جاسم محمد
محفلین
فیصل واوڈا نے 465 ملین کی پراپرٹیز ملازم کے نام رکھیں، بنک کے سامنے مان گئے، ڈیلی بزنس ورلڈ کے سامنے اعتراف میں ہچکچاہٹ
آج کا اخباراہم خبریں
May 20, 2019
شیر نواز خان ہے کون؟ پی ٹی آئی کے حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی
ایک شخص شیر نواز خان نے امارات گلوبل اسلامک بنک کو 2006 میں اپنی دو جائیداتیں 465 ملین میں بیچیں
سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق بنک نے جواب جمع کروایا کہ فیصل واوڈا شیر نواز خان کی پاور آف اٹارنی لے کر آئے اور کہا کہ وہ ان پراپرٹیز کے اصل مالک ہیں اور شیر نواز خان ان کا ملازم ہے
اپنے اس وقت کے ظاہر کردہ ٹیکس ریکارڈ کے مطابق واوڈا اتنی مہنگی جائیدادیں نہیں بنا سکتے تھے، بیچنے کے بعد بھی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کیا
پاکستان میں ان پراپرٹیز کے علاوہ انہی سالوں میں شروع ہو کر 2016 تک واوڈا نےملائیشیا سے برطانیہ تک تقریباً سترہ جائیدادیں خریدیں
جبکہ 2015 تک انکا ٹیکس تقریبا زیرو رہا اور ظاہر کردہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔
مئوقف دیتے ہوئے واوڈا کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے
مگر جب انہیں بتایا گیا کہ سوال اور سٹوری کا تعلق عدالت میں زیر سماعت معاملے سے نہیں بلکہ ملازم کے نام بے نامہ پراپرٹیز رکھنے اور ذرائع آمدن سے ہے تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا
احمد نورانی
اسلام آباد: کوئی باقائدہ اور ڈیکلئر کردہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے باوجود 2006 میں وفاقی وزیر برائے آبی ذرائع فیصل واوڈا نے سینکڑوں ملینز کی جائیدادوں کو فروخت کیا جو کہ انہوں نے اپنے ذاتی ملازم شیر نواز خان کے نام پر رکھی ہوئی تھیں۔
شیر نواز خان نے اپنا مئوقف دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ ایک سال پہلے تک فیصل واوڈا کے ملازم تھے مگر اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ تاہم ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود چند سرکاری دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیر نواز خان اب بھی وفاقی وزیر کے قریبی ترین آدمی ہیں۔
شیر نواز خان جن کا شناختی کارڈ نمبر 4250140691259 ہے کراچی ڈی ایچ اے کے فیز فور کے خیابانِ تنظیم میں دو کمرشل پراپرٹیز کے مالک تھے۔ جنہیں انہوں نے 8 جون 2006 کو 465 ملین روپے کو عوض امارات گلوبل اسلامک بنک کو بیچنے کا معائدہ کیا۔ تاہم معائدہ ہونے کے بعد فیصل واوڈا منظرِ عام پر آئے اور امارات گلوبل اسلامک بنک سے رابطہ کر کے انہیں شیر نواز خان کی طرف سے دی گئی ایک “پاور آف اٹارنی” پیش کی جس کے مطابق فیصل واوڈا نے جائیداد کے متعلق تمام امور کو دیکھنا تھا۔
بعد ازاں انہی دو پراپرٹیز کا معاملہ سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا جہاں بنک نے تحریری طور پر عدالتِ عالیہ کو مطلع کیا کہ فیصل واوڈا نے انہیں شیر نواز خان کی طرف سے جاری کی گئی “پاور آف اٹارنی” دیتے ہوئے کہا کہ شیر نواز خان انکے ملازم ہیں اور ان جائیداتوں کے اصل مالک وہ (فیصل واوڈا) خود ہیں۔
“پاور آف اٹارنی” کی کاپی ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود ہے جو کہ شائع کی جا رہی ہے۔ امارات گلوبل اسلامک بنک کے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے جواب کے متعلقہ حصے کا عکس بھی شائع کیا جا رہا ہے۔
فیصل واوڈا کے ملازم “شیر نواز خان” کی طرف سے اپنے مالک کو دی جانے والی “پاور آف اٹارنی”
سندھ ہائیکورٹ میں امارات گلوبل اسلامک بنک کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب کے متعلقہ حصے کا عکس
پہلے تو فیصل واوڈا سٹوری کے حوالے سے تفصیلی جواب دینے کا وعدہ کرتے رہے مگر درجنوں مرتبہ رابطے کرنے کے باوجود انہوں نے اپناوعدہ پورا نہ کیا۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ شیر نواز خان سے رابطہ ہو گیا ہے اور انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ واوڈا کے ملازم رہے تو وہ شیر نواز خان سے براہِ راست رابطہ کر لینے کی بات پر غصے میں آگئے اور کہا کہ اب وہ کبھی بھی اپنا مئوقف نہیں دیں۔ پیشہ ورانہ صحافتی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر بھی ان سے مئوقف لینے کی کوشش جاری رکھی گئی تو ایک موقعہ پر انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں اس لیے وہ اس پر ‘کمنٹ’ نہیں کریں گے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ سوال اور سٹوری کا تعلق عدالت میں زیر سماعت معاملے سے نہیں بلکہ ملازم کے نام پر بے نامی پراپرٹیز رکھنے اور ذرائع آمدن سے ہے تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
فیصل واوڈا گروپ کنسٹرکشن کے نام سے ایک کمپنی جس کو فیصل واوڈا فخر سے اپنا ذریعہ آمدن بتاتے ہیں، اتنی چھوٹی کمپنی ہے کہ ڈیلی بزنس ورلڈ کی تحقیقات کے مطابق نہ تو یہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی کراچی کی ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ ڈیلی بزنس ورلڈ کی تحقیقات کے مطابق سیلز ٹیکس ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کی فیصل واوڈا کی اس کمپنی نے 2007 سے 2013 تک زیرو سیلز ٹیکس جمع کروایا جبکہ 2013 سے اب تک اس کمپنی کا سیلز ٹیکس اکائونٹ ایف بی آر نے معطل کیا ہوا ہے۔
ایف بی آر میں فیصل واوڈا کی یہ کمپنی سالانہ ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کیلیے “اِن ڈیویجئول” کیٹیگری میں رجسٹرڈ ہے جبکہ واوڈا نے خود کو 2004 میں ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹر کروایا۔
درجن کے قریب اپنی لندن کی خفیہ پراپرٹیز سامنے آنے کے بعد واوڈا اپنے پرائیویٹ سرکلز میں یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2016 اور اسکے بعد کے سالوں میں کتنا ٹیکس دیا اور یہ کہ انہوں نے 2018 کے ٹیکس ریٹرنز اور انتخابات کے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنی بیرون ملک پراپرٹیز ظاہر کیں جبکہ ڈیلی بزنس ورلڈ کی موجودہ اور پہلی سٹوری انکے 2016 سے پہلے کے ٹیکس ریکارڈ جب انکا ٹیکس کئی سال سے مسلسل زیرو رہا، ظاہر کردہ آمدن اور درجن کے قریب لندن کی ان خفیہ جائیداتوں کے بارے میں ہیں جو کبھی ظاہر نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان جائیدادوں کو خریدنے کے ذرائع آمدن ڈیکلئر کیے گئے۔ یہ ہی نہیں لندن کی ان جائیداتوں کو خریدنے کیلیے رقم کی بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے بھی واوڈا کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ 2018 کے انتخابات کیلیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں واوڈا نے اپنا ذریعہ آمدن سٹاک ایکسچینج میں کاروبار بتایا۔
ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق فیصل واوڈا نے پرائیویٹ بنک امارات گلوبل اسلامک بنک کے خلاف پراپرٹیز کی فروخت کے معائدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں ایک کیس فائل کیا۔ واوڈا کی پٹیشن کے مطابق بنک نے ابتائی طور پر زمین کی قیمت ادا کی جس میں سے واوڈا نے 24 ملین کی رقم سے اسی بنک کے آئی پی او شیئرز خرید لیے، پٹیشن کے مطابق کسی کاروباری جھگڑے کی وجہ سے بنک نے واوڈا کو یہ شیئرز جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائیٹ پر کیس کی ہسٹری یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2013 کے بعد سے کیس کو متحرک انداز میں آگے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
مزید تسلی کرنے کیلیے کہ شاید واوڈا نے یہ پراپرٹیز یا ذرائع آمدن اپنی بیگم کے نام ظاہر کیے ہوں، ڈیلی بزنس ورلڈ نے مسز فیصل واوڈا کا ٹیکس ریکارڈ بھی جانچا۔ تاہم مسز فیصل واوڈا نے بھی 2007 سے 2013 تیک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا اور نہ ہی اسی عرصے میں دونوں میاں بیوی نے ایف بی آر حکام کے پاس اپنے اثاثہ جات کی کوئی تفصیل جمع کروائی۔
شیر نواز خان کا نام عدالتی دستاویزات جن میں ان کا بنک کے ساتھ معائدہ اور “پاور آف اٹارنی” میں سامنے آیا۔ جب انکا مئوقف لینے کیلیے ان سے 19 جنوری 2019 کو رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مان لیا کہ وہ فیصل واوڈا کے ملازم رہے ہیں مگر اب تقریباً ایک سال سے واوڈا کے ساتھ کام نہیں کر رہے۔ مگر جیسے ہی ان سے ان پراپرٹیز کو بیچنے اور پاور آف اٹارنی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ غصے میں آ گئے اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ “مجھ سے دوبارا رابطہ نہ کرنا، میں نے یہ کال ریکارڈ کر لی ہے اور میں ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ میں تمہارے خلاف کیس درج کروائوں گا،” شیر نواز نے غصے سے کہا۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کا تذکرہ شیر نواز خان نے کچھ یوں کیا جیسے پورا ایف آج کل ان کے ماتحت کر رہا ہو اور انکے ایک اشارے پر ایف آئی اے ایک خبر کے حوالے سے سوال پوچھنے پر پر اخبار کے عملے کو اٹھا کر لے جائے گا۔
ڈیلی بزنس ورلڈ کی مزید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ شیر نواز خان درحقیقت اب بھی فیصل واوڈا کے ساتھ کام کررہے ہیں بلکہ ان کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔ 17 جنوری 2019 کے وفاقی وزارتِ آبی وسائل کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق جس میں کراچی انتظامیہ کو واوڈا کے کراچی کے دورے کے دوران “پرٹوکول” کا اہتمام کرنے کا حکم صادر کیا گیا تھا میں رابطہ کرنے کیلیے نمبر ایک صاحب “شیر محمد” کا دیا گیا۔ جب اس نمبر —03003456 پر رابطہ کیا گیا تو ڈیلی بزنس ورلڈ کو پتا چلا کہ یہ صاحب تو کوئی اور نہیں بلکہ وہی شیر نواز خان ہیں اور یہ نمبر بھی وہی ہے جس پر پہلے ان سے بات ہوئی تھی۔ جب شیر نواز خان کو یاد دلوایا گیا کہ سابقہ گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ اب انکا فیصل واوڈا سے کوئی تعلق نہیں اور اس سرکاری نوٹیفیکیشن میں تو واوڈا سے رابطے کیلیے نمبر ہی انکا لکھا گیا ہے تو شیر نواز خان پھر غصے میں آگئے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔ ڈیلی بزنس ورلڈ یہ سرکاری نوٹیفیکیشن شائع کر رہا ہے۔
وفاقی وزارتِ آبی وسائل کا فیصل واوڈا کو پروٹوکول دینے کا حکم نامہ جس میں شیر نواز خان کا نام شیر محمد ظاہر کیا گیا اور انکا اصل موبائل نمبر دیا گیا
انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ 17 مئی 2019 کو علی الصبح واوڈا نے سرکاری طور پر ایک پریس ریلیز جاری کی کہ وہ جمعہ کے دن ڈیڑھ بجے کراچی کی ایک مسجد میں لوگوں میں چیک تقسیم کریں گے کہ وہ اپنا روزگار شروع کر سکیں اور اس سے وفاقی یا صوبائی حکومت کے پیسے خرچ ہوئے بغیر لوگوں کو روزگا دینے کے انکے اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کے وعدے کی تکمیل ہو گی، اس اہم پریس ریلیز کے نیچے بھی رابطے کیلیے ایک نمبر دیا گیا تھا اور صرف چار دن پہلے جاری ہونے والی اس پریس ریلیز میں دیا گیا یہ نمبر بھی “شیر نواز خان” کا ہی تھا۔ ڈیلی بزنس ورلڈ اور ڈیلی طاقت اس پریس ریلیز کے متعلقہ حصے کا عکس بھی شائع کر رہے ہیں۔ یہ ایک دوسری دلچسپ کہانی ہے کہ انگریزی اخبار روزنامہ دی نیوز کے سینئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کی انیس مئی کو چھپنے والی خبر کے مطابق یہ تقریب بھی فیصل واوڈا نہیں بلکہ ایک زبردست فلاحی تنظیم “اخوت” نے منعقد کروائی تھی جس میں واوڈا وفاقی وزیر ہونے کے ناطے مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے مگر انہوں نے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ چیک دینے اور لوگوں کو روزگار دینے کہ یہ تقریب انکے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کی تکمیل کی طرف ایک قدم ہے، حالانکہ “اخوت” کئی سالوں لوگوں کو روزگا فراہم کرنے کیلیے ایسے قرضے دیتی چلی آ رہی ہے اور اس شعبے اخوت اور اس کے سربراہ جناب ڈاکٹر امجد ثاقب انتہائی زبردست کام کر رہے ہیں۔
فیصل واوڈا کی جانب سے جمعہ کے دن غریبوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب کی پریس ریلیز جس میں شیر نواز خان کا نمبر دیا گیا ہے۔
آج کا اخباراہم خبریں
May 20, 2019
شیر نواز خان ہے کون؟ پی ٹی آئی کے حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی
ایک شخص شیر نواز خان نے امارات گلوبل اسلامک بنک کو 2006 میں اپنی دو جائیداتیں 465 ملین میں بیچیں
سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق بنک نے جواب جمع کروایا کہ فیصل واوڈا شیر نواز خان کی پاور آف اٹارنی لے کر آئے اور کہا کہ وہ ان پراپرٹیز کے اصل مالک ہیں اور شیر نواز خان ان کا ملازم ہے
اپنے اس وقت کے ظاہر کردہ ٹیکس ریکارڈ کے مطابق واوڈا اتنی مہنگی جائیدادیں نہیں بنا سکتے تھے، بیچنے کے بعد بھی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کیا
پاکستان میں ان پراپرٹیز کے علاوہ انہی سالوں میں شروع ہو کر 2016 تک واوڈا نےملائیشیا سے برطانیہ تک تقریباً سترہ جائیدادیں خریدیں
جبکہ 2015 تک انکا ٹیکس تقریبا زیرو رہا اور ظاہر کردہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔
مئوقف دیتے ہوئے واوڈا کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے
مگر جب انہیں بتایا گیا کہ سوال اور سٹوری کا تعلق عدالت میں زیر سماعت معاملے سے نہیں بلکہ ملازم کے نام بے نامہ پراپرٹیز رکھنے اور ذرائع آمدن سے ہے تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا
احمد نورانی
اسلام آباد: کوئی باقائدہ اور ڈیکلئر کردہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے باوجود 2006 میں وفاقی وزیر برائے آبی ذرائع فیصل واوڈا نے سینکڑوں ملینز کی جائیدادوں کو فروخت کیا جو کہ انہوں نے اپنے ذاتی ملازم شیر نواز خان کے نام پر رکھی ہوئی تھیں۔
