دیا خان
محفلین
فن
کسی بھی کام میں مکمل مہارت یا دسترس حال کر لینا فن کہلاتا ہے۔
دنیا کے تمام ہی فنون کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر نقد کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ پہلے آپ اس فن کو سمجھ لیں، اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بنظر غور مطالعہ کریں، اس کے بعد ہی آپ اس قابل بنتے ہیں کہ اس کے اصولوں پر نقد کر سکیں اور اس کے اصولوں میں اگر کوئی ضرورت ہو، تو کمی زیادتی بھی کر سکتے ہیں، مگ اس درجہ تک پہنچنے کے لیے حد درجہ کوشش، محنت، جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
کسی بھی فن کی جب تعریف ہو یا تفسیر ہو، رائے ہو یا مشورہ ماہرین فن کی بات ہی اس سلسلےمیں معیار سمجھی جاتی ہے.
فن کو حاصل کر لینے والا 'فن کار' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اصول فن
کوئی بھی فن چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی مہارت جب کسی معاشرے میں اپنے عروج تک پہنچ جائے اور عوام الناس میں اس کی پسندیدگی اور مطالبہ پایا جانے لگے تو وہ فن کہلاتا ہے۔
فن تک پہنچنے کے لیئے اس حد تک محنت کرنی ہوتی ہے کہ ایک اناڑی شخص اگر وہی کام سر انجام دے تو ایک اناڑی اور ماہر کے کام کے بیچ واضح فرق محسوس ہو۔
فن کار کا کام اپنے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔
فن کو ہر حال میں ترقی پزیر اور امید افزا ہونا چاہیئے۔
فن حاصل کرنے کے لیئے ہماری ذمہ داری
ہرفرد کسی نہ کسی حیثیت میں ذمہ دار ہوتا ہے۔ کسی بھی فن کو حاصل کرنے کے لیئے ہم پر بھی کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس کے لیئے محنت، دلجمعی، مستقل مزاجی، ہمت و استقلال، نظم و ضبط اور فن کے مخصوص طے شدہ اصولوں پر کاربند رہنا بہت ضروری ہے۔
*سونا آگ میں جل کر ہی کندن بنتا ہے-*
ایک اناڑی کو ایک فن کار بننے تک کئی منزلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سیکھنے کا یہ سفر مختلف اونچے نیچے، خوشگوار اور دشوار راستوں سے گزر کر کی منزل مقصور تک پہنچتا ہے۔ جہاں کامیابی آپ کے قدم چومنے کو بیتاب کھڑی ہوتی ہے۔
سکیھنے کے لیئے تین بڑے اور اہم طریقے یا ذرائع ہیں۔
1۔ سن کر
2۔ دیکھ کر
3۔ چھو کر (محسوس کر کے)
جو اپنی تمام تر قوتیں سیکھنے کے لیئے لگا دے وہ ہر دم کامیاب ہی کامیاب ہے۔ جیسے کہ ارشاد ربانی ہے۔
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم ۔ 39)
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی (کوشش) کرتا ہے۔
محنت اور احساس ذمہ داری ہی وہ نعمت ہے جس کی بدولت قومیں عروج پر پہنچتی اور عزت و وقار پاتی ہیں۔ یہ قدر تابناک پیشانی، تابدار گیسو کی حامل ہے۔
بقول شاعر
*نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو۔*
جستجو کی یہ جبلت انسانی زندگی میں انتہائی اہم اور مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
ایک محنت کش ہی مثالی ترقی کی طرف بڑھتا ہے اور عزت و افتخار کی بنیادیں مضبوط کرتا ہے اور اپنی صلاحیتیں اجاگر کر کے امتیازی شان بناتا ہے۔
وہ لوگ جو ذمہ داری کی حرمت کو پامال کرتے ہیں نہ صرف دوسروں کے ساتھ زیادتی کرجاتے ہیں بلکہ وہ خود اپنی ذات سے بھی مخلص نہیں۔
اگر ہم صحیح معنوں میں مستقبل کے سنہرے خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو اس خواب میں رنگ بھرنے کے لیے ان تھک محنت اور اصول و ضوابط کی پابندی ہمارے لیئے بے حد ضروری ہے۔
کامیابی کی سرحدوں تک کوئی گلی نہیں جاتی۔ یہ سفر مشقت کی شاہ راہوں پر ہی طے کرنا ہے۔
اساتذہ فن آپ کو اشارے تو دے سکتے ہیں، منزل تک پہنچا نہیں سکتے۔ یہ سفر آپ کو بفس نفیس طے کرنا ہوگا۔
اس عنوان کو مختصر طور پر ان اشعار میں یوں قید کیا گیا ہے کہ:
مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی
بغیر اس کے کبھی کسی نے نہ پائی
نہ عزت، نہ دولت، نہ کشور کشائی
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں۔
کسی بھی کام میں مکمل مہارت یا دسترس حال کر لینا فن کہلاتا ہے۔
دنیا کے تمام ہی فنون کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر نقد کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ پہلے آپ اس فن کو سمجھ لیں، اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بنظر غور مطالعہ کریں، اس کے بعد ہی آپ اس قابل بنتے ہیں کہ اس کے اصولوں پر نقد کر سکیں اور اس کے اصولوں میں اگر کوئی ضرورت ہو، تو کمی زیادتی بھی کر سکتے ہیں، مگ اس درجہ تک پہنچنے کے لیے حد درجہ کوشش، محنت، جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
کسی بھی فن کی جب تعریف ہو یا تفسیر ہو، رائے ہو یا مشورہ ماہرین فن کی بات ہی اس سلسلےمیں معیار سمجھی جاتی ہے.
فن کو حاصل کر لینے والا 'فن کار' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اصول فن
کوئی بھی فن چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی مہارت جب کسی معاشرے میں اپنے عروج تک پہنچ جائے اور عوام الناس میں اس کی پسندیدگی اور مطالبہ پایا جانے لگے تو وہ فن کہلاتا ہے۔
فن تک پہنچنے کے لیئے اس حد تک محنت کرنی ہوتی ہے کہ ایک اناڑی شخص اگر وہی کام سر انجام دے تو ایک اناڑی اور ماہر کے کام کے بیچ واضح فرق محسوس ہو۔
فن کار کا کام اپنے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔
فن کو ہر حال میں ترقی پزیر اور امید افزا ہونا چاہیئے۔
فن حاصل کرنے کے لیئے ہماری ذمہ داری
ہرفرد کسی نہ کسی حیثیت میں ذمہ دار ہوتا ہے۔ کسی بھی فن کو حاصل کرنے کے لیئے ہم پر بھی کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس کے لیئے محنت، دلجمعی، مستقل مزاجی، ہمت و استقلال، نظم و ضبط اور فن کے مخصوص طے شدہ اصولوں پر کاربند رہنا بہت ضروری ہے۔
*سونا آگ میں جل کر ہی کندن بنتا ہے-*
ایک اناڑی کو ایک فن کار بننے تک کئی منزلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سیکھنے کا یہ سفر مختلف اونچے نیچے، خوشگوار اور دشوار راستوں سے گزر کر کی منزل مقصور تک پہنچتا ہے۔ جہاں کامیابی آپ کے قدم چومنے کو بیتاب کھڑی ہوتی ہے۔
سکیھنے کے لیئے تین بڑے اور اہم طریقے یا ذرائع ہیں۔
1۔ سن کر
2۔ دیکھ کر
3۔ چھو کر (محسوس کر کے)
جو اپنی تمام تر قوتیں سیکھنے کے لیئے لگا دے وہ ہر دم کامیاب ہی کامیاب ہے۔ جیسے کہ ارشاد ربانی ہے۔
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم ۔ 39)
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی (کوشش) کرتا ہے۔
محنت اور احساس ذمہ داری ہی وہ نعمت ہے جس کی بدولت قومیں عروج پر پہنچتی اور عزت و وقار پاتی ہیں۔ یہ قدر تابناک پیشانی، تابدار گیسو کی حامل ہے۔
بقول شاعر
*نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو۔*
جستجو کی یہ جبلت انسانی زندگی میں انتہائی اہم اور مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
ایک محنت کش ہی مثالی ترقی کی طرف بڑھتا ہے اور عزت و افتخار کی بنیادیں مضبوط کرتا ہے اور اپنی صلاحیتیں اجاگر کر کے امتیازی شان بناتا ہے۔
وہ لوگ جو ذمہ داری کی حرمت کو پامال کرتے ہیں نہ صرف دوسروں کے ساتھ زیادتی کرجاتے ہیں بلکہ وہ خود اپنی ذات سے بھی مخلص نہیں۔
اگر ہم صحیح معنوں میں مستقبل کے سنہرے خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو اس خواب میں رنگ بھرنے کے لیے ان تھک محنت اور اصول و ضوابط کی پابندی ہمارے لیئے بے حد ضروری ہے۔
کامیابی کی سرحدوں تک کوئی گلی نہیں جاتی۔ یہ سفر مشقت کی شاہ راہوں پر ہی طے کرنا ہے۔
اساتذہ فن آپ کو اشارے تو دے سکتے ہیں، منزل تک پہنچا نہیں سکتے۔ یہ سفر آپ کو بفس نفیس طے کرنا ہوگا۔
اس عنوان کو مختصر طور پر ان اشعار میں یوں قید کیا گیا ہے کہ:
مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی
بغیر اس کے کبھی کسی نے نہ پائی
نہ عزت، نہ دولت، نہ کشور کشائی
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں۔