محمد اجمل خان
محفلین
فیصلہ ہر بندے کا اپنا ہے
ایک زمانہ تھا جب عام مسلمان اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن " الحمد للہ! ہمارے پاس ایمان ہے "۔
آج ایمان پر فخر کرنے والے مسلمان نہیں ملتے لیکن ایمان کو بیچنے والے مسلمانوں کی بہتات ہے۔ آج کا مسلمان اپنا ایمان بچا کر نہیں بلکہ بیچ کرکے فخر کرتا ہے۔ آج اپنا ایمان بیچ کر مال بنانے والے اس ملک کے ہر گلی، کوچہ و بازار میں، ہر دفتر، کورٹ و کچہری میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوانِ صدر میں بھی کثیر تعدد میں موجود ہیں۔ آج اگر ایک غریب اپنا ایمان دس روپے میں بیچ دیتا ہے تو اشرافیہ کی ایمان کی قیمت بھی دس روپے سے زیادہ نہیں رہی، جس کا نظارہ اہل بصیرت روزانہ ہی کرتے رہتے ہیں۔ آج ایمان جتنی سستی ہے اتنی سستی کبھی نہیں رہی۔ آج اس ملک میں ایمان بہت سستی ہے۔ آج سب سے سستی شے ایمان ہے۔
بھائیوں! ہمارے بڑے ایمان کی قدر و قیمت سمجھتے تھے تب ہی وہ ایمان کی حفاظت کرتے تھے اور فخریہ کہتے تھے کہ " الحمد للہ! ہمارے پاس ایمان ہے "۔ لیکن آج ہم ایمان کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ ایمان اتنی قیمتی شے ہے کہ اس کی قیمت اس دنیا میں کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا۔ جس طرح ہیرے کی قیمت صرف جوہری جانتا ہے اسی طرح ایک مومن کی ایمان کی قیمت صرف اس کا خالق ہی جانتا ہے اور اس نے مومن کی ایمان کی قیمت اپنی " جنت " سے لگا رکھی ہے جو اس کی سے بڑی نعمت ہے۔ جان لو کہ مومن کی ایمان کی قیمت اپنی " جنت " ہے۔
مسلمان کا ایمان اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اب جو اپنا ایمان بچا کر مالک یوم الدین کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو اپنا ایمان بیچ کر خالی ہاتھ مالک یوم الدین کے پاس پہنچے گا اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
اب جو چاہے دنیا میں اپنا ایمان بچا کر جنت خرید لے اور جو چاہے اپنا ایمان بیچ کر جہنم کا سودا کرلے۔
فیصلہ ہر بندے کا اپنا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اس کو بھی جنت میں داخل فرما دے۔ ایسے لوگ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ میں پھر عرض کروں گا: اے رب! جنت میں اسے بھی داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہو۔ (صحيح البخاري: 7509)
مسلمانوں غور کرو! دل میں رائی کے دانہ کے برابر یا معمولی سا بھی ایمان کی قیمت " جنت " ہے۔ اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا، اُس کو اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے۔ (صحيح مسلم: 186)
لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان جس ایمان کے ادنیٰ درجے کی قیمت اس دنیا سے دس گنا بڑی " جنت " ہے اسے دس روپے میں بیچ دیتے ہیں۔
غور کیجئے، سمجھئے اور سمجھائیے کہ ہم اور آپ کس کس طرح دس دس روپے میں ایمان جیسی قیمتی چیز کا سودا کر رہے ہیں!
اللہ تعالٰی مجھے اور آپ سب کو اپنے اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہمیں اپنی سب سے بڑی نعمت جنت میں داخل فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔*
ایک زمانہ تھا جب عام مسلمان اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن " الحمد للہ! ہمارے پاس ایمان ہے "۔
آج ایمان پر فخر کرنے والے مسلمان نہیں ملتے لیکن ایمان کو بیچنے والے مسلمانوں کی بہتات ہے۔ آج کا مسلمان اپنا ایمان بچا کر نہیں بلکہ بیچ کرکے فخر کرتا ہے۔ آج اپنا ایمان بیچ کر مال بنانے والے اس ملک کے ہر گلی، کوچہ و بازار میں، ہر دفتر، کورٹ و کچہری میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوانِ صدر میں بھی کثیر تعدد میں موجود ہیں۔ آج اگر ایک غریب اپنا ایمان دس روپے میں بیچ دیتا ہے تو اشرافیہ کی ایمان کی قیمت بھی دس روپے سے زیادہ نہیں رہی، جس کا نظارہ اہل بصیرت روزانہ ہی کرتے رہتے ہیں۔ آج ایمان جتنی سستی ہے اتنی سستی کبھی نہیں رہی۔ آج اس ملک میں ایمان بہت سستی ہے۔ آج سب سے سستی شے ایمان ہے۔
بھائیوں! ہمارے بڑے ایمان کی قدر و قیمت سمجھتے تھے تب ہی وہ ایمان کی حفاظت کرتے تھے اور فخریہ کہتے تھے کہ " الحمد للہ! ہمارے پاس ایمان ہے "۔ لیکن آج ہم ایمان کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ ایمان اتنی قیمتی شے ہے کہ اس کی قیمت اس دنیا میں کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا۔ جس طرح ہیرے کی قیمت صرف جوہری جانتا ہے اسی طرح ایک مومن کی ایمان کی قیمت صرف اس کا خالق ہی جانتا ہے اور اس نے مومن کی ایمان کی قیمت اپنی " جنت " سے لگا رکھی ہے جو اس کی سے بڑی نعمت ہے۔ جان لو کہ مومن کی ایمان کی قیمت اپنی " جنت " ہے۔
مسلمان کا ایمان اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اب جو اپنا ایمان بچا کر مالک یوم الدین کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو اپنا ایمان بیچ کر خالی ہاتھ مالک یوم الدین کے پاس پہنچے گا اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
اب جو چاہے دنیا میں اپنا ایمان بچا کر جنت خرید لے اور جو چاہے اپنا ایمان بیچ کر جہنم کا سودا کرلے۔
فیصلہ ہر بندے کا اپنا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اس کو بھی جنت میں داخل فرما دے۔ ایسے لوگ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ میں پھر عرض کروں گا: اے رب! جنت میں اسے بھی داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہو۔ (صحيح البخاري: 7509)
مسلمانوں غور کرو! دل میں رائی کے دانہ کے برابر یا معمولی سا بھی ایمان کی قیمت " جنت " ہے۔ اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا، اُس کو اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے۔ (صحيح مسلم: 186)
لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان جس ایمان کے ادنیٰ درجے کی قیمت اس دنیا سے دس گنا بڑی " جنت " ہے اسے دس روپے میں بیچ دیتے ہیں۔
غور کیجئے، سمجھئے اور سمجھائیے کہ ہم اور آپ کس کس طرح دس دس روپے میں ایمان جیسی قیمتی چیز کا سودا کر رہے ہیں!
اللہ تعالٰی مجھے اور آپ سب کو اپنے اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہمیں اپنی سب سے بڑی نعمت جنت میں داخل فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔*