فلسفہ و کلام کا فرق: غزالی فلسفی تھے یا متکلم؟

الف نظامی

لائبریرین
بہت سے محققین امام صاحب کو فلسفی شمار کرتے ہیں لیکن اس جواب کا انحصار اس امر پر ہے کہ فلسفے و کلام کی تعریف کیا متعین کی جاتی ہے۔ عام طور پر فلسفہ حقیقت سے بحث کرنے کو کہتے ہیں جو پانچ عمومی سوالات پر کی جانے والی عقلی ایکسرسائز پر مشتمل ہے:
1) وجود کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ، اسے آنٹالوجی (ontology) کہا جاتا ہے
2) حقیقتوں کی ترتیب کیا ہے ، اسے کونیات (cosmology) کہتے ہیں
3) انسان کے پاس حقیقت کو جاننے کا ذریعہ کیا ہے، اسے علمیات (epistemology) کہتے ہیں
4) حقیقتوں میں اچھائی و برائی کا اصول کیا ہے، اسے اخلاقیات (ethics) کہتے ہیں
5) حقیقتوں کو ترتیب دے کر نئی حقیقتیں معلوم کرنے کا صائب طریقہ کیا ہے ، اسے منطق (logic) کہتے ہیں

فلسفہ و کلام میں اکثر اوقات یوں فرق کیا جاتا ہے کہ ان سوالات سے متعلق جو عقلی ایکسرسائز مذھبی دعووں پر ایمان لانے کے بعد اس ایمان کی معقولیت اور اس کا دفاع کرنے والے جواز تلاشنے کی خاطر کی جائے وہ کلامی عقلی ایکسرسائز ہوتی ہے جبکہ جو عقلی ایکسرسائز کسی شے پر ایمان لائےبغیر ان سوالات کے جواب کی کھوج میں کی جائے وہ فلسفیانہ عقلی ایکسرسائز ہوتی ہے۔ یہ تقسیم اگرچہ جزوی طور پر درست ہے لیکن نفس حقیقت کا درست بیان نہیں۔ اس میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ تقسیم اس بات کے امکان کو مفروضے کے طور پر فرض کئے ہوئے ہے گویا انسانی عقل پہلے سے موجود کسی جوہری یعنی substantive مقدمے کو درست مانے بغیر بھی عقلی ایکسرسائز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو کہ علمی اعتبار سے ایک غلط مقدمہ ہے۔ نفس معاملہ یوں ہے کہ انسانی عقل کسی تناظر (perspective) کے اندر ہی عقلی ایکسرسائز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تناظر سے مراد وہ مفروضات ہیں جو انسانی عقل کے لئے ناگزیر (binding) ہوتے ہیں اور عقلی ایکسرسائز کے دوران انسانی عقل ان پر سوال یا تو اٹھا ہی نہیں سکتی اور یا بوجوہ (جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں) خود کو اس عمل سے روکتی ہے۔ اگر وہ ان پر سوالات اٹھا دے تو عقلی ایکسرسائز یا تو معطل ہوجاتی ہے اور یا پھر اس کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان substantive مقدمات کی حیثیت کمپیوٹر ھارڈ وئیر پر انسٹالڈ شدہ سوفٹ وئیر کی سی ہوتی ہے کہ جسے تبدیل کردینے سے ھارڈ وئیر سے حاصل ہوسکنے والے اعمال و نتائج کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے کی جانے والی ہر مشق اس پر انسٹالڈ سافٹ وئیر کی مرہون منت ہے۔

انسانی عقل کے پاس ان substantive مقدمات کی دو بنیادیں ہیں:
ایک وہ مقدمات جنہیں عقل بدیہیات ماننے پر مجبور ہے (امام غزالی انہیں "کلیات عقلیہ" کہتے ہیں) اور دوسرے وہ مقدمات جن کا منبع یا تو خدا کے انبیاء کی تعلیمات ہوتی ہیں، یا کوئی معاشرتی روایت اور یا خود انسانی خواہشات جن کے منبع میں شیاطین کی طرف سے کی جانے والی وحی بھی شامل ہوتی ہے۔ تعلیمات انبیاء کے ماسواء ان سب کو ہم "دیگر" ماخذ کہہ سکتے ہیں۔

پس اگر یہ مقدمہ واضح رہے تو نفس معاملہ کی نوعیت یہ ہے کہ کلام اس عقلی ایکسرسائز کا نام ہے جو خدا، رسول اور آخرت کے مقدمات کو ناگزیر substantive مفروضات کے طور پر درست مان کر شروع کی جائے جبکہ فلسفہ وہ عقلی ایکسرسائز ہے جو دیگر ماخذات سے درست معلوم ہونے والے مقدمات کی بنیاد پر شروع کی جائے۔

یہ تقسیم اس اعتبار سے اہم ہے کیونکہ جب فلسفہ و کلام کو اس اعتبار سے تقسیم کیا جاتا ہے جو پہلے عرض کیا گیا تو اس سے یہ دھوکہ ذھن میں آتا ہے گویا فلسفی علمیاتی اعتبار سے کوئی بلند تر (زیادہ bold اور وسیع دائرے میں) عقلی ایکسرسائز کرتا ہے جبکہ متکلم کسی محدود دائرے میں۔ چنانچہ عقلی ایکسرسائز کے مابین یہ فرق دائروں کی وسعت زیادہ یا کم ہونے کا نہیں بلکہ دائروں کے مختلف ہونے کا ہے، جہاں ہر دائرہ اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ دوسرے پر ان معنی میں محیط ہے کہ اس کی توجیہہ اپنے اندر کرسکتا ہے۔ پس خالصتا انسانی سطح پر وضع شدہ علمیاتی اعتبار سے کلام اور فلسفے میں کوئی خاص فرق نہیں، ماسوائے اس سے کہ دونوں کے یہاں وجوھات ترجیح مختلف ہیں۔ متکلم البتہ اہل عقل ہوتا ہے، ان معنی میں کہ ہمارے نزدیک عقل کا مطلب ہی خدا، رسول و آخرت کو درست عقلی substantive مقدمات کے طور پر قبول کرنا ہے۔ جو عقل انہیں قبول نہیں کرتی وہ یا تو شیطان کے زیر اثر اپنے نفس کی پچاری ہوتی ہے
("شیاطین لیوحون الی اولیائہم" نیز "من اتخذ الھہہ ھواء") اور یا کسی روایت کی ("ماوجدنا علیہ اباؤنا")۔
پس امام غزالی متکلم تھے نہ کہ فلسفی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
امام غزالی کے بارے میں ایسی بحث کی تو میرے خیال میں ضرورت ہی نہیں، انکے خیالات تو عیاں ہیں۔ دیگر یہ کہ ان کی شہرہ آفاق کتاب "تہافت الفلاسفہ" (فلسفیوں کے تضادات، ایک جگہ میں نے اس کا ترجمہ فلسفیوں کی موت بھی پڑھا تھا) کے عنوان ہی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ کس قسم کے خیالات رکھتے تھے۔ اس کتاب میں ابنِ سینا اور فارابی جیسے فلسفیوں کے لتے لیے گئے ہیں اور اس کتاب کا جواب ابنِ رشد نے لکھا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ان سوالات سے متعلق جو عقلی ایکسرسائز مذھبی دعووں پر ایمان لانے کے بعد اس ایمان کی معقولیت اور اس کا دفاع کرنے والے جواز تلاشنے کی خاطر کی جائے وہ کلامی عقلی ایکسرسائز ہوتی ہے
ماننے کے لیے جاننا ضروری نہیں ، جاننے کے لیے ماننا ضروری ہے۔ (واصف علی واصف)

نفس معاملہ یوں ہے کہ انسانی عقل کسی تناظر (perspective) کے اندر ہی عقلی ایکسرسائز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تناظر سے مراد وہ مفروضات ہیں جو انسانی عقل کے لئے ناگزیر (binding) ہوتے ہیں اور عقلی ایکسرسائز کے دوران انسانی عقل ان پر سوال یا تو اٹھا ہی نہیں سکتی اور یا بوجوہ (جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں) خود کو اس عمل سے روکتی ہے۔ اگر وہ ان پر سوالات اٹھا دے تو عقلی ایکسرسائز یا تو معطل ہوجاتی ہے اور یا پھر اس کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان substantive مقدمات کی حیثیت کمپیوٹر ھارڈ وئیر پر انسٹالڈ شدہ سوفٹ وئیر کی سی ہوتی ہے کہ جسے تبدیل کردینے سے ھارڈ وئیر سے حاصل ہوسکنے والے اعمال و نتائج کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے کی جانے والی ہر مشق اس پر انسٹالڈ سافٹ وئیر کی مرہون منت ہے۔
you are trained to your mental corpus
 

