محمد ریحان قریشی
محفلین
آج کے دن میں کوئی خاص بات نہیں۔ یہ بات ہم بہت وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔ جو تبدیلی ہمیں اور شاید آپ کو بھی محسوس ہو رہی ہے، اس کا تعلق گردشِ روزگار کے بجائے زاویۂ نگاہ سے ہے۔ انشاپردازی پر دل شاذ و نادر ہی مائل ہوتا ہے ، اور جب ہوتا ہے تو اس کی معصوم سی خواہش کو زیادہ سوچ بچار کے بغیر ہی پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ کاہلی ہماری سرشت میں شامل ہے۔
وہ تغییر جو زاویۂ نگاہ میں وقوع پذیر ہوئی ہے اس نے آج کچھ نہ کچھ لکھنے کو لازم قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل کوئی روز ایسا نہ تھا جسے اپنی فتنہ پردازیوں سے مغبر کیا جانا ضروری سمجھا گیا ہو؛ شعر ہو گیا تو ہو گیا نہ ہوا تو نہ سہی۔ چونکہ یہ طے پا گیا کہ لازماً کچھ نہ کچھ تحریر کرنا ہے تو سوال پیدا ہوا کہ لکھیں تو کیا لکھیں؟ آج تک جن قالب ہائے اظہار کو ہم اپنا سمجھتے آئے ہیں ان میں اردو نظم اور انگریزی نثر نمایاں ہیں۔ یہ بھید ہم پر مگر حال ہی میں کھلا ہے کہ ہماری( به زعمِ خویش) بہت حد تک درست انگریزی احسن طریقے سے ہمارے خیالات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ اور نظم کے بارے میں تو ہم فرما ہی چکے کہ :
خود پہ لکھی غزل غزل تو نہیں
ہو کے بھی میں غزل سرا، نہ ہوا
اس پر ستم یہ کہ اہلِ زباں ہمارے لخت ہائے جگر کو محاورے کے برخلاف، غیر ضروری طور پر مشکل اور کسی منظم تخییل سے عاری قرار دیتے ہیں۔ اللہ پوچھے گا۔
اردو نثر وہ واحد صنف ہے جو اب تک ہماری ریشہ دوانیوں سے نگاہ داشتہ رہی ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
کورنگاہی کا ہم پر خاص کرم ہے کہ ہر شے آئینہ آسا دکھائی دیتی ہے۔ اس مسئلے پر فلسفیانہ بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا ہمیں آئینہ دکھائی دیتا ہے یا پھر اپنا عکس لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ اس بلائے جاں کیفیت کے زیرِ اثر ہمیں کوئی اور موضوع سوجھتا نہیں۔ آفریں ہے خوانندگاں کے نصیب پر کہ ہم نے خود تحریر میں منعکس ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خطا نمودہ ام و چشمِ آفرین دارم۔
یوں تو ہم عالمِ رنگ و بو کے باسی ہیں مگر دنیائے ویب سے ایک خاص انسیت رکھتے ہیں۔ شعبہ ہائے زندگی میں کوئی ایسی شے نہیں جس میں ہم خود کو بہترین قرار دیں۔ ہر میدان میں کسی طلسمِ ہوش ربا کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہماری انفرادیت کو ابھار کر سامنے لائے۔ ظاہر ہے کہ اس سعیِ لاحاصل کا ما حصل چند ژولیدہ گفتاریوں سے بیش نہیں۔
اپنی پریشان حالیوں کا ڈھنڈھورا پیٹنا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے جو کہ اکثر اوقات باعثِ شرمندگی ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں سے معافیاں طلب کرتے ہیں جو انھیں غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں، اس پر از سرِ نو معافی مانگتے ہیں ۔قصور گو کہ ہم سے زیادہ بادِ صبا کا ہوتا ہے کیونکہ ہم تو یہ فرما رہے ہوتے ہیں:
نی نی ای باد مرو حالِ منِ خسته مگوی
تا غباری ننشیند به دلِ خرمِ دوست
بادِ صبا کب اس پر دھیان دیتی ہے؟ لیکن یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ ہمیں خود اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پرلطف معلوم نہیں ہوتا۔
اچھا نہ لکھ پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے تخیل کو ریڈیو ویوز کی مدد سے اڑان دینے کے بجائے خود اس کے سر پر سوار ہو کر اڑتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کوئی اڑن قالین نہیں. الف لیلۃ و لیلۃ کہاں سے لائیں؟
اسما سے بھی ہمیں خاص دلچسبی ہے۔ ہمہ وقت اپنے نآفریدہ ادبی کارناموں کے واسطے شاندار ناموں کی جستجو میں مشغول رہتے ہیں. علاوہ از ایں مختلف زبانوں سے بھی بہت لگاؤ ہے. اکثر زبانِ یارِ من ترکی کا ورد "ترکی" کو قدیم یونانی، لاطینی، فرنچ، جرمن، جاپانی وغیرہ سے تبدیل کر کے کرتے ہیں۔ الفاظ نغمہ سرایان کی طرح ادا کرتے ہیں اس لیے مصرع ساقط الوزن نہیں ہوتا۔ ادب سے ہمارے لگاؤ کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟
اشعار کی بھاری اکثریت ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے لیکن اس کے باجود ہم اپنی سخن فہمی کا رعب جمانے میں خاصے کامیاب ہیں۔ حال ہی میں ایک عزیز دوست نے جون کے مصرع "حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی" کا مفہوم دریافت کیا جو کہ ہمارے فرشتوں کے بھی علم میں شاید ہی ہو۔ پہلے تو ایک طویل تشریح کے ذریعے معاملہ گول کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ بن سکی۔ انھوں نے پھر مختصر مفہوم سادہ الفاظ کے پیرائے میں دریافت کیا تو ہم اپنے جواب سے خود بھی ششدر رہ گئے: " مختصراً یہ کہ ایک حالتِ حال زمانۂ حال کی جانب اشارہ کناں ہے"۔ انھیں شعر سمجھ آ گیا۔
شعر گوئی ہماری عجیب نوعیت کی ہے۔ لوگوں کے تصورِ شاعری کے برعکس ہمارا زیادہ تر وقت یہ طے کرنے میں گزرتا ہے کہ غزل کی بحر کیا ہونی چاہیے۔ مضارع پسند ہے مگر اس میں بہت سا کلام ہو گیا ہے؛ خفیف آسان ہے پر ہم مشکلوں کے جانباز؛ ہزج سالم کی کچھ زمینیں فرح بخش اور کچھ حبس آور ہیں۔ غرض یہ کہ جب تک ہم منسرح تک پہنچتے ہیں(جس میں بظاہر کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا) تو اکتا چکے ہوتے ہیں اور شعر ہمارا منھ تکتا رہ جاتا ہے۔
اب تک آپ یہ تو جان ہی چکے ہوں گے کہ فنِ تحریر سے ہمارا کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں اور اب اس فکر میں ہیں کہ اس پینڈوراز باکس کو بند کیسے کریں۔ اس کے واسطے ہم ویب کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہو کر ایک گوہرِ شاہوار لے آئے ہیں۔ اتفاقاً وہ ہمارے پسندیدہ شاعر عرفیِ شیراز کا شعر ہے۔ فارسی اشعار اب ہم اکثر بغیر ترجمے کے ہی ارسال کرتے ہیں کیونکہ ترجمے کے ساتھ سمجھنے والے احباب انھیں ترجمے کے بغیر بھی سمجھ ہی جاتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ ہم نے اس شعر کو سمجھنے میں بھی خطا کھائی ہے بہرحال خاتمہ اسی پر کرنا ہماری مجبوری ہے:
بگیر آینه عرفیؔ ببین سر انجامم
که هر چه صورتِ حالِ تو سرنوشتِ من است
وہ تغییر جو زاویۂ نگاہ میں وقوع پذیر ہوئی ہے اس نے آج کچھ نہ کچھ لکھنے کو لازم قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل کوئی روز ایسا نہ تھا جسے اپنی فتنہ پردازیوں سے مغبر کیا جانا ضروری سمجھا گیا ہو؛ شعر ہو گیا تو ہو گیا نہ ہوا تو نہ سہی۔ چونکہ یہ طے پا گیا کہ لازماً کچھ نہ کچھ تحریر کرنا ہے تو سوال پیدا ہوا کہ لکھیں تو کیا لکھیں؟ آج تک جن قالب ہائے اظہار کو ہم اپنا سمجھتے آئے ہیں ان میں اردو نظم اور انگریزی نثر نمایاں ہیں۔ یہ بھید ہم پر مگر حال ہی میں کھلا ہے کہ ہماری( به زعمِ خویش) بہت حد تک درست انگریزی احسن طریقے سے ہمارے خیالات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ اور نظم کے بارے میں تو ہم فرما ہی چکے کہ :
خود پہ لکھی غزل غزل تو نہیں
ہو کے بھی میں غزل سرا، نہ ہوا
اس پر ستم یہ کہ اہلِ زباں ہمارے لخت ہائے جگر کو محاورے کے برخلاف، غیر ضروری طور پر مشکل اور کسی منظم تخییل سے عاری قرار دیتے ہیں۔ اللہ پوچھے گا۔
اردو نثر وہ واحد صنف ہے جو اب تک ہماری ریشہ دوانیوں سے نگاہ داشتہ رہی ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
کورنگاہی کا ہم پر خاص کرم ہے کہ ہر شے آئینہ آسا دکھائی دیتی ہے۔ اس مسئلے پر فلسفیانہ بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا ہمیں آئینہ دکھائی دیتا ہے یا پھر اپنا عکس لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ اس بلائے جاں کیفیت کے زیرِ اثر ہمیں کوئی اور موضوع سوجھتا نہیں۔ آفریں ہے خوانندگاں کے نصیب پر کہ ہم نے خود تحریر میں منعکس ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خطا نمودہ ام و چشمِ آفرین دارم۔
