طارق شاہ
محفلین
سِتم سِکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دِکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گِنو سب حسرتیں جو خوں ہُوئی ہیں تن کے مقتل میں
مِرے قاتل حِسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دِل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اِک شب، ہر گھڑی گُزرے قیامت یُوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صُبح ہو روزِ جَزا ایسے نہیں ہوتا
رَواں ہے نبضِ دَوراں، گردِشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا، ایسے نہیں ہوتا
فیض احمد فیض