محمد امین
لائبریرین
کل ایٹریئم سنیما میں "ماہِ میر" دیکھی۔ بہت اچھی اور روایت سے ہٹ کر بنائی گئی فلم ہے۔ یہ فلم گو کہ میر تقی میر کی سوانح نہیں ہے لیکن ایک جدید زمانے کے دھتکارے ہوئے لکھاری کی زندگی کو میر کی زندگی کے ساتھ ساتھ دکھایا گیا ہے۔پاکستانی سنیما میں بالکل نیا تجربہ ہے، اور بہت اچھے طریقے سے نبھایا گیا ہے۔ اس کے لیے ڈائریکٹرز کو سہرا جاتا ہے، انجم شہزاد اور سرمد صہبائی دونوں ڈائریکٹر ہیں۔
لیکن اس فلم میں بھی وہی مسئلہ ہے جو آجکل ہر پاکستانی اور تقریباًً ہر ہندوستانی فلم میں ہے، کہ فلم میں پلاٹ ہے ہی نہیں۔ اگر پلاٹ کسی حد تک کہیں نظر بھی آیا تو اختتام تک پلاٹ کا گلا گھٹ چکا تھا اور اختتام بہت عجیب طریقے سے کیا گیا جس کی کوئی توجیح اور تک نہیں بنتی۔
لیکن۔۔۔ فلم تکنیکی اور صوری اعتبار سے کمال کی ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ انڈسٹری سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ ادب، شاعری اور گنجلک الفاظ سے بھری ہے اس لیے عوام میں زیادہ پذیرائی نہیں حاصل کرسکی، اور جہاں تک میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے، اس کو فلوپ کا درجہ مل چکا ہے۔10، 12 دنوں میں فقط ڈیڑھ کروڑ کما سکی ہے۔
ایک مسئلہ اور ہے، وہ منظر صہبائی کا ناقابلِ فہم تحت اللفظ اور تشدد کی حد تک چبا چبا کر فارسی و اردو اشعار کو پڑھنا ہے۔ اسی طرح ایمان علی، جس کو فہد مصطفیٰ کے تخیل میں میر کی محبوبہ مہتاب بیگم دکھایا گیا ہے، اس کا لہجہ خالص کلاسیکی اردو لہجہ ہرگز نہیں تھا۔ ساتھ ہی تحت اللفظ کی ٹانگ انہوں نے بھی توڑی۔
فہد مصطفیٰ نے لازوال اداکاری کی اور فلم میں جان ڈال دی۔ یہ فلم ہر ادب کے شائق کو ضرور دیکھنی چاہیے کہ ملک میں نئی روایت کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ پچھلے دنوں منٹو فلم کا بھی چرچا رہا ہے، لیکن اس پر کافی تاریخی اعتراضات سنے ہیں میں نے۔ اس فلم پر بھی یہ دیکھنا اور تحقیق کرنا باقی ہے کہ آیا میر کے حالات و واقعات درست بیان کیے گئے ہیں یا زیبِ داستاں کے لیے فکشن کو جگہ دی گئی ہے؟
فاتح بھائی آپ دیکھیں ذرا یہ فلم ۔۔۔
لیکن اس فلم میں بھی وہی مسئلہ ہے جو آجکل ہر پاکستانی اور تقریباًً ہر ہندوستانی فلم میں ہے، کہ فلم میں پلاٹ ہے ہی نہیں۔ اگر پلاٹ کسی حد تک کہیں نظر بھی آیا تو اختتام تک پلاٹ کا گلا گھٹ چکا تھا اور اختتام بہت عجیب طریقے سے کیا گیا جس کی کوئی توجیح اور تک نہیں بنتی۔
لیکن۔۔۔ فلم تکنیکی اور صوری اعتبار سے کمال کی ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ انڈسٹری سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ ادب، شاعری اور گنجلک الفاظ سے بھری ہے اس لیے عوام میں زیادہ پذیرائی نہیں حاصل کرسکی، اور جہاں تک میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے، اس کو فلوپ کا درجہ مل چکا ہے۔10، 12 دنوں میں فقط ڈیڑھ کروڑ کما سکی ہے۔
ایک مسئلہ اور ہے، وہ منظر صہبائی کا ناقابلِ فہم تحت اللفظ اور تشدد کی حد تک چبا چبا کر فارسی و اردو اشعار کو پڑھنا ہے۔ اسی طرح ایمان علی، جس کو فہد مصطفیٰ کے تخیل میں میر کی محبوبہ مہتاب بیگم دکھایا گیا ہے، اس کا لہجہ خالص کلاسیکی اردو لہجہ ہرگز نہیں تھا۔ ساتھ ہی تحت اللفظ کی ٹانگ انہوں نے بھی توڑی۔
فہد مصطفیٰ نے لازوال اداکاری کی اور فلم میں جان ڈال دی۔ یہ فلم ہر ادب کے شائق کو ضرور دیکھنی چاہیے کہ ملک میں نئی روایت کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ پچھلے دنوں منٹو فلم کا بھی چرچا رہا ہے، لیکن اس پر کافی تاریخی اعتراضات سنے ہیں میں نے۔ اس فلم پر بھی یہ دیکھنا اور تحقیق کرنا باقی ہے کہ آیا میر کے حالات و واقعات درست بیان کیے گئے ہیں یا زیبِ داستاں کے لیے فکشن کو جگہ دی گئی ہے؟
فاتح بھائی آپ دیکھیں ذرا یہ فلم ۔۔۔
آخری تدوین: