فیس بُک کی دوستیوں پر ایک نظم ہوئی ہے ،'' اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے '' اصلاح کے لیے

اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
صورت شناس تو نہیں عادت شناس ہوں
میں دور بھی نہیں ہوں ترے آس پاس ہوں
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
تُو ہے تصورات میں جیسے جمال ہو
قدرت بھی سوچتی ہو کہ اُس کا کمال ہو
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
دیکھا نہیں ہے میں نے تُجھے، دیکھنا نہیں
پھر کیوں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے ملے کہیں
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
تُو کیا ہے تُو نے مجھ کو بھلائے ہیں لوگ سب
مجھ کو پتہ ہے تیرا، تُو سویا ہے، جاگا کب
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں
لیکن قریب رہتے ہیں، دن اور رات میں
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
آنچل ہو رات جیسے تری زلف پر پڑا
سوتا ہوں اس کے سائے میں ہوتا ہوں پھر کھڑا
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
 

شوکت پرویز

محفلین
محترم محمد اظہر نذیر صاحب!
اگر چہ فیس بک پر میرا اکاؤنٹ نہیں ہے، لیکن میں کچھ کچھ جذبات سمجھ سکتا ہوں۔
اس نظم کی بحر ہے "مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن" اور یہ (نظم) مکمل وزن میں ہے۔
--
لیکن اس کو بدل دیں، آپ کا ممنون رہوں گا:
تُو ہے تصورات میں جیسے جمال ہو
قدرت بھی سوچتی ہو کہ اُس کا کمال ہو
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
شکریہ۔۔۔
 
محترم محمد اظہر نذیر صاحب!
اگر چہ فیس بک پر میرا اکاؤنٹ نہیں ہے، لیکن میں کچھ کچھ جذبات سمجھ سکتا ہوں۔
اس نظم کی بحر ہے "مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن" اور یہ (نظم) مکمل وزن میں ہے۔
--
لیکن اس کو بدل دیں، آپ کا ممنون رہوں گا:

شکریہ۔۔۔
گویا سُرخ حصہ تبدیل کرنا ہے؟ بہت بہتر
 

الف عین

لائبریرین
ٹیپ کا مصرع اکثر جگہ معنی خیز نہیں۔ اس کی ضرورت کیا ہے؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ابلاغ کی بھی کمی ہے کئی مصرعوں میں۔
 

الف عین

لائبریرین
اُستاد محترم یہ ٹیپ کا مصرع ؟
وہ مصرع ہوتا ہے جو بار بار دہرایا جائے اور مختلف بندوں کے درمیان حد بندی کا کام کرے۔ جیسے یہاں
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
اس نظم کے مختلف بندوں میں فیس بک کے جاننے یا نہ جاننے کا کوئی ذکر نہیں ہے، یہ بیان تو کسی کا بھی ہو سکتا ہے، فیس بک کی کیا تخصیص؟
 
وہ مصرع ہوتا ہے جو بار بار دہرایا جائے اور مختلف بندوں کے درمیان حد بندی کا کام کرے۔ جیسے یہاں
اے دوست میں نے جانا تُجھے فیس بُک سے ہے
اس نظم کے مختلف بندوں میں فیس بک کے جاننے یا نہ جاننے کا کوئی ذکر نہیں ہے، یہ بیان تو کسی کا بھی ہو سکتا ہے، فیس بک کی کیا تخصیص؟
اُستاد محترم اگر عنوان تبدیل کر دیا جائے اور ٹیپ کا مصرع بھی تو؟
تُجھے جانتا ہوں میں​
صورت شناس تو نہیں عادت شناس ہوں​
میں دور بھی نہیں ہوں ترے آس پاس ہوں​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
تُو ہے تصورات میں جیسے جمال ہو​
قدرت بھی سوچتی ہو کہ اُس کا کمال ہو​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
دیکھا نہیں ہے میں نے تُجھے، دیکھنا نہیں​
پھر کیوں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے ملے کہیں​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
تُو کیا ہے تُو نے مجھ کو بھلائے ہیں لوگ سب​
مجھ کو پتہ ہے تیرا، تُو سویا ہے، جاگا کب​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں​
لیکن قریب رہتے ہیں، دن اور رات میں​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
آنچل ہو رات جیسے تری زلف پر پڑا​
سوتا ہوں اس کے سائے میں ہوتا ہوں پھر کھڑا​
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں​
 

الف عین

لائبریرین
ارے ابھی میں نے تین چار پیغامات پوسٹ کئے، لیکن غلطی سے ٹیب بند ہو گیا تو سارے پیغامات غائب!!
 

الف عین

لائبریرین
صورت شناس تو نہیں عادت شناس ہوں
میں دور بھی نہیں ہوں ترے آس پاس ہوں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
ٹیپ کے مصرع کا تعلق اب بھی نہیں بن رہا۔ کیا مراد یہ ہے کہ فیس بک کے اس دوست نے وہاں کئی نقابات اوڑھ رکھے ہیں، لیکن تم اس کی اصلیت سے واقف ہو!!
بہتر ہو کہ فیس بک کا حوالہ نکال ہی دو۔ مصرع اگر مختصر بھی ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔ اس قسم کے فارم میں ایسی بھی روایت رہی ہے، جیسے محض اتنا ہی یہ مصرع ہو
تجھے جانتا ہوں میں
لیکن اس سے بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اس کا تعلق فیس بک سے ہے۔ در اصل کچھ بندوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے، کچھ میں قطعی نہیں۔ یا تو ہر مصرع میں حوالہ ہو، اس صورت میں ٹیپ کا مصرع
اے فیس بک کے دوست
ہو سکتا ہے۔

تُو ہے تصورات میں جیسے جمال ہو
قدرت بھی سوچتی ہو کہ اُس کا کمال ہو
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ ٹیپ کے مصرع کا ربط اب بھی نہیں بن رہا ہے، تبدیل کرنے کے بعد بھی۔

دیکھا نہیں ہے میں نے تُجھے، دیکھنا نہیں
پھر کیوں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے ملے کہیں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پہلا مصرع بھی سمجھ میں نہین آ سکا۔

تُو کیا ہے تُو نے مجھ کو بھلائے ہیں لوگ سب
مجھ کو پتہ ہے تیرا، تُو سویا ہے، جاگا کب
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//یہاں دوسرا مصرع مبہم ہے، جاگنے سونے کا یہاں کیا محل ہے؟

شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں
لیکن قریب رہتے ہیں، دن اور رات میں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//درست

آنچل ہو رات جیسے تری زلف پر پڑا
سوتا ہوں اس کے سائے میں ہوتا ہوں پھر کھڑا
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پورا شعر مبہم ہے۔
 
صورت شناس تو نہیں عادت شناس ہوں
میں دور بھی نہیں ہوں ترے آس پاس ہوں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
ٹیپ کے مصرع کا تعلق اب بھی نہیں بن رہا۔ کیا مراد یہ ہے کہ فیس بک کے اس دوست نے وہاں کئی نقابات اوڑھ رکھے ہیں، لیکن تم اس کی اصلیت سے واقف ہو!!
بہتر ہو کہ فیس بک کا حوالہ نکال ہی دو۔ مصرع اگر مختصر بھی ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔ اس قسم کے فارم میں ایسی بھی روایت رہی ہے، جیسے محض اتنا ہی یہ مصرع ہو
تجھے جانتا ہوں میں
لیکن اس سے بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اس کا تعلق فیس بک سے ہے۔ در اصل کچھ بندوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے، کچھ میں قطعی نہیں۔ یا تو ہر مصرع میں حوالہ ہو، اس صورت میں ٹیپ کا مصرع
اے فیس بک کے دوست
ہو سکتا ہے۔

تُو ہے تصورات میں جیسے جمال ہو
قدرت بھی سوچتی ہو کہ اُس کا کمال ہو
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ ٹیپ کے مصرع کا ربط اب بھی نہیں بن رہا ہے، تبدیل کرنے کے بعد بھی۔

دیکھا نہیں ہے میں نے تُجھے، دیکھنا نہیں
پھر کیوں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے ملے کہیں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پہلا مصرع بھی سمجھ میں نہین آ سکا۔

تُو کیا ہے تُو نے مجھ کو بھلائے ہیں لوگ سب
مجھ کو پتہ ہے تیرا، تُو سویا ہے، جاگا کب
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//یہاں دوسرا مصرع مبہم ہے، جاگنے سونے کا یہاں کیا محل ہے؟

شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں
لیکن قریب رہتے ہیں، دن اور رات میں
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//درست

آنچل ہو رات جیسے تری زلف پر پڑا
سوتا ہوں اس کے سائے میں ہوتا ہوں پھر کھڑا
اے فیس بُک کے دوست، تُجھے جانتا ہوں میں
//پورا شعر مبہم ہے۔
جی بہت بہتر اُستاد محترم، میں نظم تبدیل کیے دیتا ہوں، یوں دیکھیے تو؟

اے فیس بُک کے دوست​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
ایسا نہیں کہ میں تیرا صورت شناس ہوں​
پھر بھی یہ لگ رہا ہے کہیں آس پاس ہوں​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
میرے تصورات میں تیرا جمال ہے​
شائد یہ فیس بُک کا ہی ویسے کمال ہے​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
دیکھا نہیں ہے تُجھ کو، ملے بھی نہیں کبھی​
گلشن میں پھول ایسے، کھلے بھی نہیں کبھی​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں​
لیکن قریب رہتے ہیں دن اور رات میں​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
رشتہ نہیں ہے کوئی، مگر کچھ تو بات ہے​
پہچان ہو گئی ہے، پہ کیسا یہ ساتھ ہے​
اے فیس بُک کے دوست​
لگتا ہے، جانتا ہوں تُجھے​
 

الف عین

لائبریرین
اب بہت بہتر ہے، ٹیپ کا مصرع بھی محض ’اے فیس بک کے دوست‘ ہی کافی ہو گا شاید
اور
شائد یہ فیس بُک کا ہی ویسے کمال ہے
کوبھی بدل دو
شائد یہ فیس بُک کا ہی کوئی کمال ہے
 
اب بہت بہتر ہے، ٹیپ کا مصرع بھی محض ’اے فیس بک کے دوست‘ ہی کافی ہو گا شاید
اور
شائد یہ فیس بُک کا ہی ویسے کمال ہے
کوبھی بدل دو
شائد یہ فیس بُک کا ہی کوئی کمال ہے


اے فیس بُک کے دوست،​
ایسا نہیں کہ میں تیرا صورت شناس ہوں​
پھر بھی یہ لگ رہا ہے کہیں آس پاس ہوں​
اے فیس بُک کے دوست،​
میرے تصورات میں تیرا جمال ہے​
شائد یہ فیس بُک کا ہی کوئی کمال ہے​
اے فیس بُک کے دوست،​
دیکھا نہیں ہے تُجھ کو، ملے بھی نہیں کبھی​
گلشن میں پھول ایسے، کھلے بھی نہیں کبھی​
اے فیس بُک کے دوست،​
شائد ملیں کبھی بھی نہ ہم اس حیات میں​
لیکن قریب رہتے ہیں دن اور رات میں​
اے فیس بُک کے دوست،​
رشتہ نہیں ہے کوئی، مگر کچھ تو بات ہے​
پہچان ہو گئی ہے، پہ کیسا یہ ساتھ ہے​
اے فیس بُک کے دوست،​
 
Top