طالب سحر
محفلین
محفل کے اراکین سے میرا ایک نہایت مبتدیانہ سوال ہے- فیض صاحب کی ایک غزل (مشمولہ زنداں نامہ) کا مطلع یہ ہے:
شہر میں چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
مکمل غزل محفل پر یہاں موجود ہے- (دیگر قوافی یہ ھیں: تمہید، دید، عید، خورشید-)
چونکہ یہ مطلع کا شعر ہے، اس لئے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کا اہتمام ہونا چاہئے۔ لیکن "ناپید اب کے" اور "تاکید اب کے" میں یا تو "ناپید" کا تلفظ کچھ مختلف ہے یا یہاں کوئی اور بات ہے- اول الذکر کے بارے میں حسان خان صاحب نے ذاتی مراسلے میں یہ بتایا ہے:
کیا یہاں مطلع کے قوافی کے لئے کوئی اور اصول کارفرما ہے؟
شہر میں چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
مکمل غزل محفل پر یہاں موجود ہے- (دیگر قوافی یہ ھیں: تمہید، دید، عید، خورشید-)
چونکہ یہ مطلع کا شعر ہے، اس لئے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کا اہتمام ہونا چاہئے۔ لیکن "ناپید اب کے" اور "تاکید اب کے" میں یا تو "ناپید" کا تلفظ کچھ مختلف ہے یا یہاں کوئی اور بات ہے- اول الذکر کے بارے میں حسان خان صاحب نے ذاتی مراسلے میں یہ بتایا ہے:
فارسی میں اس کا تلفظ 'ناپَید' ہے (پ بر زبر کے ساتھ)، میں نے کہیں اسے ناپِید (یائے معروف کے ساتھ) استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ ویسے فارسی میں 'ناپید' کی بجائے 'ناپیدا' استعمال ہوتا ہے۔
کیا یہاں مطلع کے قوافی کے لئے کوئی اور اصول کارفرما ہے؟
آخری تدوین: