فیاض کو پاکستان میں ہوائی جہاز ایجاد کرنے پر سلام

عارف والہ کے فیاض کو سات سلام کہ اس نے پاکستان میں انتہائی کم قیمت میں ایک ہوائی جہاز بنایا اور اس کواڑایا بھی۔

افسوس یہ ہے کہ آج رائیٹ برادران کا میوزیم ڈیٹن ، اوہائیو میں ہے لیکن عارف والہ کے فیاض کو گرفتار کر لیا گیا

 

فرقان احمد

محفلین
مذکورہ نوجوان شاید زبردست ٹیلنٹ کا حامل ہو گا تاہم ہوائی جہاز کی ایجاد کا دعویٰ محلِ نظر ہے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
فیس بک سے محمود فیاض صاحب کا تبصرہ:

پاکپتن کے 'جہاز' کی اصل کہانی


کل کی خبر پر دستیاب معلومات کی بنا پر میرا ردعمل یہی تھا کہ ایسے ہر نوجوان کی کوشش کو سراہا جانا چاہیے جو اس اندھیرے میں علم و ہنر کی کوئی بھی شمع جلانا چاہتا ہے۔

مجھے دوستوں کے شک بھرے اور منفیت زدہ کمنٹس بھی بہت برے لگے کہ کیا ہم اتنی گئی گذری قوم بن چکے ہیں کہ ہمارے اندر پانی والی گاڑی اور ڈبل شاہ جیسے ہی پیدا ہورہے ہیں اور کسی جینوئن بندے کی گنجائش ہی نہیں۔

چونکہ پاکپتن میں اب میں خود اپنے فارمز بنا رہا ہوں، اس لیے پتہ کرنا مشکل نہ تھا۔ اصل کہانی سامنے آئی تو افسوس بڑھ گیا کہ شائد ہم ڈبل شاہ ہی بن کر رہ گئے ہیں۔

حقیقت بس اتنی سی ہے کہ سستی شہرت کے شوقین کو جہاز بنانے اور اڑانے سے زیادہ میڈیا اور خبروں میں آنے کا شوق تھا۔ اس لیے باقاعدہ اس پر کام کی بجائے انتہائی لاپرواہی سے پہلا جہاز بنایا ۔ اور اپنے پہلے تجربے میں اسکے انجن کا پنکھا ٹوٹ کر ایک رکشے والے کو جا لگا اور وہ زخمی ہوگیا۔ گاوں والوں کی مدد سے اسکو تب بھی پولیس سے بچایا گیا۔

بتانے والے نے بتایا کہ فیاض نامی اس شخص کو دوستوں نے سمجھایا بھی کہ یہ ایک خطرناک کام ہے جس کی تمہیں سمجھ بھی نہیں۔ تم اسکی بجائے کسی اور شعبے میں کام کر لو جو سب کی بہتری کا ہو، جیسے آجکل سولر ٹیکنالوجی میں بہت ایجادات ہو رہی ہیں تم اپنخ صلاحیتیں ادھر لگاؤ ۔ مگر اسکا جواب تھا کہ جہاز اڑے گا اور دنیا دیکھے گی تو میرا نام ہوگا ۔ تو اصل مسئلہ اسکا اپنے اندر کے شوق کی تکمیل نہیں شہرت حاصل کرنے اور راتوں رات اپنے حالات بدلنے کی پلاننگ تھی۔

کہانی کے اس پہلو نے تمام مقدمہ الٹ دیا ہے۔ پھر گاؤں کے لوگوں نے یہ بھی تصدیق کردی کہ اس مرتبہ بھی وہ جہاز کو اڑانے میں کامیاب نہیں ہوا۔بلکہ اسکا ڈیزائن اتنا گھٹیا تھا کہ خالی پیٹر انجن عقب میں باندھا ہوا تھا، اور پہیوں کو چلانے کے لیے دھکا لگانا پڑتا تھا۔ اس انجن کو اس نے صرف اسٹارٹ ہی کیا تھا کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اسکو گرفتار کر لیا۔ یہاں پولیس نے اپنے محکمانہ پن سے اسکی ایف آئی آر کو وزنی بنانے کے لیے نہ صرف یہ لکھ دیا کہ اس نے جہاز کو اڑایا ہے بلکہ یہ بھی لکھا کہ اس نے فضا میں الٹے سیدھے کرتب بھی دکھائے ہیں۔

