فلسفہ حدود و تعزیرات

مآخذ
x9644_30056348.jpg.pagespeed.ic.axHLmLqKOH.jpg
 
پھانسی کی سزا محض دہشت گردوں کے لئے ہی نہیں سب کے لئے بحال ہونی چاہئے۔ اور یہ سزا سر عام ملنی چاہئے البتہ بچوں کی غیر موجودگی میں
 
دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر نو کی بحث ایک بے حد نازک بحث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعبیر نو کی ضرورت فکر ونظر کے دائرے میں سامنے آنے والے نئے زاویہ ہاے نگاہ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسلامی قانون کے تناظر میں نئے زاویہ ہاے نگاہ پیش کیے جانے اور ان کی تہذیب و تنقیح کی ایک روایت تو داخلی سطح پر ہمیشہ سے موجود رہی ہے، تاہم گذشتہ دو صدیوں میں انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا اور بالخصوص مغرب کے تہذیبی اثرات کے تحت جدید قانونی فکر نے بھی اسلامی قانون کی روایتی تعبیر کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور اپنے تئیں ان سوالات کے جوابات بھی متعین کیے ہیں۔ جدید مغربی فکر چونکہ اپنی اساس میں ایک غیر مذہبی فکر ہے اور اخلاقی وقانونی اقدار اور ترجیحات کے تعین میں مذہبی مآخذ کی فراہم کردہ رہنمائی کی پابندی کو قبول نہیں کرتی، اس لیے بدیہی طور پر اس کے زیر اثر متعین کیے جانے والے جوابات بھی مذہبی زاویۂ نگاہ سے کلیتاً قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ اس تناظر میں اسلامی قانون کی تعبیر نو کا دائرۂ کار اور بنیادی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ جدید قانونی فکر کے اٹھائے ہوئے سوالات کو لے کر دین کے بنیادی مآخذ، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کرے اور اس بات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ قرآن وسنت کی ہدایات وتصریحات یا ان کی متعین کردہ ترجیحات کی روشنی میں ان کے حوالے سے کیا موقف اختیار کیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اسلامی قانون کی اطلاقی تعبیر کی جو روایت پہلے سے چلی آ رہی ہے، اس کا تنقیدی جائزہ لینا بھی تعبیر نو کے اس عمل کا ایک ناگزیر حصہ ہے، تاہم اس ساری بحث میں بنیادی مآخذ قرآن وسنت کو مانتے ہوئے تگ وتاز کا اصل ہدف قرآن وسنت کے منشا کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنا ہوناچاہیے۔
گویا تعبیر نو کا سوال درحقیقت اسلامی قانون کو جدید مغربی فکر کے سانچے میں ڈھالنے کا نہیں، بلکہ جدید قانونی فکر کے اٹھائے ہوئے سوالات کو قرآن وسنت کے نصوص پر ازسرنو غور کرنے کے لیے ایک ذریعے اور حوالے کے طور پر استعمال کرنے کا سوال ہے اور ہمارے نزدیک اس عمل میں اہل سنت کے اصولی علمی مسلمات اور فقہی منہج اور مزاج کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اصول، جسے افسوس ہے کہ بعض معاصر علمی مکاتب فکر نظر انداز کر رہے ہیں، شرعی احکام کو اصولی حیثیت میں ابدی وآفاقی اور شرعی واخلاقی اقدار کے تعین کے لیے قرآن وسنت کے نصوص کو حتمی معیار تسلیم کرنا ہے۔ اسلامی قانون میں یقیناًثبات اور تغیر کے دونوں عنصر موجود ہیں، لیکن اس کے مستقل اور متغیر اجزا کے مابین فرق کرنے کا واحد معیار نصوص ہیں اور ان کا دامن تھامے رکھنا ہی دین کی مستقل اور ابدی قدروں کے تحفظ کی واحد ضمانت ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی ذہن جن بہت سے دیگر عوامل سے متاثر ہوتا ہے، قرآن وسنت پر غور کرتے ہوئے ان سے کلی طورپر مجرد نہیں ہو سکتا۔ یہ عوامل نصوص کے فہم پر بھی یقیناًاثرانداز ہوتے ہیں اور نتیجتاً مذہبی متن کے حقیقی مدعا تک رسائی میں اسے الجھنیں اور مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ یہ مشکلات ہمارے ہاں اصولی سطح پر اصول تفسیر اور اصول فقہ کے مباحث میں زیر بحث آئی ہیں اور نصوص کی تعبیر کے مختلف امکانات میں سے کسی ایک امکان کو راجح قرار دینے کے متنوع علمی اصولوں اور زاویہ ہاے نگاہ پر اس ذخیرے میں تفصیلی مباحث موجود ہیں۔ اس پیرا ڈائم میں دو باتیں نمایاں ہیں: ایک یہ کہ اس میں نصوص کے وضوح اور عدم وضوح کی دو الگ الگ صورتوں کو تسلیم کیا گیا ہے اور وضوح کے مختلف درجات ومراتب کی بنیاد پر نصوص سے کیے جانے والے استدلال کی قطعیت یا ظنیت کو طے اور اختلاف راے کی گنجایش کو متعین کرنے کا ایک واضح نظام موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس میں کوئی بھی موقف اختیار کرنے کے لیے حتمی اور آخری ماخذ خود نصوص کو مانا گیا ہے اور نصوص ہی کے داخلی قرائن وشواہد کی روشنی میں ہر ہر مسئلے میں کسی بھی تعبیری امکان یا رجحان کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس طریقۂ تعبیر میں جزوی اختلافات کا دائرہ کتنا ہی وسیع ہو جائے، شریعت کی اساسی اقدار اور اس کے احکام کا بنیادی سانچہ محفوظ رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نصوص کو معیار قرار دینے کے بجاے شرعی احکام وقوانین کا محل خود شریعت کے داخلی اصولوں سے ہٹ کر کسی خارجی نظام فکر کے اثرات کے تحت متعین کرنے یا اس کی اہمیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا نتیجہ شریعت کے پورے ڈھانچے کے منہدم ہو جانے کی صورت میں نکلے گا۔ اس وجہ سے ہم کسی تقلیدی ذہن کے تحت نہیں، بلکہ علیٰ وجہ البصیرۃ اہل سنت کے اساسی منہج اور علمی اصولوں کو درست سمجھتے اور اپنے فہم کی حد تک ان کی پابندی کو ضروری تصور کرتے ہیں۔
البتہ، ہمارے نزدیک اہل سنت کی علمی روایت اپنے ثوابت اور متغیرات، دونوں سے مل کر مکمل ہوتی ہے اور اختلاف، تنوع اور لچک بھی اس کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ نصوص اور انسانی فہم کے باہمی تعامل سے نصوص کی تعبیر وتاویل کے مختلف، بلکہ بعض اوقات مخالف امکانات کا پیدا ہوجانا ناگزیر ہے اور اہل علم اصل خدمت ہی یہ انجام دیتے ہیں کہ اپنے اپنے فہم واستعداد، فکری پس منظر اور درپیش عملی حالات کی روشنی میں قرائن وشواہد کی مدد سے انسانی ذہن کو ان امکانات کی طرف متوجہ کر دیں۔ عہد صحابہ سے لے کر آج تک امت مسلمہ کی ساری مستند علمی و فکری روایت اپنے تمام تر اختلاف اورتنوع کے ساتھ اسی بنیادی نکتے سے پھوٹی ہے۔ اس عمل کو کسی خاص زمانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا اور نہ عملاً کبھی ایسا ہوا ہے کہ فکر ونظر کا کوئی نیا زاویہ دریافت کیا گیا ہو، اسے مضبوط استدلال کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہو اور علمی دنیا اس سے گریز کا تحمل کر سکی ہو۔
ہماری راے میں نصوص کی تعبیر وتشریح میں اختلاف اور تنوع کی گنجایش جس قدر اسلام کے صدر اول میں تھی، آج بھی ہے اور سابقہ ادوار میں مخصوص علمی تناظر میں مخصوص نتائج کو حاصل ہونے والا قبول ورواج اس گنجایش کو محدود کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس نکتے کا وزن اس تناظر میں مزید نمایاں ہو جاتا ہے کہ مدون علمی ذخیرہ گذشتہ چودہ سو سال میں ہر دور اور ہر علاقے کے اہل علم تو کیا، صدر اول کے علما وفقہا کے علمی رجحانات اور آرا کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کرتا۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ علم وفکر سے اشتغال رکھنے اور علمی مسائل پر غور کرنے والے اہل علم کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو نہ تو خود اپنے نتائج فکر کو تحریری صورت میں محفوظ کرنے کا اہتما م کرتی ہے اور نہ سب اہل علم کو ایسے تلامذہ ورفقا میسر آتے ہیں جو ان کے غور وفکر کے حاصلات کو آیندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ صحابہ میں سے علم وتفقہ کے اعتبار سے خلفاے راشدین، سیدہ عائشہ، معاذ بن جبل، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن مسعود، سیدنا معاویہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم نہایت ممتاز ہیں اور یہ حضرات عملی مسائل کے حوالے سے راے دینے کے علاوہ قرآن مجید کو بھی خاص طور پر اپنے تفکر وتدبر کا موضوع بنائے رکھتے تھے، تاہم تفسیری ذخیرے میں ہمیں ابن عباس اور ابن مسعود کے علاوہ دیگر صحابہ کے اقوال وآرا کا ذکر شاذ ہی ملتا ہے۔
صحابہ کے دور کے جوفتاویٰ اور واقعات ہم تک پہنچے ہیں، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو اس وقت کے معروف علمی مراکز میں پیش آئے یا جن کی اطلاع مخصوص اسباب کے تحت وہاں تک پہنچ گئی اور آثار وروایات کی صورت میں ان کی حفاظت کا بندوبست ممکن ہو سکا۔ ان کے علاوہ مملکت کے دور دراز اطراف مثلاً یمن، بحرین اور مصر وغیرہ میں کیے جانے والے فیصلوں کی تدوین سرکاری سطح پر بھی نہیں کی گئی اور مکہ، مدینہ، کوفہ اور دمشق کی نمایاں تر علمی حیثیت کے تناظر میں اہل علم نجی طور پر بھی نسبتاً کم اہمیت کے حامل ان علاقوں کے علمی آثار کی حفاظت وتدوین کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ بعد میں مستقل اور باقاعدہ فقہی مکاتب فکر وجودمیں آئے تو صحابہ وتابعین کی آرا و اجتہادات کا جو کچھ ذخیرہ محفوظ رہ گیا تھا، اس کو مزید چھلنی سے گزارا گیا۔ اس طرح مدون فقہی ذخیرہ سلف کے علم وتحقیق کو پوری طرح اپنے اندر سمونے اور اس کی وسعتوں اور تنوعات کی عکاسی کرنے کے بجاے عملاً ایک مخصوص دور کے ترجیح وانتخاب کانمایندہ بن کر رہ گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کی نسبت سیدنا عمر کی فقہ کے ساتھ وہی ہے جو مجتہد منتسب کو مجتہد مطلق کے ساتھ ہوتی ہے اوریہ چاروں فقہی مذاہب درحقیقت سیدنا عمرہی کی آرا اور اجتہادات کی تفصیل پر مبنی ہیں۔ ۱؂ شاہ صاحب کے اس تجزیے میں بڑا وزن ہے، تاہم یہ دیکھیے کہ خود سیدنا عمر کی بعض نہایت اہم آرا ان چاروں فقہی مذاہب میں کوئی جگہ نہیں پا سکیں۔ مثال کے طور پر سیدنا عمر بعض آثار کے مطابق غیرمسلم کو زکوٰۃ دینے کے جواز کے قائل تھے۔۲؂ ان کے نزدیک مرتد ہونے والے شخص کو ہر حال میں قتل کر دینا ضروری نہیں تھا اور وہ اس کے لیے قید وغیرہ کی متبادل سزا کا امکان تسلیم کرتے تھے۔۳؂ ان کی راے یہ تھی کہ اگر کسی یہودی یا نصرانی کی بیوی مسلمان ہو جائے اور خاوند اپنے مذہب پر قائم رہے تو دونوں میں تفریق ہرحال میں ضروری نہیں اور سابقہ نکاح کے برقرار رکھے جانے کی گنجایش موجود ہے۔۴؂ یہ اور ان کے علاوہ بہت سی آرا ایسی ہیں جنھیں مذاہب اربعہ میں کوئی نمایندگی میسر نہیں آ سکی۔
اس ضمن میں ایک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہماری عام علمی روایت میں اہل سنت کے دو جلیل القدر فقیہوں، امام جعفر صادق اور امام زید بن علی کی آرا واجتہادات کوجو باقاعدہ مدون صورت میں موجود ہیں اور ان کی نسبت سے دو مستقل فقہی مکتب فکر امت میں پائے جاتے ہیں، قریب قریب کلی طورپر نظر انداز کر دیا گیا ہے اوران سے استفادے کا دائرہ محض اس وجہ سے محدود ہو گیا ہے کہ ان ائمہ کی فقہوں کی پیروی اختیار کرنے والے مکاتب فکر بعض کلامی اور سیاسی نظریات کے حوالے سے اہل سنت کے عمومی رجحانات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ امام ابو حنیفہ یا امام مالک کی آرا کو ابتدائی قبولیت اسی طرح کے کسی گروہ کے ہاں حاصل ہوئی ہوتی تو آج ان کی فقہی بصیرت سے روشنی حاصل کرنے کا دروازہ بھی ہمارے لیے بند ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ائمۂ اہل بیت کے فقہی رجحانات کی نمایندگی جس خصوصیت کے ساتھ امام جعفر صادق اور امام زید بن علی کی فقہوں میں ہوئی ہے، عام فقہی مکاتب فکر میں، جن کے اخذ و استفادہ کادائرہ دوسرے فقہاے صحابہ وتابعین تک وسیع ہے، نہیں ہو سکی اور اس تناظر میں اس ذخیرے سے صرف نظر کرنے کا رویہ زیادہ ناقابل فہم اور ناقابل دفاع قرار پاتا ہے۔
سابقہ علمی روایت کے ظاہری نتائج اور حاصلات کو حتمی قرار دینے کا رویہ بالخصوص فقہ اور قانون کے میدان میں اس وجہ سے بھی قبول نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ذخیرہ اپنے ماخذ کے اعتبار سے فقہاے صحابہ وتابعین کی آرا اور فتاویٰ کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع سے عبارت ہے اور ظاہر ہے کہ ان آرا اور فتاویٰ کا ایک مخصوص عملی پس منظر تھا جس سے مجرد کر کے ان کی درست تفہیم ممکن نہیں، جبکہ صدر اول کے ان اہل علم کی آرا کے حوالے سے جو مواد جس صورت میں ہم تک نقل ہوا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا کہ صحابہ اور تابعین نے کون سی متعین راے کس استدلال کی بنیاد پر اختیار کی تھی، بالعموم ممکن نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے بغیر یہ طے کرنا بھی ممکن نہیں کہ مختلف نصوص یا احکام کے حوالے سے ان کی جو آرا بیان ہوئی ہیں، وہ آیا درپیش عملی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ’اطلاقی تعبیر‘ کے طور پر پیش کی گئی تھیں یا ان میں اطلاقی صورت حال سے مجرد ہو کر نصوص کی کوئی ایسی تعبیر سامنے لانا پیش نظر تھا جو ان کی راے میں جملہ اطلاقی امکانات کو محیط تھی۔
یہی صورت حال مدون فقہی مکاتب فکر کی ہے۔ چنانچہ امام شافعی کے علاوہ، جن کی آرا بڑی حد تک خود ان کے اپنے بیان کردہ استدلال کے ساتھ میسر ہیں، باقی تینوں ائمہ کے طرز استدلال کے حوالے سے چند عمومی رجحانات کی نشان دہی کے علاوہ جزوی مسائل میں ان کی آرا کے ماخذ اور مقدمات استدلال کی تعیین کے ضمن میں تیقن سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مخصوص احکام کی تعبیر وتوجیہ اور ان کے ماخذ استدلال کے حوالے سے ان ائمہ کی راے اور منشا متعین کرنے کے باب میں ان مکاتب فکر میں اختلاف، تنوع اور وسعت کی ایک پوری دنیا آباد ہے، لیکن علما کے روایتی حلقے میں اس ساری صورت حال سے صرف نظر کرتے ہوئے مدون فقہی ذخیرے میں بیان ہونے والے ’نتائج‘ کو اجتہاد کے عمل میں اصل اور اساس کی حیثیت دے دی جاتی ہے، جبکہ ان نتائج کے پس منظر میں موجود استدلالی زاویۂ نگاہ کے مختلف امکانات ومضمرات اور ان عملی عوامل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو ان کی تشکیل پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
اس ساری طول بیانی کا مقصد اس نکتے کو واضح کرنا ہے کہ مدون فقہی وتفسیری ذخیرہ ان آرا کی نمایندگی تو یقیناًکرتا ہے جنھیں ہماری علمی تاریخ کے ایک مخصوص دور میں امت کے نہایت جلیل القدر اہل علم نے اختیار کیا اور جنھیں مختلف سیاسی وسماجی عوامل کے تحت ایک عمومی شیوع حاصل ہو گیا، تاہم یہ ذخیرہ کسی طرح بھی قرآن وسنت کے نصوص کی تعبیر کے جملہ علمی امکانات کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس پس منظر میں ہم پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے امکانات کو مدون ذخیرے کی تنگ نائے میں محدود کر دینا کسی طرح درست نہیں ہے اور قدیم وجدید زمانوں میں مختلف فکری وعملی اثرات کے تحت وجود میں آنے والی تعبیرات کی قدر وقیمت کو خود نصوص کی روشنی میں پرکھنا اور اس طرح قانون سازی کا ماخذ زمان ومکان میں محدود اطلاقی وعملی روایت کو نہیں، بلکہ براہ راست نصوص کو قرار دینا تجدید واجتہاد کا ایک لازمی تقاضا ہے۔
ہمارے نزدیک دور جدید میں اسلام کی علمی روایت کے احیا کے لیے قرآن وسنت پر براہ راست غور وتدبر کی ضرورت اور تفسیری، کلامی اور فقہی استنباطات وتعبیرات کا ازسر نو جائزہ لینے کے امکان کو تسلیم کرنا بنیادی شرط (pre-requisite)کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ چیز بذات خود ہماری علمی روایت کا حصہ ہے، کیونکہ وہ کوئی جامد اور بے لچک روایت نہیں، بلکہ صدیوں کے علمی و فکری ارتقا کا نتیجہ اور توسع اور تنوع کا مظہر ہے۔ ہم اس علمی روایت کا اصل ترجمان ابن حزم، رازی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، انور شاہ کشمیری اور حمید الدین فراہی رحمہم اللہ جیسے اکابر کوسمجھتے ہیں جو اصولی علمی منہج کے دائرے میں رہتے ہوئے سابقہ آرا وتعبیرات پر سوالات واشکالات بھی اٹھاتے ہیں اور جہاں اطمینان نہ ہو، نصوص کے براہ راست مطالعہ کی بنیاد پر متبادل تعبیرات بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم مخصوص نتائج فکر اور آرا وتعبیرات کو نہیں، بلکہ اس مزاج اور شرعی نصوص اور احکام کی تعبیر کے اس اصولی منہج کو معیار سمجھتے ہیں جو اہل سنت کے ان ائمہ اور اکابر نے اختیار کیا ہے۔ بعض مخصوص اور متعین تعبیرات کو معیار قرار دینا کسی فرقے یا گروہ کے امتیاز کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے، لیکن یہ طریقہ اہل سنت کی مجموعی علمی روایت کو اپنی گرفت میں لینے سے پہلے بھی ہمیشہ قاصر رہا ہے اور آیندہ بھی ہمیشہ قاصر ہی رہے گا۔
آیندہ صفحات میں ہم اپنے امکان کی حد تک انھی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدود وتعزیرات سے متعلق شرعی نصوص کی مختلف تعبیرات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
_______

۱؂ ازالۃ الخفاء ۲/ ۸۵۔
۲؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۰۴۰۶۔ ابو یوسف، کتاب الخراج ۱۳۶۔
۳؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۶۹۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم۱۶۶۶۵۔
۴؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۰۸۱، ۱۰۰۸۳۔
 
شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت

قوانین اور بالخصوص سزاؤں سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معاصر مسلم فکر جن چند در چند فکری اور عملی سوالات سے نبرد آزما ہے، ان میں سے اہم ترین اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں مختلف معاشرتی جرائم مثلاً، قتل، زنا، چوری، قذف اور محاربہ۱؂وغیرہ سے متعلق جو متعین سزائیں بیان کی گئی ہیں، آیا وہ ابدی اور آفاقی نوعیت کی ہیں یا ان کی معنویت اور افادیت ایک مخصوص زمان ومکان تک محدود تھی۔ ایک مکتب فکر یہ راے رکھتا ہے کہ یہ سزائیں تجویز کرتے وقت اہل عرب کے مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور اس معاشرت میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے یہ موزوں اور موثر تھیں، تاہم ان کی ظاہری صورت کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد، یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ ۲؂
یہاں تنقیح طلب نکتہ یہ ہے کہ آیا شارع نے کیا فی الواقع ان سزاؤں کی اساس یہی بیان کی ہے کہ ان کے ذریعے سے محض معاشرے میں جان ومال اور آبرو وغیرہ کا تحفظ مقصود ہے اور یہ کہ سزا کے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان سزاؤں کی ظاہری صورت میں تبدیلی کی گنجایش موجود ہے؟ قرآن مجید کے متعلقہ نصوص کے مطالعے سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اس کا زاویۂ نگاہ جوہری طور پر زیر بحث زاویۂ نگاہ سے مختلف ہے۔ قرآن ان سزاؤں کو اصلاً ’حقوق العباد‘، یعنی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور نہ اس نے ان سزاؤں کو بیان کرتے ہوئے وہ مقدمہ ہی قائم کیا ہے جو زیربحث نقطۂ نظر میں ان سزاؤں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ انسانی معاشرے میں امن ہونا چاہیے، اور چونکہ مذکورہ جرائم امن وامان کو تباہ کر دیتے ہیں، اس لیے یہ معاشرے کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے مجرموں کو مذکورہ سزائیں دی جائیں۔ قرآن نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ وہ ان سزاؤں کو ’حق اللہ‘ کے طور پر بیان کرتا ہے اور اس کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کی جان، مال اور اس کی آبرو کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر یہ حرمت کسی صورت میں ختم نہیں کی جا سکتی، اس لیے اگر کوئی مجرم کسی انسان کی جان، مال یا آبرو پر تعدی کرتا ہے تو وہ دراصل خدا کی قائم کی ہوئی ایک حرمت کو پامال کرتا ہے اور اس طرح خدا کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی جرم پر خدا کی بیان کردہ سزا دراصل خدا کا حق ہے، جس کے نفاذ کو اس نے انسانوں کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔
شرعی سزاؤں کا یہ پہلو قرآن مجید نے کم وبیش ہر موقع پر واضح کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۷۸میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔قصاص کا قانون تورات میں بھی بیان کیا گیا تھا، تاہم اس میں قاتل کو معاف کر کے دیت لینے کی گنجایش نہیں رکھی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اجازت تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ تورات کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲میں زانی مرد اور زانی عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں قرآن نے اپنی بیان کردہ سزا کے نفاذ کو اللہ کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجرم پر کوئی ترس کھائے بغیر اس پر سزا کا نفاذ اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔
سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۸میں چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سزا کو ’نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ‘، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے آیات ۳۳۔ ۳۴میں محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کی سزائیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ توبہ کی صورت میں اللہ کی طرف سے معافی کی پوری توقع ہے، اس لیے ایسے مجرموں پر سزا نافذ نہ کی جائے۔
ان سزاؤں کا یہ پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص قتل، زنا، چوری اور بہتان طرازی کا مرتکب ہو اور دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا پا لے، اس کی سزا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی، لیکن اگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا کہ وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔۳؂ایک دوسری روایت میں آپ نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ اگر کسی شخص کو دنیا ہی میں اس کے جرم کی سزا مل جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل سے بعید ہے کہ وہ آخرت میں اسے دوبارہ اس کی سزا دے۔۴؂دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ دنیا میں ملنے والی سزا بھی دراصل اللہ کا حق ہے، جس کا نفاذ مجرم کو آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی بہت سے مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہی کے نفاذ پر اصرار کیا۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا، جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں، جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے، کیونکہ) حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘ ۵؂
ایک شخص نے صفوان بن امیہ کی چادر چرا لی۔ اس کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ صفوان نے چور پر ترس کھاتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ، میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اس لیے میں اپنی چادر اس چور کو ہبہ کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے میرے پاس لانے سے قبل اسے کیوں معاف نہیں کر دیا؟ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔۶؂
حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا عوض مال کی صورت میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ انھوں نے کہا کہ ہم پانچ سو دینار تک دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔۷؂
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر حدود کے معاملے میں سفارش کو سخت ناپسند کیا اور اس پر ناراضی کا اظہار کیا۔ آپ کے سامنے بنو مخزوم کی ایک خاتون فاطمہ کو چوری کے مقدمے میں پیش کیا گیا اور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا تو اس کے قبیلے کے لوگوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور انھوں نے اسامہ بن زید کو اس کے حق میں سفارش کے لیے آمادہ کیا۔ اسامہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں سفارش پیش کی تو آپ نے فرمایا: ’اتشفع فی حد من حدود اللّٰہ‘؟ (کیا تم اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے ایک حد کے معاملے میں سفارش کر رہے ہو؟) اس موقع پر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی عزت دار شخص چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کم مرتبہ شخص چوری کا مرتکب ہوتا تو اس پر سزا نافذ کر دیتے۔ آپ نے فرمایا کہ بخدا، اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔۸؂آپ نے فرمایا کہ جس شخص کی سفارش اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے کسی سزا کے نفاذ میں حائل ہوئی، اس نے گویا اللہ کا مقابلہ کرنے کی روش اختیار کی۔۹؂آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جن لوگوں کا عمومی چال چلن اچھا ہو، ان سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس سے درگذر کیا کرو، لیکن ’حدود‘ کے معاملے میں ایسا نہ کرو۔۱۰؂
شرعی سزاؤں کو یہی حیثیت سابقہ شرائع میں بھی حاصل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہود نے تورات میں بیان ہونے والی بعض سزاؤں کو سنگین تصور کرتے ہوئے نرم سزا کی توقع پر بعض مقدمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کے اس طرز عمل پر تنقید کی اور فرمایا کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر یہ اس کو چھوڑ کر آپ کو کیسے حکم بنا سکتے ہیں؟۱۱؂نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کے منشا کو بالکل الٹتے ہوئے، مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر فرمایا: ’اللّٰہم انی اول من احیا امرک اذ اماتوہ‘ (یا اللہ، میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا)۔ ۱۲؂
اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآن وسنت ان سزاؤں کو اصلاً، ایک سماجی ضرورت کے طور پر نہیں ،بلکہ خدا کے حق کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں خود اس کے حکم کے بغیر کسی تبدیلی کی علمی و عقلی طور پر کوئی گنجایش نہیں۔ جہاں تک جرائم کے سدباب کا تعلق ہے تو یقیناًوہ بھی ان سزاؤں کا ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس کی حیثیت اضافی اور ثانوی ہے اور اسے بنیاد بنا کر سزا کی اصل اساس کو اس کے تابع بنا دینے، بلکہ بالکل نظر انداز کر دینے کو کسی طرح بھی شارع کے منشاکی ترجمانی نہیں کہا جا سکتا۔
نصوص کی روشنی میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان استدلالات پر بھی تبصرہ کر دیا جائے جو اس ضمن میں بالعموم پیش کیے جاتے ہیں:

سیدنا عمر کا فیصلہ
پہلا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیدنا عمر نے اپنے عہد حکومت میں قحط سالی کے زمانے میں چور کے لیے قطع ید کی سزا پر عمل درآمد روک دیا تھاجو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سزا کے نفاذ کو ہر حالت میں ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ تاہم یہ نکتہ اصل بحث سے بالکل غیر متعلق ہے، اس لیے کہ کسی حکم کا اصولی طور پر واجب الاتباع نہ ہونا ایک چیز ہے اور کسی مخصوص صورت حال میں اس کے اطلاق میں کسی اخلاقی اور شرعی مصلحت کو ملحوظ رکھنا ایک بالکل دوسری چیز۔ سیدنا عمر کا مذکورہ فیصلہ دوسرے دائرے کی چیز ہے اور اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ قرآن مجید نے حکم کے اطلاق کا یہ اصول خود واضح کیا ہے کہ ایک حکم کی تخصیص دین ہی کے کسی دوسرے حکم یا شرعی و اخلاقی اصول کی روشنی میں کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھیے تو شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ان تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں اور جس کے بعض اہم پہلو ہم اسی کتاب میں ’’سزا کے نفاذ اور اطلاق کے اصول‘‘ کے زیر عنوان واضح کریں گے۔ جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کرنا اور اگر وہ کسی پہلو سے معاف کیے جانے کا مستحق ہو تو اسے معاف کر دینا انھی اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول ہے۔ کسی بھی مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب مجرم کسی بھی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کے منشا کے خلاف ہے اور سیدنا عمر نے اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روک دیا تھا۔ ان کے اس فیصلے سے کسی طرح یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فی نفسہٖان سزاؤں کو ہی شریعت کا کوئی ابدی حکم تصور نہیں کرتے تھے۔
شاہ ولی اللہ کا نقطۂ نظر
دوسرا استدلال برصغیر کے جلیل القدر عالم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’علم الکلام اور الکلام‘‘ میں شاہ صاحب کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر کے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب قتل، زنا اور چوری وغیرہ سے متعلق قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو اہل عرب کی عادات پر مبنی اور ان کی مخصوص معاشرت ہی کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں ان سزاؤں کے نفاذ کو لازم قرار نہیں دیتے۔ یہ عبارت ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ’المبحث السادس‘ کے ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘ سے لی گئی ہے۔ ذیل میں ہم سیاق وسباق کی روشنی میں، اس کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
مذکورہ باب میں شاہ صاحب نے جو بحث اٹھائی ہے، اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اورملل کے وجود میں آ جانے اور ان کے اختیار کردہ سنن وشرائع میں راہ راست سے کجی اور انحراف واقع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ایک ایسا امام راشد سامنے آئے جو تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کر دے اور ان ملتوں میں پائے جانے والے انحراف کو درست کرنے کے لیے وہی کردار ادا کرے جو ایک خلیفہ راشد دوسرے ظالم حکمرانوں کے ظلم وجور کو ختم کر کے دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔ اس عالم گیر مقصد کے حصول کے لیے امام راشد کو ان عمومی اصولوں کے علاوہ جن کی وضاحت شاہ صاحب نے ’باب الارتفاق الرابع‘ میں کی ہے، چند مزید اصولوں کی بھی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب نے اس ضمن میں حسب ذیل اصولوں کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔ یہ امام راشد ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد اپنا آلہ وجارحہ بنائے اور پھر وہ قوم دنیا کی دیگر ملتوں کو اس امام کی لائی ہوئی ملت پر جمع کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
۲۔ یہ قوم صاحب ملت کی مقرر کردہ ملت کے لیے دینی حمیت کے ساتھ ساتھ نسبی حمیت بھی رکھتی ہو۔
۳۔ صاحب ملت اس مقصد کے لیے اپنے دین کو دنیا کے دوسرے سارے ادیان پر غالب کر دے جس کی صورت یہ ہو کہ اس دین کے شعائر کا عام چرچا کیا جائے، جبکہ دیگر ادیان کے شعائر کے عمومی اظہار کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اسی طرح غیر مسلموں کو قانونی اور معاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہ سمجھا جائے، بلکہ انھیں پستی اور کہتری کا احساس دلا کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
۴۔ صاحب ملت لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام کا پابند بنائے اور ان احکام کے اسرار و مصالح کے ساتھ انھیں زیادہ مشغول نہ ہونے دے، کیونکہ اسرار ومصالح پر غور کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوگا اور شریعت دینے سے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر جو مقصد ہے، وہ فوت ہو جائے گا۔
۵۔ اس دین کے بارے میں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہی واضح، آسان اور معقول دین ہے اور اس میں مقرر کیے جانے والے طریقے انسانوں کی اکثریت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، جبکہ دیگر تمام ادیان تحریف اور انحراف کا شکار ہونے کی وجہ سے قابل اتباع نہیں رہے۔
باب کے اس پورے نظم سے واضح ہے کہ یہاں بنیادی نکتہ یہ زیر بحث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت اور شریعت پر پوری انسانیت کو جمع کرنے کے لیے کون کون سے اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ان اصولوں میں سے پہلے اصول، یعنی ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد دنیا کی دیگر ملتوں کو امام راشد کی ملت پر جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کی توضیح کرتے ہوئے شاہ صاحب نے وہ عبارت لکھی ہے جو شبلی نے نقل کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کو ابدی اور آفاقی نہیں سمجھتے۔ ’باب الحاجۃ الیٰ دین ینسخ الادیان‘ کا جو بنیادی نکتہ اور رخ اوپر واضح کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں اب اس عبارت کو دیکھیے:

منہا ان یدعو قومًا الی السنۃ الراشدۃ ویزکیہم ویصلح شانہم ثم یتخذہم بمنزلۃ جوارحہ فیجاہد اہل الارض ویفرقہم فی الآفاق وہو قولہ تعالٰی کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وذلک لان ہذا الامام نفسہ لا یتاتی منہ مجاہدۃ امم غیر محصورۃ واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ہو بمنزلۃ المذہب الطبیعی لاہل الاقالیم الصالحۃ عربہم وعجمہم ثم ما عند قومہمن العلم والارتفاقات ویراعی فیہ حالہم اکثر من غیرہم ثم یحمل الناس جمیعًا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلاً ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم ویمارس کلاً منہم فیجعل لکل شریعۃ اذ الاحاطۃ بعاداتہم وما عندہم علی اختلاف بلدانہم وتباین ادیانہم کالممتنع وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ فما ظنک بشرائع مختلفۃ والاکثر انہ لا یکون انقیاد الآخرین الا بعد عدد ومدد لا یطول عمر النبی الیہا کما وقع فی الشرائع الموجودۃ الآن فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلہم الا جمع ثم اصبحوا ظاہرین بعد ذلک. ... فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدودوالارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ والاولون یتیسر لہم الاخذ بتلک الشریعۃ بشہادۃ قلوبہم وعاداتہم والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیمًا او حدیثًا.(حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۲۴۸)
’’ان اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک قوم کو سنت راشدہ کی طرف دعوت دے اور ان کا تزکیہ اور اصلاح کرنے کے بعد انھیں اپنا آلہ وجارحہ بنا ئے اور انھیں مختلف خطوں کی طرف بھیج کر ان کے ذریعے سے اہل زمین کے ساتھ جہاد کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘ کا یہی مطلب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی لاتعداد قوموں کے خلاف جہاد کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس کی شریعت کا مادہ ایک تو وہ (احکام و قوانین) ہوں جو عرب و عجم کی مہذب قوموں کے لیے ایک فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر وہ علوم و ارتفاقات جو امام کی مخاطب قوم کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس شریعت میں اس قوم کے حالات کی دوسروں کی نسبت زیادہ رعایت کی جائے۔ پھر امام راشد دنیا کے تمام لوگوں کو اس شریعت کی پیروی پر مجبور کرے، کیونکہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ وضع شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر دور کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے، اس لیے کہ اس سے شریعت مقرر کرنے کا فائدہ ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہے، اور نہ یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ امام راشد ہر قوم کے احوال و عادات کو دیکھے اور ان میں سے ہر ایک کے معاملات کا خود تجربہ حاصل کرے اور پھر سب کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کرے، کیونکہ خطہ ہاے زمین اور مذاہب کے اختلاف اور تباین کے باعث ان سب قوموں کی عادات اور اطوار کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ راویوں کی اکثریت ایک ہی شریعت کو (بہ حفاظت) آگے منتقل کرنے سے عاجز ہے تو الگ الگ شریعتوں کے نقل کیے جانے کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے! پھر یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کاامام راشد کےدین کی پیروی اختیار کرنا عام طور پر عرصۂ دراز کی کوششوں اورکاوشوں کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور نبی کی عمر اس قدر طویل نہیں ہوتی۔ چنانچہ دنیا کے موجودہ مذاہب میں ایسا ہی ہوا ہے، کیونکہ یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں ایک گروہ ہی ایمان لایا تھا جسے بعد میں غلبہ نصیب ہوا۔ ... اس صورت حال میں اس سے اچھا اور آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ امام راشد شعائر، رسوم واحکام اور ارتفاقات میں اس قوم کی عادات کی رعایت کرے جس کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اس معاملے میں بہت زیادہ سختی کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے، بلکہ ان کے لیے امام راشد کی شریعت اصولی حیثیت میں لازم رہے۔ (اولین قوم اور بعد کی اقوام میں فرق یہ ہوگا کہ) پہلوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اپنے دلوں کی شہادت اور اپنی عادات کی موافقت کی بنیاد پر آسان ہوگا، جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے یہ یوں آسان ہو گا کہ وہ اس ملت کے ائمہ اور حکمرانوں کے طریقوں اور عادات کی پیروی میں راغب ہوں، کیونکہ حکمران قوم کےطریقوں کی پیروی کی رغبت پیدا ہونا قدیم اور جدید، ہر دور میں ہر قوم کے لیے ایک فطری طریقہ رہا ہے۔‘‘
مولانا شبلی نے اس اقتباس میں ’فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرینالذین یاتون بعد‘ سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ’’اس اصول سے یہ ظاہر ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا، قتل وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے‘‘۔۱۳؂تاہم باب کے پورے نظم اور خود اس جملے کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح بھی شاہ صاحب کے مدعا کی ترجمانی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے مذکورہ اقتباس میں بنیادی طور پر دو سوالات کا جواب دیا ہے:
پہلا یہ کہ تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کرنے کے لیے امام راشد کو کسی مخصوص قوم کو اپنا آلہ و جارحہ بنانے کی ضرورت کیوں ہے؟
شاہ صاحب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تمام ملتوں کو اس ایک ملت پر بالفعل جمع کرنے کی ذمہ داری براہ راست امام راشد پر ڈال دینا مناسب نہیں تھا، کیونکہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی بے شمار اقوام کے خلاف جہاد کر کے انھیں مغلوب کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ مناسب یہی تھا کہ وہ ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے ذریعے سے اس مقصد کے لیے تیار کرے اور پھر آفاق عالم میں اس ملت کی اشاعت کی ذمہ داری اس قوم کے سپرد کر دی جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب نے شرائع اور مناہج کے حوالے سے پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم کی عادات اور سنن کو ملحوظ رکھنے کی جو اصولی بحث کی ہے ، اس کی روشنی میں اس مخصوص قوم کو دی جانے والی شریعت کی نوعیت کیا ہوگی اور دنیا کی دوسری اقوام اور ملل کو کیونکر اس کا پابند کیا جا سکے گا؟
اس کے جواب میں شاہ صاحب نے تین امکانی طریقے بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر زمانے کے ائمہ کے سپرد کر دیا جاتا۔ شاہ صاحب نے اس امکان کی صاف نفی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طریقہ، تشریع کے بنیادی مقصد اور فائدے ہی کو فوت کر دینے والا ہوتا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ شریعت کے معاملے کو اقوام اور ائمہ کی صواب دید پر چھوڑنے کے بجاے تمام لوگوں کو امام راشد ہی کی دی ہوئی شریعت کا پابند کیا جاتا (ثم یحمل الناس جمیعًا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلًا) ۔
دوسرا امکان یہ ہو سکتا تھا کہ خود امام راشد دنیا کی ہر ہر قوم کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دیتا۔ شاہ صاحب نے اس کو بھی ناممکن قرار دیا ہے، اس لیے کہ ایک تو دنیا کے دور دراز علاقوں میں آباد تمام اقوام کی عادات کا احاطہ عملاً محال ہے اور دوسرے ان اقوام کے دائرۂ ملت میں داخل ہونے کے لیے عادتاً ایک طویل عرصہ چاہیے، جبکہ امام راشد اس قدر طویل عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
ان دو امکانات کی نفی کرتے ہوئے شاہ صاحب نے تیسرے امکان کو احسن اور ایسر قرار دیا ہے، یعنی یہ کہ امام راشد کو جو شریعت دی جائے، اس میں ان عادات کو تو ملحوظ رکھا ہی جائے جو عرب وعجم کے تمام صالح مزاج اقالیم کے لیے ’مذہب طبیعی‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن اس مخصو ص قوم کے علوم وارتفاقات اور اس کے حالات کی زیادہ رعایت کی جائے جس کی طرف امام راشد کو مبعوث کیا گیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس مخصوص قوم کی عادات کی رعایت سے مقرر کی جانے والی شریعت کو دنیا کی باقی اقوام کے لیے کیسے مانوس ومالوف بنایا جائے تو شاہ صاحب نے اس کی حکمت عملی یہ بیان کی ہے کہ یہ شریعت اصولی حیثیت میں تو ان کے لیے لازم رہے، لیکن انھیں عملاً اس کا پابند بنانے کے لیے زیادہ سختی اور تنگی سے کام نہ لیا جائے (لا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ)۔ شاہ صاحب ان اقوام کو شریعت کے ان احکام سے مانوس کرنے کے لیے جو ان کے لیے ’بمنزلۂ مذہب طبیعی‘ کے نہیں ہیں، ایک دوسرا طریقہ تجویز کرتے ہیں جو ان کی راے میں ہر زمانے میں ہر قوم کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی یہ کہ بعد میں آنے والی ان اقوام میں اپنے حکمرانوں (جو پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں) کی سیرت اور طور طریقوں کی طرف رغبت پیدا ہو اور وہ ان سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اس شریعت کو اپنانے کے لیے آمادہ ہو جائیں (والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہاکالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیمًا وحدیثًا)۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شاہ صاحب کا مدعا ہرگز وہ نہیں جو شبلی وغیرہ نے اخذ کیا ہے۔ اول تو اس عبارت میں وہ فقہی اصطلاح کے مطابق خاص حدود کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کر رہے، بلکہ عمومی طور پر شرعی احکام کے نفاذ کا فلسفہ اور اس کی حکمت عملی واضح کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے شرعی احکام کے اہل عرب کی عادات پر مبنی ہونے کے نکتے کو انھیں غیر ابدی اور غیر آفاقی قرار دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ان احکام کو ابدی مان کر انھیں دیگر اقوام پر نافذ کرنے کی حکمت عملی کو موضوع بحث بنایا ہے۔ شاہ صاحب کی بیان کردہ حکمت عملی پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اہل عرب کو دی جانے والی شریعت کے احکام کو غیر عرب اقوام کے لیے لازم نہ سمجھنے کا نقطۂ نظر ان کی طرف کسی طرح منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی شرعی سزاؤں کا تعلق ہے تو شاہ صاحب نے اپنی اسی تصنیف میں ان کو الگ سے اور باقاعدہ موضوع بحث بنایا ہے اور غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ انھیں اہل عرب کی مخصوص عادات پر مبنی نہیں سمجھتے، بلکہ ان قوانین میں شمار کرتے ہیں جو عرب و عجم کی سب قوموں کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک یہ سزائیں دنیا کی تمام اقوام کے لیے لازم ہیں اور انھیں کسی حال میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ فرماتے ہیں:

اعلم انہ یجب ان یکون فی جماعۃ المسلمین خلیفۃ لمصالح لا تتم الا بوجودہ وہی کثیرۃ جدًا یجمعہا صنفان: احدہما ما یرجع الی سیاسۃ المدینۃ من ذب الجنود التی تغزوہم وتقہرہم وکف الظالم عن المظلوم وفصل القضایا وغیر ذلک ... والنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع تلک الحاجات فی ابواب اربعۃ: باب المظالم وباب الحدود و باب القضاء وباب الجہاد. ثم وقعت الحاجۃ الی ضبط کلیات ہذہ الابواب وترک الجزئیات الی رای الائمۃ ووصیتہم بالجماعۃ خیرًا.(حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۸۲۔ ۳۸۳)
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک حکمران کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ بہت سے مصالح اس کے وجود کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ مصالح بہت سے ہیں اور انھیں بنیادی طورپر دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن کا تعلق سیاست مدینہ سے ہے مثلاً، حملہ آور اور قابض ہونے والے لشکروں کی مدافعت، مظلوم کو ظالم کی دست رس سے بچانا اور مقدمات کا فیصلہ وغیرہ۔... نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حاجات کو چار ابواب میں جمع فرما دیا ہے: ایک نزاعات، دوسرے حدود، تیسرے قضا اور چوتھے جہاد۔ پھر حاجت پیش آئی کہ ان چاروں ابواب کے کلیات طے کر دیے جائیں، جبکہ جزئیات کو ارباب حل وعقد کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے اور انھیں تاکید کر دی جائے کہ وہ عوام کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ اختیار کریں۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے وہ ضروریات اور مصالح بیان کیے ہیں جو اس باب کے کلیات کو ضبط کرنے کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ جرم اور سزا کے مابین تناسب کی تعیین کو اگر لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ افراط اور تفریط کا موجب ہوتا اور لوگ اس معاملے میں اعتدال پر قائم نہ رہ سکتے، اس لیے یہ مناسب تھا کہ شارع جرم وسزا کے باب میں ’کلیات‘ کو خود متعین کر دے۔ وہ لکھتے ہیں:

ولا یمکن الاستقصاء فانہ کالتکلیف بالمحال فیجب ان تکون الاصول مضبوطۃ فان اختلافہم فی الفروع اخف من اختلافہم فی الاصول ومنہا ان القوانین اذا کانت ناشءۃ من الشرع کانت بمنزلۃ الصلاۃ والصیام فی کونہا قربۃ الی الحق والسنۃ تذکر الحق عند القوم وبالجملۃ فلا یمکن ان یفوض الامر بالکلیۃ الی اولی انفس شہویۃ او سبعیۃ ولا یمکن معرفۃ العصمۃ والحفظ عن الجور فی الخلفاء والمصالح التی ذکرناہا فی التشریع وضبط المقادیر کلہا متاتیۃ ہہنا. (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۸۳۔ ۳۸۴)
’’تمام صورتوں کا حکم بیان کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ یہ ایک امر محال کامکلف ٹھہرانے کے مترادف ہوتا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ بنیادی باتیں طے کر دی جائیں (جبکہ فروع کو متعین نہ کیا جائے)، کیونکہ اصول کے مقابلے میں فروع میں لوگوں کا اختلاف کرنا نسبتاً قابل برداشت ہے۔ بنیادی سزاؤں کو طے کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ یہ قوانین جب شارع کی طرف سے بیان کیے جائیں گے تو لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انھیں نماز اور روزہ کے احکام ہی کے مانند سمجھیں گے، کیونکہ کسی قوم کے ہاں جس چیز کو حق سمجھا جاتا ہے، عملی طریقے اس کی یاددہانی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملے کو نہ تو بالکلیہ خواہشات اور درندگی جیسی خصلت سے مغلوب انسانی نفوس کے سپرد کر دینا ممکن تھا اور نہ یہ ہو سکتا تھا کہ عادل اور انصاف پسند حکمرانوں کو (پیشگی) ممتاز کر لیا جاتا (اور عادلانہ سزاؤں کی تعیین ان کی صواب دید پر چھوڑ دی جاتی)۔ چنانچہ شرعی قانون سازی اور احکام کی ظاہری صورتوں کو متعین کرنے میں جتنے بھی مصالح پیش نظر ہو سکتے ہیں، وہ سب اس باب میں پائے جاتے ہیں (اور اسی لیے شارع نے بنیادی سزاؤں کی ظاہری صورت کو بھی متعین کر دیا ہے)۔‘‘
ان ’اصول‘ یعنی بنیادی سزاؤں کی وضاحت کرتے ہوئے جنھیں شریعت نے متعین کر دیا ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں:

واعلم انہ کان من شریعۃ من قبلنا القصاص فی القتل والرجم فی الزنا والقطع فی السرقۃ فہذہ الثلاث کانت متوارثۃ فی الشرائع السماویۃ واطبق علیہا جماہیر الانبیاء والامم ومثل ہذا یجب ان یوخذ علیہ بالنواجذ ولا یترک ولکن الشریعۃ المصطفویۃ تصرفت فیہا بنحو آخر فجعلت مزجرۃ کل واحد علی طبقتین: احداہما الشدیدۃ البالغۃ اقصی المبالغ ومن حقہا ان تجعل فی المعصیۃ الشدیدۃ والثانیۃ دونہا و من حقہا ان تجعل فیما کانت المعصیۃ دونہا.(حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۰۷)
’’جان لو کہ قتل کی صورت میں قصاص، زنا کی صورت میں رجم اور چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزائیں، ہم سے پہلی شریعتوں میں بھی موجود تھیں۔ یہ تینوں سزائیں آسمانی شریعتوں میں متوارث چلی آ رہی ہیں اور ان پر انبیا اور اقوام عالم کی اکثریت کا اتفاق رہا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی سزاؤں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور انھیں چھوڑنا نہیں چاہیے، البتہ شریعت محمدی میں ان سزاؤں میں ایک اور طرح کا تصرف کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر جرم کی سزا کے دو درجے مقرر کیے گئے ہیں: ایک بے حد سخت اور آخری درجے کی سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے سنگین قسم کے جرم میں نافذ کیا جائے اور دوسری اس سے کم تر سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے پہلے کی بہ نسبت کم سنگینجرم میں نافذ کیا جائے۔‘‘
شاہ صاحب کے نزدیک ان سزاؤں میں تخفیف یا رعایت کا فیصلہ بھی نصوص ہی کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ احادیث میں زنا کی سزا کے طور پر زانی کو جلاوطن کرنے کا جو ذکر ہوا ہے، اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اس طریقے سے متعارض روایات میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔۱۴؂
اس تفصیل سے پوری طرح واضح ہے کہ شاہ صاحب خود نصوص کے داخلی قرائن اور شرعی مصالح سے ہٹ کر محض زمان ومکان کی تبدیلی اور انسانی معاشروں کے تہذیبی مزاج کے تنوع کی بنیاد پر سزا کے متبادل طریقے اختیار کرنے کے جواز کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور ان کا نقطۂ نظر اس معاملے میں امت کے اہل علم کے متفقہ اور مجمع علیہ موقف کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔
جدید تمدنی نفسیات
بعض اہل فکر کی طرف سے شرعی سزاؤں کے نفاذکے ضمن میں ایک زاویۂ نظر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ چونکہ جدید ذہن مختلف تمدنی اور نفسیاتی عوامل کے تحت شرعی سزاؤں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے اور ان سزاؤں کا نفاذ نفسیاتی طور پر دین سے دوری کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے موجودہ دور میں ان سزاؤں کا نفاذ مصلحت کے خلاف ہے۔ ہماری راے میں یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ دین کے احکام پر موثر عمل درآمد ان کی اعتقادی واخلاقی اساسات پر مضبوط ایمان اور شکوک و شبہات کا ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس نکتے کی بنیاد پر شرعی سزاؤں کو جدید دور میں کلیتاً ناقابل نفاذ قرار دے کر مستقل بنیادوں پر متبادل سزاؤں کا جواز اخذ کرنا درست نہیں، اس لیے کہ پھر یہ معاملہ قانون کے عملی نفاذ کی مصلحت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں ایک نہایت بنیادی اختلاف کو قبول کرنے تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ذہن کو ان سزاؤں پر یہ اشکال نہیں ہے کہ یہ جرائم کی روک تھام میں مددگار نہیں یا ان سے زیادہ موثر سزائیں دریافت کر لی گئی ہیں، بلکہ اسے یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے۔ زاویۂ نگاہ کا یہ فرق قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان و اعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات و تصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجاے خود خدا کی امانت ہیں۔ چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے، جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
سزاؤں سے متعلق مذکورہ زاویۂ نگاہ کی خامی کا یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ مغربی مفکرین اخلاقیات اور انسانی فطرت کے بے حد محدود اور ناقص فہم کے تحت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی انسان کی جان ومال اور عزت و آبرو اسی وقت تک احترام اور تحفظ کی مستحق ہے، جب تک وہ قانونی اور اخلاقی حدود کو پامال نہ کرے۔ نیز یہ کہ جرم ضروری نہیں کہ ہمیشہ کسی نفسیاتی عدم توازن کا نتیجہ ہو اور مجرم کو اپنے ارادہ واختیار کے سوء استعمال کا قصوروار نہ ٹھہرایا جا سکے۔ انسان کی فطرت میں شر کا ایک قوی عنصر موجود ہے جس کے زیر اثر وہ دانستہ دوسرے انسانوں کے حقوق پر تعدی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے لیے اسے اخلاقی طور پر پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہل مغرب کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئی ہے کہ معاشرتی جرائم پر موثر طریقے سے قابو پانا سخت اور سنگین سزاؤں ہی کی مدد سے ممکن ہے، جبکہ انسانی حقوق کے اس فلسفے کے زیر اثر جرم وسزا کے باب میں مجرم کے ساتھ ہمدردی کا ایک نہایت غیر متوازن رویہ اپنا کر مغربی فکر ایک عجیب تضاد کا شکار ہو گئی ہے۔ چنانچہ ایک برطانوی مصنفہ Joanna Bourkeنے اپنی کتاب ''Rape: A history from 1860 to the present'' میں ایک طرف یہ بیان کیا ہے کہ اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ میں زنا بالجبر کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں سے صرف پانچ فیصدمقدمات میں مجرم کیفر کردار کو پہنچتا ہے اور یہی امر مصنفہ کے لیے اس کتاب کی تصنیف کا محرک بنا ہے، لیکن جب اس کے سدباب کی بات آتی ہے تو مصنفہ تجویز کرتی ہے کہ ایسے مجرموں کو کوئی سخت سزا دینے کے بجاے دواؤں اور نفسیاتی بحالی کے طریقوں سے ان کا علاج کیا جائے۔ ۱۵؂
ظاہر ہے کہ یہ طرز فکر نہ انسانی فطرت کے صحیح فہم کی عکاسی کرتا ہے، نہ اس سے عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ جرائم کی روک تھام میں ہی اس سے کوئی مدد مل سکتی ہے۔
_______

۱؂شریعت نے معاشرتی جرائم پر جو متعین سزائیں مقرر کی ہیں، فقہا کی اصطلاح میں انھیں ’حدود‘، جبکہ ان کے علاوہ ایسی سزاؤں کو جن کی تعیین مسلمانوں کے اولو الامر کی صواب دید پر چھوڑ دی گئی ہے، تعزیر کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں جمہور فقہا قتل، زنا، چوری، قذف اور محاربہ کے علاوہ ارتداد اور شراب نوشی کی سزاؤں کو بھی شرعاً متعین اور ابدی قرار دیتے ہیں۔ ہم نے موخر الذکر، یعنی ارتداد اور شراب نوشی کو یہاں اس فہرست میں شمار نہیں کیا۔ ان میں سے ارتداد کی سزا پر ہم نے ایک مستقل باب میں بحث کی ہے، جبکہ شراب نوشی کے بارے میں ہمیں اہل علم کے اس گروہ کی راے زیادہ وزنی دکھائی دیتی ہے جو اس کی سزا کے ’حد‘ یعنی ازروے شریعت طے شدہ سزا ہونے سے اختلاف رکھتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی نافذ کردہ سزاؤں کو تعزیر قرار دیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اولو الامر اس معاملے میں کسی مخصوص سزا کے نفاذ کے پابند نہیں ہیں۔ (ابن حزم، المحلّٰی ۱۳/ ۱۹۸۔ ابن حجر، فتح الباری ۱۲/ ۷۰۔ ۷۵۔ محمد بن سعد الغامدی، عقوبۃ الاعدام ۶۴۵۔ ۶۴۶۔ سید سلیمان ندوی، حاشیہ ’’علم الکلام اور الکلام‘‘ از شبلی نعمانی ۲۳۸۔ ایضاً، ’’کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟‘‘، مشمولہ ’’اسلامی تہذیب و ثقافت‘‘ ۱/ ۱۰۴، خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری ۔ عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ۵۵۹۔ ۵۶۸۔ جاوید احمد غامدی، برہان۱۳۸۔۱۳۹)
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شراب نوشی کی کوئی مخصوص سزا مقرر نہیں فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو شخص اس جرم میں پکڑ کر آپ کی عدالت میں لایا جاتا، آپ کے حکم پر گھونسوں، جوتوں اور چھڑیوں کے ساتھ اس کی پٹائی کی جاتی تھی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی کوئی باقاعدہ سزا مقرر کر دینی چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے اندازہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرابی کو تقریباً کتنی ضربیں لگائی جاتی تھیں اور اس کی روشنی میں چالیس کوڑوں کی سزا مقرر کر دی۔ پھر سیدنا عمر نے اپنے دور میں صحابہ سے مشاورت کی تو سیدنا علی نے یہ راے دی کہ شراب نوشی کا مجرم ہوش کھونے کے بعد ہذیان بکتا ہے اور کسی پر بے بنیاد تہمت بھی لگا سکتا ہے، جبکہ تہمت لگانے کی سزا ۸۰کوڑے ہے، اس لیے شرابی کو یہی سزا دی جانی چاہیے۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۵۲۸۸)
اس سے واضح ہے کہ شراب نوشی پر کوئی مخصوص سزا مقرر کرنے کے حق میں صحابہ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی واضح حکم یا آپ کی قائم کردہ کوئی سنت نہیں تھی اور انھوں نے قیاسی استدلال کی بنیاد پر ۴۰یا ۸۰کوڑوں کی سزا مقرر کی تھی۔ سیدنا علی اسی بنیاد پر فرماتے تھے کہ اگر کوئی مجرم حد نافذ کرنے کے نتیجے میں مر جائے تو اس کی کوئی دیت نہیں، لیکن اگر کوئی شخص شراب نوشی کے جرم میں کوڑے لگائے جانے پر مر جائے تو اس کی دیت ادا کی جائے گی، کیونکہ اس کی سزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں، بلکہ ہم نے خود مقرر کی ہے۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۵۲۷۱۔ ۵۲۷۲)
۲؂اس طریقہ استدلال کے مضمرات کا تنقیدی جائزہ ہم نے ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالے میں لیا ہے جو کتاب کے آخر میں ضمیمے کے طور پر شامل ہے۔
۳؂بخاری، رقم ۱۷۔
۴؂ترمذی، رقم ۲۵۵۰۔
۵؂مسنداحمد، رقم ۳۷۸۰۔
۶؂نسائی، رقم ۴۷۹۵۔ ابن ماجہ، رقم ۲۵۸۵۔
۷؂مسند احمد، رقم ۶۳۷۰۔
۸؂بخاری، رقم ۳۲۱۶۔
۹؂ابو داؤد، رقم ۳۱۲۳۔
۱۰؂ابو داؤد، رقم ۳۸۰۳۔
۱۱؂المائدہ ۵: ۴۳۔
۱۲؂مسلم، رقم ۳۲۱۲۔
۱۳؂الکلام ۱۲۴۔
۱۴؂حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۱۱۔​
 
سزا کے نفاذ اور اطلاق کے اصول

’’شرعی سزاؤں کی ابدیت اور آفاقیت ‘‘ کے زیر عنوان ہم نے یہ بات واضح کی ہے کہ قرآن وسنت میں جن جرائم کی متعین سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ ابدی ہیں اور اصولی طور پر ان سے مختلف اور متبادل سزائیں تجویز کرنے کی شرعاً کوئی گنجایش نہیں۔ یہاں ہم شرعی سزاؤں کے نفاذ اور اطلاق کے حوالے سے اس تصور کے مضمرات اور بعض دیگر عملی پہلووں کی وضاحت کریں گے۔
’حق اللہ‘ اور ’حق العبد‘ کا فرق
مذکورہ بحث میں ہم نے اپنے نقطۂ نظر کو ان سزاؤں کے ’حق اللہ‘ ہونے پر مبنی قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اصلاً اپنے حق کے طور پر بیان کیا اور ان کے نفاذ کو اسی حیثیت سے اہل ایمان کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔ ہم نے روایات کی روشنی میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر ان جرائم سے متعلق کوئی مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا جائے اور سزا کے نفاذ کی شرائط پوری اور موانع مفقود ہوں تو قاضی کو مجرم پر ترس کھا کر یا متاثرہ فریق کی طرف سے معافی کی بنیاد پر سزا معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس سے صرف وہی صورت مستثنیٰ ہوگی جہاں خود شارع نے مخصوص حکمت کے تحت متاثرہ فریق کو سزا معاف کر دینے کا اختیار دیا ہو، جیسا کہ مثال کے طور پر قصاص کو معاف کرنے کا اختیار اولیاے مقتول کو دیا گیا ہے۔ جن سزاؤں کے بارے میں خود نص میں یہ صراحت موجود نہیں، ان کی معافی کا اختیار کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ فقہاے شوافع نے حد قذف کو، جبکہ فقہاے احناف نے حد سرقہ کو ’حق العبد‘ قرار دیتے ہوئے یہ راے اختیار کی ہے کہ متاثرہ فریق کی طرف سے معافی کی صورت میں مجرم سے یہ سزائیں ساقط ہو جائیں گی، تاہم جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہونے کے پہلو سے تمام شرعی سزائیں ’حق اللہ‘ ہیں اور ان کا ’حق اللہ‘ ہونا اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ مقدمہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد معافی کے حوالے سے متاثرہ فریق کا اختیار ختم ہو جائے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا کانفاذ لازم قرار پائے۔
البتہ ’حق اللہ‘ اور ’حق العبد‘ کی تقسیم کسی جرم کے قابل دست اندازئ پولیس ہونے یا نہ ہونے کے پہلو سے درست، بلکہ قانون کے نفاذ اور اطلاق کے پہلو سے ضروری ہے۔ مثال کے طور پر زنا بالرضا میں کسی انسان کے حق پر تعدی نہیں پائی جاتی اور اس میں کسی دوسرے فرد یا معاشرے کو متاثرہ فریق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ فقہا کا یہ موقف درست ہے کہ یہ اصلاً گناہ ہے اور اس کے ارتکاب پر ریاست کو ازخود نہیں، بلکہ کسی کی طرف سے شریعت کی بیان کردہ کڑی شرائط کے مطابق شکایت کا اندراج کرائے جانے کے بعد ہی کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز اسلمی اور غامدیہ کے واقعات میں جو طرز عمل اختیار فرمایا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر زنا کا کوئی مقدمہ باقاعدہ عدالت کے نوٹس میں آ جائے ، تب بھی عدالت اس سے صرف نظر کا رویہ اختیار کر سکتی ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے سے وسیع تر دینی ومعاشرتی مصالح متاثر نہ ہوتے ہوں۔ اگر اس بات کا خدشہ ہو تو عدالت مثال کے طور پر کنواری لڑکیوں کے ہاں ظہور حمل کے واقعات کا ازخود نوٹس لینے کا حق بھی رکھتی ہے۔ زنا کے علاوہ حدود سے متعلق باقی تمام جرائم میں دوسرے انسان متاثرہ فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض مثلاً قتل، چوری، قذف اور زنا بالجبر ایسے ہیں جن میں تعدی اصلاً کسی فرد تک محدود ہوتی ہے، جبکہ بعض مثلاً ڈکیتی، اجتماعی آبرو ریزی اور حرابہ کی دیگر صورتیں ایسے ہیں جن کی زد میں معاشرہ اور اس کا نظم اجتماعی بھی آتا ہے۔ پہلی نوعیت کے جرائم میں مجرم کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے کا حق اصلاً اس فرد یا اس کے ساتھ قریبی تعلق اور ہمدردی رکھنے والے کسی شخص کو، جبکہ دوسری نوعیت کے جرائم میں مقدمہ چلانے کا اختیار نظم اجتماعی کو حاصل ہونا چاہیے۔ ہماری راے میں پیشہ ورانہ بدکاری کو بھی معاشرے کے خلاف جرم شمار کرتے ہوئے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو نظم اجتماعی کا اختیار، بلکہ اس کی ذمہ داری قرار دیا جانا چاہیے۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہم نے قتل، چوری، قذف اور زنا بالجبر کو مطلقاً نہیں، بلکہ ’’اصلاً‘‘ فرد کے خلاف تعدی کے زمرے میں شمار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جرم کے اثرات اور مجرم اور متاثرہ فریق کے احوال واوصاف تقاضا کریں تو ان جرائم کو فرد کے بجاے معاشرے کے خلاف تعدی کی فہرست میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں جزئی قانونی صورتوں کی کوئی حتمی اور بے لچک تقسیم نہ ممکن ہے اور نہ ضروری۔ چنانچہ اسے کسی اصولی بحث کا موضوع بنانے کے بجاے قانون کے اطلاقی ماہرین اور عدالت کی صواب دید پر چھوڑ دینا چاہیے۔
حدود میں معافی یا تخفیف کی گنجایش
اوپر ہم نے شرعی سزاؤں کی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اگر ان جرائم سے متعلق کوئی مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا جائے اور سزا کے نفاذ کی شرائط پوری اور موانع مفقود ہوں تو قاضی کو مجرم پر ترس کھا کر یا متاثرہ فریق کی طرف سے معافی کی بنیاد پر سزا معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔‘‘ یہاں ’’شرائط پوری اور موانع مفقود‘‘ ہونے کی قید بے حد اہم اور قابل توجہ ہے اور اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ شریعت کی مقرر کردہ سزاؤں کے اپنی اصولی حیثیت میں ناقابل تبدیل یا ناقابل معافی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سزاؤں کے نفاذ کا معاملہ ہر اعتبار سے عام اور مطلق ہے اور ان میں علمی وعقلی تخصیص وتقیید کا کوئی امکان یا عملی حالات کے لحاظ سے لچک کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ قرآن مجید کے ہر طالب علم پر یہ بات واضح ہے کہ وہ بالعموم کسی بھی معاملے کی جزوی اور اطلاقی تفصیلات سے تعرض کرنے کے بجاے محض اصولی نوعیت کا ایک حکم دینے پر اکتفا کرتا ہے، جبکہ اس حکم کے اطلاق اور نفاذ یا دوسرے لفظوں میں اس کی بنیاد پر عملی قانون سازی کے لیے دیگر عقلی واخلاقی اصولوں اور عملی مصالح کی روشنی میں بہت سی قیود وشرائط کا اضافہ اور مختلف صورتوں میں حکم کے اطلاق ونفاذ کی نوعیت میں فرق کرنا پڑتا ہے۔
حکم کے اطلاق کا یہ اصول قرآن مجید نے خود واضح کیا ہے۔ چنانچہ جو مسلمان غیر مسلموں کے علاقے میں ان کے ظلم وجبر کا شکار ہوں، ان کی مدد کو مسلمانوں کا فرض قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی قوم کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کا معاہدہ ہو تو پھر اس قوم کے خلاف مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ ۱؂اسی طرح جب مشرکین عرب کو ایمان نہ لانے کی صورت میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ واضح کیا گیا کہ جن مشرک قبائل کے ساتھ مخصوص مدت تک صلح کے معاہدے کیے گئے ہیں، مدت پوری ہونے سے پہلے ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔۲؂
اس اصول کی روشنی میں دیکھیے تو شریعت کے دیگر تمام احکام کی طرح سزاؤں کے نفاذ میں بھی ان تمام شروط و قیود، مصالح اور موانع کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں۔ ہمارے ہاں حدود کے بارے میں یہ بات بالعموم کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل وعقد کو قرآن وسنت میں مقرر کردہ سزاؤں میں تخفیف یا معافی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ بات، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اس مفہوم میں درست ہے کہ اصولی طور پر شریعت کی طے کردہ سزاؤں سے مختلف یا ان سے کم یا زیادہ سزا مقرر نہیں کی جا سکتی، یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ زنا کی سزا ۱۰۰کے بجاے ۸۰یا ۱۲۰کوڑوں یا قید یا جرمانے کی صورت میں مقرر کر دی جائے۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ زنا اور چوری کی اصل سزا سو کوڑے اور ہاتھ کاٹنا ہے اور عمومی طور پر یہی سزا قابل نفاذ ہوگی، یعنی اگر کسی شخص سے لفظ کے عام اور متعارف مفہوم کے لحاظ سے چوری یا زنا کا فعل سرزد ہو جائے اور عقل عام اور اخلاقیات قانون اس کو جرم قرار دینے یا اس پر سزا کے نفاذ میں مانع نہ ہوں تو ایسے شخص پر قرآن مجید کی بیان کردہ سزائیں ہی نافذ کی جائیں گی، تاہم کسی مخصوص مجرم پر سزا کے اطلاق کا معاملہ بالکل بے لچک نہیں ہے، بلکہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس میں تخفیف ہو سکتی ہے اور معقول اسباب ووجوہ کسی رعایت کا تقاضا کریں تو مخصوص حالات میں مجرم کو سزا سے مستثنیٰ بھی کیا جا سکتا ہے۔ سزا کے نفاذ کا یہ اصول ایک عمومی نوعیت کا اخلاقی اصول ہے اور اس کا اطلاق جیسے عام سزاؤں پر ہوتا ہے، اسی طرح شرعاً مقرر کردہ سزاؤں، یعنی ’حدود‘ پر بھی ہوتا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ کسی مجرم پر ’حد‘ نافذ کرتے ہوئے مخصوص اسباب واحوال کے پیش نظر سزا میں تخفیف یا معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے، شریعت کی منشا کی درست ترجمانی نہیں کرتا اور عہد نبوی اور عہد صحابہ و تابعین کے نظائر سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔
ذیل میں ہم چند ایسے اہم پہلووں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کریں گے جو کسی بھی نوعیت کی سزا کی معافی یا اس میں تخفیف کا موجب بن سکتے ہیں۔
۱۔ اگر شریعت کا کوئی دوسرا اصول کسی مخصوص مجرم پر سزا کے نفاذ میں مانع ہو تو اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا یا اس کے لیے متبادل سزا تجویز کی جائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب بنو حنیفہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کے دو قاصد اس کا خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مسیلمہ کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں؟ انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ ’لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘۳؂، یعنی اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کی روایت نہ ہوتی تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ ارتداد کی وجہ سے وہ دونوں قاصد قتل کے مستحق ہو چکے تھے، لیکن قاصدوں اور سفیروں کے احترام اور ان کی حفاظت کا ایک دوسرا اخلاقی اصول اس پر عمل کرنے میں مانع تھا اور آپ نے اسی کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں بحفاظت واپس جانے دیا۔ آپ نے اسی اصول پر یہ ہدایت کی کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو اسے قصاص میں قتل نہ کیا جائے۔ ۴؂ایک شخص نے اپنے غلام کو قتل کر دیا تو آپ نے اسے قصاص میں قتل کرنے کے بجاے سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا۔۵؂گویا آپ نے باپ اور بیٹے کے مابین پائے جانے والے فرق مراتب اور مالک کو اپنے مملوک پر حاصل حق ملکیت کو قصاص کے استیفا سے مانع تصور کیا ہے۔
۲۔ سزا نافذ کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا مجرم کو سزا دینے سے کسی بے گناہ کو تو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوگا اور یہ کہ مجرم اپنی جسمانی حالت کے لحاظ سے سزا کا تحمل بھی کر سکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکاری کی مرتکب ایک حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم نہیں کیا جب تک وہ بچے کی ولادت سے فارغ نہیں ہو گئی۔۶؂اسی طرح جب سیدنا علی نے ایک لونڈی پر زنا کی سزا نافذ کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ وہ بچے کی ولادت کے بعد ابھی حالت نفاس میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تحسین کی۔۷؂آپ نے ایک بوڑھے کو، جو کوڑوں کی سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، حقیقی طور پر سو کوڑے لگوانے کے بجاے یہ حکم دیا کہ کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی لے کر جس میں سو پتلی شاخیں ہوں، ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر مار دی جائے۔ ۸؂سیدنا عمر کے پاس ایک شخص لایا گیا جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں چوری کے جرم میں پہلے ہی کاٹا جا چکا تھا۔ سیدنا عمر نے اس کا دوسرا پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تو سیدنا علی نے کہا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں، کیونکہ اس کے پاس چلنے کے لیے ایک پاؤں اور اپنی ضروریات کے لیے ایک ہاتھ رہنا چاہیے۔ ۹؂
۳۔ کسی مخصوص صورت حال میں سزا کے نفاذ سے کوئی مفسدہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو بھی شارع کا منشا یہی ہوگا کہ سزا نافذ نہ کی جائے۔ چنانچہ جنگ کے لیے نکلنے والے لشکر میں سے کوئی شخص اگر چوری کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا۔۱۰؂انصار کے قبیلہ خزرج کے سردار عبداللہ بن ابی نے آپ کی ذات کے بارے میں گستاخی کرنے، آپ کے اہل بیت کے بارے میں نہایت اذیت ناک پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کے مابین تفریق وانتشار پیدا کرنے کا رویہ اختیار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس مصلحت کے تحت اس سے درگذر فرمایا کہ وہ انصار کے ایک گروہ کا سردار تھا اور اس کو قتل کرنے سے اس بات کا خدشہ تھا کہ اس گروہ میں منفی جذبات پیدا ہوں گے اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقعہ ملے گا کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ ۱۱؂
۴۔ مجرم اگر اصلاً شریفانہ کردار کا حامل ہو اور کسی موقع پر وقتی داعیے کے تحت جرم کا ارتکاب کر بیٹھے تو اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا بھی اسی اصول کی فرع ہے۔عہد نبوی میں اس کی ایک عمدہ مثال حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ملتی ہے۔ حاطب ایک بدری صحابی تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر انھوں نے ایک خاتون کے ذریعے سے اہل مکہ کو خفیہ پیغام بھیج کر انھیں اس حملے سے پیشگی آگاہ کرنے کی کوشش کی جس کی تیاریاں مدینہ منورہ میں جاری تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے اس خاتون کو گرفتار کرنے کے بعد حاطب کو اپنے پاس طلب کیا۔ حاطب نے ایک نہایت اہم جنگی راز فاش کرنے کی کوشش کر کے بظاہر بغاوت جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کی سزا قتل بھی ہو سکتی تھی اور سیدنا عمر نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاطب کو یہی سزا دینے کی اجازت مانگی تھی، تاہم آپ نے حاطب کو وضاحت پیش کرنے کا موقع دیا اور انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسا بدخواہی کی نیت سے نہیں، بلکہ محض قریش پر احسان کرنے کی غرض سے کیا ہے تاکہ اس کے عوض میں وہ مکہ میں موجود حاطب کے اعزہ واقربا اور اموال و املاک کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتے رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی اس وضاحت کو قبول کرلیا اور انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔اس موقع پر جب سیدنا عمر نے حاطب کو سزا دینے پر اصرار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب جنگ بدر میں شریک ہو چکا ہے اور کیا پتا اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو یہ پروانہ عطا کر دیا ہو کہ تم جو چاہو کرو، میں نے تمھاری بخشش کر دی ہے۔۱۲؂
۵۔ اگر مجرم کسی فعل کی حرمت سے ناواقف ہو تو یہ چیز سرے سے سزا کے سقوط یا اس میں تخفیف کا سبب بن سکتی ہے۔ سعید ابن المسیب روایت کرتے ہیں کہ شام میں ایک شخص نے کسی جھجک کے بغیر لوگوں کے سامنے اپنے زنا کرنے کا ذکر کیا۔ لوگوں کی طرف سے ناگواری کے اظہار پر اس نے تعجب سے کہا کہ اچھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کہا ہے! میں تو اس بات سے واقف نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو لکھا کہ اگر یہ شخص زنا کی حرمت سے واقف تھا تو اس پر حد قائم کرو، ورنہ اسے بتاؤ کہ یہ حرام ہے اور اگر دوبارہ اس کا مرتکب ہو تو پھر حد جاری کرو۔۱۳؂عبد الرحمن بن حاطب کی ایک شوہر دیدہ لونڈی، جو آزاد ہو چکی تھی، حاملہ ہو گئی تو اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے بے تکلف انداز میں بتایا کہ ہاں، میں نے مرغوش نامی شخص سے دو درہم لے کر زنا کیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سزا دینا چاہی تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جس انداز میں بے جھجک زنا کا ذکر کر رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اس کی حرمت اور شناعت سے واقف نہیں، جبکہ حد اسی شخص پر نافذ کی جا سکتی ہے جو اس فعل کی حرمت سے واقف ہو۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کے بجاے سو کوڑے لگانے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دینے پر اکتفا کی۔۱۴؂امام جعفر صادق نے ایک مقدمے میں یہ فتویٰ دیا کہ اگر چور اس بات سے واقف نہیں تھا کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو بھی اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔۱۵؂
۶۔ حرمت محل میں واقع ہونے والے اشتباہ کی بنا پر سزا میں تخفیف کے نظائر بھی روایات و آثار میں موجود ہیں۔ چنانچہ ایک سریے میں صحابہ نے کچھ لوگوں کو اسلام قبول کرنے کے باوجود قتل کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولوں کے لیے نصف دیت ادا کرنے کا حکم دیا۔۱۶؂اصولی طور پر ان مقتولوں کا قصاص لیا جانا چاہیے تھا یا کم از کم ان کی پوری دیت ادا کی جانی چاہیے تھی، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص صورت حال کے تناظر میں قاتلین سے قصاص بھی نہیں لیا اور انھیں آدھی دیت بھی معاف کر دی۔
زناکے مقدمات میں اس اصول کے اطلاق کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقدمے میں، جس میں شوہر نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کیا تھا، یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر تو خاوند نے بیوی کی اجازت کے بغیر ایسا کیا ہے تو اسے رجم کیا جائے گا، لیکن اگر اس میں بیوی کی رضامندی شامل تھی تو خاوندکو صرف سو کوڑے لگائے جائیں گے۔۱۷؂اسی نوعیت کے ایک دوسرے مقدمے میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر شوہر نے لونڈی کے ساتھ زبردستی جماع کیا ہے تو لونڈی آزاد ہے، لیکن اگر لونڈی رضامند تھی تو پھر وہ شوہر کی ملکیت قرار پائے گی اور دونوں صورتوں میں شوہر کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو اس جیسی کوئی دوسری لونڈی خرید کر دے۔ ۱۸؂
سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے ایک ایسے شخص کو جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زبردستی زنا کیا تھا، رجم نہیں کیا، بلکہ اسے سو سے کم کوڑے لگانے کی سزا دی۔۱۹؂اس صورت میں سو کوڑے لگانے یا رجم کرنے کے بجاے تعزیری سزا دینے کا فتویٰ سفیان ثوری سے بھی مروی ہے۔ ۲۰؂سعید بن المسیب اور مدینہ کے بعض دیگر فقہا کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اور کسی دوسرے شخص کی مشترکہ لونڈی سے وطی کرے تو اسے ننانوے کوڑے لگائے جائیں۔۲۱؂ابن المسیب نے ایک مقدمے میں جس میں دو مالکوں نے اپنی مشترکہ لونڈی سے مجامعت کی تھی، فتویٰ دیا کہ دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے جائیں۔۲۲؂ابن المسیب ہی کا یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی کسی لونڈی سے استمتاع کر لے تو اسے ننانوے کوڑے لگائے جائیں گے۔۲۳؂ایک عورت نے اپنے غلام سے نکاح کر لیا اور اس کے جواز پر یہ استدلال پیش کیا کہ قرآن مجید میں ’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘ کو حلال کہا گیا ہے اور میرا غلام بھی میری ملک یمین ہے۔ سیدنا علی کے مشورے پر سیدنا عمر نے اسے محض سو کوڑوں کی سزا دی۔ اسی طرح ایک خاتون نے گواہوں اور سرپرست کے بغیر نکاح کر لیا اور کہا کہ میں ثیب ہوں اور اپنے معاملے میں خود مختار ہوں تو سیدنا عمر نے اسے بھی صرف سو کوڑے لگائے۔۲۴؂
۷۔ جن حالات میں جرم کا ارتکاب کیا گیا، اگر وہ سزا میں تخفیف کے متقاضی ہوں تو بھی سزا معاف کی جا سکتی یا کم تر سزا دی جا سکتی ہے، چنانچہ عباد بن شرحبیل بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قحط کے زمانے میں مدینہ کے ایک باغ میں داخل ہو کر اس کا کچھ پھل کھایا اور کچھ کپڑے میں ڈال لیا۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گیا اور اس نے پکڑ کر ان کی پٹائی کی اور ان کے کپڑے چھین لیے۔ عباد شکایت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ تم نے نہ تو اسے سکھایا، حالانکہ یہ ناواقف تھا اور نہ اسے کھلایا، حالانکہ یہ بھوکا تھا۔ پھر آپ کے کہنے پر باغ کے مالک نے عباد کے کپڑے بھی واپس کر دیے اور انھیں کچھ غلہ بھی دے دیا۔۲۵؂
ابو لولو مجوسی نے سیدنا عمر کو شہید کر دیا تو ان کے بیٹے عبید اللہ نے جوش انتقام سے مغلوب ہو کر قتل کی سازش میں شریک ہونے کے شبہے میں فارس کے نومسلم جرنیل ہرمزان، ایک نصرانی جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو قتل کر دیا۔ ان میں سے ہرمزان اور ابو لولو کی بیٹی پہلے سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ اس موقع پر سیدنا عثمان نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا کہ عبید اللہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ بعض صحابہ نے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ کل عبید اللہ کے والد قتل ہوئے ہیں اور آج اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا عمر کی شہادت اور اس مخصوص جذباتی کیفیت کی رعایت کرتے ہوئے جس میں عبید اللہ نے تہرے قتل کا ارتکاب کیا تھا، اس سے قصاص نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔۲۶؂
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک عورت کا مقدمہ پیش کیا گیا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک سفر کے دوران میں اس نے ایک چرواہے سے پینے کے لیے پانی مانگا تو اس نے اس شرط پر پانی دینے پر رضامندی ظاہر کی کہ خاتون اسے اپنے ساتھ زنا کرنے کی اجازت دے۔ چنانچہ خاتون نے شدید پیاس سے مجبور ہو کر اس کی شرط پوری کر کے اس سے پانی حاصل کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس ضمن میں صحابہ سے مشورہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے حالت اضطرار میں ایسا کیا ہے۔ چنانچہ اس خاتون کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ۲۷؂
ایک دوسرے موقع پر ایک خاتون زنا ہی کے جرم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائی گئی اور اس نے بتایا کہ وہ نادار اور محتاج ہے اور لوگ اس پر ترس کھا کر اس کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ وہ جسم فروشی کر کے کچھ نہ کچھ پیسے جمع کر لیتی ہے۔ یہ خاتون محصنہ ہونے کی بنا پر ’رجم‘ کی سزا کی مستحق تھی، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے حالات کے پیش نظر اسے سو کوڑوں کی سزا دینے پر اکتفا کی۔۲۸؂
سیدنا عمر کے سامنے کچھ غلاموں کو پیش کیا گیا جنھوں نے ایک شخص کی اونٹنی چرا کر اسے ذبح کر لیا تھا۔ سیدنا عمر نے پہلے تو ان کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن پھر ان کے مالک سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تم انھیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں دیتے۔ چنانچہ انھوں نے غلاموں کو سزا دینے کے بجاے ان کے مالک پر تاوان کے طور پر لازم کیا کہ وہ اونٹنی کے مالک کو اس کی قیمت کے دو گنا رقم ادا کرے۔ ۲۹؂اسی اصول کے تحت سیدنا عمر اور سیدنا علی قحط سالی کے زمانے میں چور پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں کیا کرتے تھے۔ ۳۰؂
۸۔ سزا تجویز کرتے وقت مجرم کے تمدنی پس منظر، اس کے ماحول اور صالح معاشرتی تربیت کے لیے اس کو میسر مواقع کا لحاظ کرنا بھی ناگزیر ہوگا۔ اس ضمن میں لونڈیوں کے لیے زنا کی آدھی سزا تجویز کرنے کا قرآنی حکم بطور خاص قابل توجہ ہے۔۳۱؂فقہا اس تخفیف کی توجیہ بالعموم غلاموں اور لونڈیوں کی فروتر معاشرتی اور قانونی حیثیت کے تناظر میں کرتے ہیں۔ ان کے زاویۂ نگاہ سے چونکہ غلاموں اور لونڈیوں کے معاشرتی وقانونی حقوق معاشرے کے آزاد افراد کے مقابلے میں کم تر ہیں، اس وجہ سے ان پر ذمہ داریاں بھی کم عائد کی گئی ہیں اور جرم کے ارتکاب کی صورت میں تخفیف شدہ سزا اسی کی ایک فرع ہے۔۳۲؂شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ چونکہ غلاموں اور لونڈیوں پر سزا نافذ کرنے کا اختیار ان کے مالکوں ہی کو دے دیا گیا تھا اور ان کی طرف سے اس اختیار کے استعمال میں زیادتی اور حدود سے تجاوز کا خدشہ موجود تھا، اس لیے مملوکوں کی سزا میں تخفیف کر دی گئی تاکہ انھیں امکانی حد تک مالکوں کی تعدی سے بچایا جا سکے۔۳۳؂تاہم بعض معاصر اہل علم نے اس تخفیف کی توجیہ یہ کی ہے کہ غلام اور لونڈیاں چونکہ خاندان کی حفاظت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مناسب اخلاقی تربیت سے محروم تھیں اور انھیں اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے نکاح کا حق بھی آزاد لوگوں کی طرح حاصل نہیں تھا، اس لیے زنا میں ملوث ہونے کی صورت میں ان کے اس معاشرتی پس منظر کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے لیے کم تر سزا تجویز کی گئی۔۳۴؂
۹۔ قرآن مجید نے ’حرابہ‘ کی سزائیں بیان کرتے ہوئے یہ ہدایت کی ہے کہ اگر مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے تائب ہو جائیں تو ان پر سزا کا نفاذ لازم نہیں رہے گا۔ ارشاد ہوا ہے:

اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْْہِمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(المائدہ ۵: ۳۴)
’’البتہ جو مجرم تمھارے ان پر قدرت پانے سے پہلے تائب ہو جائیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘
یہاں سزا کے نفاذ سے قطعی طور پر منع نہیں کیا گیا، اس لیے اس سے کوئی قانونی ممانعت اخذ نہیں کی جا سکتی اور عدالت اگر مصلحت عامہ کے تناظر میں مجرموں کو پوری یا تخفیف شدہ سزا دینا چاہے تو آیت میں کوئی چیز اس سے مانع نہیں، تاہم ایسی کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ’فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘ کی نہایت بلیغ ترغیب یہ تقاضا کرتی ہے کہ عدالت مجرم کے لیے رعایت کے پہلو کو کسی حال میں نظر انداز نہ کرے۔
توبہ کی صورت میں سزا کو معاف کرنے کی یہ ترغیب اصلاً حرابہ کے حوالے سے بیان ہوئی ہے، تاہم اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ چونکہ ایک عمومی اخلاقی اصول پر مبنی ہے، اس لیے اسے حرابہ تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں اور حدود سے متعلق باقی جرائم پر بھی اس کا اطلاق یقیناً ہوگا۔
سزاؤں کے نفاذ کے حوالے سے مذکورہ مختلف پہلووں کے ساتھ ساتھ شریعت کا یہ عمومی رجحان بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس کا اصل زور مجرم کو ہر حال میں سزا دینے پر نہیں، بلکہ جہاں تک ممکن ہو، اسے سزا سے بچاتے ہوئے اصلاح احوال کا موقع فراہم کرنے پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے ان لوگوں کو جن سے جرم سرزد ہو جائے، یہ ترغیب دی ہے کہ (اگر جرم کے ساتھ کسی بندے کا حق متعلق نہیں ہے تو) وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالے رکھیں اور توبہ واستغفار کے ذریعے سے اسے اللہ تعالیٰ سے معاف کرانے کی کوشش کریں۔ آپ نے فرمایا:

من اصاب من ہذہ القاذورات شیءًا فلیستتر بستر اللّٰہ فانہ من یبدی لنا صفحتہ نقم علیہ کتاب اللّٰہ.(موطا امام مالک، رقم ۱۲۹۹)
’’جو شخص ان ناپاک چیزوں میں سے کسی میں ملوث ہو جائے تو وہ اس پردے سے اپنے آپ کو چھپا لے جو اللہ نے ڈال رکھا ہے، کیونکہ جو شخص ہمارے سامنے اپنے جرم کو بے نقاب کرے گا، ہم اس پر اللہ کے قانون کو نافذ کر دیں گے۔‘‘
آپ نے معاشرے کے لوگوں کو بھی یہی ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو عدالت میں پیش کرنے سے گریز کریں، کیونکہ مقدمہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد مجرم پر سزا کا نفاذ قاضی کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تعافوا الحدود فی ما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب.(نسائی، رقم ۴۷۰۳)
’’سزاؤں کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو، کیونکہ جو معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا، اس میں سزا دینا لازم ہو جائے گا۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا، جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا:

وما یمنعنی وانتم اعوان الشیطان علی صاحبکم واللّٰہ عزوجل عفو یحب العفو ولا ینبغی لوالی امر ان یوتی بحد الا اقامہ.(مسنداحمد، رقم ۳۷۸۰)
’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں، جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے، کیونکہ) حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ضمن میں ارباب حل و عقد کے لیے بھی یہ راہنما اصول بیان فرمایا ہے کہ ان کی اصل دلچسپی مجرم کو سزا دینے سے نہیں، بلکہ عدل وانصاف کے حدود میں رہتے ہوئے اس کے لیے معافی کی گنجایش تلاش کرنے سے ہونی چاہیے۔ ام المومنین عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ادرء وا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرج فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ.(ترمذی، رقم ۱۳۴۴)
’’جہاں تک ہوسکے، مسلمانوں سے سزاؤں کو ٹالو۔ پس اگر تمھیں کسی مسلمان کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ ملے تو اس کو چھوڑ دو، کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلط فیصلہ کرنا اس سے بہترہے کہ وہ کسی کو سزا دینے کا غلط فیصلہ کرے۔‘‘
ماعز اسلمی نے جب زنا کا ارتکاب کیا تو اس کے سرپرست ہزال نے اسے ترغیب دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے آمادہ کیا۔ ماعز کے پیش ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو بار بار اس سے اعراض کرتے ہوئے اسے واپس بھیجنے کی کوشش کی، لیکن جب اس نے سزا کے نفاذ پر اصرار کیا تو اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر جب آپ کو بتایا گیا کہ ماعز سزا سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو آپ نے لوگوں سے کہا کہ ’ہلا ترکتموہ لعلہ ان یتوب فیتوب اللّٰہ علیہ‘، یعنی تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا، ممکن ہے کہ وہ توبہ کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے۔ اس موقع پر آپ نے اس کے سرپرست ہزال سے فرمایا کہ ’لو کنت سترتہ بثوبک کان خیرًا مما صنعت بہ‘، یعنی اگر تم اپنی چادر سے اس کو ڈھانپ دیتے تو یہ اس سے بہتر ہوتا جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ ۳۵؂
ایک مقدمے میں ایک چور کو آپ کے پا س لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف تو کر لیا تھا، لیکن اس کے پاس سے چوری شدہ مال برآمد نہیں ہوا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ میرے خیال میں تم نے چوری نہیں کی، لیکن اس نے کہا کہ نہیں، میں نے چوری کی ہے۔ چنانچہ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔۳۶؂
عطاء بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کے پاس جب کسی چور کو لایا جاتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ کیا تم نے چوری کی ہے؟ کہو:نہیں۔ یہی طریقہ ابو الدرداء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے، جبکہ ابن مسعود کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے چوری کے ملزم سے کہا کہ کیا تم نے چوری کی ہے؟ کہو : یہ چیز مجھے کہیں سے ملی ہے۔۳۷؂
اس تفصیل سے واضح ہے کہ اسلام کی قانونی اخلاقیات کی رو سے مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب وہ کسی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کی منشا کے خلاف ہے۔
یہاں بحث کے تتمہ کے طور پر کلاسیکی فقہی ذخیرے کے اس قانونی تصور پر بھی ایک مختصر تبصرہ برمحل معلوم ہوتا ہے کہ ’’اگر ’شبہ‘ پایا جائے تو ’حد‘ ساقط ہو جائے گی‘‘، اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہا نے اس تصور کی جو اساس اور جو دائرۂ کار متعین کیا ہے، وہ اس سے مختلف ہے جو ہم نے مذکورہ سطورمیں واضح کیا ہے۔ فقہا نے اپنے موقف کا ماخذ استدلال کتب فقہ میں ’ادرء وا الحدود بالشبہات‘ ۳۸؂(حدود کو شبہات کی بنیاد پر ٹال دو) کے الفاظ میں نقل ہونے والی ایک روایت کو بنایا ہے، تاہم یہ روایت سرے سے ثابت ہی نہیں اور کتب حدیث میں ان الفاظ کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو بات کتب حدیث میں بیان ہوئی ہے، وہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں اور اپنے الفاظ کے لحاظ سے وہ کسی طرح بھی اسقاط حد کے حوالے سے فقہا کے بیان کردہ قانونی ضابطے کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ اس ضمن میں فقہی ضابطے کے تین بنیادی نکات ہیں اور تینوں محل نظر ہیں:
ایک یہ کہ فقہا اسقاط سزاکے اس اصول کے اطلاق کو فقہی اصطلاح کے مطابق ’حدود‘، یعنی شریعت کی متعین کردہ سزاؤں تک محدود قرار دیتے ہیں، حالانکہ روایت میں ’حدود‘ کے لفظ کو اگر فقہی اصطلاح کے مفہوم میں لیا جائے تو بھی ’فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہاں سزا کے نفاذ کے حوالے سے حد اور تعزیر میں فرق پر مبنی کسی تکنیکی ضابطے کا نہیں، بلکہ ایک عمومی اخلاقی اصول کا بیان پیش نظر ہے جس کا اطلاق ہر قسم کی سزا پریکساں ہوگا۔
دوسرے یہ کہ فقہی ذخیرے میں حد کو ٹالنے کی اساس ’شبہ‘ کو قرار دیتے ہوئے اس کی بعض متعین صورتیں، مثلاً شبہ فی الفعل اور شبہ فی المحل وغیرہ بیان کی گئی ہیں، جبکہ مذکورہ روایت کی رو سے سزا میں تخفیف اور رعایت کا اصول محض ’شبہے‘ کی صورتوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ وجہ جو عقلی اور اخلاقی طور پر مجرم کو رعایت کا مستحق بناتی ہو، اس اصول کے تحت داخل ہے۔
تیسرے یہ کہ فقہا نے شبہے کی بنیاد پر حد ٹالنے کو ایک قانونی اور تکنیکی ضابطے کے طور پر بیان کیا ہے جس کی رو سے شبہ پائے جانے کی صورت میں قانونی طور پر حد کے نفاذ کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہتی، جبکہ روایت سے واضح ہے کہ اس کی نوعیت قاضی کے لیے ایک اصولی ہدایت کی ہے نہ کہ کسی بے لچک قانونی ضابطے کی۔ چنانچہ اگر سزا میں تخفیف کی کوئی وجہ پائی جائے تو مجرم پر سزا کے نفاذ کا امکان ازخود ختم نہیں ہو جائے گا، بلکہ شبہے کو وزن دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ،بہرحال قاضی کی صواب دید پر منحصر رہے گا۔
حدود کے علاوہ اضافی سزاؤں کا جواز
سزا کے نفاذ میں عملی حالات کی رعایت کی اس بحث میں یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ جرم کی نوعیت، مجرم کے حالات اور دیگر اضافی اسباب جس طرح سزا میں تخفیف کا سبب بن سکتے ہیں، اسی طرح اگر ان کا تقاضا ہو تو حدود کے دائرے میں آنے والے کسی جرم کی شرعاً مقرر کردہ سزا کے علاوہ کوئی زائد سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی بیان کردہ سزائیں اصلاً اس صورت سے متعلق ہیں جب جرم کا ارتکاب معمول کے حالات میں اپنی سادہ صورت میں کیا گیا ہو۔ اگر اضافی اسباب کے تحت جرم کی نوعیت سادہ نہ رہے اور حس انصاف معمول کی سزا کے علاوہ بھی کسی سزا کے اضافے کا تقاضا کرے تو ایسا کرنا یقیناًشارع کے منشا کے مطابق ہوگا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی کے جرم میں بار بار ماخوذ ہونے والے مجرموں کو قتل کر دینے کا حکم دیا،۳۹؂اس لیے کہ شراب نوشی اپنی ذات میں ایک جرم ہے، جبکہ اس کو معمول یا پیشے کے طور پر اختیار کر لینا ایک دوسرا جرم ہے اور اگر کوئی مجرم بار بار سزا پانے کے باوجود جرم سے باز نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قابل اصلاح نہیں۔ اسی طرح آپ نے سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح اور کسی محرم خاتون کے ساتھ بدکاری کرنے والے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا۴۰؂جس کی وجہ واضح ہے کہ مجرم نے یہاں صرف زنا نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ ایک دوسری شرعی حرمت کو بھی پامال کیا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں شراب نوشی کرنے والے کو اسی اصول کے تحت رمضان کی ہتک حرمت کی پاداش میں ۲۰کوڑے زائد لگائے تھے۔۴۱؂ام ورقہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام اور ایک لونڈی اپنی مالکہ کو قتل کر کے بھاگ گئے۔ جب انھیں پکڑ کر سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے ان دونوں کو سولی چڑھا دینے کا حکم دیا۔۴۲؂یہاں قصاص کی زیادہ تکلیف دہ صورت اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں قتل کے ساتھ ساتھ اپنی مالکہ کے خلاف بدعہدی اور بغاوت کے بھی مرتکب ہوئے تھے۔ اسی طرح احناف کے نزدیک ایسے جرائم جن کی اصل سزا ان کے نزدیک قتل نہیں، مثلاً تیز دھار آلے کے بغیر قتل کرنا، غیر شادی شدہ کی بدکاری، کسی غیر مسلم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب وشتم کرنا وغیرہ، اگر مجرم بار بار ان کا ارتکاب کرے تو اسے تعزیراً قتل کیا جا سکتا یا مقررہ حد کے علاوہ کوئی اضافی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ ۴۳؂
یہ بات عقل عام اور اخلاقیات قانون کی رو سے بھی مسلم ہے کہ جرم اگر اپنی سادہ شکل سے آگے بڑھ کر ایک سے زیادہ جرائم کا مجموعہ بن جائے تو اس کی سزا مفرد نہیں ،بلکہ مرکب ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر مخصوص صورت حالات میں معمول کی سزائیں جرائم کی روک تھام کے لیے موثر ثابت نہ ہوں تو بھی اضافی سزاؤں کا نفاذ درست ہوگا۔ ابن العربی لکھتے ہیں:

وہذا ما لم یتتابع الناس فی الشر ولا احلولت لہم المعاصی حتی یتخذوہا ضراوۃ ویعطف الناس علیہم بالہوادۃ فلا یتناہوا عن منکر فعلوہ فحینئذ تتعین الشدۃ ویزید الحد لاجل زیادۃالذنب وقد اتی عمر بسکران فی رمضان فضربہ ماءۃ، ثمانین حد الخمر وعشرین لہتک حرمۃ الشہر فہکذا یجب ان تترکب العقوبات علی تغلیظ الجنایات وہتک الحرمات.(احکام القرآن ۳/ ۳۳۵)
’’یہ سزا اس صورت میں ہے جب لوگ جرم کے خوگر نہ ہو چکے ہوں اور وہ انھیں اتنا مرغوب نہ ہو چکاہو کہ انھوں نے اسے مستقل عادت بنا لیا ہو۔ اگر یہ صورت ہو اور جرم کی سنگینی کا احساس ختم ہو جانے کے باعث لوگوں نے ایک دوسرے کو اس سے روکنا بھی چھوڑ دیا ہو تو جرم کی شناعت بڑھ جانے کے باعث سزا کی سختی اور مقدار میں اضافہ ضروری ہو جائے گا۔ سیدنا عمرکے پاس رمضان میں ایک شرابی کو لایا گیا تو انھوں نے اسے سو کوڑے لگوائے جن میں سے ۸۰شراب نوشی کی سزا تھے اور بیس رمضان کی حرمت کو پامال کرنے کی۔ اگر جرم کی سنگینی میں اضافہ ہو جائے اور دوسری حرمتیں بھی پامال کی گئی ہوں تو سزائیں بھی اسی طرح مرکب ہونی چاہییں۔‘‘
اس ضمن میں فقہی ذخیرے اور بالخصوص فقہ حنفی کی بعض جزئیات بدیہی طور پر شریعت کے منشا اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے منافی دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر امام ابوحنیفہ کی طرف یہ راے منسوب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی محرم خاتون کے ساتھ نکاح کر کے اس کے ساتھ مجامعت کرے تو اسے ’عقد نکاح‘ سے پیدا ہونے والے شبہے کا فائدہ دیتے ہوئے حد سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا اور صرف تعزیری سزا دی جائے گی، خواہ وہ اس فعل کی حرمت سے واقف ہو،۴۴؂حالانکہ یہ جرم کسی رعایت کا نہیں، بلکہ سخت تر سزا کا مستوجب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرنے والے کا سرقلم کرنے کا حکم دیا تھا۔۴۵؂
بعض فقہا مردہ عورت کے ساتھ بدکاری کو اس بنیاد پر حد سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں کہ یہ صورت ’زنا‘ کی عمومی تعریف کے تحت نہیں آتی، تاہم اس کے برعکس مالکیہ کی یہ راے زیادہ قوی دکھائی دیتی ہے کہ مردہ عورت کے ساتھ بدکاری کرنا سنگین تر جرم ہے، کیونکہ اس میں بدکاری کے ساتھ ساتھ لاش کی بے حرمتی کا اضافی جرم بھی پایا جاتا ہے۔۴۶؂
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ اجرت طے کر کے بدکاری کرے تو امام ابو حنیفہ کی راے میں اسے زنا کی سزا نہیں دی جا سکتی، کیونکہ معاہدۂ اجرت اس عمل میں حلت کا شبہ پیدا کرنے کا موجب ہے۔۴۷؂یہاں ’شبہ‘ کا ایک تکنیکی مفہوم مراد لیتے ہوئے سزا میں تخفیف کی گنجایش پیدا کی گئی ہے،حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن وجوہ کے پیش نظر سزا کو ٹالنے کی ترغیب دی ہے، ان سے مراد بدیہی طورپر اسقاط سزا کے ایسے وجوہ ہیں جن کی موجودگی میں کسی مجرم پر سزا کا نفاذ حس انصاف کو مجروح کرتا ہو اور اسے معاف کر دینا ہی عدل وانصاف کا تقاضا محسوس ہوتا ہو۔ چنانچہ تکنیکی شبہات کی بنیاد پر سزا میں تخفیف کی گنجایش پیدا کرنا نہ قانون کی حکمت کا تقاضا ہے اور نہ اسے کسی طرح شارع کا منشا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
فقہی ’نکتہ رسی‘ کی دلچسپ ترین مثال اس جزئیے میں ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی کے ساتھ زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی، لیکن اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں مل جائیں تو زانی حد سے مستثنیٰ قرار پائے گا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ زنا کی حد تب واجب ہوتی ہے جب یہ فعل کامل صورت میں واقع ہوا ہو اور فعل کے کامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا محل بھی کامل ہو۔ چنانچہ اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں نہیں ملیں تو یہ اس کی دلیل ہے کہ محل اس فعل کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اگر شرم گاہیں مل گئی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محل جماع سرے سے اس فعل کا متحمل ہی نہیں تھا، اس لیے زنا کا فعل کامل صورت میں واقع نہیں ہوا اور اس پر حد نہیں لگائی جا سکتی۔۴۸؂یہ جزرسی غالباً کسی داد کی محتاج نہیں ہے۔
____________
۱؂الانفال ۸: ۷۲۔
۲؂التوبہ ۹: ۴۔
۳؂ابوداؤد، رقم ۲۳۸۰۔
۴؂ترمذی، رقم ۱۳۲۰۔ ابن ماجہ،رقم ۲۶۵۲۔
۵؂ابن ماجہ، رقم ۲۶۵۴۔
۶؂مسلم، رقم ۳۲۰۷۔
۷؂مسلم، رقم ۳۲۱۷۔
۸؂ابو داؤد، رقم ۳۸۷۸۔ ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴۔
۹؂مصنف عبدالرزاق،رقم ۱۸۷۶۶۔
۱۰؂ترمذی، رقم ۱۳۷۰۔
۱۱؂ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۴/ ۱۵۸۔بخاری، رقم۳۲۵۷۔
۱۲؂بخاری، رقم۲۷۸۵۔
۱۳؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۷۱۴۔
۱۴؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۸۴۲۔
۱۵؂الطوسی، تہذیب الاحکام ۱۰/ ۱۲۱۔
۱۶؂ترمذی، رقم ۱۵۳۰۔
۱۷؂ترمذی، رقم ۱۳۷۱۔ نسائی، رقم ۳۳۷۰۔
۱۸؂نسائی، رقم ۳۳۱۰۔ ابو داؤد، رقم ۳۸۶۸۔
۱۹؂مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۳۵۳۶، ۱۳۴۹۱۔
۲۰؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۵۳۳۔
۲۱؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۵۲۶۔
۲۲؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۵۲۸۔
۲۳؂مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۳۵۳۷۔
۲۴؂مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۷۶۰۔
۲۵؂ابوداؤد، رقم ۲۲۵۲۔
۲۶؂طبری، تاریخ الامم والملوک ۲/ ۵۸۶۔ ۵۸۷۔
۲۷؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۸۲۷۔القمی، من لا یحضرہ الفقیہ۴/ ۳۵،رقم۵۰۲۵۔
۲۸؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۶۴۹۔ ۱۳۶۵۰۔
۲۹؂موطا امام مالک، رقم۲۳۳۰۔
۳۰؂مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۹۹۰۔ ۱۸۹۹۱۔ ابن القیم، اعلام الموقعین ۶۰۵۔ الکلینی، الفروع من الکافی ۷/ ۲۳۱۔الطوسی، تہذیب الاحکام ۱۰/ ۱۱۳۔
۳۱؂النساء ۴: ۲۵۔
۳۲؂کاسانی، بدائع الصنائع۷/ ۵۷۔
۳۳؂حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵۔
۳۴؂امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن ۲/ ۲۸۰۔ جاوید احمد غامدی، حدود وتعزیرات ۳۰۔
۳۵؂مسند احمد، رقم ۲۰۸۸۵۔یہاں یہ اشکال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جرم ثابت ہو جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کو چھوڑ دینے کا امکان کیونکر تسلیم کیا، اس لیے کہ ماعز کا جرم محض اس کے اقرار سے ثابت ہوا تھا جو فقہا کی اصطلاح میں ’حجت قاصرہ‘ ہے اور درء حدود کے شرعی اصول کی روشنی میں مجرم کے اپنے اقرار سے پھر جانے کی بنیاد پر اس سے سزا کو ٹال دینا خود شریعت کا منشا ہے۔
۳۶؂نسائی، رقم ۴۷۹۴۔
۳۷؂مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۵۷۴۔ ۲۸۵۸۰۔
۳۸؂جصاص، احکام القرآن ۵/ ۱۱۱۔ سرخسی، المبسوط ۹/ ۳۸، ۵۲۔
۳۹؂ترمذی، رقم ۱۳۶۴۔
۴۰؂ترمذی، رقم ۱۲۸۲، ۱۴۶۲۔
۴۱؂مصنف عبد الرزاق، رقم۱۳۶۲۶۔ الکلینی، الفروع من الکافی ۷/ ۲۱۶۔
۴۲؂مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۵۰۔
۴۳؂حاشیہ ابن عابدین ۴/ ۶۲۔۶۳۔
۴۴؂سرخسی، المبسوط ۹/ ۹۹۔
۴۵؂ترمذی، رقم ۱۲۸۲۔
۴۶؂وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/ ۲۷۔۲۸، ۶۸۔
۴۷؂سرخسی، المبسوط ۹/ ۵۸۔
۴۸؂سرخسی، المبسوط ۹/ ۸۶۔​
 
قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار


کلاسیکل فقہی موقف میں قصاص کو اصلاً مقتول اور اس کے ورثا کا حق قرار دیا گیا ہے جس کی رو سے مقتول یا اس کے ورثا کی طرف سے معافی کی صورت میں قاتل سے قصاص ساقط ہو جاتا ہے اور قاضی کو قاتل پر قتل کی سزا نافذ کرنے کا اختیار حاصل نہیں رہتا۔ بعض معاصر اہل علم نے اس راے سے اختلاف کیا ہے اور ان کے نزدیک اس معاملے میں فیصلہ کن اختیار ورثا کو نہیں، بلکہ ریاست کو حاصل ہے اور مقتول کے اولیا کے معاف کر دینے کے باوجود قاتل سے قصاص لینا اس کی ذمہ داری ہے۔۱؂
روایتی فقہی موقف کے حق میں بنیادی طو رپر قرآن مجید کی درج ذیل دو آیات سے استدلال کیا گیا ہے:
سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗمِنْ اَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْْہِبِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗعَذَابٌ اَلِیْمٌ.(۲: ۱۷۸)
’’اے ایمان والو، تم پر مقتولوں کے معاملیمیں قصاص فرض کیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے، غلام کے بدلے میں وہی غلام، اور عورت کے بدلے میں وہی عورت ۔ پھر جس کو اپنےبھائی کی طرف سے کچھ رعایت مل جائے تو معروف کے مطابق اس معاملے کی پیروی کی جائے اور بھلے طریقے سے (دیت کی رقم) اس کو ادا کر دی جائے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف بھی ہے اور رحمت بھی۔ پھر جو شخص ا س کے بعد بھی حدود سے تجاوز کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘

یہاں مقتول کے ولی کی طرف سے معافی کی صورت میں دیت کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس سے فقہا یہ اخذ کرتے ہیں کہ اولیاے مقتول کی معافی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعد قاتل سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔۲؂
سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے:

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلاَ یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗکَانَ مَنْصُوْرًا.(۱۷: ۳۳)
’’اور تم اس جان کو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، کسی حق کے بغیر قتل نہ کرو۔ اور جس شخص کو ظلماً قتل کر دیا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو پورا پورا اختیار دیا ہے، اس لیے وہ (قاتل کو) قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے، کیونکہ بے شک (انتقام لینے میں) اس کی مدد کی گئی ہے۔‘‘
یہاں’فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا‘کے الفاظ سے فقہا یہ استدلال کرتے ہیں کہ قصاص لینے یا نہ لینے کے معاملے میں ’سلطان‘ ،یعنی حتمی او رفیصلہ کن اختیار مقتول کے ولی ہی کو حاصل ہے۔۳؂
اس کے بالمقابل قصاص کے استیفا یا اسقاط کے معاملے میں ریاست کو فیصلہ کن اتھارٹی قرار دینے والے اہل علم کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی‘ اور ’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘کے الفاظ سے یہ واضح کر دیا ہے کہ قتل دراصل ایک فرد کی جان کے خلاف نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے خلاف جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا قصاص لینا بحیثیت مجموعی پورے معاشرے پر لازم ہے۔ چونکہ معاشرہ اپنی ذمہ داریاں نظم اجتماعی کی وساطت سے انجام دیتا ہے، اس لیے قتل کے مقدمات میں قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا صرف مقتول کے ورثا کا حق نہیں، بلکہ نظم اجتماعی کی ذمہ داری بھی ہے۔۴؂
ہماری راے میں یہ دونوں نقطہ ہاے نظر اپنے اپنے محل میں وزن رکھتے ہیں اور دونوں میں کوئی ایسا تضاد نہیں جو توفیق وتطبیق کو قبول نہ کرتا ہو، بلکہ قرآن وسنت کا منشا غالباً ان دونوں کی تلفیق (synthesis) سے زیادہ بہتر طور پر متعین کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم ان دونوں نقطہ ہاے نظر کے استدلال کا جائزہ لیتے ہوئے اس ضمن میں اپنی راے کی وضاحت کریں گے۔
جمہور فقہا کا موقف ہمارے نزدیک اس حد تک بہت مضبوط ہے کہ قاتل سے قصاص لینے یا نہ لینے میں مقتول کے اولیا کے فیصلے کی بڑی اہمیت ہے اور ان کی طرف سے معافی کے فیصلے کو عمومی حالات میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شریعت میں قصاص سے دست بردار ہونے اور مجرم کو معاف کر دینے کی عمومی ترغیب دی گئی ہے جس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ ان کے معاف کر دینے سے قاتل کی جان بخشی ہو جائے۔ اس ضمن میں ’فَمَنْ عُفِیَ لَہٗمِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ‘ کے علاوہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۴۵میں ’فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖفَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ‘(پھر جو اپنے قصاص کو معاف کر دے تو یہ اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جائے گا)کے الفاظ بھی یہی تاثر دیتے ہیں کہ اولیاے مقتول کی طرف سے معافی ہی اسقاط قصاص کے لیے موثر سمجھی جا رہی ہے، اس لیے کہ مقتول یا اس کے وارثوں کی طرف سے حق قصاص معاف کر دیے جانے کی صورت میں ان کے گناہوں کی بخشش ظاہر ہے کہ اسی صورت میں بامعنی ہو سکتی ہے جب ان کے معاف کرنے پر مقتول کی جان بخشی ہو جائے۔ اگر ان کی معافی اس معاملے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو کلام کا متبادر مفہوم اور اس کا سارا زور بالکل مجروح ہو جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمومی حالات میں قصاص یا دیت کے انتخاب میں مقتول کے ورثا کی رضامندی ہی بنیادی اہمیت رکھتی ہے:
ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من اصیب بقتل اوخبل فانہ یختار احدی ثلاث: اما انیقتص واماان یعفو واما ان یاخذ الدیۃ فان اراد الرابعۃ فخذوا علی یدیہ ومن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الیم.(ابو داؤد، رقم ۳۸۹۸)
’’جس کا کوئی عزیز قتل ہو گیا ہو، وہ تین طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے:یا تو وہ قصاص لے لے یا معاف کر دے اور یا دیت لے لے۔ پھر اگر وہ کوئی چوتھا راستہ اختیار کرنا چاہے تو اس کے ہاتھوں کو پکڑ لو (اور آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی) اور جو اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

من قتل مومنًا متعمدًا دفع الی اولیاء المقتول فان شاء وا قتلوا وان شاء وا اخذوا الدیۃ.(ترمذی، رقم ۱۳۰۸)
’’جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے، اسے مقتول کے اولیا کے سپرد کر دیا جائے۔ وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی بیان ہوا ہے کہ آپ قصاص کے ہر مقدمے میں اولیاے مقتول کو معافی کی تلقین فرماتے تھے۔ ۵؂
ان وجوہ سے قصاص کی معافی کے سلسلے میں اولیا کے فیصلے کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری راے میں شرعی نصوص سے اولیاے مقتول کی معافی کے موثر قرار پانے کا جو تاثر سامنے آتا ہے، وہ بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ اس سے مقتول کے اولیا کو لاحق ہونے والے نقصان کی کسی حد تک تلافی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے، ایک مزید انسانی جان کو تلف ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور فریقین کے مابین انتقام در انتقام کے سلسلے کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ اس حکمت کو عمومی حالات میں برقرار رہنا چاہیے، البتہ اس ضمن میں معاشرے اور اس کے نظم اجتماعی کو بالکل بے اختیار قرار دینا بھی درست نہیں اور اگر عدالت کسی موقع پر یہ محسوس کرے کہ قاتل کے لیے معافی کا فیصلہ عدل و انصاف کے اصولوں سے ہٹ کر کیا گیا ہے یا اس کو قبول کرنا مصلحت عامہ کے منافی ہے تو اسے اپنے صواب دیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے قاتل سے قصاص لینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل محض ایک فرد کی جان لے لینے کا معاملہ نہیں، بلکہ انسانی معاشرے کی بقا اور تسلسل کی اصل بنیاد، یعنی انسانی جان کے تحفظ کو منہدم کر دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں قصاص و دیت سے متعلق ہدایات کا آغاز پورے معاشرے کو، جس کی نمایندگی نظم اجتماعی کرتا ہے، قصاص کے حکم کا مخاطب بنانے سے ہوا ہے، جبکہ حکم کے آخر میں ’وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ‘ کے الفاظ میں قصاص کی اصل حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ معاشرے میں زندگی کے حق کا تحفظ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ دونوں باتیں اس نکتے کو واضح کرتی ہیں کہ قصاص محض قاتل اور مقتول کا باہمی معاملہ نہیں، بلکہ قتل کے مقدمات میں مقتول کے اولیا کے ساتھ ساتھ نظم اجتماعی بھی ایک باقاعدہ فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور قاتل سے قصاص کو ساقط کرنے کے لیے اولیاے مقتول کے علاوہ نظم اجتماعی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اگر کسی مقدمے میں اولیاے مقتول اسقاط قصاص پر رضامند ہوں، جبکہ ریاست اس معافی کو مصلحت عامہ کے منافی اور قاتل سے قصاص لینے کو قانون وانصاف کے زاویے سے ضروری تصور کرتی ہو تو وہ اولیا کے معاف کرنے کے باوجود قصاص لے سکتی ہے۔
اس بنیادی نکتے کی روشنی میں، نصوص میں اولیاے مقتول کے معاف کر دینے پر قاتل سے قصاص کو ساقط کر دینے کی جس صورت کا ذکر ہوا ہے، اس کو عدالتی توثیق کی شرط کے ساتھ مشروط کرنے کی پوری گنجایش موجود ہے اور فقہا کے ہاں نصوص کی تعبیر کا یہ طریقہ مسلم ہے کہ اگر نقلی یا قیاسی وعقلی دلائل کسی حکم میں کوئی مخصوص قید یا شرط عائد کرنے کا تقاضا کریں تو نصوص کے ظاہر الفاظ کو ان کے اطلاق پر نہیں رکھا جاتا، بلکہ اس شرط یا قید کے ساتھ مقید کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فقہاے احناف کا موقف یہ ہے کہ قصاص کی معافی کی صورت میں مقتول کے وارث کے لیے دیت کا اختیار اس بات سے مشروط ہے کہ خود قاتل بھی دیت دینے پر رضامند ہو۔ اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس صورت میں اس سے قصاص ہی لیا جائے گا۔ جصاص نے اس قید کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ قرآن کی رو سے قتل کی صورت میں اصل چیز ’قصاص‘ ہے اور اس سے مختلف صورت تبھی اختیار کی جا سکتی ہے جب معاملے کے سارے فریق جن میں خود قاتل بھی شامل ہے، اس پر رضامند ہوں۔ چنانچہ جصاص کی راے میں ’فَمَنْ عُفِیَ لَہٗمِنْ اَخِیْہِ شَیْ ءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘کا حکم اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ مقتول کے وارث کی طرف سے معافی کی صورت میں خود قاتل بھی دیت کی ادائیگی پر رضامند ہو، ورنہ اسے دیت کی ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس سے قصاص ہی لیا جائے گا۔ ۶؂اس راے سے اتفاق ضروری نہیں، تاہم اس میں جس اصول کو برتا گیا ہے، وہ بجاے خود درست ہے اور اسی کی روشنی میں زیر بحث مسئلے میں ’فَمَنْ عُفِیَ لَہٗمِنْ اَخِیْہِ شَیْ ءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘میں یہ قید لگانا خلاف اصول نہیں ہوگا کہ مقتول کے وارثوں کی معافی اسی صورت میں معتبر ہوگی جب عدالت قانون وانصاف اور معاشرتی مفاد کے وسیع تر تناظر میں اس پر کوئی تحفظات نہ رکھتی ہو۔
یہاں سورۂ بقرہ اور سورۂ بنی اسرائیل کی زیر بحث آیتوں کے مدعا اور مفہوم اور ان کے اصل رخ کو واضح کرنا بھی مناسب ہوگا تاکہ اولیاے مقتول کی معافی کو ریاستی اور عدالتی توثیق کے ساتھ مشروط کرنے کی گنجایش زبان وبیان کے پہلو سے پوری طرح واضح ہو سکے۔
سورۂ بقرہ کی زیر بحث آیت میں معاملے کے دو فریقوں کو مخاطب بناتے ہوئے ان کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آیت کے پہلے حصے میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ قتل کا قصاص لینا بحیثیت مجموعی اہل ایمان کی پوری جماعت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ قصاص اسی فرد سے لینا جائز ہے جس نے قتل کا ارتکاب کیا ہو۔ نہ کسی آزاد کی جگہ غلام کو قتل کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی غلام کی جگہ آزاد کو۔ اسی طرح عورت نے قتل کیا ہو تو وہی مستوجب قتل ہوگی نہ کہ اس کی جگہ کوئی مرد دھر لیا جائے گا۔ آیت کے دوسرے حصے میں حکم کا رخ قاتل کی طرف مڑ گیا ہے اور اسے تلقین کی گئی ہے کہ اگر اولیاے مقتول کی طرف سے اس کے لیے معافی کا فیصلہ ہو تو اسے ان کا احسان مانتے ہوئے معروف کے مطابق اس معاملے کی پیروی کرنی چاہیے اور دیت کی ادائیگی میں شریفانہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ کلام کے رخ سے چونکہ اس کا اصل مقصود واضح ہوتا ہے، اس لیے اس کو ملحوظ رکھنا زیربحث نکتے کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ یہاں قانون اور عدالت کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہا جا رہا کہ مقتول کا ولی اگر قاتل کو معاف کر دے تو اب دیت کے سوا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ قاتل سے کہا جا رہا ہے کہ اگر مقتول کا ولی اس کو معاف کر دے تو اسے دیت کی ادائیگی میں ٹال مٹول یا خست کا رویہ اپنانے اور اولیا کو تنگ کرنے کے بجاے پوری خوش اسلوبی سے یہ رقم انھیں ادا کر دینی چاہیے۔ کلام کا یہ رخ ملحوظ رہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت اسقاط قصاص کے معاملے میں اولیاے مقتول کی معافی کے حتمی اور فیصلہ کن ہونے پر کسی طرح بھی ’نص‘کی حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ کلام کا اصل مدعا اس معافی کی قانونی وشرعی پوزیشن کو بیان کرنا نہیں، بلکہ قاتل کو اس اخلاقی رویے کی تلقین کرنا ہے جو اسے اس صورت میں لازماً اختیار کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں مقتول کے ولی کے معاف کرنے کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ قصاص ساقط کرنے کے لیے اس کی رضامندی ضروری ہے اور عدالت محض یک طرفہ طور پر قاتل کو معاف کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ گویا اس آیت سے یہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اولیاے مقتول کی رضامندی کے بغیر قاتل کو معافی نہیں دی جا سکتی، لیکن سیاق کلام میں اس پر کوئی دلالت نہیں پائی جاتی کہ اولیا کے معاف کرنے کی صورت میں قصاص لازماً ساقط ہو جائے گا۔
بالفرض اگر اس حکم کا مخاطب ارباب حل وعقد ہی کو مانا جائے تو بھی ’فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘ کو قطعی طور پر وجوب ولزوم پر محمول نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قتل کے مقدمے میں اصل قانون قصاص کو قرار دیتے ہوئے اولیاے مقتول کی طرف سے معافی کی صورت میں دیت لینے کی اجازت کو ’تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ‘ فرمایا ہے اورتخفیف اور رعایت پر مبنی اس حکم کی نوعیت خود اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اولیا کے معاف کر دینے کی صورت میں قاتل سے قصاص نہ لینا صرف جواز کے حد تک محدود ہو، نہ یہ کہ اس کے بعد قصاص کا اصل حکم کالعدم قرار پائے اور ’رخصت‘ اور ’اجازت‘ وجوب ولزوم کا درجہ حاصل کر لے۔ یہ پہلو اس تناظر میں بطور خاص قابل توجہ قرار پاتا ہے کہ تورات کے قانون کی رو سے قاتل سے قصاص ہی لیا جا سکتا تھا، جبکہ دیت لینے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی تھی۔ گنتی میں ہے:

’’اور تم اس قاتل سے جو واجب القتل ہو، دیت نہ لینا،بلکہ وہ ضرور ہی مارا جائے۔...سو تم اس ملک کو جہاں تم رہو گے ناپاک نہ کرنا،کیونکہ خون ملک کو ناپاک کر دیتا ہے اور اس ملک کے لیے جس میں خون بہایا جائے، سوا قاتل کے خون کے اور کسی چیز کا کفارہ نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ (۳۵: ۳۱،۳۳)

جہاں تک سورۂ بنی اسرائیل (۱۷)کی آیت ۳۳میں ’فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖسُلْطٰنًا‘ کے الفاظ کا تعلق ہے تو وہ سرے سے معاملے کے زیر بحث پہلو سے تعرض ہی نہیں کرتے۔ اس آیت میں مقتول کے ولی کے لیے جس ’سلطان‘ اور اختیار کا ذکر ہوا ہے، وہ قصاص معاف کرنے کا نہیں، بلکہ قصاص لینے کا اختیار ہے۔ آیت کا واضح مدعا یہ ہے کہ چونکہ مقتول کے وارث کو انتقام لینے کا پورا پورا حق دیا گیا اور اس میں معاشرہ اور قانون پوری طرح اس کی مدد کرنے کے پابند ٹھہرائے گئے ہیں، اس لیے وہ بھی اپنے اس حق کے استیفا کے لیے اخلاقی و قانونی حدود کی پاس داری کرے اور انتقام لینے میں ان حدود سے تجاوز کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ چنانچہ اس آیت کا قاتل کو معاف کرنے میں اولیاے مقتول کے فیصلے کے حتمی ہونے یا نہ ہونے سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مزید براں یہ آیت مکی دور سے متعلق ہے، جہاں کسی باقاعدہ ریاستی نظم کا وجود نہیں تھا اور کسی مقتول کا قصاص لینا اصلاً اس کے ورثا اور اہل قبیلہ ہی کا حق اور ان کی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس سے اس صورت حال کے لیے کوئی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا جب ایک باقاعدہ ریاستی نظم وجود میں آ چکا ہو اور ’کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی‘ کے تحت قصاص کی ذمہ داری اصلاً نظم ریاست سے متعلق ہو چکی ہو۔
نص میں موجود مذکورہ قرائن کے علاوہ ’قصاص‘ کو اصلاً مقتول کے ورثا کا حق قرار دے کر ریاست اور معاشرے کو اس معاملے میں بے اختیار قرار دینے کا موقف فقہی اصولوں کی رو سے بھی محل نظر ہے، اس لیے کہ کسی بھی معاشرتی جرم کا ارتکاب اصلاً اور براہ راست کسی فرد کے خلاف ہی کیوں نہ کیا گیا ہو، اس کے اثرات ونتائج فرد کی ذات سے بڑھ کر معاشرے تک متعدی ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف مدعی بھی صرف براہ راست متاثر ہونے والا فرد نہیں، بلکہ پورا معاشرہ ہوتا ہے جس کی نمایندگی نظم اجتماعی کی سطح پر حکومت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چوری کے جرم میں کسی مخصوص فرد کو اس کے مال سے ناحق طریقے سے محروم کیا جاتا ہے، تاہم وسیع تر تناظر میں یہ جرم معاشرے میں مال کے تحفظ کے احساس کو بھی عمومی طور پر مجروح کرتا ہے اور اگر اس پرسزا نہ دی جائے تو دوسرے لوگوں کو بھی یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ اس پہلو سے یہ جرم صرف فرد کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرے کے خلاف بھی ایک جرم ہے اور جمہور فقہا بجا طور پر یہ قرار دیتے ہیں کہ اگرچہ چوری کا مقدمہ درج ہونے سے پہلے مال مسروقہ کے مالک اور چور کے مابین باہمی مصالحت یا معافی کی گنجایش موجود ہے، لیکن مقدمہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد یہ صاحب حق اور چور کا باہمی معاملہ نہیں رہ جاتا اور عدالت مالک کی طرف سے معاف کیے جانے کے باوجود چور پر سزا کے نفاذ کی مکلف ہے۔ یہی معاملہ قذف کا ہے جو بدیہی طور پر کسی مخصوص فرد کی آبرو کے خلاف تجاوز ہے، تاہم فقہاے حنفیہ اس کو معاشرے میں لوگوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کے عمومی تناظر میں دیکھتے ہوئے یہ قرار دیتے ہیں کہ صاحب حق کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قاذف کو معاف یا سزا سے بری کر دے یا اس کے بدلے میں کوئی مالی معاوضہ وصول کر لے۔ ۷؂
اس تناظر میں قصاص کے معاملے کو بھی محض دو افراد کا باہمی معاملہ قرار دے کر ریاست اور عدالت کو اس سے قطعاً لا تعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انسانی جان ظاہر ہے کہ مال کے مقابلے میں زیادہ محترم ہے، اس وجہ سے قتل کا جرم بھی بدیہی طور پر زیادہ سنگین اور اس کی سزا بھی زیادہ سخت ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ کسی فرد کا قتل صرف ایک انسان یا اس کے قریبی اعزہ کے خلاف تعدی نہیں ہوتا، بلکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے معاشرے کے پورے نظم کے خلاف بھی ایک اقدام ہوتا ہے۔ جب چوری اور قذف جیسے کم تر جرائم میں معاشرہ ایک باقاعدہ اور غالب حق رکھنے والے فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور صاحب حق کی طرف سے معافی کے باوجود عدالت سزا کے نفاذ کی پابند قرار پاتی یا کم از کم اس کا اختیار رکھتی ہے تو قصاص کے معاملے کو، جسے اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں زندگی کے تحفظ کی ضمانت قرار دیتے ہوئے پورے معاشرے کو قصاص کا نظام قائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اولیاے مقتول کی طرف سے دعوے کا انتظار کرنے کے بجاے نظم اجتماعی کو ازخود قاتل کے خلاف اقدام کا حکم دیا ہے، کیونکر قاتل اور مقتول کا باہمی معاملہ قرار دے کر معافی کا کلی اختیار اولیاے مقتول کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے؟ مزید یہ کہ کسی شخص کے قتل کی صورت میں اس کے ورثا اور معاشرے کا نظم اجتماعی، دو الگ الگ جہتوں سے قصاص کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ورثا کو حق قصاص اس جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے دیا گیا ہے جو انسان میں جبلی طور پر پایا جاتا ہے، جبکہ ریاست کسی جذباتی پہلو سے نہیں، بلکہ معاشرے میں انسانی زندگی کے تحفظ کی ذمہ دار ہونے کے ناتے سے قصاص لینے کی حق دار ہے۔ چنانچہ ایک جہت سے قائم ہونے والا حق ساقط ہو جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک دوسری جہت سے ثابت ہونے والا حق بھی کالعدم قرار پائے۔ ۸؂چنانچہ معاملے کے اسی پہلو کے پیش نظر حنفی اور مالکی فقہا نے کم از کم یہ بات ضرور تسلیم کی ہے اور ماوردی اور ابویعلیٰ نے بھی اس راے کے حق میں رجحان ظاہر کیا ہے کہ ورثا کی طرف سے معافی کے باوجود عدالت کو مناسب تعزیری سزا کا اختیار حاصل رہے گا، ۹؂جبکہ ’’فقہ السنہ‘‘ کے مصنف السیدالسابق نے اس موقف کی تعبیر یوں کی ہے کہ اگر قاتل ’معروف بالشر‘ ،یعنی کوئی نامی گرامی مجرم ہو یا قاضی اس کو سزا دینے میں مصلحت سمجھے تو وہ قید یا قتل کی صورت میں اسے سزا دے سکتا ہے۔ ۱۰؂
جلیل القدر مالکی فقیہ قاضی ابوبکر ابن العربی نے لکھا ہے کہ اگرچہ اصولی طور پر قصاص کو چوری اور زنا وغیرہ کی سزاؤ ں کی طرح کسی ایک فرد کا نہیں، بلکہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کا حق قرار دینا چاہیے، لیکن اگر قصاص کو اولیاے مقتول کے بجاے معاشرے کا حق قرار دیا جاتا تو قاتل کے لیے معافی کی گنجایش نہ رہتی، جبکہ شریعت اس کو معاف کر دینے کو پسند کرتی ہے۔۱۱؂ہماری راے میں ابن العربی کا بیان کردہ یہ نکتہ بالکل درست ہے، تاہم اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ شریعت کو قاتل کی معافی انفرادی اخلاقیات کے دائرے میں مطلوب ہے نہ کہ قانون کے دائرے میں، ورنہ قاتل کو معاف کر دینے کو ہی شرعی طور پر لازم قرار دیا جاتا اور ’کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی‘کے الفاظ میں نظم معاشرہ کو قصاص لینے کا پابند نہ کیا جاتا، البتہ یہ بات، جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، اپنی جگہ درست ہے کہ شریعت نے انفرادی اخلاقیات کے دائرے میں اولیاے مقتول کو معافی کی جو ترغیب دی ہے، وہ یہی تقاضا کرتی ہے کہ عمومی حالات میں اس معافی کو قانونی دائرے میں بھی موثر سمجھا جائے۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ قصاص کو اصلاً معاشرے اور ریاست کا حق قرار دینے کے باب میں معاصر اہل علم کی راے، جبکہ قصاص کی معافی کی صورت میں اولیاے مقتول کے فیصلے کو بنیادی اہمیت دینے کا روایتی فقہی موقف، دونوں اپنی اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں اور ہمارے ناقص فہم کے مطابق دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ قرآن مجید کا ’قصاص‘ کو پورے معاشرے کا ایک فرض قرار دے کر اس معاملے میں اولیاے مقتول کے فیصلے کو اہمیت دینا، ظاہر ہے کہ اس اعتماد پر مبنی ہے کہ وارث مقتول کے ساتھ اپنی قرابت اور وابستگی کی بنا پر اس کا قصاص لینے کا ایک فطری جذبہ رکھتا ہے اور وہ اس کے لیے پوری سرگرمی دکھائے گا جس سے قانون قصاص کو معاشرے میں زندہ رکھنے کا مقصد پوری طرح حاصل ہو جائے گا۔ شرعی نصوص میں اولیاے مقتول کے لیے اسقاط قصاص کے حق کا ذکر جس تناظر میں ہوا ہے، وہ اصلاً عمومی حالات میں قتل کی سادہ صورت ہے جس میں کسی دوسرے پہلو سے شناعت یا سنگینی کا کوئی اضافی پہلو نہ پایا جاتا ہو اور جس میں قاتل کو معافی دینا قانون کے عمومی اصولوں اور معاشرتی مصلحتوں کے منافی نہ ہو۔ اگر کوئی بھی ایسی اضافی وجہ پائی جائے جو قاتل کو معافی کی اس رعایت سے محروم کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یقیناًاولیا کی دی گئی معافی کو غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ورثا کسی دباؤ، جبر یا خوف کی بنا پر قصاص کے حق سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کریں تو ان کی معافی کو غیر موثر قرار دینا چاہیے۔ یہ بات کہ عدالت کو اولیا کے اعلان معافی کے بارے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی دباؤ یا جبر کے تحت تو نہیں کیا گیا، نہ صرف معقول ہے، بلکہ بعض آثار سے بھی ثابت ہے۔ سیدنا علی نے ایک ذمی کے قتل کے مقدمے میں مسلمان قاتل کو قتل کرنے کا حکم دیا تو مقتول کے بھائی نے حاضر ہو کر ان سے کہا کہ میں نے اس کو معاف کر دیا ہے۔ امیر المومنین نے کہا کہ شاید ان لوگوں نے تمھیں ڈرایا دھمکایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ قاتل کو قتل کر دینے سے میرا بھائی واپس نہیں آ جائے گا، جبکہ ان لوگوں نے مجھے دیت دینے کی پیش کش کی ہے جس پر میں راضی ہوں۔ سیدنا علی نے فرمایا: اچھا پھر تم جانو۔ ۱۲؂
ورثااگر سرے سے مقتول کے معاملے میں دلچسپی ہی نہ رکھتے ہوں یا ان کی ہمدردی الٹا قاتل کے ساتھ وابستہ ہو جائے، جیسا کہ جاگیردارانہ نظام میں کاروکاری اور قتل غیرت کے معاملات میں بالعموم ہوتا ہے تو انھیں حق قصاص سے محروم کر دینا بھی فقہی اصولوں کے خلاف نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی غلط نہیں ہوگا کہ قتل کی جن صورتوں مثلاً، کاروکاری وغیرہ میں رسم و رواج ورثا کے مدعی بننے کی راہ میں حائل ہوں یا قاتل کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ورثا کے دباؤ میں آ کر صلح کر لینے کی عمومی صورت حال پائی جاتی ہو، ان کو سد ذریعہ کے اصول پر ناقابل صلح ( non-compoundable) قرار دے دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ ضابطہ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ قتل کے ہر مقدمے میں عدالت اس امر کا جائزہ لے گی کہ آیا معافی کا فیصلہ ورثا کی آزادانہ رضامندی سے کیا گیا ہے؟ اور یہ کہ کہیں اس معافی کو قبول کرنے سے انصاف کے تقاضے اور معاشرے میں جان کے تحفظ کا حق تو مجروح نہیں ہوگا؟
عدالت جرم کی سنگینی اور شناعت کے پیش نظر بھی مجرم کو معافی کی صورت میں ملنے والی رعایت دینے سے انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو وارث اپنے مقتول کی دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا، اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ۱۳؂آپ سے بعض ایسے واقعات بھی منقول ہیں جن میں آپ نے، اپنے عام معمول کے برعکس، جرم کی سنگینی کے پیش نظر قاتل سے قصاص لینا ہی پسند کیا اور اولیاے مقتول سے رسماً بھی نہیں پوچھا کہ آیا وہ قاتل کو معاف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر حارث بن سوید نے زمانۂ جاہلیت میں قتل ہونے والے اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے غزوۂ احد کے موقع پر دھوکے سے اپنے والد کے قاتل مجذر بن زیاد کو قتل کر دیا جو اس وقت مسلمان ہو چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حارث کی آہ وزاری اور فریاد اور عذر معذرت کے باوجود اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر مجذر کے اولیا موجود تھے، لیکن آپ نے اس معاملے میں ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ ۱۴؂اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر جن اشخاص کے بارے میں متعین طورپر یہ حکم دیا تھا کہ وہ اگر کعبے کے غلاف کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے ہوں تو انھیں قتل کر دیا جائے، ان میں ایک مقیس بن صبابہ بھی تھا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبے پر اسے اس کے مقتول بھائی کی دیت دلوائی، لیکن اس نے اپنے بھائی کے قاتل سے دیت وصول کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ مکرمہ چلا آیا۔ ۱۵؂قرائن سے واضح ہے کہ مقیس کو ان افراد میں شمار کرنے کی وجہ محض اس کا مرتد ہو جانا نہیں، بلکہ اس کا مذکورہ جرم تھا۔ قتادہ اور عکرمہ سے منقول ہے کہ وہ قاتل سے دیت لینے کے بعد اسے قتل کرنے والے کے لیے معافی کے قائل نہیں تھے، ۱۶؂جبکہ ابن جریج اور عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جارح سے قصاص یا دیت لے لینے کے بعد اس پر زیادتی کرے تو اسے معاف کرنے کا حتمی اختیار صاحب حق یا اس کے اولیا کو نہیں، بلکہ حکمران کو ہوگا۔ ۱۷؂
امام ابو یوسف کی راے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گلا گھونٹ کر کسی کو قتل کرنے کا بار بار مرتکب ہو تو اس کے لیے معافی کی گنجایش ختم ہو جائے گی اور اسے قتل کرنا لازم ہوگا۔۱۸؂اسحاق بن راہویہ اور فقہاے مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو دھوکے سے کسی ویران جگہ پر لے جا کر قتل کر دے تو اس صورت کے حرابہ کے تحت آ جانے کی وجہ سے حق قصاص ریاست سے متعلق ہو جائے گا اور ورثا کو معافی کا اختیار نہیں ہوگا۔ ۱۹؂فقہاے شافعیہ یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے حکمران کو قتل کر دے تو اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں اور اسے لازماً قتل کیا جائے گا۔۲۰؂
مذکورہ تمام آرا جرم کی سنگینی کے تناظر میں معافی کے امکان کو کالعدم قرار دینے کی مثال ہیں۔ ہماری راے میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی شخص کی جان لے لینا، جتھے کی صورت میں کسی آدمی پر حملہ آور ہو کر اسے قتل کر ڈالنا، آگ لگا کر یا تیزاب ڈال کر ہلاک کرنا، خونخوار درندے کو کسی شخص پر چھوڑ دینا، اذیت دے دے کر کسی کی جان لینا، معصوم بچے کو درندگی کا نشانہ بنانا، کوئی ناجائز مطالبہ پورا نہ کرنے یا اپنے جائز حق کو استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کسی کی زندگی چھین لینا، بہت سے افراد کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دینا یا قتل کی کوئی بھی دوسری پر تشدد شکلیں اختیارکرنا، سب اسی دائرے میں آنی چاہییں۔ اسی طرح ایک سے زیادہ مرتبہ قتل کے مرتکب کے لیے بھی یہی قانون بنایا جا سکتا ہے۔
امام شافعی نے بعض اہل علم کا یہ موقف نقل کیا ہے کہ اگر قاتل اور مقتول کے مابین کوئی ذاتی مخاصمت نہ پائی جاتی ہو اور قاتل نے کسی اور محرک کے تحت قتل کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں حق قصاص مقتول کے ولی کے بجاے حکومت کو حاصل ہوگا۔ ۲۱؂ہمارے نزدیک اجرتی قاتلوں یا کسی دوسرے کے ترغیب یا اشتعال دلانے پر کسی کو قتل کرنے والوں کے معاملے میں بھی اولیا کے حق معافی کو اسی اصول پر غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں یہ نکتہ بالخصوص ملحوظ رہنا چاہیے کہ قبائلی طرز زندگی کے خاتمے سے قرابت اور مراحمت کے اس تعلق میں جو قدیم معاشرت کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے، بدیہی طور پر رخنہ پڑا ہے اور جدید معاشرے میں گوناگوں عوامل کے تحت قصاص اور انتقام کا جذبۂ محرکہ نسبتاً کمزور پڑ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ریاست کے تصور کے ارتقا کے ساتھ اس کے قانونی اختیارات بھی بڑھ گئے ہیں اور اسی تناسب سے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس صورت حال میں قصاص کے قانون کو زندہ رکھنے کے لیے افراد کے بجاے ریاست کو زیادہ بنیادی کردار سونپنا اگر کوئی مفید اور نتیجہ خیز اقدام ثابت ہو سکتا ہے تو ایسا کرنا قانون کی علت یا حکمت کے منافی نہیں ہوگا، تاہم اس سارے معاملے میں حالات کی عملی صورت کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں ریاست کو کوئی اختیار سونپنے سے پہلے اس امر کا اطمینان حاصل کرنا ضروری ہے کہ ریاستی مشینری اپنے اخلاص اور خدمت معاشرہ کے جذبے کے لحاظ سے اس ذمہ داری کو اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتی ہے اور اس میں نظام انصاف قابل اعتماد صورت میں موجود ہے۔ بصورت دیگر ریاست کا حق قصاص الٹا بے گناہوں یا رعایت کے مستحق خطا کاروں پر زیادتی اور ان کی حق تلفی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔
__________

اولیاے مقتول کے قصاص کو معاف کرنے کی بحث سے متعلق ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا قاتل سے قصاص ساقط کرنے کے لیے تمام اولیا کا معافی پر متفق ہونا ضروری ہے یا ان میں سے کوئی ایک بھی معاف کر دے تو قصاص ساقط ہو جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے ایک مقدمے میں اولیاے مقتول کو تلقین کی کہ ان میں سے سب سے قریبی تعلق رکھنے والا رشتہ دار قصاص کے حق سے دست بردار ہو جائے، چاہے وہ کوئی عورت ہی کیوں نہ ہو۔ ۲۲؂بعض آثار کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں مقتول کے تین بھائیوں میں سے ایک بھائی کے معاف کر دینے کے باوجود قصاص دلانا چاہا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی ایک وارث کے معاف کر دینے کے بعد قصاص نہیں لیا جا سکتا اور سیدنا عمر نے بھی ان سے اتفاق کرلیا۔ ۲۳؂سیدنا عمر نے ایک اور واقعے میں، جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے پاس کسی دوسرے مرد کو موجود پا کر بیوی کو قتل کر دیا تھا اور مقتولہ کے ایک بھائی نے اپنی بہن پر ناراض ہو کر اپنے حق قصاص سے دست برداری اختیار کر لی تھی، یہ فیصلہ کیا کہ سارے اولیا کو دیت ہی ملے گی۔ ۲۴؂
جمہور فقہا نے ان واقعات سے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ اگر اولیا میں سے کوئی ایک بھی قصاص سے دست بردار ہو جائے تو قصاص نہیں لیا جا سکتا، تاہم مالکیہ کی راے میں کسی ایک وارث کے معاف کر دینے سے باقی ورثا کا حق قصاص کالعدم قرار نہیں پاتا۔۲۵؂ہماری راے میں مالکیہ کی راے وزنی ہے، جبکہ جمہور فقہا نے جن واقعات سے اس کے خلاف استدلال کیا ہے، ان کی اس سے مختلف تعبیر کا امکان موجود ہے۔ اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ واقعات بدیہی طور پر کسی معاملے کے جملہ قانونی امکانات کا احاطہ نہیں کرتے، بلکہ ان میں عملاً وقوع پذیر ہونے والی کوئی مخصوص صورت زیر بحث ہوتی ہے۔ چنانچہ ان میں کیے جانے والے فیصلے بھی مخصوص صورت حال میں عائد ہونے والی شرائط وقیود ہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ دوسری یہ کہ روایات میں کسی بھی مقدمے سے متعلق وہ تمام تفصیلات نقل کرنے کا بالعموم اہتمام نہیں کیا جاتا جو اس مقدمے میں کیے جانے والے فیصلے کی قانونی تفہیم کے حوالے سے ضروری ہوں۔ راوی اپنے اپنے فہم اور زاویۂ نگاہ سے بعض ظاہری پہلووں کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس سے بسا اوقات بعض بے حد اہم اور فیصلے پر اثر انداز ہونے والی تفصیلات سامنے نہیں آپاتیں، جبکہ بظاہر میسر تفصیلات کی بنیاد پر فیصلے کی اصل وجہ اور قانونی بنیاد کا تعین قطعی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ ان وجوہ سے یہ بات فقہا کے ہاں کم وبیش مسلم ہے کہ واقعات اور مقدمات سے عمومی اصول یا ضابطے اخذ نہیں کیے جا سکتے، بلکہ وہ بجاے خود اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کی تعبیر وتوجیہ وسیع تر قانونی اور عقلی اصولوں کے تحت کی جائے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس نوعیت کی تعبیر وتوجیہ میں اختلاف کی گنجایش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
اس زاویے سے مذکورہ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ اسقاط قصاص کی اصل وجہ محض کسی ایک وارث کا حق قصاص سے دست بردار ہو جانا نہ ہو، بلکہ کچھ ایسے اضافی پہلو بھی موجود ہوں جن کا ذکر روایت میں نہیں کیا گیا۔ ان میں سے تیسری روایت میں، جس میں حضرت عمر کے، خاوند سے قصاص کو ساقط کر دینے کا ذکر ہے، اس کا ایک قرینہ بھی موجود ہے، اور وہ یہ کہ اس واقعے میں خاوند نے جس صورت حال میں، یعنی ایک غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ پا کر اشتعال کی حالت میں اس کو قتل کر دیا، وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بذات خود رعایت کا تقاضا کرتی ہے۔ چنانچہ سیدنا عمر نے ایک دوسرے مقدمے میں، جس میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک دوسرے مرد کے ساتھ نامناسب حالت میں دیکھ کر اسے قتل کر دیا تھا، اپنے عامل کو ظاہری طور پر تو خاوند سے قصاص لینے کا حکم دیا، لیکن خفیہ طور پر اسے ہدایت کی کہ وہ دیت پر معاملہ طے کرانے کی کوشش کرے۔ ۲۶؂اس وجہ سے حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ مذکورہ بالا واقعے میں خاوند سے قصاص کو ساقط کرنے کا فیصلہ مقتولہ کے بھائی کے معاف کر دینے ہی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اسی نوعیت کے احتمالات پہلی دو روایتوں میں بھی قیاس کیے جا سکتے ہیں۔
اس ضمن میں بعض روایات میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک استدلال نقل ہوا ہے جو تنقیح طلب ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

کانت النفس لہم جمیعًا فلما عفی ہذا احیا النفس فلا یستطیع ان یاخذ حقہ یعنی الذی لم یعف حتی یاخذ حق غیرہ.(الشیبانی، کتاب الآثار ۵۹۳)
’’قاتل کی جان لینا ان سب کا حق تھا۔ پھر جب اس نے اس کو معاف کر دیا تو اسے زندگی بخش دی۔ پس جنھوں نے معاف نہیں کیا، وہ اپنا حق اس وقت تک نہیں لے سکتے، جب تک کہ دوسرے کو اس کے حق سے محروم نہ کر دیں۔‘‘
اگر بات کو نقل کرنے میں راویوں کی طرف سے کوئی نقص نہیں رہ گیا تو اس استدلال کی بظاہر دو صورتیں سمجھ میں آتی ہیں:
ایک یہ کہ قاتل کی جان لینا تمام ورثا کا حق تھا اور جب ان میں سے ایک نے معاف کر کے اسے زندگی کا حق دے دیا ہے تو اب قاتل کا زندہ رہنا معاف کرنے والے وارث کا حق بن گیا ہے۔ چنانچہ دوسرے ورثا کے لیے اس سے قصاص لینا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ وہ معاف کرنے والے کو اس کے حق، یعنی قاتل کے زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیں۔
اگر زیر بحث اثر کا مفہوم یہی ہے تو یہ استدلال اپنی ظاہری صورت میں کسی طرح بھی قابل فہم نہیں، اس لیے کہ قاتل سے قصاص لینے کو تو وارث کا حق قرار دینا سمجھ میں آتا ہے، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کا زندہ رہنا کیونکر معاف کرنے والے وارث کا حق قرار پا سکتا ہے؟ خود قاتل کو تو اپنے انسان ہونے کی بنا پر زندہ رہنے کا حق حاصل تھا جس سے اس نے اپنے آپ کو خود محروم کر لیا، لیکن اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنے حق قصاص سے دست بردار ہو جائے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اب قاتل کا زندہ رہنا اس وارث کا حق بن گیا ہے؟ ان دونوں باتوں میں منطقی طور پر کوئی لزوم نہیں پایا جاتا۔
استدلال کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ اولیا میں سے کسی ایک کے معاف کرنے کی صورت میں معاف کرنے والا دیت میں اپنے حصے کا حق دار بن جاتا ہے جو ظاہر ہے کہ قاتل کو قصاص سے بری کرنے اور اس پر دیت عائد کرنے کی صورت ہی میں اسے مل سکتا ہے، اس وجہ سے معاف کرنے والے کو اس کا حصہ دینے کے لیے باقی اولیا کو بھی دیت پر آمادہ کرنا ایک مجبوری اور ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتا ہے، تاہم اس پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب تک قصاص کا سقوط متحقق نہ ہو جائے، اس وقت تک دیت کی رقم پر کسی بھی وارث کا حق سرے سے قائم ہی نہیں ہوتا۔ گویا معاف کرنے والے وارث کا معاف کر دینا اس کو دیت کا حق دار نہیں بنا دیتا کہ اس نکتے کو اسقاط قصاص کی بنیاد بنایا جا سکے ، بلکہ اس کو دیت کا حق دار قرار دینا بجاے خود اس کا محتاج ہے کہ اس سے پہلے قصاص کے سقوط کو ثابت مانا جائے۔
مزید براں اسی استدلال کو الٹ کر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ معاف کرنے والے کو اس کا حق ا س کے بغیر نہیں مل سکتا کہ قصاص لینے کے خواہش مند دوسرے وارثوں کو ان کے حق قصاص سے محروم کیا جائے، اس لیے اس کی معافی کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک صاحب حق کے معاف کر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرے اصحاب حق کا حق بھی کالعدم ہو جائے۔ مثال کے طور پر اسی معاملے میں اگر ورثا دیت پر رضامندی ظاہر کر دیں اور پھر ان میں سے بعض ورثا اپنے حصے کی رقم چھوڑ دیں تو باقی ورثا اس کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ بھی اپنے حصے سے دست بردار ہو جائیں۔ اور بالفرض ایک وارث کے معاف کر دینے کی صورت میں دیت کی رقم پر اس کا حق ثابت مان لیا جائے تو بھی دوسرے ورثا سے جو حق قصاص پر اصرار کر رہے ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا استیفاے حق چونکہ معاف کر دینے والے کے حق کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں، اس لیے اگر وہ قصاص ہی پر اصرار کرتے ہیں تو دیت پر رضامندی ظاہر کرنے والے وارث کو اس کے حصے کی رقم ادا کر دیں۔ چنانچہ ایک شخص نے ایک عورت کو قتل کر دیا تو سیدنا علی نے، جن کی راے میں مرد اور عورت کی جان کی قیمت غالباً ایک جیسی نہیں تھی، مقتولہ کے اولیا سے کہا کہ وہ یا تو قاتل سے دیت لے لیں اور اگر قصاص لینا چاہتے ہیں تو آدھی دیت قاتل کے اہل خانہ کو ادا کر دیں۔ ۲۷؂سیدنا علی ہی سے یہ فتویٰ منقول ہے کہ اگر مقتول کے دو ولی ہوں اور ان میں سے ایک قاتل کو معاف کر دے، جبکہ دوسرا قصاص لینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے، البتہ اسے نصف دیت قصاص میں قتل کیے جانے والے قاتل کے اولیا کو واپس کرنی ہوگی۔ ۲۸؂
اس ضمن میں اس نکتے کو نظر انداز کرنا بھی کسی طرح مناسب نہیں ہوگا کہ قاتل کی معافی کو ورثا کی رضامندی کے ساتھ مشروط کرنے کی بنیادی حکمت ہی یہ ہے کہ ان کے جذبۂ انتقام کو تسکین ملے اور بدلہ نہ لے سکنے کی صورت میں دشمنی اور عداوت کے جو جذبات دلوں میں پرورش پاتے رہتے ہیں، ان کے اثرات ونتائج سے بچا جا سکے۔ اب اگر صرف ایک وارث کے معاف کر دینے کی صورت میں قاتل سے قصاص کو ساقط قرار دیا جائے، جبکہ باقی اولیا انتقام لینے کی خواہش رکھتے ہوں تو ظاہر ہے کہ اس سے مذکورہ حکمت کسی طرح ملحوظ نہیں رہتی۔
_____________

۱؂عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: حدود وتعزیرات اور قصاص ۳۲۰۔۳۳۱۔
۲؂الشافعی، الام ۵/ ۱۰، ۱۴۔
۳؂الشیبانی، الحجۃ علیٰ اہل المدینہ ۴/ ۳۸۲۔ طبری، جامع البیان۲/ ۱۱۴۔
۴؂عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: حدود وتعزیرات اور قصاص ۲۶۳۔ ۲۶۹، ۳۲۰۔ ۳۳۱۔
۵؂نسائی، رقم ۴۷۰۲۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے کوئی قانونی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے اور کیا عدالت کو قتل کے مقدمات میں اصلاً صلح صفائی ہی کی کوشش کرنی چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک غیر جانب دار قاضی نہیں تھے، بلکہ خدا کے پیغمبر، مصلح معاشرہ اور معلم اخلاق بھی تھے اور آپ کے طرز عمل اور فیصلوں میں آپ کی یہ مختلف حیثیتیں بیش تر اوقات یکجا ہو جاتی تھیں، لہٰذا اولیاے مقتول کو معافی پر آمادہ کرنے کے واقعات سے ریاست کے لیے کوئی قانونی حکم یا ضابطہ اخذ کرنے کے بجاے ان کی درست تر توجیہ یہ ہوگی کہ چونکہ شریعت میں عفو ودرگذر کی بہت تاکید آئی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاکمانہ منصب کے لحاظ سے نہیں، بلکہ اپنی حیثیت نبوی میں اولیاے مقتول کو معافی کا اعلیٰ اخلاقی رویہ اپنانے پر رضامند کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
۶؂جصاص، احکام القرآن ۱/ ۱۵۰۔
۷؂کاسانی، بدائع الصنائع ۷/ ۵۶۔
۸؂اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے اس فقہی جزئیے کا حوالہ دینا شاید کسی حد تک مناسب ہو کہ اگر کوئی شخص قتل خطا کا نشانہ بن جائے اور مرنے سے پہلے اپنی دیت قاتل کو معاف کر دے تو جمہور فقہا کے نزدیک یہ معافی دیت کے ایک تہائی حصے کی حد تک ہی موثر ہوگی، جبکہ پوری دیت کی معافی کے لیے مقتول کے ورثا کی رضامندی شرط ہوگی۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم۱۸۲۰۵۔ ۱۸۲۰۶۔ ابن رشد، بدایۃ المجتہد ۲/ ۳۰۲) اس راے سے اتفاق ضروری نہیں، تاہم دیکھ لیجیے کہ دیت اصلاً مقتول کی جان کا عوض ہے، لیکن فقہا کے نزدیک چونکہ مقتول کی موت کا امکان غالب ہونے کے باعث اس پر ورثا کا حق بھی ایک پہلو سے قائم ہو چکا ہے، اس لیے وہ ان کی رضامندی کے بغیر خود مقتول کو بھی اپنی دیت کلیتاً معاف کر دینے کا اختیار نہیں دیتے۔
۹؂عبد الرحمن الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۵/ ۱۹۶۔ وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/ ۲۹۱۔ ۲۹۲۔
۱۰؂فقہ السنہ ۳/ ۲۰۔
۱۱؂ابن العربی، احکام القرآن ۳/ ۱۲۰۶۔ ۱۲۰۷۔
۱۲؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۷۱۲۔
۱۳؂ابوداؤد، رقم ۳۹۰۸۔
۱۴؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۸۳۰۔
۱۵؂ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ۴/ ۲۵۶۔ ۲۵۷، ۵/ ۷۱۔
۱۶؂جصاص، احکام القرآن ۱/ ۱۱۵۱۔ طبری، جامع البیان۲/ ۱۱۲۔
۱۷؂مصنف عبد الرزاق، رقم۱۸۲۰۴۔ طبری، جامع البیان۲/ ۱۱۳۔
۱۸؂الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/ ۳۸۔
۱۹؂مسائل الامام احمد بن حنبل واسحاق بن راہویہ ۲/ ۲۳۰، ۲۷۲۔ حاشیہ الدسوقی ۴/ ۲۳۸۔وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/ ۲۷۲۔
۲۰؂الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/ ۱۰۳۔
۲۱؂الشافعی، الام ۴/ ۳۱۷۔
۲۲؂ابو داؤد، رقم ۴۵۳۸۔
۲۳؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۸۵۳۔
۲۴؂بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم۱۵۸۵۱۔
۲۵؂الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/ ۱۰۵۔
۲۶؂مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۷۸۸۵۔
۲۷؂مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۷۴۸۳۔
۲۸؂الطوسی، تہذیب الاحکام ۱۰/ ۱۷۷۔ الکلینی، الفروع من الکافی ۷/ ۳۵۶۔​
 
Top