فیض صاحب کی ایک غزل کے مطلع میں قوافی اور ناپید کا تلفظ

طالب سحر

محفلین
محفل کے اراکین سے میرا ایک نہایت مبتدیانہ سوال ہے- فیض صاحب کی ایک غزل (مشمولہ زنداں نامہ) کا مطلع یہ ہے:

شہر میں‌ چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے


مکمل غزل محفل پر یہاں موجود ہے- (دیگر قوافی یہ ھیں: تمہید، دید، عید، خورشید-)

چونکہ یہ مطلع کا شعر ہے، اس لئے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کا اہتمام ہونا چاہئے۔ لیکن "ناپید اب کے" اور "تاکید اب کے" میں یا تو "ناپید" کا تلفظ کچھ مختلف ہے یا یہاں کوئی اور بات ہے- اول الذکر کے بارے میں حسان خان صاحب نے ذاتی مراسلے میں یہ بتایا ہے:
فارسی میں اس کا تلفظ 'ناپَید' ہے (پ بر زبر کے ساتھ)، میں نے کہیں اسے ناپِید (یائے معروف کے ساتھ) استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ ویسے فارسی میں 'ناپید' کی بجائے 'ناپیدا' استعمال ہوتا ہے۔

کیا یہاں مطلع کے قوافی کے لئے کوئی اور اصول کارفرما ہے؟
 
آخری تدوین:
فیضؔ صاحب بڑے بھولے بھالے، سیدھے سادے سے آدمی تھے، طالب بھائی۔ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ صوفی تبسمؔ صاحب سے اواخر تک اصلاح لیا کیے۔ عروض اور لسان کے معاملات یوں بھی عموماً ان کے بس کا روگ معلوم نہیں ہوتے۔ دستِ تہِ سنگ کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلۂِ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے
اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
مصاریعِ ثانی میں ہے زائد ہو گیا ہے مگر فیضؔ صاحب نے چھاپ دیا۔ آج تک یونہی چلتا آتا ہے۔
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اس مصرعے میں انھوں نے دنیا کا الف گرا دیا ہے۔ یہ خطا محفل کے مبتدی بھی کم ہی کرتے ہیں۔
کیا یہاں مطلع کے قوافی کے لئے کوئی اور اصول کارفرما ہے؟
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد خیال کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ناپید کی یائے لین کو یائے مجہول قیاس کر کے اسے یائے معروف کے ساتھ قافیہ کر دیا ہو گا۔ فارسی میں یہ (واؤ/یائے مجہول اور معروف کا قافیہ) جائز خیال کیا جاتا ہے اور اردو میں بھی متقدمین نے اسے جائز خیال کیا مگر بعد میں اس طرز کا قافیہ متروک ہو گیا۔ یعنی اہلِ فارس شیر (جانور) کا شِیر (دودھ) اور شور کا حور کے ساتھ قافیہ روا رکھتے ہیں۔ مگر اہلِ اردو اپنے لہجے اور فصاحت کے لحاظ سے ایسے قوافی سے ابا کرتے ہیں۔
فیضؔ ایک تو قدما کے اصول کو اس وقت بروئے کار لائے جب ترقی پسندیاں عروج پکڑ رہی تھیں اور دوسرا غضب یہ کیا کہ غلط بروئے کار لائے۔ لیکن وہ بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے انسان تھے۔ آپ ان سے عروض اور تلفظ کا سبق نہ لیں تو ان کی عظمت اور تبحر میں کلام نہیں۔
مجھے امید ہے کہ میری یہ دریدہ دہنی تحصیلِ حاصل بھی ثابت ہوئی تو آپ درگزر فرمائیں گے! :):)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بر سبیل تذکرہ ۔چند ایک روز قبل کی گفتگو بر محل یاد آئی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/goto/post?id=1771846#post-1771846
اور اس ضمن میں غالب کی ایک معروف غزل ۔
عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
ہے تجلی تری، سامانِ وجود
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے
غمِ محرومئ جاوید نہیں!
سلطنت دست بَدَست آئے ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں​
 

طالب سحر

محفلین
راحیل فاروق، آپ کے تفصیلی جواب کا بہت شکریہ-

لیکن وہ بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے انسان تھے۔ آپ ان سے عروض اور تلفظ کا سبق نہ لیں تو ان کی عظمت اور تبحر میں کلام نہیں۔
فیض صاحب بلاشبہ بڑے شاعر اور بڑے انسان تھے- میں ان کی شاعری کا دلدادہ ہوں کیونکہ یہ بیک وقت کلاسیکی روایات سے بھی جڑی ہیں اور جدید جمالیاتی احساسات کا اظہار ہیں- ویسے بڑے شاعر کو تو تھوڑی بہت اجازت ہوتی ہے نا کہ وہ مروّجہ اصولوں کو خاطر میں نا لائے :)
 

طالب سحر

محفلین

یاز

محفلین
فیض صاحب بلاشبہ بڑے شاعر اور بڑے انسان تھے- میں ان کی شاعری کا دلدادہ ہوں کیونکہ یہ بیک وقت کلاسیکی روایات سے بھی جڑی ہیں اور جدید جمالیاتی احساسات کا اظہار ہیں- ویسے بڑے شاعر کو تو تھوڑی بہت اجازت ہوتی ہے نا کہ وہ مروّجہ اصولوں کو خاطر میں نا لائے :)

اساتیذ اور صاحبِ علم احباب کے درمیان اس سخن ناشناس کا بولنا کافی معیوب لگ رہا ہے۔دخل در نامعقولات کی گستاخی پہ معذرت ، لیکن میں بھی بس یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ جدت طرازی یا روایت شکنی عموماً کسی فیلڈ کی ماسٹر یا نامور شخصیات کا ہی خاصہ سمجھی جاتی ہے۔ اور اس کی وجہ کہ دستورِ زمانہ یہی ہے کہ مشہور شخصیات کی زیادہ سنی جاتی ہے۔ ایک غیرمتعلق مثال یہ لیجئے کہ اگر کوئی عام بندہ ایک ہاتھ پہ چمکتا ہوا دستانہ چڑھا کے پھرے تو لوگ اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھیں گے، لیکن یہی کام اگر مائیکل جیکسن کرے تو وہ فیشن بن جائے گا۔

قوافی میں روایت شکنی سے متعلق ہی گلزار کی ایک نظم کا پہلا شعر بھی ایک دلچسپ نمونہ ہے۔
شوق خواب کا ہے تو نیند آئے نہ
جھوٹ بولتا ہے روز روز آئینہ
 
فیضؔ ایک تو قدما کے اصول کو اس وقت بروئے کار لائے جب ترقی پسندیاں عروج پکڑ رہی تھیں اور دوسرا غضب یہ کیا کہ غلط بروئے کار لائے۔ لیکن وہ بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے انسان تھے۔ آپ ان سے عروض اور تلفظ کا سبق نہ لیں تو ان کی عظمت اور تبحر میں کلام نہیں۔
مجھے امید ہے کہ میری یہ دریدہ دہنی تحصیلِ حاصل بھی ثابت ہوئی تو آپ درگزر فرمائیں گے! :):)

بہت شکریہ راحیل، آپ نے دل کی بات کہہ دی ۔ یہ آپ کی دریدہ دہنی نہیں بلکہ سادہ لوحی ہے۔

شیکسپئیر نے جو فرما دیا ، وہی انگریزی اور
جو بھی آپ اہل زبان شاعر و مصنف حضرات نے فرما دیا وہ کسی طور غلطی نہیں بلکہ اردو زبان کا اثاثہ اور خزانہ ۔ اور وہی اردو ، جس کی دھوم سارے جہان میں :)

جیسا کہ میں مصر ہوں کہ اردو، اردو ہے، اس کی اپنی فصاحت اور بلاغت ہے۔ اس کی مہان آزادی اور دشنام نوخیزی پر دوسری زبانوں کا شرعی پاجامہ کچھ جچتا نہیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فیض صاحب بہت بڑے شاعر تھے۔میرے پسندیدہ ترین شاعروں میں سے ہیں ۔ جتنا لطف مجھے فیض کو پڑھ کر آتا ہے میر و غالب کو پڑھ کر بھی نہیں آتا ۔ وہ ثقہ شاعر ضرور ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ وہ لسانی اور عروضی طور پر استاد کا درجہ نہیں رکھتے۔ کئی جگہوں پر ان سے بہت ہی بنیادی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ۔ ایک شعر میں انہوں نے حکم (ک ساکن) کو بروزن قدم باندھ دیا ہے ۔ اسی طرح اس شعر کو دیکھئے :
فیض جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم
اس شعر میں وہ ہم کے بعد نے کا لفظ کھاگئے ہیں زمین کی پابندی کرنے کے چکر میں ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس طرح کے اشعار انہوں نے اس وقت لکھے ہوں گے کہ جب وہ نشے کی حالت میں نہیں تھے ۔ :):):)
بہرحال ان چھوٹی موٹی باتوں سےفیض صاحب کی شاعرانہ عظمت کم نہیں ہوتی ۔ لیکن ان باتوں میں ان کی تقلید کرنا بھی درست نہیں ۔
 
Top