طارق شاہ
محفلین
غزل
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پِھروہی بات، جو اثبات نہ ہونے پائی
پِھر وہ پروانے جنھیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پِھر وہ شمعیں، کہ جنھیں رات نہ ہونے پائی
پِھر وہی جاں بہ لَبی، لذَّتِ مے سے پہلے!
پِھر وہ محفِل، جو خرابات نہ ہونے پائی
پِھر دَمِ دِید رہے چشم و نظر دِید طلب !
پِھر، شبِ وصل مُلاقات نہ ہونے پائی
پِھر وہاں، بابِ اثر جانئے کب بند ہُوا
پِھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیضؔ سر پر جو ، ہر اِک روز قیامت گُذری
ایک بھی ، روزِ مکافات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیؔض