محمد خرم یاسین
محفلین
فیض کی نظم ’’کتے‘‘ ساختیات(Structuralism) کے آئینے میں
محمد خرم یاسین
ساختیات (Structuralism) جس کا آغاز ساسئیر (Ferdinand de Saussure) کے لسانیات پردروس سے ہوتا ہے، نے نہ صرف ارسطو کے زمانے سے چلے آرہے قدیم لسانی تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا بلکہ طب ، نفسیات ، فلسفہ اور بشیریات ایسے شعبہ جات کو بھی متاثر کیا۔ اس کی اثر پذیری جرمنی اور فرانس سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلی اور اس کے مبا حث کاآغاز اردو دنیا میں بھی ہونے لگا۔ لیکن تا حال اس حوالے سے اردو میں کیا گیا کام نامکمل دکھائی دیتا ہے۔ بال خصوص جب ساختیات کے اطلاقی پہلو کی بات کی جائے تو نفسیاتی، معاشرتی یا سماجی ،معاشی ،اسلوبی اور جمالیاتی تنقید کے مقابل یہ میدان خالی دکھائی دیتا ہے۔ ساختیات کے حوالے سے جے اے کڈن تحریر کرتے ہیں کہ ساختیات چوں کہ علامت ، اشارہ، معنیت اور اس کے معاشرتی تعلق کا نظام ہے اس لیے یہ محض زبان سے آگے کی چیز ہے۔
"Not just the language of utterance in speech and writing. It is concerned with signs and thus with signification. Structuralist theory considers all conventions and codes of communication; for example, all forms of signal (smoke,fire, traffic lights, Morse, flags, gesture), body language, status symbols and so on."(1)
جب کہ ساختیات کے طریق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ناصر عباس نئیر تحریر کرتے ہیں کہ ۔:
’’ساختیات کسی ثقافتی مظہر کے کلی نظام (ساخت) کو دریافت کرنے کا ایک طریق ہے ، جیسا کہ جدلیات ہے۔ جدلیات فلسفیانہ طریق ہے اور ساختیات سائنسی۔ تاہم دونوں کا مقصد حقیقت کی کلیت تک پہنچنا ہے۔ ۔۔۔‘‘(۲)
ساختیات(Structuralism) درحقیقت کسی بھی ادب پارے،نظم و نثرکی ساخت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں موجودکوڈز(Codes) جن میں مختلف معاشرتی، تہذیبی اورثقافتی،نشانات،اشارات، علامات، استعارات ، تشبیہات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ،کنوینشنز(Conventions )جن میں روایات و رسمیات وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور شعریات و معنیات کا مکمل نظام موجود ہے، کی نشاندہی کرتی ہے۔ ساختیا ت کے اطلاقی پہلو سے قبل فیض احمد فیض کی نظم ’’کتے ‘‘ ملاحظہ کیجیے :
کتّے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانہ کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے(۳)
یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ میں موجود علامہ محمد اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم ’’طارق کی دعا ‘‘ کی تحریف ہے جس کامصرعہ اولیٰ ’’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘‘ ہے۔ فیض احمد فیض نہ صرف علامہ محمد اقبال سے متاثر تھے بلکہ ان کے والد محترم علامہ اقبال کے دوستوں میں بھی شامل تھے۔ خود فیض بچپن سے جوانی تک علامہ اقبال سے کئی ملاقاتیں کرچکے تھے۔ ایسے میں دو اہم شعراکے ہاں ایک ہی قوم کے افراد کے لیے’’غازی و پراسرار بندے ‘‘ سے ’’کتے‘‘ تک کا سفر نہایت کشمکش اور اضطرا ب کا حامل دکھائی دیتا ہے اور بنا ساختیاتی مطالعے کے اس نظم کے معانی و مفاہیم تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے ۔دونوں شعرا کے ہاں مقاصد کا تعین ہی ان کی نظموں کی معنیات (Sementics)تک رسائی دیتا ہے۔ علی احمد فاطمی فیض اور اقبا ل کے مقاصد کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اقبال فرد کی خودی کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور فرد کی اس بیداری کو اجتماعی بہبود کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور اجتماعی خیر کا تصور وہ قرآن سے لیتے ہیں اس کے برعکس فیض انفرادی سے زیادہ اجتماعی بیداری پر یقین رکھتے ہیں اور اجتماعیت کا تصور مذہب تصوف وغیرہ سے آگے بڑھ کر اشتراکیت سے جوڑدیتے ہیں۔ اقبال بیداری کے لیے اخلاقیات اور روحانیات سے رشتہ استوار کرتے ہیں۔ فیض بیدار ی اور حق داری کے لیے جدلیاتی مادیت و ماہیت کے راستے پر جاتے ہیں جو آگے بڑھ کر احتجاج اور انقلاب کا راستہ اپنالیتی ہے۔ ‘‘(۴)