الف نظامی

لائبریرین
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ لکھ کر مسلمانوں کی سائنسی ترقی روک دی۔ کیا واقعی امام غزالی نے ایسے امور کو رد کیاتھا جنہیں آج "فزیکل سائنسز" وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؟ تہافت الفلاسفہ کے دوسرے مقدمے میں امام صاحب کہتے ہیں کہ فلاسفہ کے ساتھ ہمارے اختلاف کی تین اقسام ہیں:
1) ایک قسم وہ ہے جو لغوی قسم کی بحث ہے، مثلا بعض فلاسفہ کا کائنات کے صانع کے لئے "جوھر" کا لفظ استعمال کرنا اور جوھر بول کر وہ شے مراد لینا جو اہل مذھب لفظ خالق و صانع سے مراد لیتے ہیں۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ اس کتاب میں مجھے اس قسم کے اختلاف سے بحث نہیں کرنی کیونکہ اس کا تعلق اس فقہی بحث سے ہے کہ کیا اللہ کے لئے منصوص اسماء کے سوا کوئی نام استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2) دوسرے قسم کے معاملات وہ ہیں جن کا انبیاء و رسل کی تصدیق کے ساتھ اثباتا و نفیا کوئی تعلق نہیں، جیسے ان فلاسفہ کا یہ کہنا کہ چاند یا سورج گرھن فلاں فلاں طرح سے ہوتے ہیں یا ان کا یہ کہنا کہ زمین گول ہے وغیرہ۔ ان امور میں ان کے ساتھ جھگڑا کرنا غیر مفید بلکہ الٹا دین کے لئے نقصان دہ طریقہ بحث ہے کیونکہ ان میں سے اکثر امور حساب اور ان جیسے علوم سے ثابت شدہ ہیں اور نصوص کی بنیاد پر ان کے انکار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کا انکار کرنا الٹا ملحدین کو فائدہ دیتا ہے کہ اس کی بنیاد پر مذھبی لوگوں کے بارے میں پھر یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یہ لوگ ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ہم ایسے امور میں بھی نہیں الجھیں گے

3) تیسرے قسم کے مسائل وہ ہیں جو الہیات کے باب سے متعلق ہیں جیسے ان کا یہ کہنا کہ کائنات ازل سے ہے یا ان کا یہ کہنا کہ جسموں کے ساتھ اعمال کی جزا ملنا ناممکن ہے وغیرہ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب میں اسی تیسری قسم کے مسائل میں ان سے بحث کریں گے۔ چنانچہ تہافت الفلاسفہ میں امام صاحب نے بیس ابواب میں اسی قسم کے مسائل سے بحث کی ہے۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ جو لوگ تہافت الفلاسفۃ کی بنیاد پر امام صاحب کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں انہوں نے کبھی اس کتاب کا مقدمہ بھی پڑھا ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
علامہ ابن رشد نے امام غزالی کی کتاب تھافت الفلاسفہ پر نقد لکھا یہ مشہور ہے، لیکن یہ دلچسپ بات غیر معروف ہے کہ انہوں نے اصول فقہ پر امام غزالی کی کتاب المستصفی من علم الاصول (جسے طریقہ متکلمین کی اصول فقہ کی چار امہات الکتب میں سے ایک مانا جاتا ہے) کا خلاصہ لکھا۔ یہ کتاب طویل عرصے تک ناپید رہی یہاں تک کہ 1980 کی دھائی میں ایک محقق نے اس کتاب کے نسخے کو دریافت کرکے اس چھاپا۔ اس کتاب کا نام "الضروری فی اصول الفقہ" ہے اور اسے "مختصر المستصفی" بھی کہتے ہیں۔ اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ علامہ ابن رشد کو امام غزالی سے "ذاتی خنس" نہیں تھی ورنہ کم از کم ان کی کتاب کا خلاصہ نہ لکھتے۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے کہ علمی اختلاف کے باوجود استفادہ کیسے ممکن ہے۔
(زاہد مغل)
 
Top