آصف شفیع
محفلین
غزل:
فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے
زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے
ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے دیکھا
مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے
کسے کے سامنے دستِ طلب کیسے اٹھاتے
کہ ہم نےخود کو اک معیار پر رکھا ہوا ہے
ہوا سے جنگ لڑنے کی یہ ہے پہلی علامت
نشیمن میں جو اک بیکار پر رکھا ہوا ہے
ذرا بھی یہ نہیں سرکا کسی نیکی کے بدلے
عجب پتھر ہمارے غار پر رکھا ہوا ہے
شکست و فتح کی خاطر ہمیں لڑنا نہیں ہے
ہمارا فیصلہ سالار پر رکھا ہوا ہے
پلٹ کر آ ہی جائے گا کبھی بھولے سے شاید
سو میں نے اک دیا دیوار پر رکھا ہوا ہے
( از: ذرا جو تم ٹھہر جاتے)
فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے
زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے
ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے دیکھا
مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے
کسے کے سامنے دستِ طلب کیسے اٹھاتے
کہ ہم نےخود کو اک معیار پر رکھا ہوا ہے
ہوا سے جنگ لڑنے کی یہ ہے پہلی علامت
نشیمن میں جو اک بیکار پر رکھا ہوا ہے
ذرا بھی یہ نہیں سرکا کسی نیکی کے بدلے
عجب پتھر ہمارے غار پر رکھا ہوا ہے
شکست و فتح کی خاطر ہمیں لڑنا نہیں ہے
ہمارا فیصلہ سالار پر رکھا ہوا ہے
پلٹ کر آ ہی جائے گا کبھی بھولے سے شاید
سو میں نے اک دیا دیوار پر رکھا ہوا ہے
( از: ذرا جو تم ٹھہر جاتے)