بافقیہ
محفلین
کل آپ کے پسندیدہ اشعار لڑی میں فقیر محمد خاں گویاؔ کا ایک شعر نظر سے گزرا۔ شعر یہ تھا:
شام کو پڑھنی نمازِ صبح واجب ہوگئی
روئے عالمتاب سے سرکا جو گیسو یار کا
اچھل پڑا ۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چونکہ کلاسیکی ادب کا شیدا ہوں۔ یہ نام دسیوں نہیں سینکڑوں بار نظر سے گزرا۔ لیکن کبھی اس چھاؤں تلے دم نہیں لیا۔ اس شعر نے اس قدر جذب کرلیا کہ ریختہ پر شامل ان کی تمام غزلیں پڑھ لیں۔ پھر کہیں ان کے گیسوئے دراز سے باہر نکلا۔
محفل پر مایہ ناز شعرا کے ساتھ ادب کے دلدادہ اور اہل ذوق بھی موجود ہیں۔
میں نے گویاؔ کی شاعری پڑھی ۔ ایک مقناطیسی کشش تھی جو کھینچے چلی جاتی تھی۔ وہ کشش کیوں تھی؟ اس کی کچھ مثالیں پیش کررہا ہوں۔۔۔
الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی
یہ روئے کہ نامہ بہہ کے پہنچا
اشکوں نے ہمارے قاصدی کی
بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی
اور
نیم بسمل کی کیا ادا ہے یہ
عاشقو لوٹنے کی جا ہے یہ
دود دل کیوں نہ رشک سنبل ہو
آتش حسن سے جلا ہے یہ
زلف میں کیوں نہ دل رہے بیدار
لیلۃ القدر سے سوا ہے یہ
چومتا ہوں میں اپنے دل کے قدم
بوسۂ یار کا گدا ہے یہ
دفن مسجد میں میرے دل کو کرو
طاق ابرو پہ مر گیا ہے یہ
طاق ابروئے یار کو دیکھوں
عین کعبے میں التجا ہے یہ
قد جاناں نہیں قیامت ہے
زلف جاناں نہیں بلا ہے یہ
اور
قتل عشاق کیا کرتے ہیں
بت کہاں خوف خدا کرتے ہیں
خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں
مہندی ملنے کے بہانے قاتل
کف افسوس ملا کرتے ہیں
جو ہمیں بھول گیا ہے ظالم
اس کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
ہم بنے چاند کے ہالے گویاؔ
گرد اس مہ کے رہا کرتے ہیں
میں تو اس گویا کے دام کا اسیر بن گیا۔ آپ کا فیصلہ آپ کا ذوق کرے گا۔
اور ایک خاص بات یہ ہے کہ آنجناب ، جناب جوش کے پردادا ہیں۔
ساتویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا بھی نام آتا ہے۔ ۱۸۵۰ کی وفات ہے۔ لگتا ہے غالب سے بھی رسم و راہ رہی ہوگی۔
شام کو پڑھنی نمازِ صبح واجب ہوگئی
روئے عالمتاب سے سرکا جو گیسو یار کا
اچھل پڑا ۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چونکہ کلاسیکی ادب کا شیدا ہوں۔ یہ نام دسیوں نہیں سینکڑوں بار نظر سے گزرا۔ لیکن کبھی اس چھاؤں تلے دم نہیں لیا۔ اس شعر نے اس قدر جذب کرلیا کہ ریختہ پر شامل ان کی تمام غزلیں پڑھ لیں۔ پھر کہیں ان کے گیسوئے دراز سے باہر نکلا۔
محفل پر مایہ ناز شعرا کے ساتھ ادب کے دلدادہ اور اہل ذوق بھی موجود ہیں۔
میں نے گویاؔ کی شاعری پڑھی ۔ ایک مقناطیسی کشش تھی جو کھینچے چلی جاتی تھی۔ وہ کشش کیوں تھی؟ اس کی کچھ مثالیں پیش کررہا ہوں۔۔۔
الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی
یہ روئے کہ نامہ بہہ کے پہنچا
اشکوں نے ہمارے قاصدی کی
بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی
اور
نیم بسمل کی کیا ادا ہے یہ
عاشقو لوٹنے کی جا ہے یہ
دود دل کیوں نہ رشک سنبل ہو
آتش حسن سے جلا ہے یہ
زلف میں کیوں نہ دل رہے بیدار
لیلۃ القدر سے سوا ہے یہ
چومتا ہوں میں اپنے دل کے قدم
بوسۂ یار کا گدا ہے یہ
دفن مسجد میں میرے دل کو کرو
طاق ابرو پہ مر گیا ہے یہ
طاق ابروئے یار کو دیکھوں
عین کعبے میں التجا ہے یہ
قد جاناں نہیں قیامت ہے
زلف جاناں نہیں بلا ہے یہ
اور
قتل عشاق کیا کرتے ہیں
بت کہاں خوف خدا کرتے ہیں
خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں
مہندی ملنے کے بہانے قاتل
کف افسوس ملا کرتے ہیں
جو ہمیں بھول گیا ہے ظالم
اس کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
ہم بنے چاند کے ہالے گویاؔ
گرد اس مہ کے رہا کرتے ہیں
میں تو اس گویا کے دام کا اسیر بن گیا۔ آپ کا فیصلہ آپ کا ذوق کرے گا۔
اور ایک خاص بات یہ ہے کہ آنجناب ، جناب جوش کے پردادا ہیں۔
ساتویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا بھی نام آتا ہے۔ ۱۸۵۰ کی وفات ہے۔ لگتا ہے غالب سے بھی رسم و راہ رہی ہوگی۔
آخری تدوین: