فیملی ٹری

عظیم خواجہ

محفلین
بچپن میں جب کبھی بڑے بھائ بہن یا ابّا فیملی ٹری (family tree) کی بات کرتے تھے تو میں سمجھتا تھا ہمارے گھر کے صحن میں لگے بوڑھے نیم کے درخت کی بات ہو رہی ہے۔

اس عمر میں یہ تو پتہ تھا کہ ہمارے سب سے چھوٹے بھائ کو کسی نے درخت سے توڑ کر امّا کے پاس اسپتال پہنچا دیا تھا اور ہم سب خاندان والے اسکےدنیا میں آجانے کی خبر سن کر کمبل میں لپیٹ کر اسے گھر لے آئے تھے۔ لیکن یہ بات کہ امّا ابّا اور دادی امّا بھی کسی درخت سے توڑے گئے تھے عقل میں نہیں سماتی تھی۔

مجھے یوں لگتا تھا کہ ہمارا نیم کا درخت ہمارے گھر کے سب حال جانتا ہے۔ جو ترکاری رات کو پکنی ہوتی تھی امّا اور دادی امّا اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر کاٹا کرتی تھیں۔ امّا کی گھر داری اور ابّا کے دیئے ہوئے خرچے کے پیسوں کا مہینے بھر کا حساب، ہماری اسکول کی فیس میں دیرسویر، ہماری چچا ذاد بہن کی جان لیوا بیماری اور انکی زندگی کے بچے کچے دن ۰۰۰ یہ سب باتیں صحن میں لگے اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر کی جاتی تھیں اور لگتا تھا کہ نیم کا درخت سب سن رہا ہے۔

مجھے یاد ہے جس دن ہماری بڑی بہن کا رشتہ آیا تھا تو امّا اور ابّا اس بات کو راز رکھنے کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے ہم بھائ بہنوں کو باہر نہ آنے کا کہہ کر صحن میں چلے گئے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا کہ ابّا بار بار اوپر دیکھ کر کچھ کہتے تھے جیسے درخت سے پوچھ رہے ہوں کہ اس کی کیا رائے ہے۔

میں کم عمر ہونے کے باوجود یہ بات سمجھتا تھا کہ ابّا اکثر اپنے مسائل اس درخت سے کہتے ہیں۔ یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی تھی کیونکہ امّا سمیت ہم سب بھائ بہن یہ سمجھتے تھے کہ ابّا کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی انہیں ہر بات کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے سب فیصلے خود کرتے ہیں۔

گرمیوں کے دن تھےاور ایک رات اس قدر گرمی تھی کہ لگتا تھا آگ برس رہی ہو۔ کانکریٹ کی دیواریں تپ رہی تھیں اور ہمارے پرانے پنکھے اپنی تمام کوشش کے بعد بھی ہمارےکسی کام نہیں آ رہے تھے۔ گھر کے اندر سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا اور ہم سب اپنے بستروں پر ادھ موئے پڑے تھے۔امّا پسینے سے شرابور وقفے وقفے سے ہم بھائ بہنوں، ابّا اور دادی امّا کے سرہانے بیٹھ کر پنکھا جھلتیں اور اپنا پسینہ پوچھتی جاتیں۔

جب رہا نہ گیا تو اٹھ کر باہر صحن میں چلی گئیں، تھوڑی دیر بعد واپس آئیں کچھ بچھونے اور تکیے اٹھا ئے اور ہم سبھوں کو باہر صحن میں جا کر سونے کے لئے کہا۔ عام طور پر صحن میں رہنے کی اجازت ہمیں صرف مغرب کے وقت تک تھی۔ امّاں کہتی تھیں درخت بھی سورج ڈھلنے کے بعد آرام کرتے ہیں اور ہم بچے شور بہت کرتے ہیں۔ اس رات ہم پہلی بار صحن میں سونے گئے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور فرش قدرے ٹھنڈا تھا۔

تھوڑی دیر میں ابّا کے دھیمے دھیمے خراٹے سنائ دینے لگے۔ پھر ہلکے ہلکے باقی بھائ بہنوں اور دادی امّا کی سانس کی آوازوں سے لگا کہ ان میں سے بھی اب کوئ بیدار نہیں۔

میں نے اپنا سر تکیے سے اٹھا کر دونو طرف دیکھا تو اما کی آنکھوں پر چاند کی چمکتی ہوئ روشنی سے پتہ چلا کہ وہ ابھی تک جاگ رہی ہیں۔ کیونکہ نیند مجھے بھی نہیں آرہی تھی اس لیے اپنے دائیں طرف کھسک کے امّا کے نزدیک ہو گیا اور نرم آواز میں پوچھا آپ سب سے زیادہ تھکتی ہیں پھر کیوں جاگ رہی ہیں؟ امّا نے اپنا منہ میری طرف موڑ لیا اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں میرے بالوں میں ڈال کر میرا سر سہلاتے ہوئے بولیں، اس طرح کھلے آسمان کے نیچے تم لوگوں کو سوتا چھوڑ کر اگر میں بھی سو گئ تو تم لوگوں کو کون دیکھے گا۔

ویسے جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں کبھی کوئ ایسی بات نہیں ہوئ تھی کہ اماں کی پریشانی کی وجہ سمجھ میں آتی پھر بھی میں نے اپنے جانتے پوری کوشش کی کہ امّا کے ساتھ جاگتا رہوں مگر کب نیند آئ یاد نہیں۔

سورج ابھی اوپر نہیں آیا تھا کہ میری آنکھ کھل گئ۔ پہلا خیال یہ آیا کہ امّا سے کہوں کہ اب وہ سو جائیں، دیکھا تو اماں اپنی آنکھوں کو اپنے پلو سے ڈھانپے جاگے رہنے کی کوشش میں تقریباً سو چکی تھیں۔

بچپن میں سورج نکلنے سے پہلے آنکھ کھل جانے کی ایک الگ خوشی ہوا کرتی تھی۔ میں نے یہ یقین کرنے کے لیےکہ واقعی صبح ابھی ہونی باقی ہے آسمان کی طرف دیکھا تو نیم کا درخت میری طرف ہی دیکھ رھا تھا بلکہ شاید ہم سبہوں کو دیکھ رہا تھا۰۰۰ ایسے۰۰۰ جیسے کہ وہ رات بھر ہماری حفاظت کے لیے جاگا ہو۔

سورج اب اتنا اوپر آچکا تھا کہ اسکی کرنوں کی تپش چہروں کو بیچین کر نے لگی تھیں۔

میں نے چاہا کہ درخت سے کہوں اب کوئ فکر نہیں، سورج نکل گیا ہے اب آپ بھی سو جائیے۔ لیکن پورے دن اور رات کا جاگا ہوا فیملی ٹری ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا۔

عظیم خواجہ
۱۲ اگست۔ شکاگو
 

عظیم خواجہ

محفلین
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دلچسپ تحریر!

بچپن کی یاد دلا دی آپ نے، ہمارے گھر میں بہت سے درخت تھے جس طرف بھی رخ ہو درختوں کی شاخیں اور پتے ہلتے سرسراتے سامنے موجود اور مجھے شوق ہوتا تھا رات کو درختوں پر جنوں اور پریوں کے خاندان ڈھونڈنے کا پر افسوس کہ کبھی بھی کچھ دکھائی نہ دیا!
 

عظیم خواجہ

محفلین
دلچسپ تحریر!

بچپن کی یاد دلا دی آپ نے، ہمارے گھر میں بہت سے درخت تھے جس طرف بھی رخ ہو درختوں کی شاخیں اور پتے ہلتے سرسراتے سامنے موجود اور مجھے شوق ہوتا تھا رات کو درختوں پر جنوں اور پریوں کے خاندان ڈھونڈنے کا پر افسوس کہ کبھی بھی کچھ دکھائی نہ دیا!
چلیں کچھ یادیں تو تازہ کر سکا۔ بےحد شکریہ۔

کتنا آساں سفر تھا بچپن کا
رخ جدھر چاہے موڑ لیتے تھے
جن کی باتوں سے ٹوٹتے تھے دل
انکی باتوں سے جوڑ لیتے تھے
پھل تھے مہنگے بہت دکانوں میں
ہم درختوں سے توڑ لیتے تھے

اس میں جن وہ والا نہیں جس کی آپکو تلاش تھی
 
Top