یوں تو ہم عالمِ رنگ و بو کے باسی ہیں مگر دنیائے ویب سے ایک خاص انسیت رکھتے ہیں۔ شعبہ ہائے زندگی میں کوئی ایسی شے نہیں جس میں ہم خود کو بہترین قرار دیں۔ ہر میدان میں کسی طلسمِ ہوش ربا کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہماری انفرادیت کو ابھار کر سامنے لائے۔ ظاہر ہے کہ اس سعیِ لاحاصل کا ما حصل چند ژولیدہ گفتاریوں سے بیش نہیں۔
اپنی پریشان حالیوں کا ڈھنڈھورا پیٹنا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے جو کہ اکثر اوقات باعثِ شرمندگی ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں سے معافیاں طلب کرتے ہیں جو انھیں غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں، اس پر از سرِ نو معافی مانگتے ہیں ۔قصور گو کہ ہم سے زیادہ بادِ صبا کا ہوتا ہے کیونکہ ہم تو یہ فرما رہے ہوتے ہیں:
نی نی ای باد مرو حالِ منِ خسته مگوی
تا غباری ننشیند به دلِ خرمِ دوست
بادِ صبا کب اس پر دھیان دیتی ہے؟ لیکن یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ ہمیں خود اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پرلطف معلوم نہیں ہوتا۔
اچھا نہ لکھ پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے تخیل کو ریڈیو ویوز کی مدد سے اڑان دینے کے بجائے خود اس کے سر پر سوار ہو کر اڑتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کوئی اڑن قالین نہیں. الف لیلۃ و لیلۃ کہاں سے لائیں؟
اسما سے بھی ہمیں خاص دلچسبی ہے۔ ہمہ وقت اپنے نآفریدہ ادبی کارناموں کے واسطے شاندار ناموں کی جستجو میں مشغول رہتے ہیں. علاوہ از ایں مختلف زبانوں سے بھی بہت لگاؤ ہے. اکثر زبانِ یارِ من ترکی کا ورد "ترکی" کو قدیم یونانی، لاطینی، فرنچ، جرمن، جاپانی وغیرہ سے تبدیل کر کے کرتے ہیں۔ الفاظ نغمہ سرایان کی طرح ادا کرتے ہیں اس لیے مصرع ساقط الوزن نہیں ہوتا۔ ادب سے ہمارے لگاؤ کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟
اشعار کی بھاری اکثریت ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے لیکن اس کے باجود ہم اپنی سخن فہمی کا رعب جمانے میں خاصے کامیاب ہیں۔ حال ہی میں ایک عزیز دوست نے جون کے مصرع "حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی" کا مفہوم دریافت کیا جو کہ ہمارے فرشتوں کے بھی علم میں شاید ہی ہو۔ پہلے تو ایک طویل تشریح کے ذریعے معاملہ گول کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ بن سکی۔ انھوں نے پھر مختصر مفہوم سادہ الفاظ کے پیرائے میں دریافت کیا تو ہم اپنے جواب سے خود بھی ششدر رہ گئے: " مختصراً یہ کہ ایک حالتِ حال زمانۂ حال کی جانب اشارہ کناں ہے"۔ انھیں شعر سمجھ آ گیا۔
شعر گوئی ہماری عجیب نوعیت کی ہے۔ لوگوں کے تصورِ شاعری کے برعکس ہمارا زیادہ تر وقت یہ طے کرنے میں گزرتا ہے کہ غزل کی بحر کیا ہونی چاہیے۔ مضارع پسند ہے مگر اس میں بہت سا کلام ہو گیا ہے؛ خفیف آسان ہے پر ہم مشکلوں کے جانباز؛ ہزج سالم کی کچھ زمینیں فرح بخش اور کچھ حبس آور ہیں۔ غرض یہ کہ جب تک ہم منسرح تک پہنچتے ہیں(جس میں بظاہر کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا) تو اکتا چکے ہوتے ہیں اور شعر ہمارا منھ تکتا رہ جاتا ہے۔
اب تک آپ یہ تو جان ہی چکے ہوں گے کہ فنِ تحریر سے ہمارا کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں اور اب اس فکر میں ہیں کہ اس پینڈوراز باکس کو بند کیسے کریں۔ اس کے واسطے ہم ویب کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہو کر ایک گوہرِ شاہوار لے آئے ہیں۔ اتفاقاً وہ ہمارے پسندیدہ شاعر عرفیِ شیراز کا شعر ہے۔ فارسی اشعار اب ہم اکثر بغیر ترجمے کے ہی ارسال کرتے ہیں کیونکہ ترجمے کے ساتھ سمجھنے والے احباب انھیں ترجمے کے بغیر بھی سمجھ ہی جاتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ ہم نے اس شعر کو سمجھنے میں بھی خطا کھائی ہے بہرحال خاتمہ اسی پر کرنا ہماری مجبوری ہے:
بگیر آینه عرفیؔ ببین سر انجامم
که هر چه صورتِ حالِ تو سرنوشتِ من است
آخری تدوین: