صفی حیدر بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ نہ میں کسی قسم کا ماہر ہوں اور نہ ہی کوئی سکہ بند شاعر ہوں ۔ سکہ کھول کر پھینکے ایک زمانہ ہوا ۔
آپ ہی کی طرح کا شاعر ہوں اور سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔ بس مجھے آپ سینئر شاعر سمجھ لیجئے کہ بچپن ہی سے اس دشت کی سیاحی میں گرداں ہوں ۔ اسی تجربے کی بناء پر اپنی حقیر رائے دیتا ہوں اور ایک دو نکات کہ جو میں نے بڑوں سے سیکھے ہیں وہ یہاں استفادۂ عام کے لئے بیان کردیتا ہوں تاکہ چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ جاری رہے۔ اپنے پہلے مراسلے کے اجمال کی کچھ تفصیل یہاں لکھ دیتا ہوں ۔
حروف علت کے جائز اسقاط کے بغیر تو شاعری محال ہے ۔ بلکہ دو حرفی الفاظ از قسم ہی ،کو، سے ،کا، میں ، تو ، نہ وغیرہ کو تو تقریباً ہمیشہ ہی یک حرفی باندھا جاتا ہے سو انہیں تو عملی طور پر یک حرفی ہی سمجھنا چاہئے ۔ عام اصول یہ ہے کہ اسقاطِ حرف جتنا کم ہوگا مصرع کی روانی اتنی ہی کم متاثر ہوگی ۔ لیکن کسی بحر میں کوئی کوئی مقام ایسا ہوتا ہے کہ جہاں سقوطِ حرف سے مصرع کی روانی(مصرع کی پڑھنت یا قراءت) واضح طور پر متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک جانے میں زبان کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے بعض اساتذہ کے تبصروں میں اس طرح کی بات پڑھی ہوگی کہ یہاں الف کس بری طرح گر رہا ہے یا واؤ بہت زیادہ دب رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگرچہ ان مصرعوں میں ان حروف کا گرانا عروضی طور پر جائز ہے لیکن مصرع پڑھنے میں زبان اٹکتی ہے اس لئے ایسا کہاگیا ۔ اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ شعر اور موسیقیت (جسےانگریزی میں رِدھم کہئے) عملی طور پر ہم معنی ہیں ۔
آپ کی غزل مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن کے وزن پر ہے ۔ چونکہ اردو کا شاید ہی کوئی لفظ مفتعلن کے وزن پر پورا بیٹھتا ہو اس لئے مفتعلن میں "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف کا امکان ہے ۔ اگر آپ غالب کی اس غزل" دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں" کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گےکہ اکثر مصرعوں کے دوسرے مفتعلن میں غالب نے "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف نہیں کیا ۔ (اٹھارہ میں سے صرف چار جگہوں پر اسقاط ہے)۔ وجہ یہ کہ ایک دفعہ جب مصرع پڑھنا شروع کردیں اور زبان وزن سے آشنا ہوجائے تو دوسرے مفتعلن پر آکر جھٹکا لگنا روانی کو متاثر کرتا ہے ۔ آپ کی غزل کے جس شعر پر میں تبصرہ کیا وہ یہ تھا:
چاروں طرف ہے خامشی ، خالی پڑے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
اگرچہ اس شعر میں اسقاطِ حروف عروضی اجازات کے مطابق ہےلیکن اس میں خالی کی "ی" بری طرح گر رہی ہے۔ (ویسے روایتی طور پر اساتذہ فارسی اور عربی لفظ سے حرف گرانے کو ناجائز سمجھتے آئے ہیں )۔ مفہوم سے قطع نظر کرتے ہوئے مثال کی غرض سے اگر اس شعر کو یوں کر دیکھیں :
چار طرف ہے خامشی ، کانپ رہے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ، خوف کے سب حصار میں
تو روانی میں واضح طور پر بہتری آجاتی ہے ۔ اب اس میں اسقاطِ حروف پہلے سے بہت ہی کم ہے اور خصوصاً مفتعلن کی "ت" کے مقام پر کوئی حرف نہیں گرایا گیا۔ صفی حیدر بھائی ، یہ باتیں کتابوں میں درج نہیں ہیں ۔ یہ لطیف نکتے ہم تک صرف اہلِ علم وہنر کی صحبتوں اور توجہ سے پہنچے ہیں۔ امید ہے کہ میری گزارشات کو فراخ دل اور کشادہ پیشانی سے دیکھیں گے۔ اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