عمران القادری
محفلین
تحریر: ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ناظم اعلیٰ Tmq
معاونِ تحقیق: زاھد نواز ملک
خلق کی تعریف
خلق انسان کی اس عادت کا نام ہے جس کا اظہار بلا تکلف ہوتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق
’’فالخلق عبارةٌ من هيئة في نفس راسخة عنها تصدر الاعمال بسهولة و يسرمن غير حاجة الي فکرو روية‘‘
(احیاء العلوم، باب حقیقۃ حسن الخلق، 3 / 52)
خلق نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں۔ ان کے کرنے کے لئے سوچ بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جبکہ مشہور ماہر لغت ابن منظور نے خلق کی تعریف یوں بیان کی ہے۔
الخلق و الخلق السجية و هو الذين و الطبع و السجية و حقيقة انه لصورة الانسان الباطنة و هي نفسه و اوصافها و معانيها المختصة بمنزلة الخلق لصورتها الظاهرة و اوصافها و معانيها
(لسان العرب، 10 / 86)
خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبعیت ہے انسان کی باطنی صورت کومع اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے۔
خلق کی جمع اخلاق ہے جو انسان کے مجموعہ اعمال اوراس کے مجموعی رویے کا نام ہے۔ خلق کا اطلاق ان ہی عادات پر ہوگا جو پختہ ہوں اور بلاتکلف صادر ہوں۔ وہ اعمال جو کسی انسان سے اتفاقاً صادر ہوں یا وقتی جذیہ یا عارضی جوش سے ظاہر ہوں وہ کتنے اعلیٰ اور عمدہ ہی کیوں نہ ہوں خلق نہیں کہلائیں گے۔
حسنِ اخلاق کی تعریف
حسنِ اخلاق دراصل ان فضائل و اعمال کا ہے جو کسی انسان سے بلا تکلف صادر ہوں۔ یہ اعمال انسان کی عادتِ ثانیہ ہوتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلے وہ ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں انہیں صفاتِ لازمہ ہی کہا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی شحص کی ہیئت باطنہ کا حصہ ہوتے ہیں یہ کسی بھی شخصیت کا باطنی نور ہوتا ہے جس کا کام از خود ماحول کو منور کرنا ہوتا ہے۔ دوسری قسم کو صفاتِ متعدیہ کہتے ہیں یہ اپنے ظہور کے لئے کسی معمول کی محتاج ہوتی ہیں ان صفات کے اظہار کیلئے شخصیت متصفہ کے علاوہ ایک اور فریق کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ معمول یا فریق ثانی کے بغیراس صفت کا اظہار نا ممکن ہے۔
کسی شخصیت کے حسنِ اخلاق سے متصف ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ رذائل اخلاق سے مبراء بھی ہو۔ جزوی طور پر حسنِ خلق سے متصف انسان مجموعی طور پر حسنِ اخلاق کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حسنِ خُلق کی اہمیت
حسنِ خلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود ربِ ذوالجلال نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفت سے سرفراز فرمایا ہے اور سوء خلق کے تمام پہلوؤں کی نفی فرمائی ہے۔
ارشاد رباری تعالیٰ ہے۔
و ان لک لاجرأ غير ممنون و انک لعلي خلق عظيم
(القلم، 3۔4)
بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
(مؤطا، باب حسن الخلق، 904)
میں تو اسی لئے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔
حسن خلق کی اللہ رب العزت کے ہاں اتنی اہمیت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی توفیق سے ان اوصاف کے حامل ہیں انہیں وہ جنت کی بشارت دیتا ہے۔
اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تمام انبیاء و مصلحین میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم دیا اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ حیاتِ انسانی کے لئے ایک مکمل اور معتدل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے دور کے انسانوں تک تعلیماتِ قرآنی کو پہنچایا اور اس کی تعلیمات پر عمل کی دعوت دی تو اس صحیفۂ انقلاب کے ایک ایک لفظ پر پیغمبر انقلاب نے عمل کر کے دکھایا اور قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی۔
و انک لعلٰی خلق عظيم
(القرآن، القلم: 4)
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اخلاق کے بڑے درجے پر فائز ہیں‘‘۔
انسانی شخصیت و کردار کے اولین گواہ اس کے گھر کے افراد ہوتے ہیں یا پھر وہ لوگ جن کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا جو نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد 25 برس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں رہیں۔ آپ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں۔
ہرگز نہیں، اﷲ تعالیٰ کی قسم! اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غمگین نہ کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی اعانت کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ حق کی حمایت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
جبکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ان خلق رسول اﷲ کان القرآن‘‘ بے شک رسول اﷲ کا خلق قرآن تھا کے الفاظ کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اخلاق کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنِ اخلاق کا کامل نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ جملہ اوصافِ حمیدہ سے متصف ہے۔ انسانی زندگی کے درج ذیل پہلو ایسے ہیں جن سے اس شخصیت کے حسن اخلاق اور اس کے اعلیٰ کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تواضع
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالقِ کائنات نے جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا تھا وہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو نہیں ملا تھا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
انا سيد ولد ادم و لا فخر
یعنی میں بنی آدم کا سردار ہوں اور اس پر اظہارِ فخر نہیں کرتا۔
ربِ کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ آپ معاشرے کے سب سے معزز فرد تھے۔ آپ کا خاندان عالی نسب اور فضیلتوں کا حامل تھا۔ منصبِ نبوت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار چشمِ ابرو کے اشارے پر جان نچھاور کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ ان سب فضائل و کمالات کے باوجود آپ کی ذات سے تواضع کے ایسے مظاہر منقول ہیں کہ انسان محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔
سادگی و قناعت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک اہم اور نمایاں پہلو سادگی و قناعت ہے۔ کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، بیٹھنے کسی بھی چیز میں تکلف نہ تھا۔ کھانے پینے میں جو سامنے آتا تناول فرماتے۔ آپ کو ناز و نعمت اور تکلف و عیش پرستی طبعاً ناگوار گزرتی تھی۔
صبر
صبر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں، اپنے آپ کو آہ و زاری سے روکنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے نفس کو اضطراب سے روک رہا ہے یا اپنی جگہ پر ثابت قدم ہے تو وہ صبر کر رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کے پیکر اتم تھے۔ سفر طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناقابل برداشت مظالم پر صبر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال ملنا دشوار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس واقعہ پر ردعمل داعی کے صبر و خیر خواہی کا شاندار نمونہ ہے۔ اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی عظمت و رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
استقامت
استقامت کے معنی سیدھا رہنے یا سیدھا چلنے کے ہیں۔ انسانی رویوں کے حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس بات کو حق سمجھا جائے اس پر قائم رہا جائے مشکلات مخالفت اور خطرات کا سامنا کیا جائے مگر اپنے موقف پر ثابت قدم رہا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے استقامت کا شاندار نمونہ قائم کیا۔ مشرکین مکہ نے جب جناب ابوطالب پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت الی اﷲ سے روکیں اس مایوس کن صورتحال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان استقامت کی ایک لازوال مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا حتی کہ اﷲ تعالیٰ اس دعوت کو غالب کر دے یا میں اس کی راہ میں ختم ہو جاؤں۔‘‘ آپ کی زندگی میں ایسے مشکل اور کٹھن مراحل بھی آئے جہاں بہادر سے بہادر انسان بھی اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن ان مقامات و مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ استقامت کے شاندار مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
امانت و دیانت
انسانی معاملات میں جو اخلاقی فضیلت مرکزی حیثیت کی حامل ہے وہ امانت و دیانت ہے۔ انسان کا اپنے معاملے میں ایمانداری سے پیش آنا اور جو جس کا حق ہو اسے پوری طرح ادا کر دینا امانت کہلاتا ہے۔ امانت ایک ایسا بنیادی جوہر ہے جس کے بغیر انسانی شخصیت بے وقعت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ جوہر بدرجہ اتم موجود تھا۔ نبوت سے پہلے مکہ والوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کا لقب ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے مشرکین مکہ کے ہاں تعمیر کعبہ میں حجر اسود رکھنے پر اختلاف پیدا ہوا بالاخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا اس کی بات فیصلہ کن ہو گی اور جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو سب پکار اٹھے: ’’الصادق الامین‘‘۔ اپنوں ہی کا نہیں غیروں کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتداری و دیانتداری کا گواہ ہونا ایک ایسی انفرادیت ہے جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔
عفو و درگزر
انسان کے عفو و درگزر کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اسے اپنے دشمنوں اور تکالیف پہنچانے والوں پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے مگر جب دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے تو پھر اسے معاف کر دینا اخلاقی معیار کی معراج ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا یہ نمایاں پہلو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے سلسلے میں کبھی انتقام نہیں لیا۔ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ تکلیف و اذیت کی جو صورت بھی اختیار کر سکتے تھے کی گئی اور تحقیر و تذلیل کا جو حربہ بھی استعمال کر سکتے تھے کیا لیکن اﷲ تعالیٰ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر فتح عطا فرمائی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاسی اور عسکری طور پر غالب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتحانہ شان سے جب مکہ میں داخل ہوئے تو قریش اپنے جرائم اور معاندانہ کارروائیوں کی وجہ سے سہمے ہوئے تھے انہیں ہر دم یہ خیال دامن گیر تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اس سراپا عفو و درگزر نے ایک ہی اعلان سے ان سب اندیشوں کو ختم کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا تثريب عليکم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء
’’تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
شفقت و رحمت
رحم ایک بنیادی اخلاقی وصف ہے جو ایک انسان کو معاشرے کے لئے نفع بخش اور فیض رساں بناتا ہے۔ رحمت رب ذوالجلال کی کرم نوازی کا ایک مظہر اور اس کی صفت مبارکہ ہے۔
انسانی تاریخ طاقتوروں کے قہر اور کمزوروں کی مجبوریوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کسی صاحب اختیار و اقتدار کا کمزوروں اور محکوموں پر ظلم نہ کرنا ایک قصہ کہانی لگتا ہے مگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ہستی ایسی نظر آتی ہے جو صاحب اختیار ہونے کے باوجود کمزوروں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ کمزوروں پر رحمت و شفقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نمایاں وصف ہے، رب کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وما ارسلنک الا رحمة للعالمين
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
معاونِ تحقیق: زاھد نواز ملک
خلق کی تعریف
خلق انسان کی اس عادت کا نام ہے جس کا اظہار بلا تکلف ہوتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق
’’فالخلق عبارةٌ من هيئة في نفس راسخة عنها تصدر الاعمال بسهولة و يسرمن غير حاجة الي فکرو روية‘‘
(احیاء العلوم، باب حقیقۃ حسن الخلق، 3 / 52)
خلق نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں۔ ان کے کرنے کے لئے سوچ بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جبکہ مشہور ماہر لغت ابن منظور نے خلق کی تعریف یوں بیان کی ہے۔
الخلق و الخلق السجية و هو الذين و الطبع و السجية و حقيقة انه لصورة الانسان الباطنة و هي نفسه و اوصافها و معانيها المختصة بمنزلة الخلق لصورتها الظاهرة و اوصافها و معانيها
(لسان العرب، 10 / 86)
خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبعیت ہے انسان کی باطنی صورت کومع اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے۔
خلق کی جمع اخلاق ہے جو انسان کے مجموعہ اعمال اوراس کے مجموعی رویے کا نام ہے۔ خلق کا اطلاق ان ہی عادات پر ہوگا جو پختہ ہوں اور بلاتکلف صادر ہوں۔ وہ اعمال جو کسی انسان سے اتفاقاً صادر ہوں یا وقتی جذیہ یا عارضی جوش سے ظاہر ہوں وہ کتنے اعلیٰ اور عمدہ ہی کیوں نہ ہوں خلق نہیں کہلائیں گے۔
حسنِ اخلاق کی تعریف
حسنِ اخلاق دراصل ان فضائل و اعمال کا ہے جو کسی انسان سے بلا تکلف صادر ہوں۔ یہ اعمال انسان کی عادتِ ثانیہ ہوتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلے وہ ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں انہیں صفاتِ لازمہ ہی کہا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی شحص کی ہیئت باطنہ کا حصہ ہوتے ہیں یہ کسی بھی شخصیت کا باطنی نور ہوتا ہے جس کا کام از خود ماحول کو منور کرنا ہوتا ہے۔ دوسری قسم کو صفاتِ متعدیہ کہتے ہیں یہ اپنے ظہور کے لئے کسی معمول کی محتاج ہوتی ہیں ان صفات کے اظہار کیلئے شخصیت متصفہ کے علاوہ ایک اور فریق کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ معمول یا فریق ثانی کے بغیراس صفت کا اظہار نا ممکن ہے۔
کسی شخصیت کے حسنِ اخلاق سے متصف ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ رذائل اخلاق سے مبراء بھی ہو۔ جزوی طور پر حسنِ خلق سے متصف انسان مجموعی طور پر حسنِ اخلاق کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حسنِ خُلق کی اہمیت
حسنِ خلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود ربِ ذوالجلال نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفت سے سرفراز فرمایا ہے اور سوء خلق کے تمام پہلوؤں کی نفی فرمائی ہے۔
ارشاد رباری تعالیٰ ہے۔
و ان لک لاجرأ غير ممنون و انک لعلي خلق عظيم
(القلم، 3۔4)
بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
(مؤطا، باب حسن الخلق، 904)
میں تو اسی لئے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔
حسن خلق کی اللہ رب العزت کے ہاں اتنی اہمیت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی توفیق سے ان اوصاف کے حامل ہیں انہیں وہ جنت کی بشارت دیتا ہے۔
اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تمام انبیاء و مصلحین میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم دیا اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ حیاتِ انسانی کے لئے ایک مکمل اور معتدل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے دور کے انسانوں تک تعلیماتِ قرآنی کو پہنچایا اور اس کی تعلیمات پر عمل کی دعوت دی تو اس صحیفۂ انقلاب کے ایک ایک لفظ پر پیغمبر انقلاب نے عمل کر کے دکھایا اور قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی۔
و انک لعلٰی خلق عظيم
(القرآن، القلم: 4)
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اخلاق کے بڑے درجے پر فائز ہیں‘‘۔
انسانی شخصیت و کردار کے اولین گواہ اس کے گھر کے افراد ہوتے ہیں یا پھر وہ لوگ جن کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا جو نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد 25 برس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں رہیں۔ آپ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں۔
ہرگز نہیں، اﷲ تعالیٰ کی قسم! اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غمگین نہ کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی اعانت کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ حق کی حمایت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
جبکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ان خلق رسول اﷲ کان القرآن‘‘ بے شک رسول اﷲ کا خلق قرآن تھا کے الفاظ کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اخلاق کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنِ اخلاق کا کامل نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ جملہ اوصافِ حمیدہ سے متصف ہے۔ انسانی زندگی کے درج ذیل پہلو ایسے ہیں جن سے اس شخصیت کے حسن اخلاق اور اس کے اعلیٰ کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تواضع
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالقِ کائنات نے جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا تھا وہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو نہیں ملا تھا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
انا سيد ولد ادم و لا فخر
یعنی میں بنی آدم کا سردار ہوں اور اس پر اظہارِ فخر نہیں کرتا۔
ربِ کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ آپ معاشرے کے سب سے معزز فرد تھے۔ آپ کا خاندان عالی نسب اور فضیلتوں کا حامل تھا۔ منصبِ نبوت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار چشمِ ابرو کے اشارے پر جان نچھاور کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ ان سب فضائل و کمالات کے باوجود آپ کی ذات سے تواضع کے ایسے مظاہر منقول ہیں کہ انسان محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔
سادگی و قناعت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک اہم اور نمایاں پہلو سادگی و قناعت ہے۔ کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، بیٹھنے کسی بھی چیز میں تکلف نہ تھا۔ کھانے پینے میں جو سامنے آتا تناول فرماتے۔ آپ کو ناز و نعمت اور تکلف و عیش پرستی طبعاً ناگوار گزرتی تھی۔
صبر
صبر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں، اپنے آپ کو آہ و زاری سے روکنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے نفس کو اضطراب سے روک رہا ہے یا اپنی جگہ پر ثابت قدم ہے تو وہ صبر کر رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کے پیکر اتم تھے۔ سفر طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناقابل برداشت مظالم پر صبر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال ملنا دشوار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس واقعہ پر ردعمل داعی کے صبر و خیر خواہی کا شاندار نمونہ ہے۔ اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی عظمت و رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
استقامت
استقامت کے معنی سیدھا رہنے یا سیدھا چلنے کے ہیں۔ انسانی رویوں کے حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس بات کو حق سمجھا جائے اس پر قائم رہا جائے مشکلات مخالفت اور خطرات کا سامنا کیا جائے مگر اپنے موقف پر ثابت قدم رہا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے استقامت کا شاندار نمونہ قائم کیا۔ مشرکین مکہ نے جب جناب ابوطالب پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت الی اﷲ سے روکیں اس مایوس کن صورتحال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان استقامت کی ایک لازوال مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا حتی کہ اﷲ تعالیٰ اس دعوت کو غالب کر دے یا میں اس کی راہ میں ختم ہو جاؤں۔‘‘ آپ کی زندگی میں ایسے مشکل اور کٹھن مراحل بھی آئے جہاں بہادر سے بہادر انسان بھی اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن ان مقامات و مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ استقامت کے شاندار مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
امانت و دیانت
انسانی معاملات میں جو اخلاقی فضیلت مرکزی حیثیت کی حامل ہے وہ امانت و دیانت ہے۔ انسان کا اپنے معاملے میں ایمانداری سے پیش آنا اور جو جس کا حق ہو اسے پوری طرح ادا کر دینا امانت کہلاتا ہے۔ امانت ایک ایسا بنیادی جوہر ہے جس کے بغیر انسانی شخصیت بے وقعت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ جوہر بدرجہ اتم موجود تھا۔ نبوت سے پہلے مکہ والوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کا لقب ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے مشرکین مکہ کے ہاں تعمیر کعبہ میں حجر اسود رکھنے پر اختلاف پیدا ہوا بالاخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا اس کی بات فیصلہ کن ہو گی اور جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو سب پکار اٹھے: ’’الصادق الامین‘‘۔ اپنوں ہی کا نہیں غیروں کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتداری و دیانتداری کا گواہ ہونا ایک ایسی انفرادیت ہے جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔
عفو و درگزر
انسان کے عفو و درگزر کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اسے اپنے دشمنوں اور تکالیف پہنچانے والوں پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے مگر جب دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے تو پھر اسے معاف کر دینا اخلاقی معیار کی معراج ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا یہ نمایاں پہلو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے سلسلے میں کبھی انتقام نہیں لیا۔ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ تکلیف و اذیت کی جو صورت بھی اختیار کر سکتے تھے کی گئی اور تحقیر و تذلیل کا جو حربہ بھی استعمال کر سکتے تھے کیا لیکن اﷲ تعالیٰ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر فتح عطا فرمائی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاسی اور عسکری طور پر غالب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتحانہ شان سے جب مکہ میں داخل ہوئے تو قریش اپنے جرائم اور معاندانہ کارروائیوں کی وجہ سے سہمے ہوئے تھے انہیں ہر دم یہ خیال دامن گیر تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اس سراپا عفو و درگزر نے ایک ہی اعلان سے ان سب اندیشوں کو ختم کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا تثريب عليکم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء
’’تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
شفقت و رحمت
رحم ایک بنیادی اخلاقی وصف ہے جو ایک انسان کو معاشرے کے لئے نفع بخش اور فیض رساں بناتا ہے۔ رحمت رب ذوالجلال کی کرم نوازی کا ایک مظہر اور اس کی صفت مبارکہ ہے۔
انسانی تاریخ طاقتوروں کے قہر اور کمزوروں کی مجبوریوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کسی صاحب اختیار و اقتدار کا کمزوروں اور محکوموں پر ظلم نہ کرنا ایک قصہ کہانی لگتا ہے مگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ہستی ایسی نظر آتی ہے جو صاحب اختیار ہونے کے باوجود کمزوروں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ کمزوروں پر رحمت و شفقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نمایاں وصف ہے، رب کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وما ارسلنک الا رحمة للعالمين
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