محمد خرم یاسین
محفلین
السلام علیکم۔ بندہ نا چیز نے مقصود الزماں سحر صاحب کے احوال و آثار کے حوالے سے کچھ تحقیقی کام کیا تھا جس کا ایک حصہ جہانِ اردو ویب سائٹ پر مضمون کی صورت پیش کیا گیا ہے۔ آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لنک یہ ہے:
http://www.jahan-e-urdu.com/maqsooduzzaman-saher-a-faisalabad-urdu-poet-writer-khurram-yaseen/
آج نکلا ہی نہیں درد کا مارا سورج
الفاظ کی نشست و برخاست دیکھیے:
تیرے سوا کوئی بھی دکھائی نہ دے مجھے
اے رب ذوالجلال وہ آئینہ دے مجھے
عاجزی کا نمونہ ملا حظہ ہو :
آرزو تھی کہ کروں مدح سرائی ان کی
فیض سے جن کے میں ایماں کا علمدار بنا
جب بھی سوچا ہے لکھوں نعتِ رسولِ عربی
میرا کردار مری راہ کی دیوار بنا
کلا م میں جا بجا فکر کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں۔ مثالیں ملا حظہ کیجیے:
ماضی سے کوئی رشتہ نہ توڑے کہ زمانہ
دیتا نہیں بیتے ہوئے ایام کی قیمت
یارو کبھی جا نکلو کو چے میں اگر ان کے
تو حال مرے دل کا ان کو بھی سنا دینا
ہمارے اس جنوں کا ہوش سے بھی کچھ تعلق ہے
کبھی اپنا کبھی ان کا گریباں جا کے پھاڑ آئے
*
زندگی خوفِ مرگ میں گزری
موت آئی تو کچھ سکون ملا
نہ میرا نام ونسب پوچھو میرے ہمسفرو!
میں وہ صدا ہوں کہ غربت میں جو سنی نہ گئی
زندگی کا مآل کیا ہے ؟ موت
فکرو فن کا زوال کیا ہے ؟موت
پھول کھلتا ہے سوکھ جاتا ہے
جشنِ فطرتِ جمال کیا ہے ؟ موت
کب تلک خواہشوں کو پوجو گے
حرصِ دنیا کا جال کیا ہے ؟ موت
(ویب سائٹ والوں نے اس کا اختتامیہ نہیں دیا جس میں کشمیر میں ان کی شہادت کی خبر اور گھر والوں کےخیالات دیے ہوئے تھے)
http://www.jahan-e-urdu.com/maqsooduzzaman-saher-a-faisalabad-urdu-poet-writer-khurram-yaseen/
علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے ذریعے تمام عالمِ اسلام کو مخاطب کرکے کہا تھا:
از مرگ ترسی اے زندہ جاوید
مر گ است صید ے تودر کمینی
(ترجمہ: اے زندہ جاوید کیا تو موت سے ڈرتا ہے ؟ موت تو خود تیری کمین گاہ کا شکار ہے)۔
مقصود الزماں ‘اصل نام جبکہ قلمی نام مقصود اور سحر، دونوں استعمال کیا کرتے تھے۔ ذات کے بٹ تھے ۔ان کے والدِ گرامی زمان بٹ ولد امام دین اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔زمان بٹ نے زندگی میں کھیتی باڑی بھی کی اور کاروبار بھی،ملازمت بھی کی اور جنگ میں حصہ بھی لیا۔یوں ان کی اولاد کو جہدِ مسلسل کا درس اور ملی جذبے کی سرشاری وراثت میں ملی ۔ مقصود الزماں کے پانچ بھائی تھے جن میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔ بچپن کا ابتدائی حصہ لاہور میں گزارا جبکہ سیاست میں بھی دلچسپی لی ۔
ایوب دور میں B.Dممبر بھی منتخب ہوئے جبکہ اس وقت اپنے والدِ محترم کی طرح کاروبار میں مصروف تھے۔ موصوف کے والدِ محترم سرکاری ملازم تھے ۔ اس وقت جب رشوت خوری عروج کو پہنچنے لگی تو اپنا ایمان بچا کر رزقِ حلال کمانے کے لیے ۱۹۶۵ء میں حافظ آباد کی جانب ہجرت کی اور وہیں ایک نواحی گاؤں میں مقیم ہوگئے ۔یہیں پرمقصود الزماں کی ابتدائی تعلیم کا بندوبست ہوا۔ پرائمر ی کا امتحان پاس کر کے اس وقت کے مشہورِ زمانہ سکول لاہور سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال میں جماعت ششم میں داخلہ لیا۔ پھر بڑے بھائی کے ساتھ کی وجہ سے اس سکول کو خیر باد کہہ کر ونیکے تارڑ (حافظ آباد)میں ہی ساتویں جماعت میں داخلہ لے لیااوروہیں پرمیٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ سپورٹس میں دلچسپی اور عمدہ کرکٹ کھلاڑی ہونے کے باوجود تعلیمی کیرئیر بہت عمدہ رہا اور اے گریڈ کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ شروع سے یار دوست طبیعت تھی، میٹرک کے بعد ساتھیوں کی جدائی نے عارضی طور پر طبیعت کو بوجھل کر دیااور وقت گھر پر گزرنے لگا۔ والدِ گرامی نے اس بات کو نوٹ کیا تو ٹوکا اور دنیا کے بے ثباتی کے درس کے ساتھ باہر نکلنے، نیکی کی تبلیغ کرنے اور اچھے دوست بنانے کی تلقین کی۔ اسی دوران وہ پاکستان نیوی میں اپنے ڈیل ڈول اور اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کی بناء پر جونئیر کیڈٹ منتخب ہوگئے اور دوسال کراچی میں رہے پھر ۱۹۸۱ء میں واپس گھر کی راہ لی جس کا سبب پاکستان نیوی میں ایف ایس سی کے دوران فزکس کے امتحان میں نا کامیابی تھی۔ دل بر داشتہ ہونے کے بجائے انہوں نے دوبارہ سے محنت کی اور اعلیٰ نمبروں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اورISSBکے ذریعے PMAمیں نوکری کے لیے منتخب ہوئے۔وہاں ایک سال نوکری کی قلیل مدت کے بعد دوبارہ گھر کی راہ لی جس کی وجہ افسرِ بالاسے نظریاتی اختلاف تھا۔ گھر لوٹنے کے بعد بی اے کا امتحان پاس کیا اور اس دوران تیسری بار افواجِ پاکستان میں سے آرمی کے ایجو کیشن کور میں منتخب ہوئے لیکن اسے جوائن نہیں کرسکے۔ ۱۹۸۴ء میں وہ فیصل آباد منتقل ہوگئے اور یہاں پر کشمیر مل سٹورکے نام سے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیاجو آج بھی موجود ہے ۔ ۱۹۸۷ء میں وہ کاروبار کے سلسلے میں ایک سال جاپان بھی مقیم رہے۔ ۱۹۹۳ میں ان کی ناگہانی موت نے سارے شہر کو مغموم کردیا۔
سحر‘ فیصل آباد کی شاعری کا ایک توانا اور خوبصورت سرمایہ تھے۔انہیں شاعری کا شوق بچپن میں اپنے والدصاحب سے لگا جو ایک محب وطن پاکستانی تھے اور ملی نغموں میں خصوصی دلچسپی کے باعث خود بھی ملی نغمے کہتے اور اولاد کو بھی پڑھواتے تھے۔ زندگی کے ابتدائی حصے میں انہوں نے نسیم حجازی کے تمام موجود ناول پڑھ ڈالے تھے اس سے بھی ان کے جذبہ جہاد کو ہوا ملی تھی۔شعراء میں انہیں علامہ اقبال اور مرزا غالب پسند تھے۔ بڑے بھائی ان کے علم و ادب کے ذوق کی آبیاری میں پیش پیش رہے ، ان کے ہاں ادبی کتب کی وافر تعداد ہر وقت موجود رہتی تھی اور وہ خود بھی شاعر تھے۔ مقصود الزماں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے مشاعروں میں جانا شروع کیا اور حلقہ اربابِ ذوق کے ممبر رہے۔یہاں مقصو د وفا، کوثر علی اور شاہد اشرف ان کے حلقہ ارباب میں رہے۔ اسی دوران ان کی ملاقات آسی ضیائی صا حب سے ہوئی تو وہ ان کے فن سے متاثر ہو کر ان کی شاگردی میں آگئے جبکہ وہ بہت سے دیگر شعرا ء سے بھی اکتسابِ فیض کیاجن میں فیصل آباد کے ریاض مجید قابلِ ذکر ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ غزل میٹرک میں کہہ لی تھی جس کا مطلع یہ ہے :
اس در پہ جا کے دیکھ لیا ارے سر پٹکا کے دیکھ لیا
وہ ظالم کبھی نا مانے گا ، سو بار منا کے دیکھ لیا
مقصود الزماں نظم اور نثر دونوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے وہ خطوط جو وہ وہ گھر سے با ہر ملازمت اور جہاد کے دوران لکھتے رہے ہیں ان سے ان کی نثر کی پختگی اور ادبیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے با وجود ان کی زیادہ دلچسپی شاعری سے ہی رہی ۔ ان کی شاعری کی پہلی اور آخری کتاب ۱۹۹۴ء میں منظرِ عام پرآئی جس کو’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘ کا نام دیا۔اس کتاب کی تقریبِ رونمائی حلقہ اربابِ ذوق کے تحت ہوئی جس نے خوب مبارکباد وصول کی ۔ کتاب کے حوالے سے بہت سے ناقدین نے مثبت انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے خوب سراہا۔ سید ضمیر جعفری ان کی شاعری کی بابت یوں رقمطراز ہیں:
’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘مقصود الزماں بٹ کی شاعری رسمی الفاظ سے نہیں۔۔۔جان کے جذبوں اور جسم کے خونِ گرم سے لکھی گئی ہے۔ یہ اشعار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تخلیق ہوئے ۔ ایسے الفاظ اور جذبوں کے بطن سے قوموں کی پیشانیوں پر تاریخ کی کہکشائیں روشن ہوتی ہیں۔ جس طرح افغانستان اور کشمیر میں برستی موت ۔۔۔مقصود الزماں بٹ کی حیات ابدی کی پیش قدمی کو نہ روک سکی ۔ اسی طرح ہماری شاعری میں اس کا روشنی والا۔۔۔توانا اور جیالا لہجہ بھی رکنے والا نہیں ۔۔۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!‘‘
مقصود الزماں کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ایک بات بہت وا ضح دکھائی دیتی ہے کہ ان کی شاعری رزمیہ شاعر ی ہے۔ انہیں اپنے ورثے پر فخر ہے اور اپنے مذہب پر ناز ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس گردوں کا ٹوٹا ہوا تارہ ہیں اور انہیں اس بات کا بھی پورا ادرا ک ہے کہ آباء و اجداد کے ورثے کی کیا شکل حالاتِ حاضرہ میں باقی رہ گئی ہے ۔ صفحہ اول پر موجود شعر ان کی شاعری کی طرز کا پتہ دیتا ہے :
جئیں تو غازی جو مر جائیں تو شہید سحر ؔ
ہمیں قبول نہیں کوئی درمیان کی بات
کتاب کے انتساب میں والدِ محترم کو اس طرح خراج پیش کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے کے سہارے کے کھوجانے پر ماتم کرنے کے بجائے سینہ پھلائے نظر آتے ہیں۔ کتا ب کو ان کے بھائی محبوب الزماں بٹ نے مرتب کیا ہے۔ جس میں ’’مقصود الزماں سحر۔۔۔ایک تعارف‘‘ کے نام سے دیا جانے والے مضمون میں بھی ان کی جرات و بہادری کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی تعریف کی گئی ہے۔
نعیم صدیقی اپنے ایک مضمون’’ شعرِ شہید‘‘ میں مقصود الزماں کی شاعری کے سفر کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’میں نے شاعر کے مختصر سے دورِ خدمتِ فن کے سفرکو بڑے غور سے دیکھا ، وہ چند لمحے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے نرسلوں کے درمیان کبھی دلدل میں اور کبھی کانٹوں میں جا پھنسا مگر پھر نجانے کیسے وہ اسفل ماحول سے اڑ کر نکلا اور اس کی شاعری کا افق بھی وسیع ہوگیا۔ بس یہ چند لمحات کا قصہ تھا جس کے نقوش بعض شعروں میں جھلکتے ہیں۔ وہ تھوڑی بہت ایسی کشمکش سے نکلے بغیرآگے کی اصل بڑی معرکہ آرائیوں کے لیے تیار نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘
مشہور نقاد تحسین فراقی بھی مقصودالزماں کی شاعری سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے مقصود الزماں کی شاعر ی کے بارے رائے دی ہے کہ یہ شاعری اقبال کی طرح خودی کا تصور لیے اور اپنے حق پر ڈٹ جانے کی شاعری ہے۔ملاحظہ کیجیے:
’’اقبال نے مدتوں پہلے ایک از خود رفتہ موج کی زبانی حرکت اور زندگی کو ایک ہی حقیقت کے دو رخوں سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
عمر ہستم اگر میروم گر نروم نیستم
’’ مقصود الزمان سحر کی شاعری بھی اسی مصرعے کی تفسیر ہے ۔ مجموعے ’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘کا محض نام ہی اقبال کی حرکی فکریات سے شاعر کے ذہنی انسلاک کا پتا نہیں دیتا، اس مجموعے کی اکثر نظمیں اور بعض غزلیں بھی اس شدید تاثر پذیری کی مظہر ہیں۔ اقبال سے مو صوف کی ذہنی مقاربت دو اور حوالوں سے آئینہ ہوتی ہے۔ اول مرحوم کا تخلص یعنی سحر ؔ جو اقبال کے یہاں ایک مرکزی استعارہ ہے اور دوسرے ان کی شاعری کا رجزیہ اور جہادیہ آہنگ۔ ‘‘
مقصود الزمان سحرکی شاعری کا مزاج چونکہ رزمیہ ہے اس لیے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جس عمر میں مو صوف نے ایسی شاعری کی وہ عمر عشق اور محبت کی شاعری کی تھی ۔اس کی سادہ وجہ شاید گھر کا وہ اسلامی ما حول تھا جس نے انہیں عشقِ مجازی سے وطن پرستی اور قوم پرستی کا درس دیا۔ اردو شعرا ء کی فہرست دیکھی جائے تو وہاں فیض احمد فیض اوراحمد فراز جیسے کئی بلند پایاں نام نظر آئیں گے جو جسم اور قلم دونوں سے با قاعدہ جہاد کرتے آئے ہیں۔ اسی فہرست کو شہید مقصود الزمان سحرنے طو ل دیاہے۔
ذیل میں مقصود الزماں کا نمونہ کلام دیا جارہا ہے ملا حظہ کیجیے:
کچھ لوگ بہ اندازِ دگر بول رہے تھے
گردن سے جدا ہوکے بھی سر بول رہے تھے
ہر پیڑ غریبوں کا لہو پی کر پلا ہے
شاہوں نے اتارے تو ثمر بول رہے تھے
تھا دیدنی جنگل میں عدالت کا وہ منظر
خاموش تھے انسان ، شجر بول رہے تھے
دکھ مری بستی کے جب دیکھے تو ہارا سورجاز مرگ ترسی اے زندہ جاوید
مر گ است صید ے تودر کمینی
(ترجمہ: اے زندہ جاوید کیا تو موت سے ڈرتا ہے ؟ موت تو خود تیری کمین گاہ کا شکار ہے)۔
مقصود الزماں ‘اصل نام جبکہ قلمی نام مقصود اور سحر، دونوں استعمال کیا کرتے تھے۔ ذات کے بٹ تھے ۔ان کے والدِ گرامی زمان بٹ ولد امام دین اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔زمان بٹ نے زندگی میں کھیتی باڑی بھی کی اور کاروبار بھی،ملازمت بھی کی اور جنگ میں حصہ بھی لیا۔یوں ان کی اولاد کو جہدِ مسلسل کا درس اور ملی جذبے کی سرشاری وراثت میں ملی ۔ مقصود الزماں کے پانچ بھائی تھے جن میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔ بچپن کا ابتدائی حصہ لاہور میں گزارا جبکہ سیاست میں بھی دلچسپی لی ۔
ایوب دور میں B.Dممبر بھی منتخب ہوئے جبکہ اس وقت اپنے والدِ محترم کی طرح کاروبار میں مصروف تھے۔ موصوف کے والدِ محترم سرکاری ملازم تھے ۔ اس وقت جب رشوت خوری عروج کو پہنچنے لگی تو اپنا ایمان بچا کر رزقِ حلال کمانے کے لیے ۱۹۶۵ء میں حافظ آباد کی جانب ہجرت کی اور وہیں ایک نواحی گاؤں میں مقیم ہوگئے ۔یہیں پرمقصود الزماں کی ابتدائی تعلیم کا بندوبست ہوا۔ پرائمر ی کا امتحان پاس کر کے اس وقت کے مشہورِ زمانہ سکول لاہور سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال میں جماعت ششم میں داخلہ لیا۔ پھر بڑے بھائی کے ساتھ کی وجہ سے اس سکول کو خیر باد کہہ کر ونیکے تارڑ (حافظ آباد)میں ہی ساتویں جماعت میں داخلہ لے لیااوروہیں پرمیٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ سپورٹس میں دلچسپی اور عمدہ کرکٹ کھلاڑی ہونے کے باوجود تعلیمی کیرئیر بہت عمدہ رہا اور اے گریڈ کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ شروع سے یار دوست طبیعت تھی، میٹرک کے بعد ساتھیوں کی جدائی نے عارضی طور پر طبیعت کو بوجھل کر دیااور وقت گھر پر گزرنے لگا۔ والدِ گرامی نے اس بات کو نوٹ کیا تو ٹوکا اور دنیا کے بے ثباتی کے درس کے ساتھ باہر نکلنے، نیکی کی تبلیغ کرنے اور اچھے دوست بنانے کی تلقین کی۔ اسی دوران وہ پاکستان نیوی میں اپنے ڈیل ڈول اور اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کی بناء پر جونئیر کیڈٹ منتخب ہوگئے اور دوسال کراچی میں رہے پھر ۱۹۸۱ء میں واپس گھر کی راہ لی جس کا سبب پاکستان نیوی میں ایف ایس سی کے دوران فزکس کے امتحان میں نا کامیابی تھی۔ دل بر داشتہ ہونے کے بجائے انہوں نے دوبارہ سے محنت کی اور اعلیٰ نمبروں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اورISSBکے ذریعے PMAمیں نوکری کے لیے منتخب ہوئے۔وہاں ایک سال نوکری کی قلیل مدت کے بعد دوبارہ گھر کی راہ لی جس کی وجہ افسرِ بالاسے نظریاتی اختلاف تھا۔ گھر لوٹنے کے بعد بی اے کا امتحان پاس کیا اور اس دوران تیسری بار افواجِ پاکستان میں سے آرمی کے ایجو کیشن کور میں منتخب ہوئے لیکن اسے جوائن نہیں کرسکے۔ ۱۹۸۴ء میں وہ فیصل آباد منتقل ہوگئے اور یہاں پر کشمیر مل سٹورکے نام سے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیاجو آج بھی موجود ہے ۔ ۱۹۸۷ء میں وہ کاروبار کے سلسلے میں ایک سال جاپان بھی مقیم رہے۔ ۱۹۹۳ میں ان کی ناگہانی موت نے سارے شہر کو مغموم کردیا۔
سحر‘ فیصل آباد کی شاعری کا ایک توانا اور خوبصورت سرمایہ تھے۔انہیں شاعری کا شوق بچپن میں اپنے والدصاحب سے لگا جو ایک محب وطن پاکستانی تھے اور ملی نغموں میں خصوصی دلچسپی کے باعث خود بھی ملی نغمے کہتے اور اولاد کو بھی پڑھواتے تھے۔ زندگی کے ابتدائی حصے میں انہوں نے نسیم حجازی کے تمام موجود ناول پڑھ ڈالے تھے اس سے بھی ان کے جذبہ جہاد کو ہوا ملی تھی۔شعراء میں انہیں علامہ اقبال اور مرزا غالب پسند تھے۔ بڑے بھائی ان کے علم و ادب کے ذوق کی آبیاری میں پیش پیش رہے ، ان کے ہاں ادبی کتب کی وافر تعداد ہر وقت موجود رہتی تھی اور وہ خود بھی شاعر تھے۔ مقصود الزماں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے مشاعروں میں جانا شروع کیا اور حلقہ اربابِ ذوق کے ممبر رہے۔یہاں مقصو د وفا، کوثر علی اور شاہد اشرف ان کے حلقہ ارباب میں رہے۔ اسی دوران ان کی ملاقات آسی ضیائی صا حب سے ہوئی تو وہ ان کے فن سے متاثر ہو کر ان کی شاگردی میں آگئے جبکہ وہ بہت سے دیگر شعرا ء سے بھی اکتسابِ فیض کیاجن میں فیصل آباد کے ریاض مجید قابلِ ذکر ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ غزل میٹرک میں کہہ لی تھی جس کا مطلع یہ ہے :
اس در پہ جا کے دیکھ لیا ارے سر پٹکا کے دیکھ لیا
وہ ظالم کبھی نا مانے گا ، سو بار منا کے دیکھ لیا
مقصود الزماں نظم اور نثر دونوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے وہ خطوط جو وہ وہ گھر سے با ہر ملازمت اور جہاد کے دوران لکھتے رہے ہیں ان سے ان کی نثر کی پختگی اور ادبیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے با وجود ان کی زیادہ دلچسپی شاعری سے ہی رہی ۔ ان کی شاعری کی پہلی اور آخری کتاب ۱۹۹۴ء میں منظرِ عام پرآئی جس کو’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘ کا نام دیا۔اس کتاب کی تقریبِ رونمائی حلقہ اربابِ ذوق کے تحت ہوئی جس نے خوب مبارکباد وصول کی ۔ کتاب کے حوالے سے بہت سے ناقدین نے مثبت انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے خوب سراہا۔ سید ضمیر جعفری ان کی شاعری کی بابت یوں رقمطراز ہیں:
’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘مقصود الزماں بٹ کی شاعری رسمی الفاظ سے نہیں۔۔۔جان کے جذبوں اور جسم کے خونِ گرم سے لکھی گئی ہے۔ یہ اشعار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تخلیق ہوئے ۔ ایسے الفاظ اور جذبوں کے بطن سے قوموں کی پیشانیوں پر تاریخ کی کہکشائیں روشن ہوتی ہیں۔ جس طرح افغانستان اور کشمیر میں برستی موت ۔۔۔مقصود الزماں بٹ کی حیات ابدی کی پیش قدمی کو نہ روک سکی ۔ اسی طرح ہماری شاعری میں اس کا روشنی والا۔۔۔توانا اور جیالا لہجہ بھی رکنے والا نہیں ۔۔۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!‘‘
مقصود الزماں کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ایک بات بہت وا ضح دکھائی دیتی ہے کہ ان کی شاعری رزمیہ شاعر ی ہے۔ انہیں اپنے ورثے پر فخر ہے اور اپنے مذہب پر ناز ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس گردوں کا ٹوٹا ہوا تارہ ہیں اور انہیں اس بات کا بھی پورا ادرا ک ہے کہ آباء و اجداد کے ورثے کی کیا شکل حالاتِ حاضرہ میں باقی رہ گئی ہے ۔ صفحہ اول پر موجود شعر ان کی شاعری کی طرز کا پتہ دیتا ہے :
جئیں تو غازی جو مر جائیں تو شہید سحر ؔ
ہمیں قبول نہیں کوئی درمیان کی بات
کتاب کے انتساب میں والدِ محترم کو اس طرح خراج پیش کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے کے سہارے کے کھوجانے پر ماتم کرنے کے بجائے سینہ پھلائے نظر آتے ہیں۔ کتا ب کو ان کے بھائی محبوب الزماں بٹ نے مرتب کیا ہے۔ جس میں ’’مقصود الزماں سحر۔۔۔ایک تعارف‘‘ کے نام سے دیا جانے والے مضمون میں بھی ان کی جرات و بہادری کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی تعریف کی گئی ہے۔
نعیم صدیقی اپنے ایک مضمون’’ شعرِ شہید‘‘ میں مقصود الزماں کی شاعری کے سفر کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’میں نے شاعر کے مختصر سے دورِ خدمتِ فن کے سفرکو بڑے غور سے دیکھا ، وہ چند لمحے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے نرسلوں کے درمیان کبھی دلدل میں اور کبھی کانٹوں میں جا پھنسا مگر پھر نجانے کیسے وہ اسفل ماحول سے اڑ کر نکلا اور اس کی شاعری کا افق بھی وسیع ہوگیا۔ بس یہ چند لمحات کا قصہ تھا جس کے نقوش بعض شعروں میں جھلکتے ہیں۔ وہ تھوڑی بہت ایسی کشمکش سے نکلے بغیرآگے کی اصل بڑی معرکہ آرائیوں کے لیے تیار نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘
مشہور نقاد تحسین فراقی بھی مقصودالزماں کی شاعری سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے مقصود الزماں کی شاعر ی کے بارے رائے دی ہے کہ یہ شاعری اقبال کی طرح خودی کا تصور لیے اور اپنے حق پر ڈٹ جانے کی شاعری ہے۔ملاحظہ کیجیے:
’’اقبال نے مدتوں پہلے ایک از خود رفتہ موج کی زبانی حرکت اور زندگی کو ایک ہی حقیقت کے دو رخوں سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
عمر ہستم اگر میروم گر نروم نیستم
’’ مقصود الزمان سحر کی شاعری بھی اسی مصرعے کی تفسیر ہے ۔ مجموعے ’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘کا محض نام ہی اقبال کی حرکی فکریات سے شاعر کے ذہنی انسلاک کا پتا نہیں دیتا، اس مجموعے کی اکثر نظمیں اور بعض غزلیں بھی اس شدید تاثر پذیری کی مظہر ہیں۔ اقبال سے مو صوف کی ذہنی مقاربت دو اور حوالوں سے آئینہ ہوتی ہے۔ اول مرحوم کا تخلص یعنی سحر ؔ جو اقبال کے یہاں ایک مرکزی استعارہ ہے اور دوسرے ان کی شاعری کا رجزیہ اور جہادیہ آہنگ۔ ‘‘
مقصود الزمان سحرکی شاعری کا مزاج چونکہ رزمیہ ہے اس لیے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جس عمر میں مو صوف نے ایسی شاعری کی وہ عمر عشق اور محبت کی شاعری کی تھی ۔اس کی سادہ وجہ شاید گھر کا وہ اسلامی ما حول تھا جس نے انہیں عشقِ مجازی سے وطن پرستی اور قوم پرستی کا درس دیا۔ اردو شعرا ء کی فہرست دیکھی جائے تو وہاں فیض احمد فیض اوراحمد فراز جیسے کئی بلند پایاں نام نظر آئیں گے جو جسم اور قلم دونوں سے با قاعدہ جہاد کرتے آئے ہیں۔ اسی فہرست کو شہید مقصود الزمان سحرنے طو ل دیاہے۔
ذیل میں مقصود الزماں کا نمونہ کلام دیا جارہا ہے ملا حظہ کیجیے:
کچھ لوگ بہ اندازِ دگر بول رہے تھے
گردن سے جدا ہوکے بھی سر بول رہے تھے
ہر پیڑ غریبوں کا لہو پی کر پلا ہے
شاہوں نے اتارے تو ثمر بول رہے تھے
تھا دیدنی جنگل میں عدالت کا وہ منظر
خاموش تھے انسان ، شجر بول رہے تھے
آج نکلا ہی نہیں درد کا مارا سورج
الفاظ کی نشست و برخاست دیکھیے:
تیرے سوا کوئی بھی دکھائی نہ دے مجھے
اے رب ذوالجلال وہ آئینہ دے مجھے
عاجزی کا نمونہ ملا حظہ ہو :
آرزو تھی کہ کروں مدح سرائی ان کی
فیض سے جن کے میں ایماں کا علمدار بنا
جب بھی سوچا ہے لکھوں نعتِ رسولِ عربی
میرا کردار مری راہ کی دیوار بنا
کلا م میں جا بجا فکر کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں۔ مثالیں ملا حظہ کیجیے:
ماضی سے کوئی رشتہ نہ توڑے کہ زمانہ
دیتا نہیں بیتے ہوئے ایام کی قیمت
یارو کبھی جا نکلو کو چے میں اگر ان کے
تو حال مرے دل کا ان کو بھی سنا دینا
ہمارے اس جنوں کا ہوش سے بھی کچھ تعلق ہے
کبھی اپنا کبھی ان کا گریباں جا کے پھاڑ آئے
*
زندگی خوفِ مرگ میں گزری
موت آئی تو کچھ سکون ملا
نہ میرا نام ونسب پوچھو میرے ہمسفرو!
میں وہ صدا ہوں کہ غربت میں جو سنی نہ گئی
زندگی کا مآل کیا ہے ؟ موت
فکرو فن کا زوال کیا ہے ؟موت
پھول کھلتا ہے سوکھ جاتا ہے
جشنِ فطرتِ جمال کیا ہے ؟ موت
کب تلک خواہشوں کو پوجو گے
حرصِ دنیا کا جال کیا ہے ؟ موت
(ویب سائٹ والوں نے اس کا اختتامیہ نہیں دیا جس میں کشمیر میں ان کی شہادت کی خبر اور گھر والوں کےخیالات دیے ہوئے تھے)
آخری تدوین: