے عہد کر چکا ہوں کہ دنیا کے لیے دین کو نہیں بگاڑوں گا۔ اب دنیا میں ایک نہیں ہزار فضیحت اور ایک نقصان نہیں ہزار نقصان کیوں نہ ہو جائیں، اس عہد کو توڑ نہیں سکتا۔ مگر ناظر کے حملے سے بچنے کے لیے میں نے ایک تدبیر سوچی ہے کہ میر غالب کو تو آپ جانتے ہوں گے، وہ بھی ان دنوں سیّد نگر کے بڑے چلتے ہوئے پرزوں میں ہیں۔ سیّد نگر خاص میں ان کا بھی تھوڑا سا حصّہ ہے۔ ان کی وکالت آج کل بڑے زوروں پر ہے ۔ چند روز ہوئے مجھ سے کہتے تھے کہ اگر کوئی حصّہ بکتا ہو تو مجھ کو خبر کرنا۔ میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ اپنا حصّہ ان کے ہاتھ فروخت کر دوں۔ جو اب تُرکی بترکی، وہ ناظر سے سمجھ لیں گے۔ اتنا ہی خیال ہے کہ گاؤں میں حصّہ ہے، تو رعایا پر سو طرح کی حکومت ہے۔ مگر جس طرز پر مجھ کو آیندہ زندگی کرنی منظور ہے اس کے لیے مجھ کو حکومت درکار نہیں۔ آپ سے اتنی بات پوچھنی تھی کہ اگر آپ کی اصلاح ہو، تو غیرت بیگم کے حصّے کی بھی بات چیت میر غالب سے کی جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ غیرت ہیگم کو ناظر چین لینے دے گا۔ یہ سن کر میر متّقی نے کہا کہ ”ان معاملات
صفحہ 88
کو تم مجھ سے بہتر سمجھتے ہو، قرابت کے اعتبار سے بھی تم نزدیک تر ہے اور تمہارے معاملے کی سچّائی کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ تم نے بے فریاد، بے نالش غیرت بیگم کو اس کا حق دیا اور دلایا، اور بلکہ حق کے واسطے تم نے بھائی سے بگاڑی اور اِس بگاڑ کے نتیجے کی پہلی قسط یہ عرضی ہے جو تم نے مجھ کو دکھائی۔ خدا حق ہے اور وہ حق سے راضی ہوتا ہے۔ اور وہی حق داروں کی حمایت کرنے والا ہے۔ اور انشاء اللہ آخر حق کو غلبہ ہے۔ اَلحَق یَعلُو (1)۔ اس بات میں تم اپنی بہن سے مشورہ کرو۔ لیکن اگر میری رائے پوچھتے ہو تو شروع سے تم نے وہ کیا، اور آئندک بھی کرنا چاہتے ہو جو دنیا میں سبھی راست معاملہ کیا کرتے ہیں۔ اور بلاشبہ شرع کی رو سے تم پر کوئی الزام نہیں مگر الزام کے عائد نہ ہونے سے تم کسی تحسین کے بھی مستحق نہیں ہو سکتے۔ مجھ سے اگر تم نے پہلے پوچھا ہوتا تو میں یہ صلاح دیتا، اور اب بھی تم کو اور غیرت بیگم دونوں کی صلاح دیتا ہوں کہ اگر کر سکو تو اپنے حق سے دست بردار ہو جاؤ۔ ایسی کون سی بڑی مالیت ہے؟ خدا نے تم کو بہت کچھ دے رکھا ہے۔ ناظر کو موروثی کچوانسیاں مبارک، لے کر دہی بڑے آدمی بنیں۔ آخر وہ بھی تو کوئی غیر نہیں، گھی کہاں گیا کھچڑی میں! تین بہن بھائیوں کے پاس نہ رہا، ایک کے پاس رہا۔ بلاشبہ حصّہ گو کتنا ہی جزوی کیوں ہو، چھوڑنا مشکل ہے۔ خصوصاً جب کہ موروثی ہو، اور اسی گاؤں کا ہو، جس میں رہنا سہنا ہے۔ اور چھوڑنا بھی اس حالت میں کہ گالی گلوچ تک نوبت پہنچ چکی ہو۔ لیکن تم خود کہتے ہو کہ اب بدوں فضیحت کے اس کا سنبھالنا ممکن نہیں. حصّہ منتقل کر دینے کی تجویز جو تم نے سوچ ہے، صرف من سمجھوتی ہے۔ آخر اس کی تحقیقات تو ہو ہی گی، تمہارے مقابلہ میں ہو یا خریدار کے کہ تم دونوں میر باقر کی اولاد ہو، جیسا کہ واقعی ہے، یا نہیں ہو جیسا کہ ناظر نے عرضی دعوے میں لکھا ہے۔
1) حق غالب ہوتا ہے۔
صفحہ 89
اگرچہ کامل یقین ہے کہ آخر کار تم کو ناظر کے مقابلہ میں ظفر ہو گی لیکن پھر ہمیشہ کے لیے وہ تم سے چھوٹ جائے گا اور تم اس سے، اور مدّت العمر تم کو باہمی خرخشوں سے نجات ملنے کی امید نہیں۔ مگر جو تدبیر میں بتاتا ہوں اس کا انجام، جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے، انشاء اللہ یہی ہونا ہے کہ حصّے کا حصّہ تمہارے پاس رہے گا اور تم بھائی بہن پھر ایک کے ایک ہو جاؤ گے۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرو کہ ناظر نے کُل حصّہ لیا، مگر اس طرح پر کہ وہ لینا چاہتا ہے، یعنی جھوٹ بول کر، جعل بنا کر، بھائی کو، بہن کو ماں کو، باپ کو یعنی اپنے آپ کو رسوا اور فضیحت کرنا کیسا، صاف صاف کا بیان دے کر، تو ناظر یہ حصّہ لے کر تم کو تو خیر چھوڑ ہی دے گا۔ مگر کیا بیوی، بچّے، رشتہ دار، کُنبہ دار، قبیلہ، برادری، خاندان، دوست، آشنا، جان پہچان، ایک دم ساری دنیا کو چھوڑ دے گا؟ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ مگر سمجھتے ہو کہ دنیا اس کو کیا کہے گی؟ لعنت کرے گی۔ یگانے اور بیگانے سب اس کے منہ پر تھوکیں گے۔ لڑکے اس کے پیچھے تالیاں پیٹیں گے۔ سب کی نظروں میں وہ خوار اور بے اعتبار اور نکّو اور انگشت نما ہو گا۔ در و دیوار در کوچہ و بازار سے اس پر پھٹکار برسے گی۔ یہ حصّہ ڈھاک کے کوئلے کا ایک دہکتا ہوا آنگارا ہو گا کہ وہ ہرگز اس کو مٹھّی میں سنبھال نہ سکے گا۔ مشكل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات میں تم ایک مختار یا وکیل کے کہنے پر عمل کرتے ہو۔ اس ایک بات میں خدا کی صلاح پر بھی چل کر دیکھو کہ کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ خدا کی صلاح کیا ہے؟ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (یعنی اگر تجھ سے کوئی برائی کرے تو بھلائی کے ساتھ اس کا توڑ کر اور پھر دیکھ کہ یا تو تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی یا بات کی بات میں، وہ تیرے ساتھ گرم جوشی کرنے لگا) حقیقت میں جیسی میر متّقی نے پشین گوئی کی تھی، ویسا ہی ہوا۔ حاضر اور غیرت بیگم کی طرف سے ناظر کے دعوے کی کچھ تردید نہ ہوئی۔ قاعدے کے مطابق دعوی یک طرفہ
صفحہ 90
ڈگری ہو گیا۔ مگر کیسی ڈگری، کہ حاکم اور عملے اور اہلِ معاملہ اور چپڑاسی اور مذکوری سبھی نے تو ناظر کو ملامت کی۔ جہاں گیا اس نے لتاڑا اور جس سے ملا اس نے لتھیڑا۔ اور آخر کار، بار کر، جھک مار کر، کلنک کا ٹیکہ ماتھے پر لگا کر، جس قدر گالیاں تقدیر میں تھیں سُن کر, جتنی بدنامی قسمت میں تھی، بھگت کر، بصد منّت و بہزار خوشامد، ہاتھ جوڑ کر، پاؤں پڑ کر، وہی دو خُمس حصّہ کو، اور وہی ایک خمس غیرت بیگم کو دیا اور ساری عمر کے لیے ناحق بیٹھے بٹھائے بھائی بہن کا کنونڈا بننا پڑا، سو الگ ۔