حالانکہ میں اس خبر کو سن کر اس خوش امیدی کا شکار ہوا کہ شائد علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، مگر جب سے حقیقت کا پتہ چلا ہے تب سے افسوس سے یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا کائنات کا مالک ہم سے اس قدر ناراض ہے کہ ہم دو نمبری میں اخیر کے گھٹیا پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارا کچھ بھی اصل نہیں۔ ہر طرف دھوکا ہے اور ہر طرف مایوسی۔ لیڈر ہوں یا عوام ۔ ۔ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود فیاض
 

فرقان احمد

محفلین
فیس بک سے محمود فیاض صاحب کا تبصرہ:

پاکپتن کے 'جہاز' کی اصل کہانی


کل کی خبر پر دستیاب معلومات کی بنا پر میرا ردعمل یہی تھا کہ ایسے ہر نوجوان کی کوشش کو سراہا جانا چاہیے جو اس اندھیرے میں علم و ہنر کی کوئی بھی شمع جلانا چاہتا ہے۔

مجھے دوستوں کے شک بھرے اور منفیت زدہ کمنٹس بھی بہت برے لگے کہ کیا ہم اتنی گئی گذری قوم بن چکے ہیں کہ ہمارے اندر پانی والی گاڑی اور ڈبل شاہ جیسے ہی پیدا ہورہے ہیں اور کسی جینوئن بندے کی گنجائش ہی نہیں۔

چونکہ پاکپتن میں اب میں خود اپنے فارمز بنا رہا ہوں، اس لیے پتہ کرنا مشکل نہ تھا۔ اصل کہانی سامنے آئی تو افسوس بڑھ گیا کہ شائد ہم ڈبل شاہ ہی بن کر رہ گئے ہیں۔

حقیقت بس اتنی سی ہے کہ سستی شہرت کے شوقین کو جہاز بنانے اور اڑانے سے زیادہ میڈیا اور خبروں میں آنے کا شوق تھا۔ اس لیے باقاعدہ اس پر کام کی بجائے انتہائی لاپرواہی سے پہلا جہاز بنایا ۔ اور اپنے پہلے تجربے میں اسکے انجن کا پنکھا ٹوٹ کر ایک رکشے والے کو جا لگا اور وہ زخمی ہوگیا۔ گاوں والوں کی مدد سے اسکو تب بھی پولیس سے بچایا گیا۔

بتانے والے نے بتایا کہ فیاض نامی اس شخص کو دوستوں نے سمجھایا بھی کہ یہ ایک خطرناک کام ہے جس کی تمہیں سمجھ بھی نہیں۔ تم اسکی بجائے کسی اور شعبے میں کام کر لو جو سب کی بہتری کا ہو، جیسے آجکل سولر ٹیکنالوجی میں بہت ایجادات ہو رہی ہیں تم اپنخ صلاحیتیں ادھر لگاؤ ۔ مگر اسکا جواب تھا کہ جہاز اڑے گا اور دنیا دیکھے گی تو میرا نام ہوگا ۔ تو اصل مسئلہ اسکا اپنے اندر کے شوق کی تکمیل نہیں شہرت حاصل کرنے اور راتوں رات اپنے حالات بدلنے کی پلاننگ تھی۔

کہانی کے اس پہلو نے تمام مقدمہ الٹ دیا ہے۔ پھر گاؤں کے لوگوں نے یہ بھی تصدیق کردی کہ اس مرتبہ بھی وہ جہاز کو اڑانے میں کامیاب نہیں ہوا۔بلکہ اسکا ڈیزائن اتنا گھٹیا تھا کہ خالی پیٹر انجن عقب میں باندھا ہوا تھا، اور پہیوں کو چلانے کے لیے دھکا لگانا پڑتا تھا۔ اس انجن کو اس نے صرف اسٹارٹ ہی کیا تھا کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اسکو گرفتار کر لیا۔ یہاں پولیس نے اپنے محکمانہ پن سے اسکی ایف آئی آر کو وزنی بنانے کے لیے نہ صرف یہ لکھ دیا کہ اس نے جہاز کو اڑایا ہے بلکہ یہ بھی لکھا کہ اس نے فضا میں الٹے سیدھے کرتب بھی دکھائے ہیں۔

حالانکہ میں اس خبر کو سن کر اس خوش امیدی کا شکار ہوا کہ شائد علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، مگر جب سے حقیقت کا پتہ چلا ہے تب سے افسوس سے یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا کائنات کا مالک ہم سے اس قدر ناراض ہے کہ ہم دو نمبری میں اخیر کے گھٹیا پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارا کچھ بھی اصل نہیں۔ ہر طرف دھوکا ہے اور ہر طرف مایوسی۔ لیڈر ہوں یا عوام ۔ ۔ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود فیاض
گویا بقول چچا غالب، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔۔۔!
 
Top