فطرت میں ہے شانِ خود نمائی - مغنی تبسّم

کاشفی

محفلین
فطرت میں ہے شانِ خود نمائی
(مغنی تبسّم)
وہ دیکھ اُفق ہوا فروزاں
آثارِ سحر ہوئے نمایاں
تاریکی شب ہوئی ہے روپوش
خورشید ہے نور سے ہم آغوش
تازہ ہوا شورِ سازِ ہستی
وہ نغمہء دل نوازِ ہستی
دریاؤں میں آگیا طلاطم
لہروں میں پڑی ہے شورش قم
گلزار کی خوش نما فضا دیکھ
اشجار کی دل رُبا ادا دیکھ
عُریاں ہے جمالِ دشت و صحرا
آزاد خرام ہے صبا کا
دل چھین رہی ہے ہر کلی کا
نرگس کی نگاہِ بے محایا
آغوش کشا کلی کلی ہے
ہر گل میں خلش نمود کی ہے
قدرت ہوئی بے نقاب یکسر
اک جلوہء بے حجاب یکسر
ہر ذرّہ ہے محو جلوہ زائی
فطرت میں ہے شان خودنمائی
اب تو بھی نقاب کو اُٹھا دے
پردے کو حجاب کو اُٹھا دے
 

کاشفی

محفلین
یہ نظم کس مجموعے میں ہے؟ مغنی صاحب کا بہت قدیمی رنگ لگتا ہے۔
میرے پاس
مغنی تبسّم صاحب کا کوئی مجموعہ موجود نہیں ہے۔۔ دادی کے ماموں کی ایک ڈائری ملی ہے۔۔ ڈائری سے کچھ شیئر کرتا ہوں۔ کچھ کتابیں اور کچھ رسالے بھی ہیں اُن میں سے بھی شیئر کرتا رہتا ہوں۔۔۔کبھی کتابیں چھانتا ہوں۔ چھان کر کچھ نکالتا ہوں تو پھر شیئر بھی کرتا ہوں۔۔ پچھلے سال شادی ہوئی تھی تو اب اللہ کے کرم سے آٹا بھی چھان لیتا ہوں۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے پاس
مغنی تبسّم صاحب کا کوئی مجموعہ موجود نہیں ہے۔۔ دادی کے ماموں کی ایک ڈائری ملی ہے۔۔ ڈائری سے کچھ شیئر کرتا ہوں۔ کچھ کتابیں اور کچھ رسالے بھی ہیں اُن میں سے بھی شیئر کرتا رہتا ہوں۔۔۔کبھی کتابیں چھانتا ہوں۔ چھان کر کچھ نکالتا ہوں تو پھر شیئر بھی کرتا ہوں۔۔ پچھلے سال شادی ہوئی تھی تو اب اللہ کے کرم سے آٹا بھی چھان لیتا ہوں۔۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا :)
 
Top