فیض کی اس نظم کی بحر کیا ہے؟

جناب اساتذہ کرام،

فیض احمد فیض صاحب کی اس خوبصورت نظم میں کون سی بحر استعمال کی گئی ہے؟ نیز اگر اس بحر فعلات ، فاعلاتن طے پائی تو کیا 'اُ- نہے-پھر-ج' اور 'اُ-نہے-یا-د'کو فعلات باندھنا درست ہے؟

چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
جو گزر گئی ہیں راتیں
انہیں پھر جگا کے لائیں
جو بِسر گئی ہیں باتیں
انہیں یاد میں بلائیں
چلو پھر سے دل لگائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
کسی شہ نشیں پہ جھلکی
وہ دھنک کسی قبا کی
کسی رگ میں کسمسائی
وہ کسک کسی ادا کی
کوئی حرفِ بے مروت
کسی کنجِ لب سے پھوٹا
وہ چھنک کے شیشہء دل
تہ بام پھر سے ٹوٹا
یہ ملن کی نا ملن کی
یہ لگن کی اور جلن کی
جو سہی ہیں وارداتیں
جو گزر گئی ہیں راتیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں


شکریہ!
الف عین

محمد یعقوب آسی
مزمل شیخ بسمل
 
حاویِ اعظم کے نزدیک اس بحر کو ان افاعیل سے منسوب کیا گیا ہے:
متفاعلن فعولن

انکی رائے غلط ہے۔ کیونکہ بحرِ کامل سے فعولن کا استخراج درست نہیں۔ خصوصاً حشوین کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ اس لیے ہم اسے رمل سے نکالتے ہیں جو ہر طرح جائز ہے۔

محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرمائیں گے؟
 
بات ایک ہی ہے جیسے بھی کہہ لیں۔
”فعلات فاعلاتن“ اور ”متفاعلن فعولن“ محض شاعر کے لیے تو یکساں حیثت رکھتے ہیں، بلکہ متفاعلن فعولن کو ذہن میں رکھ کر کلام موزوں کرنا زیادہ آسان ہے، مگر عروضی قواعد کے اپنی جملہ جزائیات پر اجرا اور انطباق کے لحاظ سے کافی فرق ہے، جیسے ”فعول فعلن فعول فعلن“ کو سامنے رکھ کر کلام موزوں کرنا آسان ہے، مگر قواعد کی بات آئے گی تو کہاجائے گا کہ یہ ”مفاعلاتن مفاعلاتن“ ہے۔
 
”فعلات فاعلاتن“ اور ”متفاعلن فعولن“ محض شاعر کے لیے تو یکساں حیثت رکھتے ہیں، بلکہ متفاعلن فعولن کو ذہن میں رکھ کر کلام موزوں کرنا زیادہ آسان ہے، مگر عروضی قواعد کے اپنی جملہ جزائیات پر اجرا اور انطباق کے لحاظ سے کافی فرق ہے، جیسے ”فعول فعلن فعول فعلن“ کو سامنے رکھ کر کلام موزوں کرنا آسان ہے، مگر قواعد کی بات آئے گی تو کہاجائے گا کہ یہ ”مفاعلاتن مفاعلاتن“ ہے۔
ہم تو ’“اطلاق بہ سہولت‘‘ کے قائل ہیں، یار لوگوں کا فرمانا سر آنکھوں پر۔
ویسے آپس کی بات ہے ’’اہلِ قواعد‘‘ تو ’“مفاعلاتن‘‘ رکن مانتے ہی نہیں! پر ہم مانتے ہیں اور اس بحر (مفاعلاتن مکرر) کو ’’بحرِ مرغوب‘‘ کے نام سے جانتے بھی ہیں۔
 

ایوب ناطق

محفلین
حاوی اعظم صاحب کی کتاب میں آزاد نظم کا عروضی جائزہ اور اساتذہ کے کلام میں اغلاط کی نشاندہی اور ان پر ہلکے سے ردوبدل کے زریعے اصلاح واقعی اپنی نوعیت کا سب سے مختلف اور جانکنی کا کام ہے ۔۔ اگر کسی صاحب کی علم میں آزاد نظم کے عروضی تشکیل کے حوالے سے کوئی کتاب ہو ' تو ہمیں سیکھنے کا موقع ضرور دیجیے
 
مفاعلاتن اصل رکن تو نہیں ہے البتہ مزاحف رکن ہے جو رجز کے مستفعلن سے حاصل ہوتا ہے۔ اصل ارکان کی تعداد تو دس ہی ہے ان میں کسی اور رکن کے اضافے کی ضرورت نہیں۔
 
حاوی اعظم صاحب کی کتاب میں آزاد نظم کا عروضی جائزہ اور اساتذہ کے کلام میں اغلاط کی نشاندہی اور ان پر ہلکے سے ردوبدل کے زریعے اصلاح واقعی اپنی نوعیت کا سب سے مختلف اور جانکنی کا کام ہے ۔۔ اگر کسی صاحب کی علم میں آزاد نظم کے عروضی تشکیل کے حوالے سے کوئی کتاب ہو ' تو ہمیں سیکھنے کا موقع ضرور دیجیے

آزاد نظم کے لیے صرف اتنا قانون سمجھ لیں کہ شاعر کے نزدیک جو لائن یا جتنے الفاظ ایک مصرع کے برابر ہیں انکا رکن کے ساتھ ختم ہونا ضروری ہے۔ اب مصرع مربع بھی ہوسکتا ہے، مسدس بھی، مثمن بھی اور مثمن مضاعف بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ ضرور ہے کہ مصرعے کے ساتھ رکن پورا ہو۔ اور کوئی پابندی یا اصول نہیں۔
 
آزاد نظم کے لیے صرف اتنا قانون سمجھ لیں کہ شاعر کے نزدیک جو لائن یا جتنے الفاظ ایک مصرع کے برابر ہیں انکا رکن کے ساتھ ختم ہونا ضروری ہے۔ اب مصرع مربع بھی ہوسکتا ہے، مسدس بھی، مثمن بھی اور مثمن مضاعف بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ ضرور ہے کہ مصرعے کے ساتھ رکن پورا ہو۔ اور کوئی پابندی یا اصول نہیں۔
شکریہ جناب لیکن آزاد نظم میں ’’مصرعوں‘‘ کی ضخامت برابر نہیں ہوتی، معرٰی نظم میں برابر ہوتی ہے۔
اور یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ آزاد نظم میں مثال کے طور پر ایک رکن ’’فاعلاتن‘‘ کو بنیاد بنایا گیا۔ ہر مصرعے یا سطر کا اختتام ’’تن‘‘ پر نہیں بھی ہوتا،
اور نظم کچھ یوں بھی چلتی ہے، مثلاً:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلا
تن فاعلاتن فاعلاتن فا
علاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلا
تن فاعلاتن فاعلاتن فا
علاتن فاعلاتن فاعلاتن ۔
۔۔۔
 
شکریہ جناب لیکن آزاد نظم میں ’’مصرعوں‘‘ کی ضخامت برابر نہیں ہوتی، معرٰی نظم میں برابر ہوتی ہے۔
اور یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ آزاد نظم میں مثال کے طور پر ایک رکن ’’فاعلاتن‘‘ کو بنیاد بنایا گیا۔ ہر مصرعے یا سطر کا اختتام ’’تن‘‘ پر نہیں بھی ہوتا،
اور نظم کچھ یوں بھی چلتی ہے، مثلاً:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلا
تن فاعلاتن فاعلاتن فا
علاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلا
تن فاعلاتن فاعلاتن فا
علاتن فاعلاتن فاعلاتن ۔
۔۔۔

میں جانتا ہوں کہ آزاد نظم میں ایسے اختیارات کو اکثر استعمال کیا گیا ہے۔ البتہ ناقدین کے یہاں یہ اختیارات اور بحر کا اس طرح کا استعمال بے جا تصور کیا جاتا ہے۔ ناقدین اس سے بیزار ہیں۔ بہر حال اختیار تو شاعر کا ہے۔ جیسا چاہے استعمال کرے :)
 
میں جانتا ہوں کہ آزاد نظم میں ایسے اختیارات کو اکثر استعمال کیا گیا ہے۔ البتہ ناقدین کے یہاں یہ اختیارات اور بحر کا اس طرح کا استعمال بے جا تصور کیا جاتا ہے۔ ناقدین اس سے بیزار ہیں۔ بہر حال اختیار تو شاعر کا ہے۔ جیسا چاہے استعمال کرے :)

ناقدین کی اپنی بادشاہی ہے، جسے چاہیں اختیار دے دیں، جسے چاہیں محروم کر دیں۔
جسے چاہیں پابند کر دیں، جسے چاہیں آزادی عطا فرما دیں۔
 
ناقدین کی اپنی بادشاہی ہے، جسے چاہیں اختیار دے دیں، جسے چاہیں محروم کر دیں۔
جسے چاہیں پابند کر دیں، جسے چاہیں آزادی عطا فرما دیں۔
گویا شیر کی مرضی انڈے دے یا بچے دے
ہمیں اعتراض مہنگا پڑ سکتا ہے
کیوں استاد جی؟ :idontknow:
 
میرا تجربہ تو یہی کہتا ہے۔ آپ کی صحت اگر اجازت دے تو ست بسم اللہ!
اصل میں نقاد اپنی پسند اور ناپسند کے اسیر ہیں
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے انور سدید نے کسی شاعر کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا "میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسکا نام میری زبان پر آیا تو میری زبان پلیدہو جائے گی"
 
Top