فیس بک کی رنگ بازیاں - گل نوخیز اختر

اگر آپ نے بہترین ڈرامے دیکھنے ہوں تو ٹی وی بند کرکے فیس بک کھول لیں‘ ماشاء اللہ ایسا ایسا ڈرامہ ملے گا کہ دل عش عش کر اٹھے گا۔ پچھلے دنوں فادرز ڈے پر بھی فیس بک پر محبت اورشفقت بھرے جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ میرے ایک جاننے والے جو عرصہ تین سال پہلے اپنے والد صاحب کو گھر سے نکال کر ایدھی سنٹر میں پھینک چکے ہیں انہوں نے بھی والد صاحب کے ساتھ خصوصی طور پر تصویر بنوائی اور اوپر کیپشن دیا’’میرے پیارے ابا جی! جن کے بغیرمیں کچھ بھی نہیں‘‘۔اس پوسٹ پر ڈھیروں کمنٹس آئے اور چاہنے والوں نے بھی اس عظیم بیٹے کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔میرے ایک اور جاننے والے کو شکایت تھی کہ اس کی پوسٹ پر کبھی تین سے زیادہ کمنٹس اور چار سے زیادہ Likes نہیں ملتے‘ اِن میں سے بھی ایک Like اُس کا اپنا ہوتاہے۔ اب اس نے ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے اور اپنی ہر پوسٹ میں پہلے سے وفات شدہ رشتہ داروں کو دردناک طریقے سے دوبارہ مارنے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ اس کی نئی پوسٹس کے مطابق اس کی ماں جیسی داد ی موٹر کے پٹے میں پھنس کر جاں بحق ہوئی‘ ہر دل عزیز خالو ایک مرغی کو بچاتے بچاتے موٹر سائیکل گندے نالے میں جاگرے‘ باپ سے بھی زیادہ پیارے پھوپھا چھ سال تک کینسر سے لڑتے لڑتے نمونیا سے جاں بحق ہوئے اور زندگی کا آخری سہارا‘بڑی خالہ چکن کھاتے کھاتے ’’چکن پاکس‘‘ میں مبتلا ہوکر خالق حقیقی سے جاملیں۔موصوف کو سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کا ایسا جنون ہے کہ جب حقیقت میں ان کے والد صاحب نے رحلت فرمائی تو کفن دفن کے انتظامات میں شریک ہونے کی بجائے لمحہ بہ لمحہ سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا اور جنازے کی رننگ کمنٹری فرمائی۔
کئی ایسے بھی ہیں جنہیں فیس بک پراسلام کی حیرت انگیز خبریں پھیلانے کا بڑا شوق ہے‘ یہ بیٹھے بٹھائے کسی کو بھی مشرف بہ اسلام کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اب تک مسٹر بین‘ آرنلڈ‘ ٹام کروز‘ کلنٹن‘ٹونی بلیئر‘ڈیمی مور‘ شکیرا‘ سونیا گاندھی اور اسی نوح کی دیگر اہم شخصیات دائرہ اسلام میں داخل ہوچکی ہیں۔ان کو یہ بھی بڑا شوق ہے کہ یہ کوئی ایسی پوسٹ لگائیں جس میں ان کی تحقیقی صلاحیتوں کے سبھی قائل ہوجائیں لہذا یہ کسی بھی بڑی مونچھوں والے بندے کی مبہم سی تصویر لگاتے ہیں اور اس کے گرد سرخ دائرہ کھینچ کر اوپر لکھ دیتے ہیں’’گلوبٹ اسرائیلی وزیر اعظم کوچرس والا سگریٹ بھر کر دے رہا ہے‘‘۔کئی لوگ فیس بک کو محض اپنا چاند سا مکھڑا دکھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ یہ ہر روز الٹے بلیڈ سے شیو کرکے اپنی تصویر بناتے ہیں اور پھر 6 X 8کے سائز میں وال پر جڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو خواتین کی پوسٹ کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ خاتون اگر شاعرہ ہو تو سونے پہ سہاگہ ثابت ہوتی ہے‘ لہذا جس جس کو بھی اِن پیج اور کورل ڈرا کا تھوڑا سا بھی استعمال آتاہے وہ رنگ برنگی ڈیزائننگ کرکے خاتون کوان الفاظ میں بھیج دیتاہے’’اپنی پیاری‘ خوبصورت‘ دلکش‘ جاذب نظر ‘ سمارٹ اورحسین آپی کی نذر‘‘۔۔۔آپی بھی اس کا مان نہیں ٹوٹنے دیتیں اور پورے خلوص کے ساتھ نہ صرف اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہیں بلکہ یہ 48 رنگوں سے سجا شعر اپنی Wall پر بھی آویزاں کرتی ہیں۔ایسی ’’آپیوں‘‘کے شعر کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں’’نہ جانے کس کا انتظار ہے مجھ کو۔۔۔میں کافی دیر سے بیٹھی ہوں لیکن سمجھ نہیں آرہا‘‘۔ چونکہ شعر کے ساتھ آپی کی تازہ ’’پروفائل پکچر‘‘ بھی ہوتی ہے لہذا جونہی یہ شعر ’’آن ایئر‘‘ ہوتاہے ‘ چیتے کی رفتار سے Likes اور کمنٹس آنا شروع ہوجاتے ہیں‘ کئی ایک تو جوش جذبات میں یہاں تک لکھ جاتے ہیں’’آپی!آپ کا شعر آپ ہی کی طرح دل موہ لینے والا ہے‘‘۔
کئی لوگوں نے فیس بک پردنیا کو سدھارنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے‘ یہ ہر وقت نیکی کی تلقین میں لگے رہتے ہیں ‘ قیامت کی نشانیاں بتاتے ہیں‘ غیر عورتوں سے باتیں کرنے کی علتیں بیان کرتے ہیں اور برائی کے خاتمے کے لیے دن رات پوسٹیں بھیجتے ہیں تاہم خود ان کا خاتمہ کو ئی فیک آئی ڈی والی عورت کرتی ہے۔ایسے لوگوں کی اکثریت ایک دن میں چھ بالغوں کے لطیفے اور بیس احادیث پوسٹ کرکے سوتی ہے۔ جس طرح سمارٹ فون استعمال کرنے والے کوئی بھی اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے اس کے ڈاؤن لوڈز چیک کرتے ہیں اسی طرح فیس بک پر بھی کسی پوسٹ کی اہمیت کا معیار اس کے شیئرز‘ لائیکس اور کمنٹس بن چکے ہیں‘ جن لوگوں کو یہ تینوں نعمتیں نصیب نہیں ہوتیں وہ اپنی پوسٹ کے نیچے دھمکی لگا دیتے ہیں کہ’’اگر آپ مسلمان نہیں تو اس کو شیئر مت کریں‘‘۔
کئی لوگ عجیب و غریب قسم کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں مثلاً’’میں اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کر رہا ہوں‘ آپ دوستوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گذرا‘ کوئی غلطی کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف کردیجئے گا‘‘۔اس قسم کے سٹیٹس کا ایک فائدہ ضرور ہوتاہے کہ دس پندرہ جاننے والوں کے کمنٹس آجاتے ہیں ‘ ان میں سے کئی قریبی دوست یہ بھی کہہ دیتے ہیں’’بڑی مہربانی اب واپس نہ آنا‘‘۔کئی لوگ اتنے فارغ ہوتے ہیں کہ فیس بک پر بیٹھے بیٹھے پندرہ بیس لوگوں کو Group Chat کا میسج بھیج دیتے ہیں تاہم اگر یہ بیس لوگوں کو میسج بھیجتے ہیں تو اگلے دس سیکنڈ میں پچیس لوگ اس ’’کھپ خانے ‘‘ سے Leave کرجاتے ہیں۔فیس بک استعمال کرنے والوں کی اکثریت اپنا سافٹ امیج بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے‘ یہ اپنی ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے سالن کی تصویریں تو پوسٹ کرتے ہیں لیکن کبھی ان کی ماؤں سے پوچھیں تو پتا چلے کہ وہ بیچاری دن رات کڑھتی رہتی ہیں کہ کم بخت ہر وقت بیوی کے پاس گھسا رہتاہے۔
وہ لوگ بھی فیس بک پر بھرے ہوئے ہیں جنہیں دوسروں کی پوسٹس کے کمنٹس پڑھنے کی بجائے دیکھنے کی بیماری ہے‘ جن کمنٹس کے ساتھ انہیں مستورات کی تصاویر نظر آتی ہیں یہ جھٹ سے انہیں فرینڈز ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں‘ یہ ایک دن میں بیس بیس لوگوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتے ہیں اور پھر ایک دن وہ بھی آتا ہے جب ان کے سٹیٹس پر یہ جملہ پڑھنے کو ملتاہے’’الحمد للہ! آج میرے فرینڈز کی تعداد پانچ ہزار ہوگئی ہے‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن کی فرینڈز لسٹ میں وہ’’کالی کلوٹی‘‘ انگریز خواتین بھی شامل ہوتی ہیں جو آج کل ہر ’’فیس بکئے‘‘ کو اِن باکس میں میسج بھیجتی ہیں کہ ’’مجھے تمہارے پروفائل نے بہت متاثر کیا ہے مجھ سے میرے ای میل ایڈریس پررابطہ کرو میں تمہیں اپنے بارے میں بہت کچھ بتانا اور دکھانا چاہتی ہوں‘‘۔ایسی ہی خواتین کے روزانہ تین چار میسجز مجھے بھی موصول ہوتے ہیں اور دل خوش ہوجاتاہے کہ کتنی مشکل سے یہ نیک بیبیاں ٹائم نکال کر ‘ ڈکشنری کی مدد سے میرے اُردو کالمز پڑھتی اور سر دھنتی ہوں گی۔فیس بک پر گروپس بنانے کا بھی بہت رجحان ہے‘ کئی ایسے بھی گروپ ہیں جن میں صرف گروپ بنانے والا ہی ممبر ہے‘ جن گروپس میں پچاس سے زیادہ ممبرز ہیں ان میں سے اکثر ’’ہتھوڑا گروپ‘‘ کا روپ دھا رچکے ہیں۔بہرحال کچھ بھی ہو‘ فیس بک کسی بھی قسم کی رنگ بازی کے لیے بہترین جگہ ہے‘ مہنگائی کی وجہ سے ہم اپنا معاشی سٹیٹس تو اپ گریڈ نہیں کرسکتے ‘فیس بک کا سٹیٹس تو اپ ڈیٹ کرسکتے ہیں ناں۔۔۔!!!
 
Top