شیر نواز خان نے اپنا مئوقف دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ ایک سال پہلے تک فیصل واوڈا کے ملازم تھے مگر اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ تاہم ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود چند سرکاری دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیر نواز خان اب بھی وفاقی وزیر کے قریبی ترین آدمی ہیں۔
شیر نواز خان جن کا شناختی کارڈ نمبر 4250140691259 ہے کراچی ڈی ایچ اے کے فیز فور کے خیابانِ تنظیم میں دو کمرشل پراپرٹیز کے مالک تھے۔ جنہیں انہوں نے 8 جون 2006 کو 465 ملین روپے کو عوض امارات گلوبل اسلامک بنک کو بیچنے کا معائدہ کیا۔ تاہم معائدہ ہونے کے بعد فیصل واوڈا منظرِ عام پر آئے اور امارات گلوبل اسلامک بنک سے رابطہ کر کے انہیں شیر نواز خان کی طرف سے دی گئی ایک “پاور آف اٹارنی” پیش کی جس کے مطابق فیصل واوڈا نے جائیداد کے متعلق تمام امور کو دیکھنا تھا۔
بعد ازاں انہی دو پراپرٹیز کا معاملہ سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا جہاں بنک نے تحریری طور پر عدالتِ عالیہ کو مطلع کیا کہ فیصل واوڈا نے انہیں شیر نواز خان کی طرف سے جاری کی گئی “پاور آف اٹارنی” دیتے ہوئے کہا کہ شیر نواز خان انکے ملازم ہیں اور ان جائیداتوں کے اصل مالک وہ (فیصل واوڈا) خود ہیں۔
“پاور آف اٹارنی” کی کاپی ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود ہے جو کہ شائع کی جا رہی ہے۔ امارات گلوبل اسلامک بنک کے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے جواب کے متعلقہ حصے کا عکس بھی شائع کیا جا رہا ہے۔
فیصل واوڈا کے ملازم “شیر نواز خان” کی طرف سے اپنے مالک کو دی جانے والی “پاور آف اٹارنی”
سندھ ہائیکورٹ میں امارات گلوبل اسلامک بنک کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب کے متعلقہ حصے کا عکس
پہلے تو فیصل واوڈا سٹوری کے حوالے سے تفصیلی جواب دینے کا وعدہ کرتے رہے مگر درجنوں مرتبہ رابطے کرنے کے باوجود انہوں نے اپناوعدہ پورا نہ کیا۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ شیر نواز خان سے رابطہ ہو گیا ہے اور انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ واوڈا کے ملازم رہے تو وہ شیر نواز خان سے براہِ راست رابطہ کر لینے کی بات پر غصے میں آگئے اور کہا کہ اب وہ کبھی بھی اپنا مئوقف نہیں دیں۔ پیشہ ورانہ صحافتی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر بھی ان سے مئوقف لینے کی کوشش جاری رکھی گئی تو ایک موقعہ پر انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں اس لیے وہ اس پر ‘کمنٹ’ نہیں کریں گے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ سوال اور سٹوری کا تعلق عدالت میں زیر سماعت معاملے سے نہیں بلکہ ملازم کے نام پر بے نامی پراپرٹیز رکھنے اور ذرائع آمدن سے ہے تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
فیصل واوڈا گروپ کنسٹرکشن کے نام سے ایک کمپنی جس کو فیصل واوڈا فخر سے اپنا ذریعہ آمدن بتاتے ہیں، اتنی چھوٹی کمپنی ہے کہ ڈیلی بزنس ورلڈ کی تحقیقات کے مطابق نہ تو یہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی کراچی کی ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ ڈیلی بزنس ورلڈ کی تحقیقات کے مطابق سیلز ٹیکس ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کی فیصل واوڈا کی اس کمپنی نے 2007 سے 2013 تک زیرو سیلز ٹیکس جمع کروایا جبکہ 2013 سے اب تک اس کمپنی کا سیلز ٹیکس اکائونٹ ایف بی آر نے معطل کیا ہوا ہے۔
ایف بی آر میں فیصل واوڈا کی یہ کمپنی سالانہ ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کیلیے “اِن ڈیویجئول” کیٹیگری میں رجسٹرڈ ہے جبکہ واوڈا نے خود کو 2004 میں ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹر کروایا۔
درجن کے قریب اپنی لندن کی خفیہ پراپرٹیز سامنے آنے کے بعد واوڈا اپنے پرائیویٹ سرکلز میں یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2016 اور اسکے بعد کے سالوں میں کتنا ٹیکس دیا اور یہ کہ انہوں نے 2018 کے ٹیکس ریٹرنز اور انتخابات کے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنی بیرون ملک پراپرٹیز ظاہر کیں جبکہ ڈیلی بزنس ورلڈ کی موجودہ اور پہلی سٹوری انکے 2016 سے پہلے کے ٹیکس ریکارڈ جب انکا ٹیکس کئی سال سے مسلسل زیرو رہا، ظاہر کردہ آمدن اور درجن کے قریب لندن کی ان خفیہ جائیداتوں کے بارے میں ہیں جو کبھی ظاہر نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان جائیدادوں کو خریدنے کے ذرائع آمدن ڈیکلئر کیے گئے۔ یہ ہی نہیں لندن کی ان جائیداتوں کو خریدنے کیلیے رقم کی بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے بھی واوڈا کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ 2018 کے انتخابات کیلیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں واوڈا نے اپنا ذریعہ آمدن سٹاک ایکسچینج میں کاروبار بتایا۔
ڈیلی بزنس ورلڈ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق فیصل واوڈا نے پرائیویٹ بنک امارات گلوبل اسلامک بنک کے خلاف پراپرٹیز کی فروخت کے معائدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں ایک کیس فائل کیا۔ واوڈا کی پٹیشن کے مطابق بنک نے ابتائی طور پر زمین کی قیمت ادا کی جس میں سے واوڈا نے 24 ملین کی رقم سے اسی بنک کے آئی پی او شیئرز خرید لیے، پٹیشن کے مطابق کسی کاروباری جھگڑے کی وجہ سے بنک نے واوڈا کو یہ شیئرز جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائیٹ پر کیس کی ہسٹری یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2013 کے بعد سے کیس کو متحرک انداز میں آگے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
مزید تسلی کرنے کیلیے کہ شاید واوڈا نے یہ پراپرٹیز یا ذرائع آمدن اپنی بیگم کے نام ظاہر کیے ہوں، ڈیلی بزنس ورلڈ نے مسز فیصل واوڈا کا ٹیکس ریکارڈ بھی جانچا۔ تاہم مسز فیصل واوڈا نے بھی 2007 سے 2013 تیک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا اور نہ ہی اسی عرصے میں دونوں میاں بیوی نے ایف بی آر حکام کے پاس اپنے اثاثہ جات کی کوئی تفصیل جمع کروائی۔
شیر نواز خان کا نام عدالتی دستاویزات جن میں ان کا بنک کے ساتھ معائدہ اور “پاور آف اٹارنی” میں سامنے آیا۔ جب انکا مئوقف لینے کیلیے ان سے 19 جنوری 2019 کو رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مان لیا کہ وہ فیصل واوڈا کے ملازم رہے ہیں مگر اب تقریباً ایک سال سے واوڈا کے ساتھ کام نہیں کر رہے۔ مگر جیسے ہی ان سے ان پراپرٹیز کو بیچنے اور پاور آف اٹارنی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ غصے میں آ گئے اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ “مجھ سے دوبارا رابطہ نہ کرنا، میں نے یہ کال ریکارڈ کر لی ہے اور میں ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ میں تمہارے خلاف کیس درج کروائوں گا،” شیر نواز نے غصے سے کہا۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کا تذکرہ شیر نواز خان نے کچھ یوں کیا جیسے پورا ایف آج کل ان کے ماتحت کر رہا ہو اور انکے ایک اشارے پر ایف آئی اے ایک خبر کے حوالے سے سوال پوچھنے پر پر اخبار کے عملے کو اٹھا کر لے جائے گا۔
