سید شہزاد ناصر
محفلین
فیض کھوسہ اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ۔—تصویر بشکریہ کے ٹی این
‘وہ تو ٹھیک ہےکہ مہمان آرہا ہے مگر یہ فیض ہے کون؟’ اطلاع دینے والے سے پوچھا گیا۔
‘حیدرآباد سے آرہا ہے۔’
‘مگر پھر بھی یہ فیض نام کا کون سا دوست ہے تہارا؟’ سوال اب بھی برقرار تھا۔
‘یار وہ کھوسہ ہے۔’
‘مگر۔۔۔ خیر آئے گا تو دیکھیں گے،پھر بھی سمجھ نہیں آتا یہ فیض کھوسہ ہے کون؟’
‘ارے یار فیض کھوسہ۔۔۔ کے ٹی این ٹی وی۔۔۔ وہ تاریخ والا۔۔۔’
کیا۔۔۔۔’ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔ حیرت اور دلچسپی نمایاں تھی۔ ‘سائیں فیض کھوسہ تاریخ والا۔۔۔ واہ سائیں واہ، پھر تو رات مچ (الاؤ) کنارے خوب کچہری جمے گی۔’ فیض کے نام پر سب سے پہلے حیرانی کا اظہار کرنے
والے نے کہا اور پھر نوجوانوں کی محفل میں قصہ چِھڑھ گیا سندھ اور اس کی تاریخ کا، شجاعت اور اجداد کا، مال اور مقام کا، اعزاز اور بے توقیری کا۔ ان قصوں کے بیچ جگہ جگہ فیض کھوسو ‘تاریخ’ کے ساتھ کھڑا مسکرارہا تھا۔
جی ہاں یہ احوال ہے سندھ کے ایک دیہات کا جہاں صحافی، دانشور، تاریخ کا کھوجی، ٹی وی کا میزبان اور سب سے بڑھ کر ایک پڑھا لکھا، علم دوست سچا سندھی دور دراز کے ایک گوٹھ میں اپنے آخری ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے پہنچنے والا تھا۔
سندھی کیبل ٹی وی کے ٹی این کا ‘تاریخ’ دستاویزی فلموں کا وہ سلسلہ جسے ایک سو کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد مئی، دو ہزار بارہ کے ایک اتوار آخری بار نشر ہونا تھا۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر ہم تبدیل ہوئے یا نہیں مگر ہمارے ذرائع ابلاغ میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پرنٹ سے الیکٹرانک تک پہنچے اور یہ ممکن ہوا پرائیوٹ کیبل ٹی وی چینلز کے ذریعے۔
آج لگ بھگ ایک دہائی گزر جانے کے باوجود خبر کا نشری ذریعہ بدستور ترقی کررہا ہے۔ جہاں اُردو اور انگریزی چینل سامنے آئے، وہیں سندھی زبان میں بھی سب سے پہلا خبروں کا چینل ‘کے ٹی این’ کے نام سے سامنے آیا۔
سندھی مطبوعہ صحافت کی طویل تاریخ ہے، جس کی جڑیں انیسویں صدی کے اواخر سے ملتی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد یہ مزید مضبوط ہوئی مگر خبر اور اخبار کو پیش کرنے میں سندھی صحافت کی نئی داغ بیل ڈالی روزنامہ ‘کاوش’ نے۔
تئیس برس پہلے جب علی قاضی کی زیرِ ادارت کاوش کا اجرا ہوا تو اُس وقت سندھی کے درجن سے زائد روزنامہ موجود تھے۔ کئی کی جڑیں بہت مستحکم تھیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے جارحانہ رپورٹنگ اور جدّت سے بھرپور لے آؤٹ نے اسے سندھ کا مقبول روزنامہ بنادیا۔
ملک میں پرائیوٹ ٹی وی چینل شروع ہوئے تو کاوش ٹیلی وژن نیٹ ورک اپنے مخفف ‘کے ٹی این’ کے نام سے سامنے آیا اور سندھی زبان کا پہلا مکمل نیوز چینل ٹھہرا۔ آج بھی اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ رپورٹنگ کا جارحانہ انداز، گفتگو کا تِیکھا پِن اور سندھ دھرتی سے پیار اس کا غیر تحریری بنیادی اصول ہے۔
کئی برس پہلے سکھر کے سادھو بیلا کے مندر میں ممبئی سے آئے یاتری جے پرکاش سے ملاقات ہوئی۔ ادھیڑ عمر پرکاش کے والدین تقسیم کے وقت حیدرآباد سے ہجرت کرکے ہندوستان گئے تھے۔ پرکاش کا کہنا تھا کہ پِتا نے کیبل آپریٹر سے لڑ جھگڑ کر کے ٹی این چینل لگوایا۔ اب ہمیں اور بچوں کو کہتے ہیں کہ یہ چینل دیکھو، ہمارے سندھ کا ہے۔ اسے سن سن کر اپنی سندھی درست کرو۔
جےپرکاش کے والد نے کے ٹی این کو زبان سدھارنے کا ذریعہ سمجھا مگر فیض کھوسو دو قدم آگئے گئے۔ کے ٹی این کے عملے میں تو وہ تھے۔ اوپر سے مزاج میں تاریخ شناسی اور من اندر آثار شناس پہلے سے ہی موجود تھا، سو انہوں نے انتظامیہ کو ایک پروپوزل دیا۔
‘ایسے وقت میں جب پاکستان کے کسی ٹی وی چینل سے خالص علمی پروگرام نہ ہورہا ہو، اس طرح کا پروپوزل دینا دل گردے کا کام تھا۔’ ڈان ڈاٹ کام’ سے باتیں کرتے ہوئے فیض کھوسہ نے کہا۔ ‘مگر ہمت اور شاباش ہے انتظامیہ پر کہ انہوں نے خطرہ مول لیا اور ہم کامیاب ہوئے۔’ انہوں نے مسکراتے ہوئے بات مکمل کی۔
فیض کا پروپوزل یہ تھا کہ سندھ کے شہروں، قصبوں، گوٹھوں اور دیہاتوں پر پچاس منٹ کی طوالت کا دستاویزی پروگرام ہو جس میں تاریخ کے حوالے سے مورخین کی باتیں اور مقامی بزرگوں کی بیان کردہ روایتیں بھی شامل ہوں۔ پروگرام کے اس سلسلےمقصد سندھ کی بھولی بسری تاریخ کو ذہنوں میں تازہ کرنا اور نئے گوشوں کی تلاش تھی۔
تھوڑی بہت بریفنگ کے بعد آئیڈیا منظور ہوا اور طے ہوا کہ سب سے پہلا پروگرام تاریخ شناسی کے عوامی رجحان پر ہو۔ ‘ہم بازاروں، سڑکوں، تعلیم اداروں۔۔ غرضیکہ ہر جگہ گئے اور لوگوں سے پوچھا کہ وہ تاریخ کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ جو جواب ملے وہ افسوس ناک تھے مگر ناامید ہونے کے بجائے ہم نے اسے کامیابی میں بدلا۔ ہم نے ‘تاریخ’ پروگرام شروع کردیا اور پھر پہلے پروگرام کے بعد سے ہمیں ناظرین اور سندھی علم دوستوں کا جو ردِ عمل ملا، وہ مثبت تھا۔’ فیض نے اپنی یادوں کو ٹتولتے ہوئے کہا۔
‘تاریخ’ کا پہلا ہفتہ وار پروگرام مارچ سن دو ہزار دس کو نشر ہوا اور پھر ہر اتوار کو شب آٹھ بجے نشر ہونے والے گھنٹہ بھر طویل اس دستاویزی پروگرام نے سندھ بھر میں اتنی شہرت حاصل کی کہ ٹی وی انتظامیہ کی مارکیٹنگ ٹیم کے نقطہ نظر سے بھی کامیاب ٹھہرا۔
فیض کا کہنا تھا کہ ‘اس دور میں پاکستانی ٹی وی چینلوں پر خالص علمی پروگراموں کو جگہ نہیں ملتی اور وہ بھی پرائم ٹائم میں، یہ تو ناممکنات میں سے ہے۔ تاریخ دستاویزی فلم کے سلسلے نے، اس تصور کو غلط ثابت کردیا کہ لوگوں کو علمی موضوعات اور وہ بھی تاریخ کے خشک موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں۔’
‘تاریخ’ کا سلسلہ دو سال نہایت کامیابی سے چلا۔ سندھی زبان اور شاید اردو زبان میں بھی یہ اب تک کا واحد دستاویزی فلموں کا سلسلہ ہوگا جو صرف ایک موضوع پر محیط تھا مگر پھر بھی اس کی سو فلمیں نشر ہوئیں۔ مجموعی طور پر ان کا دورانیہ پانچ ہزار منٹ کے لگ بھگ بنتا ہے۔
‘اس پروگرام کو سندھ بھر میں اتنی شہرت ملی کہ یہ میری پہچان بن گیا۔’ فیض کھوسو نے بتایا۔
فیض اس پروگرام کے محقق، میزبان، اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر بھی تھے۔ ‘آج میں سندھ کے کسی بھی علاقے میں جاؤں، لوگ مجھےاسی پروگرام سے پہچانتے ہیں اور نام کے ساتھ تاریخ والا جوڑ دیتے ہیں۔ یہ سن کر بہت خوشی ہوتی ہے۔’
فیض کا کہنا تھا کہ سو پروگرام کا یہ سلسلہ ہمیں سندھ کے دور دراز، دشوار گذار اور ایسے ایسے علاقوں میں بھی لے گیا جہاں اعلیٰ پولیس افسران ہمیں جانے سے منع کرتے تھے مگر ہم پھر بھی گئے۔
جن لوگوں کو خطرناک قرار دیا گیا تھا، وہ محبت سے پیش آئے۔ اپنے دل اور گھر کے دروازے ہم پر کھول دیے۔ یہ پیار ہے لوگوں کا اپنی دھرتی، اس کی تاریخ اور اس کو ٹی وی پر پش کرنے والوں سے۔’
فیض کھوسہ کہتے ہیں کہ سندھ کے عظیم ترین صوفی شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کی زوجہ سید بی بی تُرک خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ سندھ کے تاریخ دان مرحوم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے تصدیق کی تھی کہ شاہ بھٹائی کے سُسر مرزا مغل بیگ کی قبر حیدرآباد کے اطراف میں کہیں ہے مگر کہاں پر، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
فیض کے مطابق ‘تاریخ پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں ہم ایک بار ٹنڈو الہٰ یار کے قبرستان تُورکی پہنچے۔ اسے بیگلاروں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ گمان یہی ہے کہ تُورکی تُرکی کی بگڑی شکل ہے اور بیگلار لفظ بیگ سے مل کر بنا ہے۔ یہ خیال اس لیے بھی تقویت پاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر تُرک دفن ہیں۔ قبرستان میں پرانے کتبے پڑھتے پڑھتے ہم نے ایک کتبہ پڑھا اور پھر حیران رہ گئے۔ جستجو کی تو بات درست ثابت ہوئی۔ کتبہ کی تحریر اور سنِ وفات شاہ کے عہد کا تھا اور صاحبِ قبر کا نام لکھا تھا مرزا مغل بیگ۔ یہ وہی تھے جنہیں شاہ کا سُسر ہونے کا رتبہ ملا۔ یہ ہمارے پروگرام کی بہت بڑی دریافت تھی، جس کی تائید کئی مورخوں نے بھی کی۔’
سو فلموں کے اس سلسلے کو فلمانے والے دو کیمرا مین تھے۔ فہیم لودھی اور جاوید سولنگی۔ فہیم کا کہنا ہے کہ ‘پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ کام آسان ہوگا مگر بعد میں علم ہوا کہ یہ تو بہت مشکل ہے۔ سچ یہ ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے، کام میں لطف آنے لگا۔’
جاوید سولنگی اپنے ساتھی سے متفق ہیں۔ کہتے ہیں کہ مشکلیں تو تھیں مگر سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور خاص کر اپنی تاریخ کو جاننے، سمجھنے، بزرگوں سے تاریخی روایات سننے سے علم بہت بڑھا۔’
مشکلات کی بات نکلی تو فیض بتاتے ہیں کہ ‘فنّی لحاظ سے یہ سلسلہ بہت مشکل تھا۔ ہمارے پاس آرکائیو فوٹیج نہیں تھی، سندھ کے گاؤں گوٹھوں کی قدیم تصاویر تک دسترس بہت مشکل تھی اور ہمیں ہر شے کو بتانے کے ساتھ دکھانا بھی تھا مگر پھر بھی۔۔۔ ہم نے کامیابی سے سو دستاویزی فلمیں بنائیں۔ نامساعد حالات میں یہ بڑی کامیابی ہے۔’
سینٹر فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ناصر پنہور کہتے ہہیں کہ ‘فیض کے پروگرام میں، پاکستان میں شاید پہلی بار، سندھ کے جنگلات کی تاریخ پیش کی گئی۔ جنگلوں سے جُڑی تاریخ کے ایسے حیران کُن پہلو دکھائے کہ میں دنگ رہ گیا۔ وہ تو سندھ کے جنگلوں اور ماحول کی تاریخ تھی۔’
ناصر پنہور نے تجویز دی کہ کے ٹی این ان دستاویزی فلموں کو ڈی وی ڈی پر منتقل کرکے عام لوگوں کی رسائی ممکن بنائے۔ جب گانوں کی ڈی وی ڈیز بِک سکتی ہیں تو تاریخ کی کیوں نہیں۔
ہمہ جہت شخصیت اور سندھ کی تاریخ پر مضبوط گرفت رکھنے والے مورخ مرحوم ڈاکٹر ایم ایچ پنہور کہتے تھے کہ موئن جو ڈرو کے بعد سندھی تاریخ کے ڈھائی ہزار سال گمشدہ ہیں، جنہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تاریخ ان ڈھائی ہزار سالوں کے بعد شروع ہوتی ہے۔
تاریخ تلاش کرنے کا کام تو مورخ اور محقق جانیں لیکن ایک بات طے ہے کہ فیض جس تاریخ کو جاننے، سمجھنے اور دکھانے نکلے تھے اس میں توقع سے زیادہ کامیاب ہوئے۔
دو سال میں سندھ کی بکھری تاریخ پر ایک سو دستاویزی فلمیں، پانچ ہزار منٹ کی نشری ریکارڈنگ اور دریافتیں۔۔۔ بہت کچھ ان فلموں میں پنہاں ہے۔
ضرورت ہے تو اس بات کی کہ سندھ پر تحقیق کے ادارے مثلاً انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی اور سندھ آرکائیوز جیسے ادارے ان فلموں کے حقوق حاصل کرکے اپنی وڈیو لائبریریوں میں محفوظ کرلیں تاکہ تاریخ کا ایک قیمتی جھروکا آنے والے محققین اور مورخین کے لیے محفوظ ہوسکے۔
ربط
http://urdu.dawn.com/2012/08/13/faiz-khosa/