بہت عرصے بعد تشریف لائے جناب
نعمان رفیق مرزا صاحب۔
حسب معمول آپ کی یہ تحریر نہایت عمدہ ہے۔ اور آپ نے معاشرے میں موجود ان کرداروں کابخوبی تعارف کروایا ہے۔ اصل فقیر کی شناخت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بھکاری البتہ فورا پہچانے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس 'پیشے' کے ساتھ وابستہ چند مخصوص 'اوصاف' کے حامل ہوتے ہیں جو بعض اوقات بڑے دلچسپ ہوتے ہیں مثلا میں ایک مرتبہ بازار میں اپنےچھوٹےبھائی کی دوکان پر بیٹھا تھا۔ جمعرات کا دن تھا اور بھکاریوں کی ریل پیل تھی۔ انہوں نے پورے بازار (جو خاصا طویل ہے) میں پہلے ایک جانب کی دوکانوں سے مانگنا ہوتا ہے اور پھر دوسری جانب جاکر ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہی عمل دوہرانا ہوتا ہے۔ اسلئے وہ قدرے جلدی میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کی وجہ سے زیادہ تر انہیں بھیک مل جاتی ہے تاہم، بعض جگہوں پر جواب میں 'معاف کرو' بھی سننا پڑتا ہے۔ بھائی کی دوکان پر آ کر ایک بھکاری نےصدا لگائی، بھائی ذرا گاہکوں میں مصروف تھا۔ بھکاری نے پھر وہی صدا لگائی لیکن بھائی کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تیسری مرتبہ صدا لگانے کے چند لحظوں کے بعد کہنے لگا ' اوجی!کجھ دینا جے کہ معاف کرئیے؟'
اس کے لہجے سےایک' دھونس' کاعنصر صاف ظاہر ہو رہا تھا!