ڈیلی بزنس ورلڈ کی مزید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ شیر نواز خان درحقیقت اب بھی فیصل واوڈا کے ساتھ کام کررہے ہیں بلکہ ان کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔ 17 جنوری 2019 کے وفاقی وزارتِ آبی وسائل کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق جس میں کراچی انتظامیہ کو واوڈا کے کراچی کے دورے کے دوران “پرٹوکول” کا اہتمام کرنے کا حکم صادر کیا گیا تھا میں رابطہ کرنے کیلیے نمبر ایک صاحب “شیر محمد” کا دیا گیا۔ جب اس نمبر —03003456 پر رابطہ کیا گیا تو ڈیلی بزنس ورلڈ کو پتا چلا کہ یہ صاحب تو کوئی اور نہیں بلکہ وہی شیر نواز خان ہیں اور یہ نمبر بھی وہی ہے جس پر پہلے ان سے بات ہوئی تھی۔ جب شیر نواز خان کو یاد دلوایا گیا کہ سابقہ گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ اب انکا فیصل واوڈا سے کوئی تعلق نہیں اور اس سرکاری نوٹیفیکیشن میں تو واوڈا سے رابطے کیلیے نمبر ہی انکا لکھا گیا ہے تو شیر نواز خان پھر غصے میں آگئے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔ ڈیلی بزنس ورلڈ یہ سرکاری نوٹیفیکیشن شائع کر رہا ہے۔
وفاقی وزارتِ آبی وسائل کا فیصل واوڈا کو پروٹوکول دینے کا حکم نامہ جس میں شیر نواز خان کا نام شیر محمد ظاہر کیا گیا اور انکا اصل موبائل نمبر دیا گیا
انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ 17 مئی 2019 کو علی الصبح واوڈا نے سرکاری طور پر ایک پریس ریلیز جاری کی کہ وہ جمعہ کے دن ڈیڑھ بجے کراچی کی ایک مسجد میں لوگوں میں چیک تقسیم کریں گے کہ وہ اپنا روزگار شروع کر سکیں اور اس سے وفاقی یا صوبائی حکومت کے پیسے خرچ ہوئے بغیر لوگوں کو روزگا دینے کے انکے اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کے وعدے کی تکمیل ہو گی، اس اہم پریس ریلیز کے نیچے بھی رابطے کیلیے ایک نمبر دیا گیا تھا اور صرف چار دن پہلے جاری ہونے والی اس پریس ریلیز میں دیا گیا یہ نمبر بھی “شیر نواز خان” کا ہی تھا۔ ڈیلی بزنس ورلڈ اور ڈیلی طاقت اس پریس ریلیز کے متعلقہ حصے کا عکس بھی شائع کر رہے ہیں۔ یہ ایک دوسری دلچسپ کہانی ہے کہ انگریزی اخبار روزنامہ دی نیوز کے سینئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کی انیس مئی کو چھپنے والی خبر کے مطابق یہ تقریب بھی فیصل واوڈا نہیں بلکہ ایک زبردست فلاحی تنظیم “اخوت” نے منعقد کروائی تھی جس میں واوڈا وفاقی وزیر ہونے کے ناطے مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے مگر انہوں نے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ چیک دینے اور لوگوں کو روزگار دینے کہ یہ تقریب انکے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کی تکمیل کی طرف ایک قدم ہے، حالانکہ “اخوت” کئی سالوں لوگوں کو روزگا فراہم کرنے کیلیے ایسے قرضے دیتی چلی آ رہی ہے اور اس شعبے اخوت اور اس کے سربراہ جناب ڈاکٹر امجد ثاقب انتہائی زبردست کام کر رہے ہیں۔
فیصل واوڈا کی جانب سے جمعہ کے دن غریبوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب کی پریس ریلیز جس میں شیر نواز خان کا نمبر دیا گیا ہے۔