عمران القادری
محفلین
سیدہ طیبہ طاہرہ
فکر کے لغوی معنی سوچ بچار اور تصور کے ہیں۔ اصطلاح میں فکر سے مراد وہ سوچ ہے جس کے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی قوت موجود ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فکر اور تدبر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ دو معرفتوں کو دل میں اس طرح جگہ دینا کہ تیسری معرفت حاصل ہوجائے فکر و تدبر کہلاتا ہے۔ فکر کی کسی تحریک کے لئے وہی اہمیت ہوتی ہے جو جسم کے لئے روح کی۔ معاشرتی تحریک ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی اجتماعی طور پر کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مقلاہنگ (Mclanghing) کے مطابق معاشرتی تحریک کا مقصد کسی مسئلے کو معاشرتی تغیر یا تبدیلی پیدا کرکے حل کرنا ہوتا ہے۔ معاشرتی تحریکیں اس وقت وجود میں آتی ہیں جب لوگوں کا ایک گروہ یہ محسوس کرے کہ ان کی ضروریات کو حاصل کرنے اور معاشرے کی ان ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت میں وسیع خلا پایا جاتا ہے۔
جس طرح معاشرتی ضروریات مادی، اخلاقی، روحانی یا علمی ہوسکتی ہیں اسی طرح معاشرتی تحریکیں بھی مادی، معاشی، اخلاقی، روحانی یا علمی ہوسکتی ہیں۔ جب معاشرے اخلاقی اور روحانی طور پر زوال کا شکار ہوجائیں، اقدار مٹنے لگیں۔ علمی سطح پر زوال کی وجہ سے کوئی معاشرہ اقوام عالم سے پیچھے رہ جائے تو ایسے وقت میں کسی ایسی تحریک کے قیام کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرتی طور پر ہمہ گیر تبدیلی کا باعث بنے۔
اس سارے پس منظر میں قائد تحریک کی فکر اور اس کے نتیجے میں تحریک منہاج القرآن کے قیام اور اس کے معاشرتی اثرات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان کا قیام تحریک پاکستان کے نتیجے میں ممکن ہوا اور تحریک پاکستان کے پیچھے فکرِ اقبال کار فرما تھی۔ پاکستان قائم کرنے کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جس کی بنیادی اقدار دین فطرت سے اخذ کی جائیں اور ان کے مطابق مسلمان اپنی زندگی بسر کرسکیں لیکن بدقسمتی سے دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ملک کے نام کا اضافہ تو ہوگیا لیکن اسلامی احکامات سے مطابقت رکھنے والا معاشرہ بوجوہ قائم نہ ہوسکا جہاں محروموں، غریبوں اور حقداروں کو ان کی دہلیز پر ان کے حقوق میسر آتے۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی حکمرانی ہوتی۔ جہاں تعلیم یافتہ نوجوان فکر روزگار سے آزاد معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں نظر آتے۔ جہاں عدل و انصاف معاشرے کی بنیادی قدر ٹھہرتا۔ نتیجتاً معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور رپر زوال کا شکار ہوگیا۔ علمی لحاظ سے بھی معاشرہ پیچھے رہ گیا اور نوجوان بے مقصدیت کا شکار ہونے لگے۔ اسلامی تعلیمات کا فہم و ادراک جاتا رہا۔ علمی اختلافات کی بجائے فرقہ وارانہ تعصبات بڑھنے لگے اور اسلام کی اصل تعلیمات لوگوں تک نہ پہنچ پائیں۔ بقول شاعر
رہ گئے فرقوں میں بٹ کر شامت اعمال سے
بھول کر ماضی ہوئے غافل اپنے حال سے
زندگانی کے مقاصد سے کچھ ایسے ہٹ گئے
اپنا منصب کھوگئے مرکز سے اپنے ہٹ گئے
مذہبی فکر و تدبر دین کا احساس و خیال
دنیاوی حرص و مشاغل نے دیا دل سے نکال
ان حالات میں ایک ایسے مسیحا کی ضرورت تھی جس کے ایک ہاتھ میں قرآنی تعلیمات ہوں اور دوسرے ہاتھ میں دور جدید کے علوم و فنون۔ ایک ہاتھ میں عظیم تہذیب اسلامی کا فیض ہو اور دوسرے ہاتھ میں عصر حاضر کا لب و لہجہ اور ریسرچ کا سائنٹیفک انداز۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان روشن انسانی اور فکری شخصیات میں سے ایک ہیں جو اسلام کی ثمر بار تہذیب نے انسانی معاشرے کو تحفہ دی ہیں۔ دور حاضر کے اس عظیم مفکر نے جو فکر دی اس کی بنیاد رج ذیل عناصر پر رکھی۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کا مقصد حیات رضائے الہٰی کا حصول ہے۔
رضائے الہٰی کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کیا جائے جو بعثت انبیاء کا مقصود رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس لئے اب یہ مسلم امہ کی ذمہ داری اور اجتماعی نصب العین ہے کہ دین حق کو غالب کیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کے جملہ تقاضے پورے کئے جائیںتو یہ جدوجہد ضرور کامیاب و کامران ہوگی۔
ملت اسلامیہ کے اس عظیم مصلح اور مفکر نے احیائے دین کی جو عظیم انقلابی فکر دی اس کے معاشرے پر ہمہ جہت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
نوجوانوں کی دین کی طرف رغبت
فرد جس حد تک نشوونما، ثقافت اور خود آگاہی سے زیادہ مستفید ہوتا ہے۔ وہ ماحول کی تبدیلی، اصلاح اور انقلاب اجتماعی کا زیادہ طاقت اور امکان کے ساتھ حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی اور اپنے معاشرے و ملت کی تقدیر کو بنانے یا اس کی تعمیر میں حصہ دار ہونے کی زیادہ طاقت حاصل کرتا ہے۔
عصر حاضر کا المیہ ہے کہ نوجوان نسل بے مقصدیت کا شہر ہے۔ نوجوان نسل کو کھوکھلا اور بے وقعت کرنے کے لئے انہیں سستی تفریح، موسیقی، فیشن پرستی اور ظاہر پرستی میں مبتلا کیا گیا۔ نیز فرقہ وارانہ تعصبات، قبائل، نسلی اور گروہی فسادات کو ہوا دے کر اسلام کی ابدی فطری تعلیمات کو ان کے ذہنوں سے محو کرنے کی جو کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں نوجوان نسل دین سے دور ہوگئی لیکن حضور شیخ الاسلام کی فکر نے اس بھولے بھٹکے نوجوان کو اپنی تاریخ، اپنے ماضی، اپنی ثقافت کے ساتھ ربط قائم کرنا اس حسین انداز میں سکھا دیا کہ اس کا رشتہ حال اور مستقبل سے بھی نہ ٹوٹنے پایا۔ نوجوان نسل جس کا دین سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ اسے نہ صرف مقصدیت سے آشنا کیا بلکہ ایک اسلامی شناخت بھی عطا کی۔ کیونکہ فرد اور معاشرے کا اپنی تعمیر کے لئے اپنی تاریخ، مذہب اور ماضی سے آگاہ اور مربوط ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی نوجوان جو بے راہ روی اور بے مقصدیت کا شکار تھا آج کشاں کشاں دینی اجتماعات میں چلا آتا ہے اور اگر اس کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو جامع المنہاج کے سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف میں خشیت الہٰی سے رونے اور عالمی میلاد کانفرنس میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مچلنے والے نوجوانوں کی اکثریت کو دیکھا جائے۔
حضور شیخ الاسلام کی فکر کا یہ فیض ہے کہ آج نوجوان نسل کی اکثریت دنیا طلبی کے احساسات سے زیادہ انسانی اقدار کو اہمیت دینے لگی ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے ایسے قابل فخر نوجوان تیار کئے ہیں جو کہ سنجیدہ اور انسانی اقدار سے آگاہ ہیں اور فکری اور روحانی غذا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے آج کے نوجوان کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خصوصی انفرادی تعلق استوار کردیا ہے اور اس تعلق کی آفاقی صفات کی رحمت کا سایہ جب فرد کے قلب و باطن پر پڑتا ہے تو اس کی اثرات معاشرے میں پاکیزگی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ آج نوجوان نسل میں فہم دین پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ حضور شیخ الاسلام کی دین کی اصل تعلیمات کو عام فہم انداز میں عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج کی نسل دین کے حوالے سے بہت واضح فہم رکھتی ہے۔
آج سے دو دہائیاں قبل دین پر مولویوں کی اجارہ داری تھی۔ دین کی تفہیم کے لئے ان سے رجوع کیا جاتا اور وہ جو عصر حاضر کے تقاضوں سے نابلد تھے وہ اپنے فہم دین کو دوسروں تک اپنی ذہنی سطح کے مطابق پہنچا رہے تھے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے دور حاضر کے ہر تعلیم یافتہ نوجوان کو دینی علم اس طرح سائنٹیفک Presentation کے ساتھ بہم پہنچا دیا ہے کہ آج کا نوجوان اب پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف اسلام کا پیغام خود دوسروں تک پہنچانے کی اہلیت حاصل کرچکا ہے بلکہ اسلامی شناخت پر فخر بھی محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ پروفیشنل لائرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اپنی فیلڈ کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ بھی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔
دین کا زندہ و بیدار تصور
دین کو کم فہم لوگوں نے قال تک محدود کررکھا ہے۔ خشک اور جامد تصور دین نے نوجوان نسل کو دین سے دور کردیا تھا۔ فرد کے شعور کی تربیت کے عمل تصوف کے ذریعے حضور شیخ الاسلام کی فکر نے دین کے اندر نئی روح پھونک دی اور 1400 سال قبل آنے والا دین عصر حاضر کے انسان کو اپنے عہد کی ضروریات پوری کرتا نظر آنے لگا۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے بندے کا خالق سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرکے اسے نئی زندگی عطا کی۔ آپ کی فکر نے دور فتن کے انسان کو یہ سکھایا کہ شریعت، اصول و قواعد کا مجموعہ ہے اور طریقت وہ عملی پروگرام ہے جس پر چل کر آپ شریعت کو زندہ و جاوید کردیتے ہیں۔
آپ کی فکر نے عصر حاضر کی خوفناک پیچیدگیوں میں الجھے انسان کے ذہن کی گرہیں کھولتے ہوئے وہ آسانیاں عطا کی ہیں کہ اسے تمام الجھنوں سے آزاد کرکے راہ سلوک پر گامزن کردیا ہے۔ وہ اپنے شعور کی افزائش کا درجہ اور معیار خود متعین کرنے لگا ہے اور اسے اللہ کی پناہ کا احساس ہونے لگا ہے۔ آپ کی فکر نے دین اور دنیا کی دوئی کے تصور کا خاتمہ کرکے دین کی تکمیل دونوں کے احاطے سے مربوط کردی۔
ایک طرف آپ کی فکر میں جہاں انسان کی دو بنیادی ضروریات (یعنی جان و مال کا تحفظ، صحت، صاف ماحول اور معاشی آسودگی اور دوسری ضرورت ایسے سماج اور معاشرے کی تخلیق جہاں ہم آہنگی، باہمی احترام ہو نفسا نفسی نہ ہو، عزت نفس مجروح نہ ہو۔ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور لوگ پوری آزادی اور سہولت کے ساتھ فانی دنیا یا غیر فانی زندگی میں کامیابی کے حصول کی کوشش کرسکیں) کا سامان فراہم کیا۔ وہاں انسان کی تعمیری بنیادی ضرورت جان لینے کی خواہش اور اپنے وجود کی کھوج کی ضرورت کا سامان بھی آپ کی فکر میں موجود ہے۔ آپ نے صرف اعمال کی درستگی کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اعمال کا سبب جو ذہنی پسماندگی ہے اسے دور کرکے انسان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لئے اس کی تربیت کی۔ آپ کی تعلیمات خودغرض رویوں کے فنا کا درس دیتی ہیں۔
آپ نے دین کے فیض سے محروم لوگوں کو سکھایا کہ دین ایک راستہ ہے عبادات اور معاملات کی درستگی آپ کے زاد راہ ہیں مگر آپ کی عقلی و شعوری افزائش اور راہنمائی تصوف فراہم کرتا ہے جو ذہن کی بند کھڑکی کو کھول کر قلب میں حاضری کے لئے تیار کرتا ہے۔
آپ نے بھولے بھٹکے انسان کو سکھایا کہ شریعت اخلاص فراہم کرتی ہے تو طریقت احسان۔ آپ کی فکر نے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے انسان کو قدرت کے خود کار نظام کا حصہ بنا کر اسے شعور کے افزائشی عمل سے گزارنے میں مدد دی۔
معاشرے میں اسلامی کلچر کا فروغ
اسلام حسین دین ھے اور معاشرے کو حسین بنانا چاہتا ہے۔ اسلامی معاشرے کا کلچر اس میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاشرے میں اخوت، رواداری، برداشت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کے کلچر کو فروغ دیا۔ پاکستانی معاشرے میں سب سے پہلے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کی کوشش حضور شیخ الاسلام کی فکر سے ملتی ہے۔ بعد ازاں یہ کلچر فروغ پانے لگا اور تمام مکاتب فکر اپنے فقہی اور مسلکی اختلافات بھلاکر ایک سیاسی اتحاد کی صورت میں مل بیٹھے ہیں تو اس کلچر کا سہرا حضور شیخ الاسلام کے سر ہے۔
معاشرہ دین کی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے دینی روایات سے بھی دور تھا۔ یہ حضور شیخ الاسلام کی فکر کا ثمر ہے کہ آج پاکستان کے گلی محلے میں محافل میلاد کا کلچر رچ بس گیا ہے۔ آج سے دس پندرہ سال قبل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں ایسی محافل کا انعقاد ایک اختلافی مسئلہ تھا اور اخبارات و رسائل میں نہ صرف اس اختلاف پر بحث ہوتی تھی بلکہ ہر جگہ اس موضوع پر لڑائی جھگڑے کی صورتحال رہتی مگر حضور شیخ الاسلام کی مدلل فکر کے نتیجے میں آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں محافل کا انعقاد پاکستان کا قابل فخر کلچر بن چکا ہے۔
عجمی معاشرہ ہونے کی وجہ سے لوگ بمشکل قرآن کا ناظرہ پڑھتے تھے اور اس کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے۔ حضور شیخ الاسلام نے درس قرآن کے ذریعے لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچانا شروع کیا جو PTV پر بھی نشر ہوتا رہا۔ اب درس قرآن ایک کلچر بن چکا ہے اور تحریک منہاج القرآن کے علاوہ مختلف مکاتب فکر اور اصلاحی جماعتیں بھی اسی کو لے کر چل رہی ہیں۔
حضور شیخ الاسلام نے یہ فہم دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی اور حُبی تعلق کمال ایمان ہے۔ آج پاکستانی معاشرے کے کلچر پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے اس حسین ایمانی تعلق کی چھاپ دکھائی دیتی ہے اور شیخ الاسلام کی فکر کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کا بچہ بچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ترانے الاپتا نظر آتا ہے۔ جس معاشرے کی آنے والی نسلوں کا تعلق اپنے مرکز سے پختہ ہوجائے وہ معاشرہ زیادہ دیر زوال کا شکار نہیں رہ سکتا۔
خواتین کسی معاشرے کی ثقافت کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی تہذیبی یا ثقافتی یلغار سب سے پہلے خواتین کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس حساسیت کو بھانپتے ہوئے حضور شیخ الاسلام نے خواتین کو اسلامی ثقافت کا حسین لبادہ پہناکر اسلامی ثقافت کی بنیادی قدر حیا کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج خواتین کا پڑھا لکھا طبقہ حجاب اور گاؤن میں ملبوس نظر آتا ہے۔ یہ اسلامی تشخص حضور شیخ الاسلام کی فکر نے پاکستانی خواتین کو دیا اور اب حجاب اور گاؤن فیشن اور کلچر کا حصہ بن کر مقبول ہورہے ہیں۔
معاصر مسلم معاشرے میں خواتین کے کردار کو یا تو چار دیواری کے اندر بند کردیا گیا تھا یا خواتین کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرسکتی تھیں مگر دین کے حوالے سے خواتین کا کوئی کردار نہیں تھا۔ حضور شیخ الاسلام نے جہاں خواتین کے حقوق واضح کئے جو اس سے پہلے اتنی وضاحت سے جنسی تعصب سے بالاتر ہوکر کسی نے بیان نہیں کئے تھے وہاں خواتین کو ان کا کردار واضح کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ عترتِ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام ہر زمانے میں اسلام کی پہچان ہے اور ہر زمانے کی خواتین کو سیدہ کائنات کا اسوہ اپنانا چاہئے۔
آپ کی فکر کے نتیجے میں آج پاکستانی معاشرے میں دینی جدوجہد میں خواتین بھی شامل ہوچکی ہیں اور یہ کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ جو طبقات اور مذہبی جماعتیں کل تک خواتین کے گھر سے باہر عملی کردار کی قائل نہ تھیں آج ان جماعتوں اور طبقوں کے بھی خواتین ونگ اور خواتین کے شعبے بناچکے ہیں اور ان کی خواتین دینی جدوجہد میں حصہ لے رہی ہیں۔ علم حقیقی ہی انسان کی تلاش اور جستجو کو تشفی بخش سکتا ہے اور علم حقیقی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ دنیاوی علم پر دسترس حاصل کی جائے پھر اس علم پر عمل کی راہ دین کی راہنمائی میں متعین کی جائے۔ یہی طریقت کا منشور اور یہی تصوف ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاشرے میں علمیت کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی نظیر صدیوں میں نہیں ملتی۔ حضور شیخ الاسلام علم کا روشن مینار ہیں۔
صدیوں کی پیاس جس نے بجھائی ہے علم سے
عصر شعور و آگہی سے ہم کلام ہے
یہ شخص جو ہے تابش خورشید فکر نو
آقا حضور آپ کا ادنیٰ غلام ہے
انقلابیت حضور شیخ الاسلام کی فکر کا نمایاں پہلو ہے۔ درد دل رکھنے والے افراد کو روح انقلاب سے عصر حاضر میں حضور شیخ الاسلام نے متعارف کروایا۔ آپ کی فکر ہمہ جہت انقلاب کے راستے متعین کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آج جو انقلاب اور مسلم امہ کے الفاظ زبان زد عام ہیں یہ Vision شیخ الاسلام کی فکر نے عام کیا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاصر دانشور حلقے کو مسلم امہ کے تناظر میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو لوگ مسلم امہ کے وجود کے ہی قائل نہ تھے آج وہ امہ کو بطور Entity نہ صرت تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس پر سنجیدگی سے لکھ رہے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے مسلمانوں کو عالمگیر اور آفاقی Vision عطا کیا ہے۔
حضور شیخ الاسلام کی ہمہ پہلو شخصیت اپنے فکروخیال کے انوکھے زاویوں سے معاشرے پر غیر معمولی اثرات مرتب کررہی ہے۔ آپ نے اپنی خداداد خطیبانہ صلاحیت سے پورے معاشرے کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ حضور شیخ الاسلام اپنے خطابات یا تحریروں میں جس بلند تر سطح سے بات کرتے ہیں یہ آپ کے مفکرانہ دماغ ہی کا خاصہ ہے۔ حضور شیخ الاسلام نظریاتی اور فکری حوالے سے اسلام کی ایک جامع اور عہد ساز شناخت رکھتے ہیں۔ رب مصطفیٰ انہیں حیات خضر عطا فرمائے اور وہ انقلاب جس کا خواب انہوں نے دیکھا ان کی زندگی کو لانا اور دیکھنا ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
فکر کے لغوی معنی سوچ بچار اور تصور کے ہیں۔ اصطلاح میں فکر سے مراد وہ سوچ ہے جس کے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی قوت موجود ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فکر اور تدبر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ دو معرفتوں کو دل میں اس طرح جگہ دینا کہ تیسری معرفت حاصل ہوجائے فکر و تدبر کہلاتا ہے۔ فکر کی کسی تحریک کے لئے وہی اہمیت ہوتی ہے جو جسم کے لئے روح کی۔ معاشرتی تحریک ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی اجتماعی طور پر کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مقلاہنگ (Mclanghing) کے مطابق معاشرتی تحریک کا مقصد کسی مسئلے کو معاشرتی تغیر یا تبدیلی پیدا کرکے حل کرنا ہوتا ہے۔ معاشرتی تحریکیں اس وقت وجود میں آتی ہیں جب لوگوں کا ایک گروہ یہ محسوس کرے کہ ان کی ضروریات کو حاصل کرنے اور معاشرے کی ان ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت میں وسیع خلا پایا جاتا ہے۔
جس طرح معاشرتی ضروریات مادی، اخلاقی، روحانی یا علمی ہوسکتی ہیں اسی طرح معاشرتی تحریکیں بھی مادی، معاشی، اخلاقی، روحانی یا علمی ہوسکتی ہیں۔ جب معاشرے اخلاقی اور روحانی طور پر زوال کا شکار ہوجائیں، اقدار مٹنے لگیں۔ علمی سطح پر زوال کی وجہ سے کوئی معاشرہ اقوام عالم سے پیچھے رہ جائے تو ایسے وقت میں کسی ایسی تحریک کے قیام کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرتی طور پر ہمہ گیر تبدیلی کا باعث بنے۔
اس سارے پس منظر میں قائد تحریک کی فکر اور اس کے نتیجے میں تحریک منہاج القرآن کے قیام اور اس کے معاشرتی اثرات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان کا قیام تحریک پاکستان کے نتیجے میں ممکن ہوا اور تحریک پاکستان کے پیچھے فکرِ اقبال کار فرما تھی۔ پاکستان قائم کرنے کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جس کی بنیادی اقدار دین فطرت سے اخذ کی جائیں اور ان کے مطابق مسلمان اپنی زندگی بسر کرسکیں لیکن بدقسمتی سے دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ملک کے نام کا اضافہ تو ہوگیا لیکن اسلامی احکامات سے مطابقت رکھنے والا معاشرہ بوجوہ قائم نہ ہوسکا جہاں محروموں، غریبوں اور حقداروں کو ان کی دہلیز پر ان کے حقوق میسر آتے۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی حکمرانی ہوتی۔ جہاں تعلیم یافتہ نوجوان فکر روزگار سے آزاد معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں نظر آتے۔ جہاں عدل و انصاف معاشرے کی بنیادی قدر ٹھہرتا۔ نتیجتاً معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور رپر زوال کا شکار ہوگیا۔ علمی لحاظ سے بھی معاشرہ پیچھے رہ گیا اور نوجوان بے مقصدیت کا شکار ہونے لگے۔ اسلامی تعلیمات کا فہم و ادراک جاتا رہا۔ علمی اختلافات کی بجائے فرقہ وارانہ تعصبات بڑھنے لگے اور اسلام کی اصل تعلیمات لوگوں تک نہ پہنچ پائیں۔ بقول شاعر
رہ گئے فرقوں میں بٹ کر شامت اعمال سے
بھول کر ماضی ہوئے غافل اپنے حال سے
زندگانی کے مقاصد سے کچھ ایسے ہٹ گئے
اپنا منصب کھوگئے مرکز سے اپنے ہٹ گئے
مذہبی فکر و تدبر دین کا احساس و خیال
دنیاوی حرص و مشاغل نے دیا دل سے نکال
ان حالات میں ایک ایسے مسیحا کی ضرورت تھی جس کے ایک ہاتھ میں قرآنی تعلیمات ہوں اور دوسرے ہاتھ میں دور جدید کے علوم و فنون۔ ایک ہاتھ میں عظیم تہذیب اسلامی کا فیض ہو اور دوسرے ہاتھ میں عصر حاضر کا لب و لہجہ اور ریسرچ کا سائنٹیفک انداز۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان روشن انسانی اور فکری شخصیات میں سے ایک ہیں جو اسلام کی ثمر بار تہذیب نے انسانی معاشرے کو تحفہ دی ہیں۔ دور حاضر کے اس عظیم مفکر نے جو فکر دی اس کی بنیاد رج ذیل عناصر پر رکھی۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کا مقصد حیات رضائے الہٰی کا حصول ہے۔
رضائے الہٰی کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کیا جائے جو بعثت انبیاء کا مقصود رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس لئے اب یہ مسلم امہ کی ذمہ داری اور اجتماعی نصب العین ہے کہ دین حق کو غالب کیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کے جملہ تقاضے پورے کئے جائیںتو یہ جدوجہد ضرور کامیاب و کامران ہوگی۔
ملت اسلامیہ کے اس عظیم مصلح اور مفکر نے احیائے دین کی جو عظیم انقلابی فکر دی اس کے معاشرے پر ہمہ جہت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
نوجوانوں کی دین کی طرف رغبت
فرد جس حد تک نشوونما، ثقافت اور خود آگاہی سے زیادہ مستفید ہوتا ہے۔ وہ ماحول کی تبدیلی، اصلاح اور انقلاب اجتماعی کا زیادہ طاقت اور امکان کے ساتھ حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی اور اپنے معاشرے و ملت کی تقدیر کو بنانے یا اس کی تعمیر میں حصہ دار ہونے کی زیادہ طاقت حاصل کرتا ہے۔
عصر حاضر کا المیہ ہے کہ نوجوان نسل بے مقصدیت کا شہر ہے۔ نوجوان نسل کو کھوکھلا اور بے وقعت کرنے کے لئے انہیں سستی تفریح، موسیقی، فیشن پرستی اور ظاہر پرستی میں مبتلا کیا گیا۔ نیز فرقہ وارانہ تعصبات، قبائل، نسلی اور گروہی فسادات کو ہوا دے کر اسلام کی ابدی فطری تعلیمات کو ان کے ذہنوں سے محو کرنے کی جو کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں نوجوان نسل دین سے دور ہوگئی لیکن حضور شیخ الاسلام کی فکر نے اس بھولے بھٹکے نوجوان کو اپنی تاریخ، اپنے ماضی، اپنی ثقافت کے ساتھ ربط قائم کرنا اس حسین انداز میں سکھا دیا کہ اس کا رشتہ حال اور مستقبل سے بھی نہ ٹوٹنے پایا۔ نوجوان نسل جس کا دین سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ اسے نہ صرف مقصدیت سے آشنا کیا بلکہ ایک اسلامی شناخت بھی عطا کی۔ کیونکہ فرد اور معاشرے کا اپنی تعمیر کے لئے اپنی تاریخ، مذہب اور ماضی سے آگاہ اور مربوط ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی نوجوان جو بے راہ روی اور بے مقصدیت کا شکار تھا آج کشاں کشاں دینی اجتماعات میں چلا آتا ہے اور اگر اس کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو جامع المنہاج کے سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف میں خشیت الہٰی سے رونے اور عالمی میلاد کانفرنس میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مچلنے والے نوجوانوں کی اکثریت کو دیکھا جائے۔
حضور شیخ الاسلام کی فکر کا یہ فیض ہے کہ آج نوجوان نسل کی اکثریت دنیا طلبی کے احساسات سے زیادہ انسانی اقدار کو اہمیت دینے لگی ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے ایسے قابل فخر نوجوان تیار کئے ہیں جو کہ سنجیدہ اور انسانی اقدار سے آگاہ ہیں اور فکری اور روحانی غذا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے آج کے نوجوان کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خصوصی انفرادی تعلق استوار کردیا ہے اور اس تعلق کی آفاقی صفات کی رحمت کا سایہ جب فرد کے قلب و باطن پر پڑتا ہے تو اس کی اثرات معاشرے میں پاکیزگی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ آج نوجوان نسل میں فہم دین پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ حضور شیخ الاسلام کی دین کی اصل تعلیمات کو عام فہم انداز میں عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج کی نسل دین کے حوالے سے بہت واضح فہم رکھتی ہے۔
آج سے دو دہائیاں قبل دین پر مولویوں کی اجارہ داری تھی۔ دین کی تفہیم کے لئے ان سے رجوع کیا جاتا اور وہ جو عصر حاضر کے تقاضوں سے نابلد تھے وہ اپنے فہم دین کو دوسروں تک اپنی ذہنی سطح کے مطابق پہنچا رہے تھے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے دور حاضر کے ہر تعلیم یافتہ نوجوان کو دینی علم اس طرح سائنٹیفک Presentation کے ساتھ بہم پہنچا دیا ہے کہ آج کا نوجوان اب پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف اسلام کا پیغام خود دوسروں تک پہنچانے کی اہلیت حاصل کرچکا ہے بلکہ اسلامی شناخت پر فخر بھی محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ پروفیشنل لائرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اپنی فیلڈ کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ بھی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔
دین کا زندہ و بیدار تصور
دین کو کم فہم لوگوں نے قال تک محدود کررکھا ہے۔ خشک اور جامد تصور دین نے نوجوان نسل کو دین سے دور کردیا تھا۔ فرد کے شعور کی تربیت کے عمل تصوف کے ذریعے حضور شیخ الاسلام کی فکر نے دین کے اندر نئی روح پھونک دی اور 1400 سال قبل آنے والا دین عصر حاضر کے انسان کو اپنے عہد کی ضروریات پوری کرتا نظر آنے لگا۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے بندے کا خالق سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرکے اسے نئی زندگی عطا کی۔ آپ کی فکر نے دور فتن کے انسان کو یہ سکھایا کہ شریعت، اصول و قواعد کا مجموعہ ہے اور طریقت وہ عملی پروگرام ہے جس پر چل کر آپ شریعت کو زندہ و جاوید کردیتے ہیں۔
آپ کی فکر نے عصر حاضر کی خوفناک پیچیدگیوں میں الجھے انسان کے ذہن کی گرہیں کھولتے ہوئے وہ آسانیاں عطا کی ہیں کہ اسے تمام الجھنوں سے آزاد کرکے راہ سلوک پر گامزن کردیا ہے۔ وہ اپنے شعور کی افزائش کا درجہ اور معیار خود متعین کرنے لگا ہے اور اسے اللہ کی پناہ کا احساس ہونے لگا ہے۔ آپ کی فکر نے دین اور دنیا کی دوئی کے تصور کا خاتمہ کرکے دین کی تکمیل دونوں کے احاطے سے مربوط کردی۔
ایک طرف آپ کی فکر میں جہاں انسان کی دو بنیادی ضروریات (یعنی جان و مال کا تحفظ، صحت، صاف ماحول اور معاشی آسودگی اور دوسری ضرورت ایسے سماج اور معاشرے کی تخلیق جہاں ہم آہنگی، باہمی احترام ہو نفسا نفسی نہ ہو، عزت نفس مجروح نہ ہو۔ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور لوگ پوری آزادی اور سہولت کے ساتھ فانی دنیا یا غیر فانی زندگی میں کامیابی کے حصول کی کوشش کرسکیں) کا سامان فراہم کیا۔ وہاں انسان کی تعمیری بنیادی ضرورت جان لینے کی خواہش اور اپنے وجود کی کھوج کی ضرورت کا سامان بھی آپ کی فکر میں موجود ہے۔ آپ نے صرف اعمال کی درستگی کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اعمال کا سبب جو ذہنی پسماندگی ہے اسے دور کرکے انسان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لئے اس کی تربیت کی۔ آپ کی تعلیمات خودغرض رویوں کے فنا کا درس دیتی ہیں۔
آپ نے دین کے فیض سے محروم لوگوں کو سکھایا کہ دین ایک راستہ ہے عبادات اور معاملات کی درستگی آپ کے زاد راہ ہیں مگر آپ کی عقلی و شعوری افزائش اور راہنمائی تصوف فراہم کرتا ہے جو ذہن کی بند کھڑکی کو کھول کر قلب میں حاضری کے لئے تیار کرتا ہے۔
آپ نے بھولے بھٹکے انسان کو سکھایا کہ شریعت اخلاص فراہم کرتی ہے تو طریقت احسان۔ آپ کی فکر نے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے انسان کو قدرت کے خود کار نظام کا حصہ بنا کر اسے شعور کے افزائشی عمل سے گزارنے میں مدد دی۔
معاشرے میں اسلامی کلچر کا فروغ
اسلام حسین دین ھے اور معاشرے کو حسین بنانا چاہتا ہے۔ اسلامی معاشرے کا کلچر اس میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاشرے میں اخوت، رواداری، برداشت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کے کلچر کو فروغ دیا۔ پاکستانی معاشرے میں سب سے پہلے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کی کوشش حضور شیخ الاسلام کی فکر سے ملتی ہے۔ بعد ازاں یہ کلچر فروغ پانے لگا اور تمام مکاتب فکر اپنے فقہی اور مسلکی اختلافات بھلاکر ایک سیاسی اتحاد کی صورت میں مل بیٹھے ہیں تو اس کلچر کا سہرا حضور شیخ الاسلام کے سر ہے۔
معاشرہ دین کی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے دینی روایات سے بھی دور تھا۔ یہ حضور شیخ الاسلام کی فکر کا ثمر ہے کہ آج پاکستان کے گلی محلے میں محافل میلاد کا کلچر رچ بس گیا ہے۔ آج سے دس پندرہ سال قبل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں ایسی محافل کا انعقاد ایک اختلافی مسئلہ تھا اور اخبارات و رسائل میں نہ صرف اس اختلاف پر بحث ہوتی تھی بلکہ ہر جگہ اس موضوع پر لڑائی جھگڑے کی صورتحال رہتی مگر حضور شیخ الاسلام کی مدلل فکر کے نتیجے میں آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں محافل کا انعقاد پاکستان کا قابل فخر کلچر بن چکا ہے۔
عجمی معاشرہ ہونے کی وجہ سے لوگ بمشکل قرآن کا ناظرہ پڑھتے تھے اور اس کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے۔ حضور شیخ الاسلام نے درس قرآن کے ذریعے لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچانا شروع کیا جو PTV پر بھی نشر ہوتا رہا۔ اب درس قرآن ایک کلچر بن چکا ہے اور تحریک منہاج القرآن کے علاوہ مختلف مکاتب فکر اور اصلاحی جماعتیں بھی اسی کو لے کر چل رہی ہیں۔
حضور شیخ الاسلام نے یہ فہم دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی اور حُبی تعلق کمال ایمان ہے۔ آج پاکستانی معاشرے کے کلچر پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے اس حسین ایمانی تعلق کی چھاپ دکھائی دیتی ہے اور شیخ الاسلام کی فکر کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کا بچہ بچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ترانے الاپتا نظر آتا ہے۔ جس معاشرے کی آنے والی نسلوں کا تعلق اپنے مرکز سے پختہ ہوجائے وہ معاشرہ زیادہ دیر زوال کا شکار نہیں رہ سکتا۔
خواتین کسی معاشرے کی ثقافت کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی تہذیبی یا ثقافتی یلغار سب سے پہلے خواتین کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس حساسیت کو بھانپتے ہوئے حضور شیخ الاسلام نے خواتین کو اسلامی ثقافت کا حسین لبادہ پہناکر اسلامی ثقافت کی بنیادی قدر حیا کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج خواتین کا پڑھا لکھا طبقہ حجاب اور گاؤن میں ملبوس نظر آتا ہے۔ یہ اسلامی تشخص حضور شیخ الاسلام کی فکر نے پاکستانی خواتین کو دیا اور اب حجاب اور گاؤن فیشن اور کلچر کا حصہ بن کر مقبول ہورہے ہیں۔
معاصر مسلم معاشرے میں خواتین کے کردار کو یا تو چار دیواری کے اندر بند کردیا گیا تھا یا خواتین کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرسکتی تھیں مگر دین کے حوالے سے خواتین کا کوئی کردار نہیں تھا۔ حضور شیخ الاسلام نے جہاں خواتین کے حقوق واضح کئے جو اس سے پہلے اتنی وضاحت سے جنسی تعصب سے بالاتر ہوکر کسی نے بیان نہیں کئے تھے وہاں خواتین کو ان کا کردار واضح کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ عترتِ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام ہر زمانے میں اسلام کی پہچان ہے اور ہر زمانے کی خواتین کو سیدہ کائنات کا اسوہ اپنانا چاہئے۔
آپ کی فکر کے نتیجے میں آج پاکستانی معاشرے میں دینی جدوجہد میں خواتین بھی شامل ہوچکی ہیں اور یہ کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ جو طبقات اور مذہبی جماعتیں کل تک خواتین کے گھر سے باہر عملی کردار کی قائل نہ تھیں آج ان جماعتوں اور طبقوں کے بھی خواتین ونگ اور خواتین کے شعبے بناچکے ہیں اور ان کی خواتین دینی جدوجہد میں حصہ لے رہی ہیں۔ علم حقیقی ہی انسان کی تلاش اور جستجو کو تشفی بخش سکتا ہے اور علم حقیقی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ دنیاوی علم پر دسترس حاصل کی جائے پھر اس علم پر عمل کی راہ دین کی راہنمائی میں متعین کی جائے۔ یہی طریقت کا منشور اور یہی تصوف ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاشرے میں علمیت کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی نظیر صدیوں میں نہیں ملتی۔ حضور شیخ الاسلام علم کا روشن مینار ہیں۔
صدیوں کی پیاس جس نے بجھائی ہے علم سے
عصر شعور و آگہی سے ہم کلام ہے
یہ شخص جو ہے تابش خورشید فکر نو
آقا حضور آپ کا ادنیٰ غلام ہے
انقلابیت حضور شیخ الاسلام کی فکر کا نمایاں پہلو ہے۔ درد دل رکھنے والے افراد کو روح انقلاب سے عصر حاضر میں حضور شیخ الاسلام نے متعارف کروایا۔ آپ کی فکر ہمہ جہت انقلاب کے راستے متعین کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آج جو انقلاب اور مسلم امہ کے الفاظ زبان زد عام ہیں یہ Vision شیخ الاسلام کی فکر نے عام کیا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے معاصر دانشور حلقے کو مسلم امہ کے تناظر میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو لوگ مسلم امہ کے وجود کے ہی قائل نہ تھے آج وہ امہ کو بطور Entity نہ صرت تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس پر سنجیدگی سے لکھ رہے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی فکر نے مسلمانوں کو عالمگیر اور آفاقی Vision عطا کیا ہے۔
حضور شیخ الاسلام کی ہمہ پہلو شخصیت اپنے فکروخیال کے انوکھے زاویوں سے معاشرے پر غیر معمولی اثرات مرتب کررہی ہے۔ آپ نے اپنی خداداد خطیبانہ صلاحیت سے پورے معاشرے کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ حضور شیخ الاسلام اپنے خطابات یا تحریروں میں جس بلند تر سطح سے بات کرتے ہیں یہ آپ کے مفکرانہ دماغ ہی کا خاصہ ہے۔ حضور شیخ الاسلام نظریاتی اور فکری حوالے سے اسلام کی ایک جامع اور عہد ساز شناخت رکھتے ہیں۔ رب مصطفیٰ انہیں حیات خضر عطا فرمائے اور وہ انقلاب جس کا خواب انہوں نے دیکھا ان کی زندگی کو لانا اور دیکھنا ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