کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آنکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے
کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے
جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا
کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا ٹھہرے
تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے
تڑپنے کو کہا تڑپے ، ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے
زہے قسمت حسینوں کی بُرائی بھی بھلائی ہے
کریں یہ چشم پوشی بھی تو نظروں میں حیا ٹھہرے
یہ عالم بیقراری کا ہے جب آغاز الفت میں
دھڑکتا ہے دل اپنا دیکھئے انجام کیا ٹھہرے
حقیقت کھول دی آئینہ وحدت نے دونوں کی
نہ تم ہم سےجدا ٹھہرے ، نہ ہم تم سے جدا ٹھہرے
دل مضطر سے کہہ دو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے
ذرا بہکے ذرا سنبھلے ذرا تڑپے ذرا ٹھہرے
شب وصلت قریب آنے نہ پائے کوئی خلوت میں
ادب ہم سے جدا ٹھہرے حیا تم سے جدا ٹھہرے
اٹھو جاؤ سدھا رو ، کیوں مرے مردے پہ روتے ہو
ٹھہرنے کا گیا وقت اب اگر ٹھہرے تو کیا ٹھہرے
نہ تڑپا چارہ گر کے سامنے اے درد یوں مجھ کو
کہیں ایسا نہ ہو یہ بھی تقاضائے دوا ٹھہرے
ابھی جی بھر کے وصل یار کی لذت نہیں اٹھی
کوئی دم اور آغوش اجابت میں دعا ٹھہرے
خیال یار آنکلا مرے دل میں تو یوں بولا
یہ دیوانوں کی بستی ہے یہاں میری بلا ٹھہرے
امیر آیا جو وقت بد تو سب نے راہ لی اپنی
ہزاروں سیکڑوں میں درد وغم دو آشنا ٹھہرے
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آنکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے
کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے
جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا
کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا ٹھہرے
تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے
تڑپنے کو کہا تڑپے ، ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے
زہے قسمت حسینوں کی بُرائی بھی بھلائی ہے
کریں یہ چشم پوشی بھی تو نظروں میں حیا ٹھہرے
یہ عالم بیقراری کا ہے جب آغاز الفت میں
دھڑکتا ہے دل اپنا دیکھئے انجام کیا ٹھہرے
حقیقت کھول دی آئینہ وحدت نے دونوں کی
نہ تم ہم سےجدا ٹھہرے ، نہ ہم تم سے جدا ٹھہرے
دل مضطر سے کہہ دو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے
ذرا بہکے ذرا سنبھلے ذرا تڑپے ذرا ٹھہرے
شب وصلت قریب آنے نہ پائے کوئی خلوت میں
ادب ہم سے جدا ٹھہرے حیا تم سے جدا ٹھہرے
اٹھو جاؤ سدھا رو ، کیوں مرے مردے پہ روتے ہو
ٹھہرنے کا گیا وقت اب اگر ٹھہرے تو کیا ٹھہرے
نہ تڑپا چارہ گر کے سامنے اے درد یوں مجھ کو
کہیں ایسا نہ ہو یہ بھی تقاضائے دوا ٹھہرے
ابھی جی بھر کے وصل یار کی لذت نہیں اٹھی
کوئی دم اور آغوش اجابت میں دعا ٹھہرے
خیال یار آنکلا مرے دل میں تو یوں بولا
یہ دیوانوں کی بستی ہے یہاں میری بلا ٹھہرے
امیر آیا جو وقت بد تو سب نے راہ لی اپنی
ہزاروں سیکڑوں میں درد وغم دو آشنا ٹھہرے