ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
کئی برس پہلے ایک کانفریس کے سلسلے میں فلاڈیلفیا کی تاریخی ڈسٹرکٹ میں چند روز قیام رہا ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ اوائلِ سرما کی ایک خنک رات تھی ۔نیند کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ تنہائی سے اُکتا کر میں ہوٹل سے نکل آیا اور بے ارادہ مٹر گشت شروع کردی ۔ فلاڈیلفیا کی تاریخی ڈسٹرکٹ کے گلی کوچے اسرار و رموز سے بھرپور ایک عجیب حسن رکھتے ہیں ۔ فلاڈیلفیا میرے پسندیدہ شہروں میں سے ہے۔ یہ چند مسلسل اشعار اُسی سیر ِشبانہ کی یادگار ہیں ۔
تارہ تارہ بکھر رہی ہے رات
دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات
ہاتھ میں کاسہء فراق لئے
سر جھکائے گزر رہی ہے رات
کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی
سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات
میری آوارگی کے پہلو میں
کوبکو در بدر رہی ہے رات
اک دریچے سے راہ تکتی ہے
سہمی سہمی ہے ، ڈر رہی ہے رات
آئنہ رو ہے منتظر کب سے
بال کھولے سنور رہی ہے رات
نیم روشن سی خوابگاہوں میں
بے لبادہ بکھر رہی ہے رات
برگِ عارض پہ صورتِ شبنم
قطرہ قطرہ اُتر رہی ہے رات
پھر تجھے بھولنے کی کوشش میں
جانے کیا یاد کر رہی ہے رات
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ اکتوبر ۲۰۰۳ ۔ ۔ ۔
دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات
ہاتھ میں کاسہء فراق لئے
سر جھکائے گزر رہی ہے رات
کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی
سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات
میری آوارگی کے پہلو میں
کوبکو در بدر رہی ہے رات
اک دریچے سے راہ تکتی ہے
سہمی سہمی ہے ، ڈر رہی ہے رات
آئنہ رو ہے منتظر کب سے
بال کھولے سنور رہی ہے رات
نیم روشن سی خوابگاہوں میں
بے لبادہ بکھر رہی ہے رات
برگِ عارض پہ صورتِ شبنم
قطرہ قطرہ اُتر رہی ہے رات
پھر تجھے بھولنے کی کوشش میں
جانے کیا یاد کر رہی ہے رات
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ اکتوبر ۲۰۰۳ ۔ ۔ ۔