گویا دونوں شعرا کے ہاں مقصد اگرچہ قوم کی بیداری ہی ہے لیکن ایک جانب روشن ماضی سے سبق اندوز ہوکر پھر سے جی اٹھنے کا درس دیا جارہا ہے اوردوسری جانب عصری حالات کے پیش نظر ظلم و جبر کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک دی جارہی ہے ۔
ساختیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو نظم کا عنوان ’’کتّے‘‘جو’کہ ایک جانور ’ کتا ‘‘ کی جمع کا صیغہ ہے، درحقیقت مظلومیت کی ایک علامت اور استعارہ(Sign)ہے ۔ کتے کو مشرق کے مقابل مغرب میں عزت بھی دی جاتی ہے اور چھوٹے بچوں سے بڑی عمر تک کے افراد اسے پالتے بھی ہیں ۔ اس کے گم ہوجانے پر اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں اور اس کی موت پر سوگ منایا جاتا ہے۔ فیض کے پیشِ نظر مشرق کا منظر نامہ ہے۔ نظم میں انھوںنے کتّے کو ذلت و خواری بدنصیبی اور کمتری کا استعارہ (Sign)بنا کر پیش کیا ہے۔ نظم کا عنوان درحقیقت ایک سوشل کوڈ ہے (Social Code)ہے جس کا معنی یہاں کی تہذیب و معاشرت کے مطالعے کے بنا سمجھنا معنیات ( Sementics)سے متصادم ٹھہرتا ہے اور ’’کتے‘‘کا تصور انسان کی ذلت و خواری کے روپ کے بجائے محض ایک جانور تک محدود ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ساختیات کے مطابق زبان ایسی شفاف شے(Transparent Medium) نہیں ہے جس کے آر پار جھانکا جاسکے اس لیے اس نظم کا انگلش میں ترجمہ کرتے ہوئے محض لفظی ترجمے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ مذکورہ نظم کے پہلے چند مصرعوں کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مترجمین داؤد کمال اورخالد حسن نظم کے اندر جھانکنے میں مکمل طورپر کامیاب نہیں ہوپائے۔
Dogs
Stray street dogs -
importunate beggars by birth.
Contempt has been their lot
from the beginning of time
and wretchedness their only reward.
The nights are hell for them
and the days purgatory.(5)
نظم میں کتے سے مراد سرمایہ دارانہ نظام میں پستے ہوئے وہ مزدور اور بے بس انسان ہیں جو مکمل طورپر اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہیں۔ چوں کہ معنی کے تعین کے لیے یہاں کتے کے مشرق میں حالات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اس لیے اس کا اشارہ پاکستان اور بھارت ایسے ممالک سے ہے۔ گو کہ یہاں کتا خود ذلت و خواری کا نشان (Sign)ہے لیکن مجموعی طورپر یہ نظم مشرق میں کتے ایسے نجس جانور کی بظاہرحالت ِ زار کی جانبسگنی فائیر (Signifier)ہے ۔ با ت یہاں مکمل نہیں ہوتی ، کتے کی حالت زار کا مفہوم کہیں زیادہ گہری ساخت (Structure)میں مضمر ہے اورساختیات، اس کے مزید گہرے مطالعے کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم مشرق میں کتے ہی کی حالت نہیں بلکہ اس جیسی زندگی گزارنے والے سبھی انسانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ہر مصرعہ ایک رمز (Trace) ہے جو حقیقت کی جانب توجہ دلاتا ہے۔کتا محضاستعارہ بھی نہیں بلکہ ایک مجموعی نظام کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔اس کی ذلت و خواری اور اس پر ہونے والا ظلم ، انسانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے مترداف ٹھہرتا ہے اور یہاں کتوں سے بدتر معاشی زندگی گزارتے ان لوگوں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مجبور اور محکوم ہیں۔ اب اس نظم کو پڑھتے ہوئے کتوں کے حالات میں جس عموم کی جانب اشارہ جاتا ہے وہ ان مزدوروں کی جانب جاتا ہے جن کے بچے غربت و افلاس میں سسکتے ہیں، تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ،کچی بستیوں میں رہتے ہیں اور جب چاہے حاکمِ وقت ان کی جھونپڑیاں اکھاڑ پھینکتا ہے، ان کی بچیاں کم عمری میں انھی ایسے غریبوں سے بیاہی جاتی ہیں جہاں وہ ادھ مرے بھوکے بچوں کو جنم دیتی ہیں ۔ ان کے بچے سکول نہیں پہنچ پاتے اور ان کا بچپن بھٹہ خشت یا پھر چائے کے پھٹوں پر گزرتا ہے۔یہ نظم مجموعی طور پر ایک ایسے نظام کی علامت (Sign)ہے جو نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں بہت سے مقامات پر انسانوں اور جانوروں میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔
نظم کے پہلے مصرعے ’’یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے‘‘میں ’’یہ ‘‘ اشارہ قریب ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ فیض قریب ہی کسی شے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔ ان کے گرد و پیش میں موجود لوگ ان کے نشانے پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جوحد غربت سے کم تر سطح پر زندگی گزارنے پر مجبوریں۔یہاں سسکتے انسانوں کے لیے ’’آوارہ اور بے کار کتے ‘‘ کے الفاظ فیض کے پیشِ نظر عالمی معاشی فلسفہ اشتراک کے ڈسکورس (Discource)کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی سب سے مظلوم طبقہ ہے جو اپنے حقوق سے غافل زندگی گزا ر رہا ہے۔ دوسرے مصرعے ’’کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی‘‘میں ذوقِ گدائی کا تعلق ’’بخشا گیا ۔۔‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں فیض نے مصرعے کو اجنبیانے (Defemilirize)کرنے کی کوشش کی ہے۔ گدائی شوق یا مشغلہ نہیں ، نہ ہی وراثت سے منتقلی کی مثال ہے۔ حالات و واقعات ایسے پیدا کردیئے جائیں کہ انسان کے پاس چوری یا طلب و قرض کے سوا کوئی چارہ نہ بچے تو اسے حالات کا جبر و ستم یا لطیف پیرائے میں بخشش کہا جاسکتا ہے بصورتِ دیگر اس کریہہ پیشے کو بخشش نہیں کہا جاسکتا ۔ ساختیاتی حوالے سے یہاں چوں کہ الفاظ کے معانی واضح ہیں لیکن الفاظ کو اجنبیایاگیا ہے اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فیض یہاں اس طبقے پر مسلط کیے جانے والے ظلم کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
تیسرے اور چوتھے مصرعے میں بھی فیض زمانے کی پھٹکار اور دھتکار کو کو ان کا ’’سرمایہ‘‘ اور’’ کمائی‘‘کہہ کر مصرعوں کو اجنبیایاہے جس سے شعریت (Poetics)کا عمومی تاثر بھی ابھرتا ہے اور ان مزدور پیشہ لوگوں کے لیے قارئین کے دل میں محبت جاگ اٹھتی ہے۔ دوسری جانب’’ پھٹکا ر‘‘ کے مقابل ’’سرمایہ‘‘ اور’’دھتکار‘‘ کے مقابل’’ کمائی‘‘ ایسے افتراقی جوڑوں(Binary Oppositions)کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو مصرعے کے مقصد کی ادائی میں کلیدی کردار ادار کرتے ہیں۔اگلے مصرعے ’’نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے‘‘میں پھر سے شب اور سویرے کو افتراقی جوڑوں (Binary Oppositions)کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے۔یہ جوڑا ایک دوسرے سے متضاد ہی نہیں بلکہ وقت کے ایک مکمل دائرے کو بھی ظاہر کرتا ہے جو پھیلتا ہوا غربت کے جملہ مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ یہاں یہ مصرعہ اگر نظم کے مجموعی مزاج کے مطابق دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کتوں کی زندگی کے عمومی حالات سے ہے لیکن اگر انفرادی طورپر دیکھا جائے تو اس کا تکلم یا پیرول (Parole) اس سے اگلے مصرعے ’’غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے‘‘کے ساتھ مل کر اسے نہ صرف مکمل کرتا ہے بلکہ فیض کے کل اسلوبی نظام کی اس خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے جس کے تحت زبان کے تجریدی نظام( لینگ langue)سے الفاظ تکلم (پیرولParole) میں ترتیب پاتے ہیں ۔’’ غلاظت ‘‘، ’’نالیوں ‘‘ اور بسیرے‘‘ کے متبادل بہت سے الفاظ جیسے گندگی، ناپاکی، کوڑے کے ڈھیر، گھر، بسر اور ٹھکانے وغیرہ موجود تھے لیکن فیض نے لینگ سے ان الفاظ کاانتخاب کیا جو نہ صرف ان کے جذبات کی زیادہ وسیع درجے پر ترجمانی کرسکیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی شعریت کے اصول(Synchronization) کے مطا بق نظم کے مصرعے کو بے وزن ہونے سے بھی بچاسکیں۔
اگلے دو مصرعوں ’’جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو‘‘ اور’’ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو‘‘میں عمومی معاشرتی رویوں کے رموز (Traces) دئیے گئے ہیں۔ یہ سارے معاشرے کے غریبوں کی عمومی نفسیات ہے جس کے مطابق امیر شہر کے کتے راج کرتے ہیں اور غریب شہر ایک ایک نوالے کو ترستا رہتا ہے۔ ایسا اس نا انصافی اور معاشرتی خباثت کی وجہ سے ہوتا ہے جو حاکمِ وقت روا رکھتا ہے۔ یہ معاشرتی رویے بھی درحقیقت مصدقہ مباحث ( Discource)کا حصہ ہیںاور ان عمومی حالات کی جانب اشارہ ہے جن کی وجہ سے لوگ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
نظم کا دوسرا حصہ ’’کتوں ‘‘ کو سر اٹھا نے کی ترغیب سے عبارت ہے۔رولنڈبارتھیز کے نظریے بین المتنیت (Intertextuality) کے مطابق کوئی بھی ادب پارہ ہوا میں تخلیق نہیں ہوتا۔ یہاں اس نظریے کا اطلاق کیا جائے تو فیض اس امر سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں کہ یہ غلیظ اور دھتکاری ہوئی مخلوق یعنی کتے اگر کسی انسان کی جانب لپکیںاور کاٹنے کے بجائے محض بھونکنے پر بھی اکتفا کریں تووہ چاہے جتنے بھی مضبوط اعصاب کا مالک ہو، اس کے ہاتھ پاؤں پھلانے اور دل دہلانے کی سکت رکھتے ہیں۔ اگر یہ کتے اپنی اپنی روٹی کے وہ ٹکڑے جن سے ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور اپنے مالک کے پاؤں کے تلوے چاٹنا چھوڑ دیں اور یک مشت ، یک جا اور متحد ہوکر ظالم کی جانب بڑھیں تو یہ اس سے تمام روٹیوں چھین لینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ چوں کہ اس سے بے خبر ہیں اس لیے معاملہ ان کے متضاد ٹھہرتا ہے۔ اسی ضمن میں وہ انسانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ اگر یہ مظلوم مخلوق سر اٹھانا شروع کردے تو مالک ان کے سامنے سر جھکا لے۔ یہاں ’’تو انسان سب سرکشی بھول جائے‘‘ میں ’’انسان‘‘ ایک کوڈ (Code)ہے جو اس کے متضاد سے عبارت ہے۔ یہاں کتوں کے مقابل انسان کو لایا گیا ہے جب کہ نظم کی بین المتنیت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں انسانوں کے مقابل ایک ظالم صفت انسان کا بیان ہورہا ہے۔ یہاں قارئین اگر نظم کے معاشرتی و ثقافتی پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں نظم میں موجود سارے نظامِ فکر (Process)کو سمجھنا مشکل ہوجائے گا اور اس کی لکھاری کے خیالات کے ساتھ تطبیق (Adjustment)بھی مشکل ہوجائے گی ۔ساختیات بھی یہی کہتی ہے کہ زبان ایسی شفا ف (Transparent) ذریعہ اظہار ذریعہ نہیں جس کے آر پار جھانکا جاسکے۔
ٍٍٍ آخری چار مصرعوں میں فیض احمد فیض اپنے ذہنی کرب کی نمائندگی کے لیے منتخب الفاظ میں نیا اضافہ کرتے ہیں اور ان کی مجموعی صورتِ حال پر افسوس کرتے ہوئے مزدوروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس میں وہ ایسے مہیج(Stimulus) کی تلاش کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو ان میں احساسِ غیرت بھر دے اور انھیں اس قابل کردے کہ وہ اپنا نفع نقصان سمجھ سکیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑ سکیں۔ نظم کا دوسرا حصہ درحقیقت ساختیاتی حوالے سے قابلِ فہم (Intelligibile) ہے اور کتے کے ضمن میں بیان کیے گئے انسانوں کے حالات و واقعات کو نئے سرے سے دکھانے کی کوشش ہے۔’’یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں‘‘میں ایک سوال اور خلا(Gap)موجود ہے۔ کتے دنیا کو کس طرح اپنا بنا سکتے ہیں جب کہ وہ کمزور، حقیر اور بے بس ہیں ۔ یہ مصرعہ بہت معنی آفرین (Meaningful)ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو بظاہر کمزور اور بے بس ہیں، درحقیقت انھی کے سر پر تہذیب اور معیشت کا دارومدار ہے۔ اگر ان میں بیداری پیدا ہوجائے اور یہ اپنے حقیقی منصب کو پہچان لیں تو دنیا کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیں ۔ یہاں ’’سوئی ہوئی دم‘‘ بھی درحقیقت غیر حقیقی معانی(Difference-based reality) میں مستعمل ہے۔کتے اور سانپ کی دم پر پاؤں آنایا پڑنا اردو کا محاورہ ہے اورساختیاتی حوالے سے رموز (Traces)کا حامل ہے۔یہ ان دونوں جانوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انتہائی خطرناک اور پلٹ کر حملہ کرنے والے ہیں۔ فیض یہاں ’’سوئی ہوئی دم ہلادے ‘‘ کے درپردہ یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ سب اپنے حقوق کے لیے بغاوت پر تیار ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کے کوئی ایسی تکلیف پہنچائی جائے جس کے جواب میں یہ اٹھ کھڑے ہوں یا پھر انھیں کوئی مناسب رہنمائی میسر آجائے۔
حوالہ جات:
1. J. A. CUDDON, A Dictionary of Literary Terms and Literary Theory, FIFTH EDITION, A John Wiley & Sons, Ltd., Publication, 2013, P-684
۲۔ناصر عباس نئیر، ڈاکٹر،’’ ساختیات ایک مطالعہ ‘‘، اسلام آباد، پورب اکیڈمی، ۲۰۱۱، ص :۱۵
۳۔فیض احمد فیض، کلیاتِ فیض ، نقش فریادی، دلی:پرویز بک ڈپو،،۱۹۵۵ئ، ص ۴۵
۴۔علی احمد فاطمی، فیض ایک نیا مطالعہ، الہ آباد۔:ادارہ نیا سفر،۲۰۱۲ء ، ص۵۳
5.Daud Kamal and Khalid Hasan, Translator, "O City of Lights, Faiz Ahmed Faiz Selected Poetry and Biographical Notes", First Published, New York: Oxford University Press 2006, P-182
محمد خرم یاسین
ساختیات (Structuralism) جس کا آغاز ساسئیر (Ferdinand de Saussure) کے لسانیات پردروس سے ہوتا ہے، نے نہ صرف ارسطو کے زمانے سے چلے آرہے قدیم لسانی تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا بلکہ طب ، نفسیات ، فلسفہ اور بشیریات ایسے شعبہ جات کو بھی متاثر کیا۔ اس کی اثر پذیری جرمنی اور فرانس سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلی اور اس کے مبا حث کاآغاز اردو دنیا میں بھی ہونے لگا۔ لیکن تا حال اس حوالے سے اردو میں کیا گیا کام نامکمل دکھائی دیتا ہے۔ بال خصوص جب ساختیات کے اطلاقی پہلو کی بات کی جائے تو نفسیاتی، معاشرتی یا سماجی ،معاشی ،اسلوبی اور جمالیاتی تنقید کے مقابل یہ میدان خالی دکھائی دیتا ہے۔ ساختیات کے حوالے سے جے اے کڈن تحریر کرتے ہیں کہ ساختیات چوں کہ علامت ، اشارہ، معنیت اور اس کے معاشرتی تعلق کا نظام ہے اس لیے یہ محض زبان سے آگے کی چیز ہے۔
"Not just the language of utterance in speech and writing. It is concerned with signs and thus with signification. Structuralist theory considers all conventions and codes of communication; for example, all forms of signal (smoke,fire, traffic lights, Morse, flags, gesture), body language, status symbols and so on."(1)
جب کہ ساختیات کے طریق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ناصر عباس نئیر تحریر کرتے ہیں کہ ۔:
’’ساختیات کسی ثقافتی مظہر کے کلی نظام (ساخت) کو دریافت کرنے کا ایک طریق ہے ، جیسا کہ جدلیات ہے۔ جدلیات فلسفیانہ طریق ہے اور ساختیات سائنسی۔ تاہم دونوں کا مقصد حقیقت کی کلیت تک پہنچنا ہے۔ ۔۔۔‘‘(۲)
ساختیات(Structuralism) درحقیقت کسی بھی ادب پارے،نظم و نثرکی ساخت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں موجودکوڈز(Codes) جن میں مختلف معاشرتی، تہذیبی اورثقافتی،نشانات،اشارات، علامات، استعارات ، تشبیہات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ،کنوینشنز(Conventions )جن میں روایات و رسمیات وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور شعریات و معنیات کا مکمل نظام موجود ہے، کی نشاندہی کرتی ہے۔ ساختیا ت کے اطلاقی پہلو سے قبل فیض احمد فیض کی نظم ’’کتے ‘‘ ملاحظہ کیجیے :
کتّے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانہ کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے(۳)
یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ میں موجود علامہ محمد اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم ’’طارق کی دعا ‘‘ کی تحریف ہے جس کامصرعہ اولیٰ ’’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘‘ ہے۔ فیض احمد فیض نہ صرف علامہ محمد اقبال سے متاثر تھے بلکہ ان کے والد محترم علامہ اقبال کے دوستوں میں بھی شامل تھے۔ خود فیض بچپن سے جوانی تک علامہ اقبال سے کئی ملاقاتیں کرچکے تھے۔ ایسے میں دو اہم شعراکے ہاں ایک ہی قوم کے افراد کے لیے’’غازی و پراسرار بندے ‘‘ سے ’’کتے‘‘ تک کا سفر نہایت کشمکش اور اضطرا ب کا حامل دکھائی دیتا ہے اور بنا ساختیاتی مطالعے کے اس نظم کے معانی و مفاہیم تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے ۔دونوں شعرا کے ہاں مقاصد کا تعین ہی ان کی نظموں کی معنیات (Sementics)تک رسائی دیتا ہے۔ علی احمد فاطمی فیض اور اقبا ل کے مقاصد کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اقبال فرد کی خودی کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور فرد کی اس بیداری کو اجتماعی بہبود کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور اجتماعی خیر کا تصور وہ قرآن سے لیتے ہیں اس کے برعکس فیض انفرادی سے زیادہ اجتماعی بیداری پر یقین رکھتے ہیں اور اجتماعیت کا تصور مذہب تصوف وغیرہ سے آگے بڑھ کر اشتراکیت سے جوڑدیتے ہیں۔ اقبال بیداری کے لیے اخلاقیات اور روحانیات سے رشتہ استوار کرتے ہیں۔ فیض بیدار ی اور حق داری کے لیے جدلیاتی مادیت و ماہیت کے راستے پر جاتے ہیں جو آگے بڑھ کر احتجاج اور انقلاب کا راستہ اپنالیتی ہے۔ ‘‘(۴)
گویا دونوں شعرا کے ہاں مقصد اگرچہ قوم کی بیداری ہی ہے لیکن ایک جانب روشن ماضی سے سبق اندوز ہوکر پھر سے جی اٹھنے کا درس دیا جارہا ہے اوردوسری جانب عصری حالات کے پیش نظر ظلم و جبر کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک دی جارہی ہے ۔
ساختیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو نظم کا عنوان ’’کتّے‘‘جو’کہ ایک جانور ’ کتا ‘‘ کی جمع کا صیغہ ہے، درحقیقت مظلومیت کی ایک علامت اور استعارہ(Sign)ہے ۔ کتے کو مشرق کے مقابل مغرب میں عزت بھی دی جاتی ہے اور چھوٹے بچوں سے بڑی عمر تک کے افراد اسے پالتے بھی ہیں ۔ اس کے گم ہوجانے پر اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں اور اس کی موت پر سوگ منایا جاتا ہے۔ فیض کے پیشِ نظر مشرق کا منظر نامہ ہے۔ نظم میں انھوںنے کتّے کو ذلت و خواری بدنصیبی اور کمتری کا استعارہ (Sign)بنا کر پیش کیا ہے۔ نظم کا عنوان درحقیقت ایک سوشل کوڈ ہے (Social Code)ہے جس کا معنی یہاں کی تہذیب و معاشرت کے مطالعے کے بنا سمجھنا معنیات ( Sementics)سے متصادم ٹھہرتا ہے اور ’’کتے‘‘کا تصور انسان کی ذلت و خواری کے روپ کے بجائے محض ایک جانور تک محدود ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ساختیات کے مطابق زبان ایسی شفاف شے(Transparent Medium) نہیں ہے جس کے آر پار جھانکا جاسکے اس لیے اس نظم کا انگلش میں ترجمہ کرتے ہوئے محض لفظی ترجمے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ مذکورہ نظم کے پہلے چند مصرعوں کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مترجمین داؤد کمال اورخالد حسن نظم کے اندر جھانکنے میں مکمل طورپر کامیاب نہیں ہوپائے۔
Dogs
Stray street dogs -
importunate beggars by birth.
Contempt has been their lot
from the beginning of time
and wretchedness their only reward.
The nights are hell for them
and the days purgatory.(5)
نظم میں کتے سے مراد سرمایہ دارانہ نظام میں پستے ہوئے وہ مزدور اور بے بس انسان ہیں جو مکمل طورپر اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہیں۔ چوں کہ معنی کے تعین کے لیے یہاں کتے کے مشرق میں حالات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اس لیے اس کا اشارہ پاکستان اور بھارت ایسے ممالک سے ہے۔ گو کہ یہاں کتا خود ذلت و خواری کا نشان (Sign)ہے لیکن مجموعی طورپر یہ نظم مشرق میں کتے ایسے نجس جانور کی بظاہرحالت ِ زار کی جانبسگنی فائیر (Signifier)ہے ۔ با ت یہاں مکمل نہیں ہوتی ، کتے کی حالت زار کا مفہوم کہیں زیادہ گہری ساخت (Structure)میں مضمر ہے اورساختیات، اس کے مزید گہرے مطالعے کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم مشرق میں کتے ہی کی حالت نہیں بلکہ اس جیسی زندگی گزارنے والے سبھی انسانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ہر مصرعہ ایک رمز (Trace) ہے جو حقیقت کی جانب توجہ دلاتا ہے۔کتا محضاستعارہ بھی نہیں بلکہ ایک مجموعی نظام کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔اس کی ذلت و خواری اور اس پر ہونے والا ظلم ، انسانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے مترداف ٹھہرتا ہے اور یہاں کتوں سے بدتر معاشی زندگی گزارتے ان لوگوں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مجبور اور محکوم ہیں۔ اب اس نظم کو پڑھتے ہوئے کتوں کے حالات میں جس عموم کی جانب اشارہ جاتا ہے وہ ان مزدوروں کی جانب جاتا ہے جن کے بچے غربت و افلاس میں سسکتے ہیں، تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ،کچی بستیوں میں رہتے ہیں اور جب چاہے حاکمِ وقت ان کی جھونپڑیاں اکھاڑ پھینکتا ہے، ان کی بچیاں کم عمری میں انھی ایسے غریبوں سے بیاہی جاتی ہیں جہاں وہ ادھ مرے بھوکے بچوں کو جنم دیتی ہیں ۔ ان کے بچے سکول نہیں پہنچ پاتے اور ان کا بچپن بھٹہ خشت یا پھر چائے کے پھٹوں پر گزرتا ہے۔یہ نظم مجموعی طور پر ایک ایسے نظام کی علامت (Sign)ہے جو نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں بہت سے مقامات پر انسانوں اور جانوروں میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔
نظم کے پہلے مصرعے ’’یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے‘‘میں ’’یہ ‘‘ اشارہ قریب ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ فیض قریب ہی کسی شے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔ ان کے گرد و پیش میں موجود لوگ ان کے نشانے پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جوحد غربت سے کم تر سطح پر زندگی گزارنے پر مجبوریں۔یہاں سسکتے انسانوں کے لیے ’’آوارہ اور بے کار کتے ‘‘ کے الفاظ فیض کے پیشِ نظر عالمی معاشی فلسفہ اشتراک کے ڈسکورس (Discource)کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی سب سے مظلوم طبقہ ہے جو اپنے حقوق سے غافل زندگی گزا ر رہا ہے۔ دوسرے مصرعے ’’کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی‘‘میں ذوقِ گدائی کا تعلق ’’بخشا گیا ۔۔‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں فیض نے مصرعے کو اجنبیانے (Defemilirize)کرنے کی کوشش کی ہے۔ گدائی شوق یا مشغلہ نہیں ، نہ ہی وراثت سے منتقلی کی مثال ہے۔ حالات و واقعات ایسے پیدا کردیئے جائیں کہ انسان کے پاس چوری یا طلب و قرض کے سوا کوئی چارہ نہ بچے تو اسے حالات کا جبر و ستم یا لطیف پیرائے میں بخشش کہا جاسکتا ہے بصورتِ دیگر اس کریہہ پیشے کو بخشش نہیں کہا جاسکتا ۔ ساختیاتی حوالے سے یہاں چوں کہ الفاظ کے معانی واضح ہیں لیکن الفاظ کو اجنبیایاگیا ہے اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فیض یہاں اس طبقے پر مسلط کیے جانے والے ظلم کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
تیسرے اور چوتھے مصرعے میں بھی فیض زمانے کی پھٹکار اور دھتکار کو کو ان کا ’’سرمایہ‘‘ اور’’ کمائی‘‘کہہ کر مصرعوں کو اجنبیایاہے جس سے شعریت (Poetics)کا عمومی تاثر بھی ابھرتا ہے اور ان مزدور پیشہ لوگوں کے لیے قارئین کے دل میں محبت جاگ اٹھتی ہے۔ دوسری جانب’’ پھٹکا ر‘‘ کے مقابل ’’سرمایہ‘‘ اور’’دھتکار‘‘ کے مقابل’’ کمائی‘‘ ایسے افتراقی جوڑوں(Binary Oppositions)کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو مصرعے کے مقصد کی ادائی میں کلیدی کردار ادار کرتے ہیں۔اگلے مصرعے ’’نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے‘‘میں پھر سے شب اور سویرے کو افتراقی جوڑوں (Binary Oppositions)کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے۔یہ جوڑا ایک دوسرے سے متضاد ہی نہیں بلکہ وقت کے ایک مکمل دائرے کو بھی ظاہر کرتا ہے جو پھیلتا ہوا غربت کے جملہ مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ یہاں یہ مصرعہ اگر نظم کے مجموعی مزاج کے مطابق دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کتوں کی زندگی کے عمومی حالات سے ہے لیکن اگر انفرادی طورپر دیکھا جائے تو اس کا تکلم یا پیرول (Parole) اس سے اگلے مصرعے ’’غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے‘‘کے ساتھ مل کر اسے نہ صرف مکمل کرتا ہے بلکہ فیض کے کل اسلوبی نظام کی اس خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے جس کے تحت زبان کے تجریدی نظام( لینگ langue)سے الفاظ تکلم (پیرولParole) میں ترتیب پاتے ہیں ۔’’ غلاظت ‘‘، ’’نالیوں ‘‘ اور بسیرے‘‘ کے متبادل بہت سے الفاظ جیسے گندگی، ناپاکی، کوڑے کے ڈھیر، گھر، بسر اور ٹھکانے وغیرہ موجود تھے لیکن فیض نے لینگ سے ان الفاظ کاانتخاب کیا جو نہ صرف ان کے جذبات کی زیادہ وسیع درجے پر ترجمانی کرسکیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی شعریت کے اصول(Synchronization) کے مطا بق نظم کے مصرعے کو بے وزن ہونے سے بھی بچاسکیں۔
اگلے دو مصرعوں ’’جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو‘‘ اور’’ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو‘‘میں عمومی معاشرتی رویوں کے رموز (Traces) دئیے گئے ہیں۔ یہ سارے معاشرے کے غریبوں کی عمومی نفسیات ہے جس کے مطابق امیر شہر کے کتے راج کرتے ہیں اور غریب شہر ایک ایک نوالے کو ترستا رہتا ہے۔ ایسا اس نا انصافی اور معاشرتی خباثت کی وجہ سے ہوتا ہے جو حاکمِ وقت روا رکھتا ہے۔ یہ معاشرتی رویے بھی درحقیقت مصدقہ مباحث ( Discource)کا حصہ ہیںاور ان عمومی حالات کی جانب اشارہ ہے جن کی وجہ سے لوگ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
نظم کا دوسرا حصہ ’’کتوں ‘‘ کو سر اٹھا نے کی ترغیب سے عبارت ہے۔رولنڈبارتھیز کے نظریے بین المتنیت (Intertextuality) کے مطابق کوئی بھی ادب پارہ ہوا میں تخلیق نہیں ہوتا۔ یہاں اس نظریے کا اطلاق کیا جائے تو فیض اس امر سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں کہ یہ غلیظ اور دھتکاری ہوئی مخلوق یعنی کتے اگر کسی انسان کی جانب لپکیںاور کاٹنے کے بجائے محض بھونکنے پر بھی اکتفا کریں تووہ چاہے جتنے بھی مضبوط اعصاب کا مالک ہو، اس کے ہاتھ پاؤں پھلانے اور دل دہلانے کی سکت رکھتے ہیں۔ اگر یہ کتے اپنی اپنی روٹی کے وہ ٹکڑے جن سے ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور اپنے مالک کے پاؤں کے تلوے چاٹنا چھوڑ دیں اور یک مشت ، یک جا اور متحد ہوکر ظالم کی جانب بڑھیں تو یہ اس سے تمام روٹیوں چھین لینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ چوں کہ اس سے بے خبر ہیں اس لیے معاملہ ان کے متضاد ٹھہرتا ہے۔ اسی ضمن میں وہ انسانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ اگر یہ مظلوم مخلوق سر اٹھانا شروع کردے تو مالک ان کے سامنے سر جھکا لے۔ یہاں ’’تو انسان سب سرکشی بھول جائے‘‘ میں ’’انسان‘‘ ایک کوڈ (Code)ہے جو اس کے متضاد سے عبارت ہے۔ یہاں کتوں کے مقابل انسان کو لایا گیا ہے جب کہ نظم کی بین المتنیت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں انسانوں کے مقابل ایک ظالم صفت انسان کا بیان ہورہا ہے۔ یہاں قارئین اگر نظم کے معاشرتی و ثقافتی پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں نظم میں موجود سارے نظامِ فکر (Process)کو سمجھنا مشکل ہوجائے گا اور اس کی لکھاری کے خیالات کے ساتھ تطبیق (Adjustment)بھی مشکل ہوجائے گی ۔ساختیات بھی یہی کہتی ہے کہ زبان ایسی شفا ف (Transparent) ذریعہ اظہار ذریعہ نہیں جس کے آر پار جھانکا جاسکے۔
ٍٍٍ آخری چار مصرعوں میں فیض احمد فیض اپنے ذہنی کرب کی نمائندگی کے لیے منتخب الفاظ میں نیا اضافہ کرتے ہیں اور ان کی مجموعی صورتِ حال پر افسوس کرتے ہوئے مزدوروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس میں وہ ایسے مہیج(Stimulus) کی تلاش کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو ان میں احساسِ غیرت بھر دے اور انھیں اس قابل کردے کہ وہ اپنا نفع نقصان سمجھ سکیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑ سکیں۔ نظم کا دوسرا حصہ درحقیقت ساختیاتی حوالے سے قابلِ فہم (Intelligibile) ہے اور کتے کے ضمن میں بیان کیے گئے انسانوں کے حالات و واقعات کو نئے سرے سے دکھانے کی کوشش ہے۔’’یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں‘‘میں ایک سوال اور خلا(Gap)موجود ہے۔ کتے دنیا کو کس طرح اپنا بنا سکتے ہیں جب کہ وہ کمزور، حقیر اور بے بس ہیں ۔ یہ مصرعہ بہت معنی آفرین (Meaningful)ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو بظاہر کمزور اور بے بس ہیں، درحقیقت انھی کے سر پر تہذیب اور معیشت کا دارومدار ہے۔ اگر ان میں بیداری پیدا ہوجائے اور یہ اپنے حقیقی منصب کو پہچان لیں تو دنیا کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیں ۔ یہاں ’’سوئی ہوئی دم‘‘ بھی درحقیقت غیر حقیقی معانی(Difference-based reality) میں مستعمل ہے۔کتے اور سانپ کی دم پر پاؤں آنایا پڑنا اردو کا محاورہ ہے اورساختیاتی حوالے سے رموز (Traces)کا حامل ہے۔یہ ان دونوں جانوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انتہائی خطرناک اور پلٹ کر حملہ کرنے والے ہیں۔ فیض یہاں ’’سوئی ہوئی دم ہلادے ‘‘ کے درپردہ یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ سب اپنے حقوق کے لیے بغاوت پر تیار ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کے کوئی ایسی تکلیف پہنچائی جائے جس کے جواب میں یہ اٹھ کھڑے ہوں یا پھر انھیں کوئی مناسب رہنمائی میسر آجائے۔
حوالہ جات:
1. J. A. CUDDON, A Dictionary of Literary Terms and Literary Theory, FIFTH EDITION, A John Wiley & Sons, Ltd., Publication, 2013, P-684
۲۔ناصر عباس نئیر، ڈاکٹر،’’ ساختیات ایک مطالعہ ‘‘، اسلام آباد، پورب اکیڈمی، ۲۰۱۱، ص :۱۵
۳۔فیض احمد فیض، کلیاتِ فیض ، نقش فریادی، دلی:پرویز بک ڈپو،،۱۹۵۵ئ، ص ۴۵
۴۔علی احمد فاطمی، فیض ایک نیا مطالعہ، الہ آباد۔:ادارہ نیا سفر،۲۰۱۲ء ، ص۵۳
5.Daud Kamal and Khalid Hasan, Translator, "O City of Lights, Faiz Ahmed Faiz Selected Poetry and Biographical Notes", First Published, New York: Oxford University Press 2006, P-182