لالہ رخ
محفلین
فن کو سدھارتے ہوئے ماہر ڈسے گئے
سانپوں کو ساتھ رکھتے تھے آخر ڈسے گئے
دنیا زمانہ ساز چلن سے تھی آشنا
بھولے تھے اس لیے ترے شاعر ڈسے گئے
تجھ کو بھی کچھ خبر ہے سپیروں کے تاج ور
تیری گلی میں کتنے مسافر ڈسے گئے
زلفِ سیہ کی ایک لپک سے بہار میں
اڑتے ہوئے خیال کے طائر ڈسے گئے
اک ساحرہ سروپ کے رخسارِ سرخ سے
منصور شہر لمس کے ساحر ڈسے گئے