فیس بک ممی ڈیڈی

فیس بک ممی ڈیڈی

ہمارے پاس موبائل ‘ کمپیوٹر ‘ ڈی وی ڈی‘ پلے استیشن‘ انٹر نیٹ ‘ فیس بک وغیرہ نہیں ہوتا تھا ۔۔ لیکن ہمارے پاس حقیقی دوست ہوتے تھے۔

کھیلنے کیلئے ہم کھلونوں کے محتاج نہیں تھے ‘ ہم کھلونے خود بناتے تھے اور اُسی سے کھیل کر خوش ہوتے تھے۔
آج کے بچے کھیلنے کیلئے کھلونوں کے اور بجلی و انٹر نیت کے محتاج ہیں۔

ہم حقیقی دوستوں کے ساتھ حقیقی کھیل کھیلتے تھے۔
آج کے بچے اور جوان نیٹ فرینڈ کے ساتھ نیٹ گیم کھیلتے ہیں۔

ہم حقیقی دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
آج کے بچےاور جوان فیس بک فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

زمانہ ترقی کر رہا ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کے بچے فیس بک ممی ڈیڈی کے ذریعے پرورش پائیں؟
 

محمدظہیر

محفلین
fetch

ہمارے بچپن میں یہ ہوتا تھا:)
 

فرقان احمد

محفلین
اس لڑی میں بھی کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں، جن سے اتفاق کرتا ہوں؛ ایسے لگتا ہے، ترقیء معکوس کی صورت بھی ہے کہیں کہیں، اور پھر، شاید 'منفی ارتقاء' بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ بعض اوقات یوں بھی لگتا ہے کہ ہم ایک قدم اٹھا کر دو قدم مزید پیچھے ہو گئے ہیں۔ معاشرتی روابط اور بے لوث دوستیاں پہلے کسی قدر زیادہ تھیں، اب کم ہوتی جاتی ہیں۔ انسان پہلے کی نسبت مزید تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ یوں تو انسان گلوبل شہری بن چکا ہے تاہم سچ پوچھیے، تو وہ مزید تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں، کہ سب کچھ برا ہو رہا ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ اپنے اپنے مزاج کی بات بھی ہوتی ہے؛ ہم تو یوں بھی ٹھہرے ناسٹیلجیا کے مارے ہوئے :(
 

زیک

مسافر
اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ جب سے موبائل فون آئیں ہیں سب اپنے آپ میں ہی مگن ہوگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بھیڑ میں بھی لوگ تنہا ہو گئے ہیں۔
مجھے اتفاق نہیں ہے۔ بیس سال پہلے جب امریکہ آیا تھا تو رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ اتنا آسان نہ تھا جتنا اب ہے۔

یہ فیسبک اور واٹس ایپ ہی کی بدولت ہے کہ مڈل اور ہائی سکول کے دوستوں سے بھی اب رابطہ ہے۔ مجھ جیسے لوگ جو کافی علاقوں میں رہے ہیں ان کے لئے ورنہ تعلق رکھنا ممکن نہ ہوتا۔ فیسبک کے ذریعہ ہی دو دوستوں سے ایک ماہ قبل 33 سالوں بعد ملاقات کی
 

عثمان

محفلین
اس لڑی میں بھی کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں، جن سے اتفاق کرتا ہوں؛ ایسے لگتا ہے، ترقیء معکوس کی صورت بھی ہے کہیں کہیں، اور پھر، شاید 'منفی ارتقاء' بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ بعض اوقات یوں بھی لگتا ہے کہ ہم ایک قدم اٹھا کر دو قدم مزید پیچھے ہو گئے ہیں۔ معاشرتی روابط اور بے لوث دوستیاں پہلے کسی قدر زیادہ تھیں، اب کم ہوتی جاتی ہیں۔ انسان پہلے کی نسبت مزید تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ یوں تو انسان گلوبل شہری بن چکا ہے تاہم سچ پوچھیے، تو وہ مزید تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں، کہ سب کچھ برا ہو رہا ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ اپنے اپنے مزاج کی بات بھی ہوتی ہے؛ ہم تو یوں بھی ٹھہرے ناسٹیلجیا کے مارے ہوئے :(
اول تو یہ محض آپ کی زندگی کا کوئی phase ہوسکتا ہے جب آپ کی دوستیاں بچپن کی نسبت کم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ اپنے ارد گرد بچوں اور طلبا سے پوچھیں تو وہ یہ شکایت نہ کریں۔
دوسرا یہ کہ اگر آپ ماضی کی طرف سفر کرتے جائیں تو دیکھیں گے کہ وہاں آپ کو اچھے دوستوں کی بڑی تعداد میں ضرورت تھی۔ بہت زیادہ بھائیوں ، چچاوں اور رشتہ داروں کی ضرورت تھی، بڑے اور طاقتور قبیلے کی ضرورت تھی جو آپ کو مسائل اور خطرات سے تحفظ فراہم کر سکے۔
یہ جدید ریاست کی ترقی ہے کہ اب آپ کو ان ذاتی روابط پر بہت زیادہ انحصار کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ماضی کے برعکس اب فرد کو بہت آزادی اور self reliance میسر ہے جو اس کو اس کے اہداف کے حصول کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ماضی میں دوستی اور رشتہ داریاں بہت زیادہ مظبوط اس لیے تھیں کہ آپ کو ان کی ضرورت تھی معاشرے میں زندگی کے بنیادی ترین مسائل سے نمٹنے اور سروائیو کرنے کے لیے۔ ضرورت ہٹ جانے سے اب یہ محض دل بہلانے کو لگژری رہ گئی، جو کہ ظاہر ہے نایاب محسوس ہوتی ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ آپ نے کیسے کہہ دیا۔ اب تک تو یہی سنتےآئیے ہیں کہ ’’ ہر آنے والا زمانہ گزرے زمانے سے بد تر ہے‘‘ ۔ہمارا مستقبل آخرت ہے
مجھے تو دونوں باتیں صحیح نہیں لگتیں۔ زمانے میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کافی اچھا ہے لیکن مسلسل ترقی یا تنزل کی کوئی گارنٹی نہیں۔

رہی مستقبل آخرت ہونے کی تو جو آخرت کے نظریات ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ زمانے سے مبرا ہو گی۔
 
Top