حسیب احمد حسیب
محفلین
فکری قبض !
مولانا فرماتے ہیں
چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں
تازہ باش وچیں میفگن بر جبیں
چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو
(ترجمہ:جب حالت قبض تجھ کو پیش آئے تو اس میں خوش رہ، ہشاش بشاش رہو اور پیشانی پر شکن نہ لاؤ، اے راہ سلوک کے مسافر ! تجھے حالت قبض پیش آتی ہے اس سے مقصود تیری اصلاح ہے، اس حالت پر تو دل چھوٹا نہ کر۔)
علم و معرفت کے میں اس کیفیت کو " قبض " کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور بہت سے کم ہمت اسی منزل پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں جاننا ضروری ہے کہ یہ معاملہ دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے
اس کے بعد بسط کی کیفیت ہوتی ہے یہ کیفیت قبض کے بالعکس ہے یہ انشراح و انبساط سے معمور ہوتی ہے یہاں قلبی طمانیت اور روحانی سکون اپنے عروج پر ہوتا ہے .....
ایک تخلیق کار پر یہ کیفیات ضرور طاری ہوتی ہیں کبھی مضامین کا ورود ہوتا ہے قلم رواں ہوتا ہے زبان پر الفاظ جاری ہوتے ہیں اور تخلیقی عمل اپنے عروج پر ہوتا ہے اور کبھی قلم روک دیا جاتا ہے زباں پر لکنت طاری ہو جاتی ہے اور تخلیقی سوتے خشک ہو جاتے ہیں یاد رہے یہ وقت تحقیق کا ہوتا ہے ہتھیار تیز کرنے کا کیونکہ طبیعت دوبارہ رواں ہونے والی ہے ......
لاروا جب بھی اپنے (cocoon) میں جاتا ہے ہر مرتبہ خوبصورت رنگوں اور پروں کو ساتھ لیے پرواز کیلئے تیار نکلتا ہے یہ تخلیقی قبض پرواز کی بلندی کیلئے ہوتا ہے
قعر چہ بگزید ہر کہ عاقلست
زانکہ در خلوت صفاہائے دلست
چشم بند و لب بہ بند و گو ش بند
گر نہ بینی نور حق بر ما نجند
یعنی ہوشیار لوگ گہرائی میں جانا کیوں پسند کرتے ہیں اس لئے کہ خلوت میں دلوں کی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔آنکھوں کو ،ہونٹوں کو اور کانوں کو کچھ عرصے کے بند کرو یعنی تخلیہ میں چلے جاؤ پھر حق کا نور نہ دیکھو تو مجھ پر ہنسو۔بعض لوگ وقتی طور پر باطن کی کچھ صفائی حاصل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اپنی حفاظت سے غافل ہوجاتے ہیں تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لاکھوں جال بکھرے ہوئے ہیں اس میں کسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس لئے رومی ؒ اس قسم کی اطمینان سے اس طرح منع کرتے ہیں :
اندر رہ می تراش و می خراش
تادمے آخر دمے فارغ مباش
تا دمے آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
اندر ہی اند ر تراش و خراش جاری رکو اور نفس کی اصلاح سے آخری سانس تک فارغ نہ بیٹھنا ۔آخری دم تک کام کرتے رہ یہاں تک کہ آخر وقت آجائے ممکن ہے کہ راز والا آپ کو راز آشنا کردے
(اقتباس )
کیا خوب کہا ہے شاعر نے
میں خود سےدورنکلنےکے فن سے واقف ہوں
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا
کبھی کبھی اپنے آپ سے دور نکلنا بھی تخلیقی عمل کے لوازمات میں سے ہوتا ہے یہ وقت ارکتاز کا وقت ہے بیٹری کو ریچارج کرنے کا وقت .........
یاد رکھئے نیند بیداری کیلئے ضروری ہے ورنہ احساس کی موت واقع ہو سکتی ہے
حسیب احمد حسیب
مولانا فرماتے ہیں
چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں
تازہ باش وچیں میفگن بر جبیں
چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو
(ترجمہ:جب حالت قبض تجھ کو پیش آئے تو اس میں خوش رہ، ہشاش بشاش رہو اور پیشانی پر شکن نہ لاؤ، اے راہ سلوک کے مسافر ! تجھے حالت قبض پیش آتی ہے اس سے مقصود تیری اصلاح ہے، اس حالت پر تو دل چھوٹا نہ کر۔)
علم و معرفت کے میں اس کیفیت کو " قبض " کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور بہت سے کم ہمت اسی منزل پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں جاننا ضروری ہے کہ یہ معاملہ دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے
اس کے بعد بسط کی کیفیت ہوتی ہے یہ کیفیت قبض کے بالعکس ہے یہ انشراح و انبساط سے معمور ہوتی ہے یہاں قلبی طمانیت اور روحانی سکون اپنے عروج پر ہوتا ہے .....
ایک تخلیق کار پر یہ کیفیات ضرور طاری ہوتی ہیں کبھی مضامین کا ورود ہوتا ہے قلم رواں ہوتا ہے زبان پر الفاظ جاری ہوتے ہیں اور تخلیقی عمل اپنے عروج پر ہوتا ہے اور کبھی قلم روک دیا جاتا ہے زباں پر لکنت طاری ہو جاتی ہے اور تخلیقی سوتے خشک ہو جاتے ہیں یاد رہے یہ وقت تحقیق کا ہوتا ہے ہتھیار تیز کرنے کا کیونکہ طبیعت دوبارہ رواں ہونے والی ہے ......
لاروا جب بھی اپنے (cocoon) میں جاتا ہے ہر مرتبہ خوبصورت رنگوں اور پروں کو ساتھ لیے پرواز کیلئے تیار نکلتا ہے یہ تخلیقی قبض پرواز کی بلندی کیلئے ہوتا ہے
قعر چہ بگزید ہر کہ عاقلست
زانکہ در خلوت صفاہائے دلست
چشم بند و لب بہ بند و گو ش بند
گر نہ بینی نور حق بر ما نجند
یعنی ہوشیار لوگ گہرائی میں جانا کیوں پسند کرتے ہیں اس لئے کہ خلوت میں دلوں کی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔آنکھوں کو ،ہونٹوں کو اور کانوں کو کچھ عرصے کے بند کرو یعنی تخلیہ میں چلے جاؤ پھر حق کا نور نہ دیکھو تو مجھ پر ہنسو۔بعض لوگ وقتی طور پر باطن کی کچھ صفائی حاصل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اپنی حفاظت سے غافل ہوجاتے ہیں تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لاکھوں جال بکھرے ہوئے ہیں اس میں کسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس لئے رومی ؒ اس قسم کی اطمینان سے اس طرح منع کرتے ہیں :
اندر رہ می تراش و می خراش
تادمے آخر دمے فارغ مباش
تا دمے آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
اندر ہی اند ر تراش و خراش جاری رکو اور نفس کی اصلاح سے آخری سانس تک فارغ نہ بیٹھنا ۔آخری دم تک کام کرتے رہ یہاں تک کہ آخر وقت آجائے ممکن ہے کہ راز والا آپ کو راز آشنا کردے
(اقتباس )
کیا خوب کہا ہے شاعر نے
میں خود سےدورنکلنےکے فن سے واقف ہوں
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا
کبھی کبھی اپنے آپ سے دور نکلنا بھی تخلیقی عمل کے لوازمات میں سے ہوتا ہے یہ وقت ارکتاز کا وقت ہے بیٹری کو ریچارج کرنے کا وقت .........
یاد رکھئے نیند بیداری کیلئے ضروری ہے ورنہ احساس کی موت واقع ہو سکتی ہے
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: