کاشفی
محفلین
فطرت میں ہے شانِ خود نمائی
(مغنی تبسّم)
وہ دیکھ اُفق ہوا فروزاں
آثارِ سحر ہوئے نمایاں
تاریکی شب ہوئی ہے روپوش
خورشید ہے نور سے ہم آغوش
تازہ ہوا شورِ سازِ ہستی
وہ نغمہء دل نوازِ ہستی
دریاؤں میں آگیا طلاطم
لہروں میں پڑی ہے شورش قم
گلزار کی خوش نما فضا دیکھ
اشجار کی دل رُبا ادا دیکھ
عُریاں ہے جمالِ دشت و صحرا
آزاد خرام ہے صبا کا
دل چھین رہی ہے ہر کلی کا
نرگس کی نگاہِ بے محایا
آغوش کشا کلی کلی ہے
ہر گل میں خلش نمود کی ہے
قدرت ہوئی بے نقاب یکسر
اک جلوہء بے حجاب یکسر
ہر ذرّہ ہے محو جلوہ زائی
فطرت میں ہے شان خودنمائی
اب تو بھی نقاب کو اُٹھا دے
پردے کو حجاب کو اُٹھا دے