فیضانِ خلقِ عظیم

تحریر: ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ناظم اعلیٰ Tmq
معاونِ تحقیق: زاھد نواز ملک


خلق کی تعریف
خلق انسان کی اس عادت کا نام ہے جس کا اظہار بلا تکلف ہوتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق

’’فالخلق عبارةٌ من هيئة في نفس راسخة عنها تصدر الاعمال بسهولة و يسرمن غير حاجة الي فکرو روية‘‘

(احیاء العلوم، باب حقیقۃ حسن الخلق، 3 / 52)

خلق نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں۔ ان کے کرنے کے لئے سوچ بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

جبکہ مشہور ماہر لغت ابن منظور نے خلق کی تعریف یوں بیان کی ہے۔

الخلق و الخلق السجية و هو الذين و الطبع و السجية و حقيقة انه لصورة الانسان الباطنة و هي نفسه و اوصافها و معانيها المختصة بمنزلة الخلق لصورتها الظاهرة و اوصافها و معانيها

(لسان العرب، 10 / 86)

خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبعیت ہے انسان کی باطنی صورت کومع اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے۔

خلق کی جمع اخلاق ہے جو انسان کے مجموعہ اعمال اوراس کے مجموعی رویے کا نام ہے۔ خلق کا اطلاق ان ہی عادات پر ہوگا جو پختہ ہوں اور بلاتکلف صادر ہوں۔ وہ اعمال جو کسی انسان سے اتفاقاً صادر ہوں یا وقتی جذیہ یا عارضی جوش سے ظاہر ہوں وہ کتنے اعلیٰ اور عمدہ ہی کیوں نہ ہوں خلق نہیں کہلائیں گے۔

حسنِ اخلاق کی تعریف
حسنِ اخلاق دراصل ان فضائل و اعمال کا ہے جو کسی انسان سے بلا تکلف صادر ہوں۔ یہ اعمال انسان کی عادتِ ثانیہ ہوتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلے وہ ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں انہیں صفاتِ لازمہ ہی کہا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی شحص کی ہیئت باطنہ کا حصہ ہوتے ہیں یہ کسی بھی شخصیت کا باطنی نور ہوتا ہے جس کا کام از خود ماحول کو منور کرنا ہوتا ہے۔ دوسری قسم کو صفاتِ متعدیہ کہتے ہیں یہ اپنے ظہور کے لئے کسی معمول کی محتاج ہوتی ہیں ان صفات کے اظہار کیلئے شخصیت متصفہ کے علاوہ ایک اور فریق کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ معمول یا فریق ثانی کے بغیراس صفت کا اظہار نا ممکن ہے۔

کسی شخصیت کے حسنِ اخلاق سے متصف ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ رذائل اخلاق سے مبراء بھی ہو۔ جزوی طور پر حسنِ خلق سے متصف انسان مجموعی طور پر حسنِ اخلاق کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

حسنِ خُلق کی اہمیت
حسنِ خلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود ربِ ذوالجلال نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفت سے سرفراز فرمایا ہے اور سوء خلق کے تمام پہلوؤں کی نفی فرمائی ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے۔

و ان لک لاجرأ غير ممنون و انک لعلي خلق عظيم

(القلم، 3۔4)

بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا ہے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق

(مؤطا، باب حسن الخلق، 904)

میں تو اسی لئے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔

حسن خلق کی اللہ رب العزت کے ہاں اتنی اہمیت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی توفیق سے ان اوصاف کے حامل ہیں انہیں وہ جنت کی بشارت دیتا ہے۔

اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تمام انبیاء و مصلحین میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم دیا اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ حیاتِ انسانی کے لئے ایک مکمل اور معتدل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے دور کے انسانوں تک تعلیماتِ قرآنی کو پہنچایا اور اس کی تعلیمات پر عمل کی دعوت دی تو اس صحیفۂ انقلاب کے ایک ایک لفظ پر پیغمبر انقلاب نے عمل کر کے دکھایا اور قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی۔

و انک لعلٰی خلق عظيم

(القرآن، القلم: 4)

’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اخلاق کے بڑے درجے پر فائز ہیں‘‘۔

انسانی شخصیت و کردار کے اولین گواہ اس کے گھر کے افراد ہوتے ہیں یا پھر وہ لوگ جن کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا جو نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد 25 برس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں رہیں۔ آپ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں۔

ہرگز نہیں، اﷲ تعالیٰ کی قسم! اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غمگین نہ کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی اعانت کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ حق کی حمایت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔

جبکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ان خلق رسول اﷲ کان القرآن‘‘ بے شک رسول اﷲ کا خلق قرآن تھا کے الفاظ کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اخلاق کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنِ اخلاق کا کامل نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ جملہ اوصافِ حمیدہ سے متصف ہے۔ انسانی زندگی کے درج ذیل پہلو ایسے ہیں جن سے اس شخصیت کے حسن اخلاق اور اس کے اعلیٰ کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تواضع
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالقِ کائنات نے جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا تھا وہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو نہیں ملا تھا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

انا سيد ولد ادم و لا فخر

یعنی میں بنی آدم کا سردار ہوں اور اس پر اظہارِ فخر نہیں کرتا۔

ربِ کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ آپ معاشرے کے سب سے معزز فرد تھے۔ آپ کا خاندان عالی نسب اور فضیلتوں کا حامل تھا۔ منصبِ نبوت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار چشمِ ابرو کے اشارے پر جان نچھاور کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ ان سب فضائل و کمالات کے باوجود آپ کی ذات سے تواضع کے ایسے مظاہر منقول ہیں کہ انسان محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔

سادگی و قناعت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک اہم اور نمایاں پہلو سادگی و قناعت ہے۔ کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، بیٹھنے کسی بھی چیز میں تکلف نہ تھا۔ کھانے پینے میں جو سامنے آتا تناول فرماتے۔ آپ کو ناز و نعمت اور تکلف و عیش پرستی طبعاً ناگوار گزرتی تھی۔

صبر
صبر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں، اپنے آپ کو آہ و زاری سے روکنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے نفس کو اضطراب سے روک رہا ہے یا اپنی جگہ پر ثابت قدم ہے تو وہ صبر کر رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کے پیکر اتم تھے۔ سفر طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناقابل برداشت مظالم پر صبر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال ملنا دشوار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس واقعہ پر ردعمل داعی کے صبر و خیر خواہی کا شاندار نمونہ ہے۔ اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی عظمت و رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

استقامت
استقامت کے معنی سیدھا رہنے یا سیدھا چلنے کے ہیں۔ انسانی رویوں کے حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس بات کو حق سمجھا جائے اس پر قائم رہا جائے مشکلات مخالفت اور خطرات کا سامنا کیا جائے مگر اپنے موقف پر ثابت قدم رہا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے استقامت کا شاندار نمونہ قائم کیا۔ مشرکین مکہ نے جب جناب ابوطالب پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت الی اﷲ سے روکیں اس مایوس کن صورتحال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان استقامت کی ایک لازوال مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا حتی کہ اﷲ تعالیٰ اس دعوت کو غالب کر دے یا میں اس کی راہ میں ختم ہو جاؤں۔‘‘ آپ کی زندگی میں ایسے مشکل اور کٹھن مراحل بھی آئے جہاں بہادر سے بہادر انسان بھی اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن ان مقامات و مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ استقامت کے شاندار مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

امانت و دیانت
انسانی معاملات میں جو اخلاقی فضیلت مرکزی حیثیت کی حامل ہے وہ امانت و دیانت ہے۔ انسان کا اپنے معاملے میں ایمانداری سے پیش آنا اور جو جس کا حق ہو اسے پوری طرح ادا کر دینا امانت کہلاتا ہے۔ امانت ایک ایسا بنیادی جوہر ہے جس کے بغیر انسانی شخصیت بے وقعت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ جوہر بدرجہ اتم موجود تھا۔ نبوت سے پہلے مکہ والوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کا لقب ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے مشرکین مکہ کے ہاں تعمیر کعبہ میں حجر اسود رکھنے پر اختلاف پیدا ہوا بالاخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا اس کی بات فیصلہ کن ہو گی اور جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو سب پکار اٹھے: ’’الصادق الامین‘‘۔ اپنوں ہی کا نہیں غیروں کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتداری و دیانتداری کا گواہ ہونا ایک ایسی انفرادیت ہے جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔

عفو و درگزر
انسان کے عفو و درگزر کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اسے اپنے دشمنوں اور تکالیف پہنچانے والوں پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے مگر جب دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے تو پھر اسے معاف کر دینا اخلاقی معیار کی معراج ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا یہ نمایاں پہلو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے سلسلے میں کبھی انتقام نہیں لیا۔ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ تکلیف و اذیت کی جو صورت بھی اختیار کر سکتے تھے کی گئی اور تحقیر و تذلیل کا جو حربہ بھی استعمال کر سکتے تھے کیا لیکن اﷲ تعالیٰ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر فتح عطا فرمائی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاسی اور عسکری طور پر غالب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتحانہ شان سے جب مکہ میں داخل ہوئے تو قریش اپنے جرائم اور معاندانہ کارروائیوں کی وجہ سے سہمے ہوئے تھے انہیں ہر دم یہ خیال دامن گیر تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اس سراپا عفو و درگزر نے ایک ہی اعلان سے ان سب اندیشوں کو ختم کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تثريب عليکم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء

’’تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘

شفقت و رحمت
رحم ایک بنیادی اخلاقی وصف ہے جو ایک انسان کو معاشرے کے لئے نفع بخش اور فیض رساں بناتا ہے۔ رحمت رب ذوالجلال کی کرم نوازی کا ایک مظہر اور اس کی صفت مبارکہ ہے۔

انسانی تاریخ طاقتوروں کے قہر اور کمزوروں کی مجبوریوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کسی صاحب اختیار و اقتدار کا کمزوروں اور محکوموں پر ظلم نہ کرنا ایک قصہ کہانی لگتا ہے مگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ہستی ایسی نظر آتی ہے جو صاحب اختیار ہونے کے باوجود کمزوروں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ کمزوروں پر رحمت و شفقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نمایاں وصف ہے، رب کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وما ارسلنک الا رحمة للعالمين

’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
 
عورتوں کے حقوق
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت ان تمام عناصر کے لئے تھی جو حفاظت و امداد کے محتاج تھے اور ان میں خواتین سرفہرست تھیں۔ دور جاہلیت میں نہ صرف عورتوں کے حقوق پامال کئے گئے بلکہ انہیں ظالمانہ ہوس کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ خود ساختہ ضابطوں کے باعث عورت پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور عورت کو تو عربوں کے ہاں زندہ رہنے کا بھی کوئی حق حاصل نہ تھا۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے طرز عمل اور اپنی تعلیمات سے نہ صرف اس کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا بلکہ اسے بلند مرتبہ بھی عطا فرمایا۔ ماؤں کے احترام اور بیٹیوں سے شفقت کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد مبارکہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اﷲ تعالیٰ نے یقیناً تم پر ماؤں کی نافرمانی، ان سے مطلوبہ چیزوں سے انکار، بے جا مطالبہ اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا حرام ٹھہرایا۔‘‘

عصرِ حاضر اور ضرورت مجدد
دعوت و تبلیغ دین وہ مشن ہے جس کی تکمیل کے لئے سلسلہ نبوت و رسالت شروع کیا گیا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کائنات کے اندر مبعوث کئے گئے ہر نبی نے دین حق کے غلبے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لایا اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کی پھر یہ سلسلہ نبوت و رسالت منشائے ایزدی کے تحت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تکمیل دین کی صورت میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس طرح کائنات کے اندر آئندہ کسی نبی کی آمد کے تمام امکانات ختم ہو گئے پھر

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

کے اصول کے تحت حق و باطل کے درمیان ایک کشمکش کا آغاز ہوا، باطل کے پیروکار یہ عزم لے کر نکلے کہ وہ اپنی مذموم کوششوں کے ذریعے چراغ مصطفوی کو بجھا کر دم لیں گے اور پرچم اسلام کو سرنگوں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے جبکہ دوسری طرف حق کے پیروکاروں نے اپنی تمام تر توانائیاں اس مقصد کے لئے صرف کر دیں کہ وہ پرچم اسلام کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے اور چراغ دین مصطفوی کو اپنے خون سے بھی روشن کرنا پڑا تو پیچھے نہ ہٹیں گے۔

گزشتہ صدی میں حق باطل کی یہ کشمکش ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی۔ باطل نے حق کو مٹانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں اپنے تمام تر وسائل جھونک دیئے کبھی قادیانیت، مرزائیت اور احمدیت کے نام پر ناموس رسالت پر حملہ کیا کبھی صحابہ کرام کو اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا، باطل کی کاوشیں بارآور ثابت ہونے لگیں۔ مسلمان مسلمان کا دشمن بن گیا، مسلم ممالک مغرب کے آلہ کار بن گئے جن لوگوں نے محبتیں بانٹنا تھیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا انہوں نے اغیار کی سازشوں میں شریک ہو کر فرقہ پرستی کو ہوا دی اور باہمی تفرقوں کو پروان چڑھایا۔ مساجد پر بم برسائے گئے، فلسطین، کشمیر، افغانستان، بوسنیا، چیچنیا اور عراق میں امت مسلمہ کی بے بسی کے مناظر دیکھنے کو ملے اور پھر

آج اسلام بہت گریہ کناں ہے آقا
کربلا والوں کو پھر اس نے صدائیں دی ہیں

اس کے اطراف میں جلتے ہیں وہ شعلے جن کو
غیر تو غیر ہیں اپنوں نے ہوائیں دی ہیں

کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ان حالات میں خالق کائنات کو سسکتی اور تڑپتی ہوئی انسانیت پر رحم آیا۔ اس رب ذوالجلال نے 19 فروری 1951ء کو امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص وہ مسیحا عطا کیا جس کی ہر ہر سانس عشقِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار تھی، جس کے سامنے حسینی کردار ایک علمی معیار تھا۔ جس کے دل میں امتِ مسلمہ کو متحد کرنے کی لگن تھی۔ جو مصطفوی انقلاب کے نفاذ کا عزم لے کر آیا۔ جس کے کام کی بنیاد تمام تر مسلکی بنیادوں اور فرقہ واریت سے ہٹ کر تھی۔ جس کی زندگی کا مقصد احیائے اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی تھا۔ عیش و عشرت کی بجائے ریگزار کربلا سے گزرنا جس کی خواہش تھی۔ یہ وہ مسیحا تھا جس نے اس دور میں مجددانہ کردار ادا کرنا تھا۔ جس نے باطل سے نبرد آزما ہونا تھا اور امتِ مسلمہ کو پھر سے اتحاد و یگانگت کی لڑی میں پرونا تھا۔

اس عظم مصلح قوم نے اپنی کاوشوں کے سلسلے میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا اور اسلام کے آفاقی پیغام کو شرق تا غرب پھیلانے کے لئے نکل پڑا، اس مجدد رواں صدی کو دنیا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جاننے لگی، اسے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی فیض نصیب ہوا جس کے باعث اس کا سفر تیزی سے طے ہونے لگا، اس عظیم شخصیت کو قدرت نے ہمہ جہت خوبیاں و دیعت کیں۔ فن خطابت کے وہ جوہر دکھائے کہ مخالفین کو بھی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑا، جہالت کے خاتمے اور شعور کی بیداری کے لئے کاوشوں کا آغاز کیا اور یہ پیغام دیا کہ

یہ مہرتاباں سے کوئی کہہ دے کہ اچھی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

فن تحریر میں وہ خاص ملکہ عطا ہوا کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر بڑے بڑے ادیب اور دانشور انگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ قائدانہ صلاحیتیں عطا ہوئیں کہ اغیار بھی ان کے گرویدہ ہو گئے۔ اُن کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کے غیر آئینی اقدامات کی حمایت کی بجائے انہوں نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا غیر معمولی اور بے مثال فیصلہ کر لیا اور مغربی طاقتوں کے آلہ کار حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ

میرے کارواں میں شامل کوئی تنگ نظر نہیں ہے
جو نہ مرمٹے وطن پہ مرا ہمسفر نہیں ہے

در غیر پہ ہمیشہ تمہیں سر جھکائے دیکھا
کوئی ایسا داغِ سجدہ میرے نام پر نہیں ہے

کسی بھی شخص کو چانچنے کے لئے سب بڑا پیمانہ اخلاق ہوتا ہے۔ اکثر بڑی بڑی شخصیات جن کے ناموں کے ساتھ القابات کی ایک فہرست ہوتی ہے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ مگر جب اخلاقیات کے پیمانے پر جانچا جاتا ے اور ان کے کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بظاہر ان کے بے داغ نظر آنے والے دامن باطنی آلائشوں سے تار تار نظر آتے ہیں۔

مجددانہ کردار اور فیضانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تجدید دین ایک اہم مذہبی فریضہ ہے اور یہ سعادت ہر صدی میں ایک شخصیت کو نصیب ہوتی ہے۔ حضور شیخ الاسلام بجا طور پر اس صدی کے مجدد ہیں جبکہ ان کی تحریک اس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔ مجدد کویہ خاص اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ اسے بارگاہِ نبوت سے براہِ رسات فیض حاصل ہوتا ہے۔ قائدمحترم کو بھی مجدد ہونے کی حیثیث سے خصوصی فیضان نبوت حاصل ہے جبکہ آپ اخلاق کے حوالے سے بھی بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یافتہ ہیں۔

تواضع
حضور شیخ الاسلام کو جس قدر علم اور مقام و مرتبہ عطا ہوا ہے اس طرح کی شہرت کے حامل لوگ عام طور پر غرور و تکبر اور تفاخر کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں مگر اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصوصی فیض نے حضور شیخ الاسلام کو ان تمام آلائشوں سے پاک رکھا ہے۔ جب کوئی شخص حضور شیخ الاسلام کو دور سے دیکھتا ہے تو اس پرایک رعب و دبدبہ کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر جب قربت کا موقع میسر آتا ہے تو محبت و شفقت اور تواضع کا پیکر پاتا ہے۔ ان کا کلام رہن سہن، طرز عمل اور رویہ تواضع و انکساری کی علامت ہے۔ تحریک منہاج القرآن سے ہر طرح کے لوگ وابستہ ہیں ان میں مزدور طبقہ بھی شامل ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سکالرز اور علماء و مشائخ بھی شامل ہیں۔ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی جب شیخ الاسلام سے ڈیلنگ ہوتی ہے تو وہ یہی محسوس کرتا ہے کہ آپ بھی میرے شعبے سے متعلقہ ہیں۔ پاکستان اور بیرون ممالک کے دورہ جات کے دوران حضور شیخ الاسلام کو ایسے لوگوں سے بھی ڈیلنگ کرتے دیکھا جن کی علم و عمل اور مقام و مرتبہ میں شیخ الاسلام کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی مگر حضور شیخ الاسلام نے ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا اس سے اپنائیت کی جھلک نظر آتی تھی۔ تواضع در اصل نام ہی اس چیز کا ہے کہ ہر کسی سے اس کے مزاج کے مطابق بات کی جائے (اور اُسے اپنی برتری کا احساس نہ دلایا جائے) ۔ جب حضور شیخ الاسلام مشائخ سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے خواہ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، کوئی سکالر ہو یا پھر عام انسان حضور شیخ الاسلام سے گفتگو میں ہر ایک کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے، عموماً لوگ اس چیز میں ہتک محسوس کرتے ہیں کہ وہ کم علم، کم مرتبہ، دنیاوی لحاظ سے کم یا پھر تقویٰ و طہارت کے لحاظ سے کم لوگوں سے کوئی تعلق رکھیں مگر اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار غیر معمولی اور مثالی ہے کیونکہ آپ کو بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی فیض حاصل ہے آپ بلاشبہ تواضع و انکساری کا پیکر ہیں۔

سادگی
حضور شیخ الاسلام بظاہر لوگوں کو لینڈ کروزر میں سفر کرنے والے، صاف ستھرے اور نفیس کپڑے پہننے والے، لباس و صفائی کا خاص خیال رکھنے والے پرتکلف شخصیت کے حامل معلوم ہوتے ہیں مگر جس شخص کو ذاتی معمولات کے مشاہدہ کا موقع میسر آتا ہے اور حضور شیخ الاسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے اسے اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی سادگی کا ایک نمونہ ہے۔ لباس کے معاملے میں حضور شیخ الاسلام بظاہر بہت زیادہ نفاست پسند ہیں مگر عموماً آپ کے پاس پہننے والے کپڑوں کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہیں ہوتی۔ آپ صرف ایک دو کلرز کے ہی کپڑے استعمال کرتے ہیں اور انہیں ہی بار بار دھلوا کر استعمال کرتے ہیں۔ مثلا اِس سال دورہ یورپ کے دوران حضور شیخ الاسلام کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا اس دوران مختلف ممالک میں حضور شیخ الاسلام نے تقریباً 20-15 مواقع پر اجتماعات عام، ورکرز کنونشز اور شب بیداریوں میں خطاب کیا مگر ہر خطاب میں آپ نے ایک ہی لباس زیبِِ تن کیا ہوا تھا۔ ہرنئے ملک میں پہنچنے کے بعد اِس لباس کو دھلوا لیا جاتا اور بار بار اسے ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ آپ کھانے پینے میں بھی انتہائی سادگی اختیار کرتے ہیں۔ بیرون ممالک دورہ جات کے دوران مشاھدہ میں آیا جب بعض اوقات رفقاء حضور شیخ الاسلام کو محبت و عقیدت سے ہوٹل میں کھانے کی دعوت دیتے ہیں تو آپ خود معلومات حاصل کرتے ہیں کہ کون سے ہوٹل کا کھانا صاف ستھرا اگر سستا ہے۔ آپ مہنگے اور پرتکلف کھانے کی بجائے سستا اور صاف ستھرا کھانا پسند کرتے ہیں۔ آپ کبھي بھی مہنگے اور پر تکلف ریسٹورنٹ یا ہوٹل سے کھانے تناول نہیں کرتے۔

بنگلہ دیش کے دورے کے دوران میں اور محترم احمد نواز انجم حضور شیخ الاسلام کے ہمراہ تھے۔ وہاں پر جب ہم رات کو مصروفیات سے فارغ ہوتے تھے تو وہاں پر مکین ایک اردو سپیکنگ دوست ہمارے لئے گھر سے دودھ پتی بنوا کر لاتے تھے۔ اس دوست نے ایک دن اس خواہش کا اظہار کیا کہ ناشتہ میرے گھر پر کریں ہم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کی اپنی گاڑی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہے ہم لوگوں نے تنظیم کو کہا کہ آپ ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہ کریں ہم اسی دوست کی گاڑی میں چلے جائیں گے۔ جب صبح وہ لینے آئے تو ہم نے دیکھا کہ ان کے پاس 72 ماڈل کی گاڑی تھی چار افراد نے سفر کرنا تھا جبکہ وہ گاڑی اتنی چھوٹی تھی کہ اس کے ساتھ صرف دو ہی دروازے تھے۔ میں نے انجم صاحب سے کہا کہ گاڑی حضور شیخ الاسلام کے شایان شان نہیں لہٰذا اس صورتحال میں کیا کیا جائے؟ کیونکہ میزبان کو محبت اور سادگی کے باعث اس چیز کا خیال نہیں تھا۔ میں نے اور انجم صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ انہیں انکار کر دیا جائے مگر اسی دوران حضور شیخ الاسلام کمرے سے باہر تشریف لائے اور بلاتکلف گاڑی میں بیٹھ گئے۔ یورپ کے ایک ملک کے دورے کے دوران حضور شیخ الاسلام نے عمامہ شریف پہنا ہوا تھا اسی دوران آپ ایک تحریکی دوست کے گھر تشریف لے گئے جب آپ کا سامان دوسرے دوست کے گھر میں تھا آپ نے عمامہ اتار کر اہلخانہ سے کہا کہ کپڑے کی کوئی ٹوپی دے دیں۔ انہوں نے ایک دھلی ہوئی مگر پرانی اور اولڈ فیشن موٹے کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی لا کر دی۔ میں نے وہ ٹوپی ہاتھ میں پکڑی اور بے ساختہ مسکرا پڑا کیونکہ حضور شیخ الاسلام کو اِس طرح کی ٹوپی استعمال کرتے زندگی میں کبھی نہین دیکھا تھا اور حضور شیخ الاسلام کی نفاستِ طبع کے پیش نظر مجھے یہ یقین تھا کہ حضور شیخ الاسلام ٹوپی استعمال کرنے سے اعتراز برتیں گے۔ اور صاحب خانہ کی سادگی پر میں مسکرا رہا تھا کہ اتنے بڑے قائد کے لئے کس طرح کی ٹوپی بھجوائی۔ حضور شیخ الاسلام نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے تو حضور شیخ الاسلام نے مجھ سے ٹوپی لے کر اسے غور سے دیکھا اور فرمایا کیوں؟ اِسے کیا ہے؟ یہ تو دھلی ہوئی اور صاف ہے لہٰذا اس کے پہننے میں کیا ہرج ہے سو وہ ٹوپی جو عمومی حالت میں بڑی عجیب لگ رہی تھی آپ نے بلاتکلف پہن لی اور جب تک اپنی ٹوپی نہ آئی آپ نے وہی ٹوپی پہنے رکھی۔

صبر و استقامت
مشن کے کام کے دوران آپ کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں اور مشکلات آئیں۔ قاتلانہ حملے ہوئے، بچوں کو زہر دیا گیا، اخبارات و رسائل کے ذریعے کردارکشی کی مہم شروع کی گئی اور آپ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا۔ عدالتوں کے ذریعے عزت پر حملے ہوئے اور ذہنی توازن خراب ہونے کی باتیں کی گئیں، خوابوں اور بشارات کے حوالے سے بے شمار من گھڑت الزامات لگے۔ ناعاقبت اندیش اور بدخصلت لوگوں نے الزامات کے حوالے سے اہلخانہ تک کا گھیراؤ کیا مگر حضور شیخ الاسلام مشن پر استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اشاعت دین کے سلسلہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کبھی خاطر میں نہ لایا۔ حضور شیخ الاسلام فیضان نبوت سے بہرہ یاب ہونے کی بدولت تمام مصائب و تکالیف میں صبر و استقامت کے پیکر بنے رہے Back-pain کی شدید تکلیف بھی آپ کے کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ سخت تکلیف کے باوجود تحریر و تقریر اور دعوتی و تنظیمی دورہ جات کا شیڈول متاثر نہ ہوا۔

امانت و دیانت
تحریک منہاج القرآن کا نیٹ ورک دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے جبکہ تحریک کے وسائل اور اثاثہ جات اربوں میں پہنچ چکے ہیں مگر حضور شیخ الاسلام نے کبھی ایک پیسہ بھی ذاتی مقاصد اور خاندان کے لئے استعمال نہیں کیا۔ بلکہ اپنی تحریر کردہ کتابوں اور خطبات کے کیسٹس کے ذریعے ہونے والی آمدن سے بھی ایک پیسہ بھی اپنی ذاتی یا خاندان کے لئے حرام کئے رکھا۔ مشن کے اثاثہ جات اور وسائل کے سلسلے میں امانت و دیانت کے جس کردار کا مظاہرہ آپ نے کیا وہ حیران کن حد تک بے مثال ہے۔ آپ کی امانت و دیانت کی ایک مثال پچھلے دنوں دیکھنے کو ملی جو ایک دفعہ پھر حیران کن حد تک عجیب تھی۔ واقعہ یوں تھا کہ آپ کی کسی دوست کے کاروبار میں شراکت تھی اور وہ ماہانہ آپ کے گھر منافع کی رقم حساب کرکے دے جاتے۔ ان کو ایک دفعہ کچھ کاروباری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ دعا کے لئے حضور شیخ الاسلام کے پاس آئے اور حالات سے آگاہ کیا اپ نے اُن کے لئے دعا فرما دی اور کہا کہ جب تک آپ کے حالات بہتر نہیں ہوتے آپ ہمیں منافع کی ادائیگی روک دیں، اگلے ماہ جب وہ حسب معمول ماہانہ منافع گھر پہنچا گئے تو حضور شیخ الاسلام نے گھر پر موجود assistant کو منع کر دیا کہ یہ رقم گھر نہیں بھجوانی اور کہا کہ اُن سے میری بات کروائیں جب تک مجھے وہ اپنی پوزیشن نہیں بتاتے کہ اُن کے حالات ٹھیک ہو گئے ہیں میں اُن کے کاروبار سے منافع وصول نہیں کروں گا۔ مذکورہ دوست سے assistant کا رابطہ نہ ہوسکتا اور وہ رقم کئی دن assistant کے پاس ہی رہی لیکن حضور شیخ الاسلام نے اُس کو استعمال میں نہیں لایا مجھے تو اتفاقاً اِس واقعہ کی خبر ہوئی جبکہ میں کسی تحریکی و تنظیمی معاملے میں ایوان قائد گیا یہ کردار بھي آج کے مادہ پرستانہ دور میں امانت و دیانت اور صلہ رحمی و بہی خواہی کی اپنی مثال آپ ہے۔

حضور شیخ الاسلام کے ساتھ جن دوستوں کو سفر کا موقع ملا ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ قبلہ کے ہینڈ بیگ میں الگ سے ایک لفافہ ہوتا ہے جس پر ’’ذاتی رقم‘‘ کے الفاظ درج ہوتے ہیں۔ تحریکی ضرورت کے تحت کتب وغیرہ تحریک کے فنڈ سے خریدتے ہیں جبکہ ذاتی اخراجات، کھانا پینا اور خریداری وغیرہ ذاتی رقم سے کرتے ہیں۔ کوئی میٹنگ یا اجلاس جس میں کھانے پینے کے انتظامات تحریک کے فنڈ سے ہوں تو ضرور دریافت کرتے ہیں اور استعمال سے پہلے اپنی ذاتی جیب سے ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ’’شک کی حد تک‘‘ احتیاط آپ کی امانت و دیانت کا بین ثبوت ہے۔

عفو و درگزر
بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر دینا اور ناراضگی کو دل میں نہ رکھنا عظمت کی علامت ہے۔ حضور شیخ الاسلام انتظامی و تنظیمی معاملات میں گرفت بھی کرتے ہیں اور اظہار ناراضگی بھی ہوتا ہے مگر یہ کیفیت صرف وقتی ہوتی ہے، آپ بڑے سے بڑا قصور بھی معاف کر دیتے ہیں اور اسے کبھی دل میں نہیں رکھتے۔ ایک دفعہ بیرون ملک ایک تنظیمی عہدیدار نے بعض تنظیمی و انتظامی معاملات میں تنظیمی discipline کی خلافت ورزی کی اور یہاں تک کہ اِس سلسلے میں آپ کے احکامات کو ماننے سے بھی انکار کر دیا جس پر وہاں کی تنظیم نے اس کی بنیادی رکنیت معطل کر کے مرکز کو سفارش کی کہ اِن کی رکنیت کو منسوخ کر دیا جائے لہذا مرکز نے اُن کی بنیادی رکنیت بھی منسوخ کر دی۔ اس دفعہ جب حضور شیخ الاسلام بیرونی دورے پر گئے تو اس نے ندامت کا اظہار کیا اور معافی کے لئے کہا۔ تنظیمی احباب کا یہی خیال تھا کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا لیکن حضور شیخ الاسلام نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ تمام تنظیم کے سامنے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس نے غلطی کو تسلیم کیا تھا لہٰذا معاف کر دیا گیا ہے اور کہا کہ آج کے بعد یہ تحریک میں ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص گناہ سے توبہ کے بعد ہوتا ہے۔ حضور شیخ الاسلام نے تنظیمی احباب کو تلقین کی کہ اسے اپنا بھائی سمجھیں اور جو واقعہ ہوا ہے آئندہ اس کا کوئی تذکرہ بھی نہ کرے۔ حضور شیخ الاسلام کی زندگی عفو و درگزر کے اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

عورتوں کے حقوق
موجودہ دور میں دین سے متعلق لوگوں کی اکثریت عورتوں کے حوالے سے تنگ ذہنی کا شکار ہے۔ بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں عورتوں کو مذہبی معاملات سے دور رکھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس عرب ممالک اور عالم مغرب میں عورتوں کے نماز ادا کرنے کے لئے مساجد میں علیحدہ اہتمام ہوتا ہے۔ حضور شیخ الاسلام نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز کو بلند کیا ہے اور تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلہ میں عورتوں کو ان کا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔ تحریک کے پروگرامز میں خواتین کے لئے علیحدہ انتظام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور شعور کی بیداری کے لئے ہی منہاج القرآن ویمن لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ حضور شیخ الاسلام تنظیمی حوالے سے بھی عورتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ وہ اشاعت دین کے لئے اہم کردار ادا کر سکیں۔ موجودہ دور میں کسی بھی دینی قائد نے عورتوں میں تبلیغ و اشاعتِ دین کے لئے اتنا بھر پور وقت توجہ اور اہمیت نہیں دی جس کا مظاہرہ حضور شیخ الاسلام نے کیا۔ اس کے علاوہ معاشرتی اور عائلی معاملات میں بھی ۔ ۔ ۔ مذہی ذہنیت کے برعکس حضور شیخ الاسلام نے عورتوں کے حقوق کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترقی پسندانہ اور مساویانہ مؤقف کا ابلاغ کیا اور اُن کے ساتھ امتیازانہ سلوک اور استحالی رویے کی ہر موقع پر حوصلہ شکنی کی۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تحریک منہاج القرآن کے رفقاء اور وابستگان میں مردون ے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بہی خواہی
تحریک کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ بعض اوقات رفقاء ایسے معاملات میں مشاورت کے لئے رابطہ کرتے ہیں اور ملاقات کرتے ہیں جن کی تنظیمی حوالے سے کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ رفقاء آپ سے کاروبار، تعلیم، ملازمت، بچوں کی شادی اور دیگر معاملات میں رہنمائی لیتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام انہیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور یہ ان کی زندگی کا ایک اہم گوشہ ہے۔ آپ ایک مشفق باپ کی طرح کارکنوں کے مسائل کو سنتے ہیں رفقاء و وابستگان کی بہی خواہی کی اس خوبی کا فیضان نبوت کے بغیر میسر آنا ناممکن ہے۔

پیکر محبت
تحریک کے نیٹ ورک کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بھی حضور شیخ الاسلام کی شفقت و محبت ہے۔ دوران سفر، دوران قیام، میٹنگز اور دیگر کئی مواقع پر ان کی زندگی کا یہ پہلو کھل کر سامنے آتا ہے۔ آپ اس قدر سراپائے شفقت و محبت ہیں کہ جو شخص ایک دفعہ قربت میں آ جائے وہ ہمیشہ کے لئے انہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ چیز دراصل تحریکوں کی کامیابی کے لئے نمایاں حیثیت کی حامل ہے اور بالخصوص تجدید و احیاء دین کا کام کرنے والی شخصیت کا اس صفت سے متصف ہونا لازم ہے کیونکہ دوسروں سے شفقت و محبت کا رویہ اختیار کرنا اور مسکراتے ہوئے چہرے سے ملنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حضور شیخ الاسلام کو اس سنت نبوی کا بھی خصوصی فیض حاصل ہے۔

حرف آخر
اس مضمون میں ہم نے مختصراً خلق محمدی کی روشنی میں حضور شیخ الاسلام کے اخلاق کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ حضور شیخ الاسلام کا اخلاق براہ راست خلق محمدی سے فیض یافتہ ہے۔ درحقیقت کوئی بھی شخص تجدید دین کا کام اُس وقت تک کر ہی نہیں سکتا جب تک اُس کا رابطہ اصل مصدر دین یعنی ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مضبوط اور کامل نہ ہو اور ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ امتیاز ہے کہ جب کوئی اُن سے منسلک اور مربوط ہو جاتا ہے تو سب سے پہلا فیض جو وہ عنایت فرماتے ہیں وہ اپنے خلق کا فیض ہوتا ہے۔ لہذا جس کا اخلاق خلقِ محمدی سے جتنا زیادہ فیض یافتہ نظر آئے گا وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اتنا قریب ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ خلق محمدی سے فیض یافتہ قیادت سے ہمارا تعلق بھی مضبوط و مستحکم بنائے اور انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے تاکہ ہم بھی خلق محمدی کے فیض سے مستفید ہوتے رہیں۔

بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
 
Top