عبد الرحمٰن
محفلین
ہزاروں '' ڈیپییاں'' ایسی کہ ہر ''ڈی پی'' پہ دم نکلے
کہ جن سے فیس بک پر مجرمانہ زیر و بم نکلے
یہاں پر'' فیک آئی ڈیز'' کی بہتات ہے اتنی
کہ بندہ مر ہی جائے ایسے ایسے پیچ و خم نکلے
کبھی مس سے کوئی مسٹر، کبھی مسٹر سے مس نکلی
کبھی گل رخ کی آئی ڈی سے لالہ گل حشم نکلے
بہت ہی کنفیوزن ہے یہاں''ہی یوں''(HE) میں شی یوں( SHE) میں
نعیمہ خان تھی جو بعد میں سید انعم نکلے
تذبذب نور، گل، ممتاز، انجم اور اختر ، میں
بدر احسان تھی جو ایک دن بدر الکرم نکلے
کبھی انجم میاں ملتے ہیں یاں نجم السحر بن کر
مسز نجمہ کے پردے میں کبھی نور النجم نکلے
بزرگوں کی صفوں میں جو کسی کو رکھتے تھے ہر لمحہ
کبھی کہتے تھے جو ''آپی '' وہ آپا کے خصم نکلے
بہت سوں نے تو حد کر دی کہ جو کہنے لگے'' امی''
جنہیں بیٹا بنے دیکھا وہ انکل محترم نکلے
بہت باریش ڈی پی ہے کہ گویا ہوں فریش حاجی
کیا جب چیک انہیں، فرہاد کا دسواں جنم نکلے
کیا ہے ایڈ کل جس کو وہ کومل سی حسینہ ہے
ابھی تو پھلجھڑی ہے بعد میں ممکن ہے بم نکلے
مسیحا جان کر جن کو سنایا تھا غم دوراں
جنہیں ہمدرد سمجھے تھے وہ مصروف ستم نکلے
ترنم کے بہت ان باکس میں ڈنکے بجاتے تھے
بتاتے تھے رفیع خود کو مگر سونو نگم نکلے
کیا ان فیک آئی ڈیز کو جب '' ان فرینڈ'' ہم نے
بہت کم چشم نم نکلے، زیادہ ہٹ دھرم نکلے
لگے کرنے بلاک اک فیک آئی ڈی تو وہ بولا
'' بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے''
شہناز شازی
کہ جن سے فیس بک پر مجرمانہ زیر و بم نکلے
یہاں پر'' فیک آئی ڈیز'' کی بہتات ہے اتنی
کہ بندہ مر ہی جائے ایسے ایسے پیچ و خم نکلے
کبھی مس سے کوئی مسٹر، کبھی مسٹر سے مس نکلی
کبھی گل رخ کی آئی ڈی سے لالہ گل حشم نکلے
بہت ہی کنفیوزن ہے یہاں''ہی یوں''(HE) میں شی یوں( SHE) میں
نعیمہ خان تھی جو بعد میں سید انعم نکلے
تذبذب نور، گل، ممتاز، انجم اور اختر ، میں
بدر احسان تھی جو ایک دن بدر الکرم نکلے
کبھی انجم میاں ملتے ہیں یاں نجم السحر بن کر
مسز نجمہ کے پردے میں کبھی نور النجم نکلے
بزرگوں کی صفوں میں جو کسی کو رکھتے تھے ہر لمحہ
کبھی کہتے تھے جو ''آپی '' وہ آپا کے خصم نکلے
بہت سوں نے تو حد کر دی کہ جو کہنے لگے'' امی''
جنہیں بیٹا بنے دیکھا وہ انکل محترم نکلے
بہت باریش ڈی پی ہے کہ گویا ہوں فریش حاجی
کیا جب چیک انہیں، فرہاد کا دسواں جنم نکلے
کیا ہے ایڈ کل جس کو وہ کومل سی حسینہ ہے
ابھی تو پھلجھڑی ہے بعد میں ممکن ہے بم نکلے
مسیحا جان کر جن کو سنایا تھا غم دوراں
جنہیں ہمدرد سمجھے تھے وہ مصروف ستم نکلے
ترنم کے بہت ان باکس میں ڈنکے بجاتے تھے
بتاتے تھے رفیع خود کو مگر سونو نگم نکلے
کیا ان فیک آئی ڈیز کو جب '' ان فرینڈ'' ہم نے
بہت کم چشم نم نکلے، زیادہ ہٹ دھرم نکلے
لگے کرنے بلاک اک فیک آئی ڈی تو وہ بولا
'' بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے''
شہناز شازی