جوش فیضانِ حسین

حسان خان

لائبریرین
قمیصِ یوسف و خونِ حسین آئینہ ہے جس کا
ہماری خاک میں ہے وہ مذاقِ رنگ و بو اب بھی

کہاں ہے سوزن و مقراضِ خیاطانِ ذی ہمت
تمدن ہے رہینِ کاوشِ چاک و رفو اب بھی

چھڑی تھی درمیانِ حق و باطل جو سرِ مقتل
وقار لہجۂ تاریخ ہے وہ گفتگو اب بھی

بہا تھا جو زمینِ کربلا کے تشنہ ذروں پر
سحابِ گلستانِ زندگی ہے وہ لہو اب بھی

ہوئی اک عمر ساقی کو حجابِ قدس میں پہنچے
بساطِ رنگ پر ہے دور میں لیکن سبو اب بھی

یزیدی میکدے میں دیر سے اک ہو کا عالم ہے
حسینی خم کدے میں ہے خروشِ ہاؤ ہو اب بھی

کیا تھا یاس کو باطل یہ کس مردِ رجائی نے
کہ ہے گونجا ہوا آوازۂ لا تقنطو اب بھی

یہ اپنے خون سے کس نے لباسِ فقر دھویا تھا
کہ ہے اربابِ ہمت میں رواجِ شست و شو اب بھی

زمیں پر مشعلِ ناموس یہ کس نے جلائی تھی
کہ انساں کی جبیں پر ہے فروغِ آبرو اب بھی

خدا جانے یہ کس کھوئے شبستاں کا تصور ہے
کہ اک رنگیں چراغاں ہے نظر کے روبرو اب بھی

یہ ہے کس مورثِ خونیں کفن کی روح کا پرتو
کہ انسانی شرف ہے لالہ فام و سرخرو اب بھی

مزارِ نازِ ہمت پر یہ کس نے زلف کھولی تھی
کہ ہے عشاق کو دار و رسن کی آرزو اب بھی

خزاں کے دور میں مہکا ہوا ہے یہ چمن کس کا
کہ اک جانب سے آتی ہے نسیمِ مشکبو اب بھی

خداوندا یہ راہِ کربلا سے کون گذرا تھا
کہ ہے اس کی ہواؤں میں صدائے اسجدو اب بھی

یہ کس کی تشنگی نے چوٹ کی تھی ہفت قلزم پر
کہ گوشِ زندگی میں ہے فغانِ آب جو اب بھی
(جوش ملیح آبادی)
 
Top