فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے (سعداللہ شاہ)

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے

کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں‘ حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے

باعثِ‌ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
گھر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے

آئے بِکنے پہ تو حیرت میں ہمیں‌ ڈال دیا
وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے

ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر
ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے‘ پہلے پہلے

ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر
ہاں‌مگر گردشِ ایام سے پہلے پہلے

کس قدر تیز ہوائیں تھیں سرِ شام کہ دل
جل بجھا رات کے ہنگام سے پہلے پہلے

اب کے مشکل وہ پڑی ہے کہ یہ جاں‌ جاتی ہے
سعد رہتے تھے ہم آرام سے پہلے پہلے


(سعداللہ شاہ کے نئے شعری مجموعہ ’ایک جگنو ہی سہی‘ میں سے)
 

محمد وارث

لائبریرین
کس قدر تیز ہوائیں تھیں سرِ شام کہ دل
جل بجھا رات کے ہنگام سے پہلے پہلے

لاجواب!

شکریہ عمران صاحب خوبصورت غزل پوسٹ کرنے کیلیے!
 

آصف شفیع

محفلین
بہت خوب!
کیا پر زور اندازِ بیان ہے۔ "پہلے پہلے" کا استعمال نہایت عمدہ کیا گیا ہے۔ بہت اچھی اور بھرپور غزل ہے۔ شکریہ پوسٹ کرنے کا۔
 
Top