فقیرخانہ: تبرکات اور نوادرات سے مالا مال عجائب گھر

فقیرخانہ: تبرکات اور نوادرات سے مالا مال عجائب گھر
495x278x9735_16329089.jpg.pagespeed.ic.9nnNXUyIWo.jpg

شیخ نوید اسلم
شہر لاہور کی عظمت و شوکت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں اسلامی تبرکات کے آثار بھی موجود ہیں۔ تبرکات مقدسہ کا ذکر خیر بھی ان ہی بیش قیمت آثار کے ذیل میں آتا ہے لاہور میں یہ آثار دو مقامات پر ہیں بازار حکیماں کے فقیر سید مغیث الدین بخاری کے دارالنور میں اور بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کی گیلری میں۔ ان تبرکات مقدسہ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔بھاٹی دروازے سے قدیم لاہور میں داخل ہوں تو کچھ فاصلے پر دائیں جانب ایک بڑی سی حویلی نظر آتی ہے، اسے ’’فقیرخانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کو لاہور کا دوسرا بڑا عجائب خانہ تسلیم کیا گیا ہے۔ یہیں دربار عالی ہے جوکہ فقیر خانہ کا ایک حصہ ہے جہاں تبرکات اپنی اصلی حالت میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ان تبرکات کی تعداد ستائیس ہے۔ متولی فقیر سید مغیث الدین بخاری مرحوم نے ہزاروں روپے کے تصرف سے دربار عالی تعمیر کیا۔ ان تبرکات میں حضور نبی کریمﷺ کا موئے مبارک، چادر، تسبیح، مسواک، کفشس اور جائے نماز شامل ہیں۔ کچھ تبرکات حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسین، حضرت امام حسن، حضرت امام زین العابدین، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرۃ اور حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب ہیں۔ یہاں چار تبرکات ایسے ہیں جو خاندان فقرا کو اپنے مورث اعلیٰ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری سے ورثے میں ملے ہیں باقی تمام تبرکات وہ ہیں جو شاہ محمد باز سے فقیر سید نور الدین نے تین لاکھ روپے کے عوض حاصل کرکے انہیں ایک خاص عمارت میں محفوظ رکھا اور ان کی دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تقریباً آٹھ لاکھ کی جائیداد بھی وقف کی۔ فقیر خانہ عجائب گھر، میں سات ہزار نوادرات موجود ہیں ۔اس کے علاوہ چھ ہزار سکے بھی ہیں۔ سکوں کو ملا کر ان کی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ بن جاتی ہے تبرکات اور نوادرات کی تاریخ بہت پرانی ہے خاندان فقراء کے بزرگ وزیر فقیر سید نورالدین نے1853ء میں لارڈ لارنس کی فرمائش پر ان تبرکات کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور ان کی تفصیل فارسی زبان میں قلمبند کی۔ یہ سادات خاندان اٹھارویں صدی میں اوچ شریف سے چونیاں اور پھر لاہور آ کر آباد ہوا۔ اس دور میں انہوں نے بھاٹی گیٹ سے باہر ایک مدرسہ قائم کیا جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی یہ تکیہ غلام شاہ کے نام سے مشہور تھا۔ لاہور کے معززین نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو خط لکھا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اس کے بعد ان بزرگوں میں طبیب بھی تھے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آنکھیں خراب ہوئیں اور اس بیماری سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی جب دوسری آنکھ خراب ہونے لگی تو اس نے شاہی حکماء کو علاج کے لیے طلب کیا ان میں خاندان سادات کے بزرگ حکیم فقیر سید غلام محی الدین بھی تھے جنہوں نے رنجیت سنگھ کو بتایا کہ ان کے بیٹے فقیر سید عزیز الدین ان کا علاج کرینگے ان کے ہمراہ حکیم حاکم رائے اور حکیم بشن داس بھی تھے۔ جب مہاراجہ کا علاج شروع ہوا تو فقیر سید عزیزالدین کی شخصیت سے متاثر ہو کر مہاراجہ نے ان سے کہا کہ وہ حکومتی معاملات میں بھی اس کی معاونت کریں۔ سید عزیزالدین دیوان تھے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی عدالت میں رہے مہاراجہ ان کی خدمات سے متاثر ہوا۔ فقیر سید عزیزالدین کے ساتھ ان کے دو چھوٹے بھائی فقیر سید امام الدین اور فقیر سید نورالدین بھی تھے، ان کی ذہانت سے متاثر ہو کر فیقر سید نورالدین کو لاہور کا گورنر مقرر کر دیا گیا یہ بھی سب دیوان تھے اس دور میں زیادہ نوادرات اکٹھے ہوئے تبرکات تو خاندانی طور پر ورثہ میں چلے آ رہے تھے۔ فقیر سید نورالدین نے تقریباً 7 ہزار کتب جمع کیں جن کا ثبوت تاریخ سے ملتا ہے پھر یہ نوادرات ورثہ کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے اور اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا جو کتابں، نوادرات اور تبرکات بچے انہیں فقیر خانہ میں جمع کر دیا۔ سید نورالدین نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کرائی جس میں لکھنؤ کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں اس کے علاوہ کتابیں، ظروف بہت اہم شاہکار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں لکڑی کے ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہکار بھی موجود ہیں فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔‘‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور میں ایک سو سات خطاطی کے سکول تھے اس لیے ہر قسم کی پینٹنگز اس عجائب گھر میں موجود ہیں نوادرات کا یہ خزانہ نسل در نسل منتقل ہونے کے باوجود بالکل محفوظ ہے فقیر سید نورالدین نے اپنے بیٹے قمرالدین کو دیا اور انہوں نے اپنے بیٹے فقیر سید جلال الدین کو دیا اور اس میں اضافہ بھی کیا۔ اس کے بعد سید جلال الدین نے اپنے بیٹے فقیر سید مغیث الدین کو دیا اس وقت ان کے بیٹے فقیر سید سیف الدین اس عجائب گھر کے انچارج ہیں۔ نوادرات سے محبت ان کے خاندان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے فقیر سید نورالدین کے بعد یہ نوادرات جس کے حوالے ہوئے اس نے نہ صرف پوری ذمہ داری سے ان کی حفاظت کی بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔ اس طرح تقریباً اڑھائی سو سال سے یہ خاندان ان تبرکات کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ 1901ء میں فقیر خانہ کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا آج بھی دنیا کے خطہ سے لوگ اس کو دیکھنے آتے ہیں۔ فقیر خانہ میں سیاحوں کی جو ڈائری رکھی گئی ہے اس کے مطابق اب تک تین لاکھ سے زائد افراد اس عجائب گھر کو دیکھ چکے ہیں فقیر سید سیف الدین نے بتایا کہ ان کے والد فقیر سید مغیث الدین کے پاس نوادرات کا ایک بڑا خزانہ موجود تھا، جگہ نہ ہونے کے باعث بیشتر سامان آج بھی بند پڑا ہے۔1974ء میں سید مغیث الدین نے500 سے زائد نوادرات لاہور عجائب گھر کو بطور امانت دے دیئے تاکہ محفوظ رہیں اور خاص و عام ان سے مستفید ہو سکیں۔ فقیر سید مغیث الدین کے انتقال کے بعد ان کی بیگم کشور جہاں نے فقیر خانہ عجائب گھر کی اپنے بچوں کی طرح حفاظت کی۔ ایک ایک چیز کو اس کی اصلی حالت میں رکھنا، موسمی اثرات اور دیمک سے محفوظ رکھنا بڑے بڑے اداروں کے بس میں نہیں لیکن بیگم فقیر سید مغیث الدین نے بڑی جانفشانی سے ایک ایک چیز کی حفاظت کی اور ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ فقیر خانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے سکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ بھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے تبرکات کے علاوہ یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات اور ان کے فرامین بھی موجود ہیں۔ چار سو سال قبل ازمسیح کے سکے اور گندھارا آرٹ کے نمونے بھی موجود ہیں فقیر سید سیف الدین نے بتایا کہ آج بھی اگر انہیں پتہ چلے کہ نوادرات کہیں سے مل سکتے ہیں تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسے فقیر خانہ کی زینت بنایا جائے۔ یہاں آنے والوں کو ایک ایک چیز کے بارے میں تفصیلات بتائی جاتی ہیں۔ (پاکستان کے آثارِ قدیمہ)
 
Top