قائداعظم اور بھارت کا سیکولرازم۔ حامد میر کی نظر میں۔
جسونت سنگھ اور محمد علی جناح...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ان کی اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت صرف محمد علی جناح پر ایک کتاب لکھنے کے جرم میں انہیں مذاق بنا کر رکھ دیگی۔ جسونت سنگھ بی جے پی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ کچھ سال پہلے انہوں نے ’’جناح‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے یہ کہا کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے اصل ذمہ دار محمد علی جناح نہیں بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل تھے کیونکہ ان دونوں نے سیکولر اور لبرل جناح کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے انہیں اپنے خلاف کردیا تھا۔ اس کتاب پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت بڑی سیخ پا ہوئی کیونکہ بی جے پی اور کانگریس نے تو ہمیشہ جناح کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ دوسری طرف جسونت سنگھ کا موقف تھا کہ انہوں نے تو صرف کچھ تاریخی حقائق پیش کئے ہیں لیکن انہیں بی جے پی سے نکال دیا گیا۔ بی جے پی کے حامی کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ جسونت سنگھ نے محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیکر ان کی تعریف نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی اصل سیاسی حریف کانگریس کی جعلی سیکولر ازم کا پردہ چاک کیا ہے اور کانگریس کی قیادت کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیکر بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایل کے ایڈوانی دراصل جسونت سنگھ کو اپنے لئے سیاسی خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ جسونت سنگھ سابق وزیر خارجہ اور سابق وزیر دفاع ہونے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ہیں لہٰذا ایڈوانی نے جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکلوا دیا۔ بہرحال جسونت سنگھ دس ماہ پارٹی سے باہر رہے دس ماہ بعد انہیں دوبارہ بی جے پی میں شامل کر لیا گیا۔ الیکشن 2014ء میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو جسونت سنگھ نے راجھستان میں اپنے آبائی حلقہ برمر سے ٹکٹ مانگی لیکن بی جے پی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا جس پر جسونت سنگھ نے کہا کہ انہیں محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینے کی سزا ملی ہے۔ انہوں نے برمر سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ یہ بات اب واضح ہو چکی کہ بی جے پی پر نریندر مودی کا قبضہ ہو چکا ہے اور انہوں نے صرف جسونت سنگھ کو نہیں بلکہ ایڈوانی کو بھی راستے سے ہٹا دیا ہے اور اب مودی اپنی جماعت کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے واحد امیدوار ہیں۔
جسونت سنگھ کو بی جے پی کی طرف سے ٹھکرائے جانے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت ایک دفعہ پھر بھارتی میڈیا میں زیر بحث ہے۔ جسونت سنگھ پہلے بھارتی مصنف نہیں جنہوں نے جناح کو سیکولر قرار دیا۔ ان سے قبل دہلی یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کی استاد ڈاکٹر اجیت جاوید نے بھی ’’سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں بانی پاکستان کی ایمانداری اور جرات و بہادری کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ قیام پاکستان کا مطالبہ جناح کا حقیقی مقصد نہیں بلکہ صرف کانگریس پر دبائو ڈالنے کی ایک سیاسی چال تھی۔ اجیت جاوید نے لکھا کہ مولانا مودودی نے جناح کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور بانی پاکستان کے یوم وفات پر نماز شکرانہ ادا کی۔ ان کی کتاب میں کئے گئے بہت سے دعوے تاریخی حقا
ائق کے منافی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ پاکستانی دانشور اور لکھاری بھی بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے کبھی تو ان کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کے ایک مخصوص حصے کا حوالہ دیتے ہیں، کبھی امریکی مصنف سٹینلے والپرٹ کی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں لکھی گئی جھوٹی سچی باتوں کو مزے لیکر بیان کرتے ہیں اور کبھی بانی پاکستان کی اہلیہ رتی جناح کو پارسی قرار دے ڈالتے ہیں حالانکہ سٹینلے والپرٹ نے بھی یہ اعتراف کیا کہ رتی نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا اور وفات کے بعد انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ کچھ دن پہلے کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی جریدے نے اپنے ٹائٹل پر بانی پاکستان کی ایک بڑی تصویر شائع کی اس تصویر میں قائداعظم محمد علی جناح کے چہرے پر سفید داڑھی لگا کر ایک تفصیلی مضمون میں یہ سیاپا کیا گیا کہ کچھ لوگ جناح کو مولوی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کچھ عناصر بانی پاکستان کی تقاریر میں سے صرف شریعت تلاش کرتے ہیں جبکہ انصاف، مساوات، رواداری اور جمہوریت کو نظرانداز کردیتے ہیں لیکن جو لوگ بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ بھی علمی بددیانتی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بانی پاکستان نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا لیکن پھر وہ سیاسی ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوئے مسلم لیگ تک پہنچے۔ وہ نہ مولوی تھے نہ سیکولر تھے۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات سے پاک ایک عام سے مسلمان تھے۔ رتی جناح سے محبت کی شادی کی اور ان کا اسلامی نام مریم رکھا۔ سیاست اور وکالت کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو زیادہ وقت نہ دے پائے۔
میاں بیوی میں تعلقات گرم سرد ہوتے رہے لیکن جب بیوی کا انتقال ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح قبرستان میں پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ انہوں نے 1929ء میں غازی علم دین کا عدالت میں دفاع کیا اور 1931ء میں بھگت سنگھ کی مذمت سے بھی انکار کردیا۔ انہوں نے محض سیاسی شہرت اور فائدے کیلئے بڑے بڑے نعرے لگانے سے گریز کیا اور بڑی احتیاط سے آگے بڑھتے رہے۔ اسلامی قوانین کے مطالعے کی طرف انہیں علامہ اقبال نے راغب کیا۔ 28 مئی 1937ء کا علامہ اقبال کی طرف سےقائداعظم کو لکھا جانے والا خط پڑھنے کے قابل ہے جس میں ایک شاعر اور فلسفی اپنے قانون دان دوست کو بتا رہا ہے کہ اگر اسلامی قوانین پر عمل کیا جائے تو ایک مسلم ریاست میں ہر شخص کے لئے حق روزگار کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی خط میں اسلامی شریعت کا بھی ذکر ہے یہی وہ سال تھا جب 16 ستمبر 1937ء کو متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی سے قائداعظم نے ایک شریعت بل منظور کرایا۔ مسلم پرسنل لاء کے بارے میں یہ شریعت بل حافظ محمد عبداللہ نے اسمبلی میں پیش کیا تو سر محمد یامین خان نے کہا کہ مسلمانوں کے ہر فرقے کی شریعت مختلف ہے لہٰذا لفظ شریعت کے استعمال سے یہ بل متنازعہ ہو جائے گا لیکن قائداعظم نے اسمبلی کے تمام شیعہ اور سنی ارکان کو اس بل پر متحد کر کے اسے منظور کرادیا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب نے مفتی محمد شفیع صاحب کے بارے میں اپنی تصنیف ’’حیات مفتی اعظم‘‘ میں قائداعظم کے ساتھ اپنے والد اور دیگر علماء کی ملاقاتوں کا احوال لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ایک طرف کچھ علماء قائداعظم پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے دوسری طرف مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے قائداعظم کے حق میں بولنا شروع کیا اور دارلعلوم دیوبند سے علیحدگی کرلی۔
مفتی محمد شفیع صاحب نے یہ فتوی دیدیا کہ کانگریس کی حمایت کفر ہے۔ پھر 23 مارچ 1940ء کے دن صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی قرارداد منظور نہ ہوئی بلکہ فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں بھی قرارداد منظور ہوئی۔ قائداعظم نے مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمے کیلئے بریلوی، شیعہ، اہل حدیث اور دیوبندی علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد کے ذریعہ اسلامیہ کالج لاہور کی گرائونڈ میں ایک علماء کانفرنس کا انعقاد کرایا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، پیر جماعت علی شاہ، پیر سیال شریف، سید محمد علی، حافظ کفائت حسین، مولانا ابراہیم سیالکوٹی اور دیگر علماء کے اتحاد نے مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا اور یوں 14اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ یہ بھی سن لیجئے کہ قائداعظم اور اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البناء کے درمیان بھی روابط قائم تھے۔
دونوں میں ایک ملاقات بھی ہوئی اور 14نومبر 1947ء کو شیخ حسن البناء نے قیام پاکستان پر قائداعظم کو مبارکباد کا خط بھیجا جس کے بعد اخوان کے ایک وفد نے پاکستان آکر قائداعظم سے ملاقات کی۔ یکم جولائی 1948ء کو قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنکاری کی ضرورت پر زور دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں غیر مسلموں کو وہی حقوق دینا چاہتے تھے جو نبی کریم ؐ نے میثاق مدینہ میں یہودیوں کو دیئے تھے۔ قائداعظم کی گیارہ اگست 1947ُء کی تقریر اور میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دیئے گئے حقوق کا موازنہ کریں تو کوئی فرق نظر نہیں آتا لہٰذا گیارہ اگست کی تقریر سے نہ تو قائداعظم کو سیکولر ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عید میلاد النبیؐ کے موقع پر قائداعظم کے پیغامات اور تقریروں سے انہیں مولوی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک سادہ سے مسلمان تھے۔ نہ سیکولر تھے نہ مولوی تھے۔
جسونت سنگھ اور محمد علی جناح...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ان کی اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت صرف محمد علی جناح پر ایک کتاب لکھنے کے جرم میں انہیں مذاق بنا کر رکھ دیگی۔ جسونت سنگھ بی جے پی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ کچھ سال پہلے انہوں نے ’’جناح‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے یہ کہا کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے اصل ذمہ دار محمد علی جناح نہیں بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل تھے کیونکہ ان دونوں نے سیکولر اور لبرل جناح کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے انہیں اپنے خلاف کردیا تھا۔ اس کتاب پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت بڑی سیخ پا ہوئی کیونکہ بی جے پی اور کانگریس نے تو ہمیشہ جناح کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ دوسری طرف جسونت سنگھ کا موقف تھا کہ انہوں نے تو صرف کچھ تاریخی حقائق پیش کئے ہیں لیکن انہیں بی جے پی سے نکال دیا گیا۔ بی جے پی کے حامی کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ جسونت سنگھ نے محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیکر ان کی تعریف نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی اصل سیاسی حریف کانگریس کی جعلی سیکولر ازم کا پردہ چاک کیا ہے اور کانگریس کی قیادت کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیکر بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایل کے ایڈوانی دراصل جسونت سنگھ کو اپنے لئے سیاسی خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ جسونت سنگھ سابق وزیر خارجہ اور سابق وزیر دفاع ہونے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ہیں لہٰذا ایڈوانی نے جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکلوا دیا۔ بہرحال جسونت سنگھ دس ماہ پارٹی سے باہر رہے دس ماہ بعد انہیں دوبارہ بی جے پی میں شامل کر لیا گیا۔ الیکشن 2014ء میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو جسونت سنگھ نے راجھستان میں اپنے آبائی حلقہ برمر سے ٹکٹ مانگی لیکن بی جے پی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا جس پر جسونت سنگھ نے کہا کہ انہیں محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینے کی سزا ملی ہے۔ انہوں نے برمر سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ یہ بات اب واضح ہو چکی کہ بی جے پی پر نریندر مودی کا قبضہ ہو چکا ہے اور انہوں نے صرف جسونت سنگھ کو نہیں بلکہ ایڈوانی کو بھی راستے سے ہٹا دیا ہے اور اب مودی اپنی جماعت کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے واحد امیدوار ہیں۔
جسونت سنگھ کو بی جے پی کی طرف سے ٹھکرائے جانے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت ایک دفعہ پھر بھارتی میڈیا میں زیر بحث ہے۔ جسونت سنگھ پہلے بھارتی مصنف نہیں جنہوں نے جناح کو سیکولر قرار دیا۔ ان سے قبل دہلی یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کی استاد ڈاکٹر اجیت جاوید نے بھی ’’سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں بانی پاکستان کی ایمانداری اور جرات و بہادری کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ قیام پاکستان کا مطالبہ جناح کا حقیقی مقصد نہیں بلکہ صرف کانگریس پر دبائو ڈالنے کی ایک سیاسی چال تھی۔ اجیت جاوید نے لکھا کہ مولانا مودودی نے جناح کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور بانی پاکستان کے یوم وفات پر نماز شکرانہ ادا کی۔ ان کی کتاب میں کئے گئے بہت سے دعوے تاریخی حقا
ائق کے منافی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ پاکستانی دانشور اور لکھاری بھی بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے کبھی تو ان کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کے ایک مخصوص حصے کا حوالہ دیتے ہیں، کبھی امریکی مصنف سٹینلے والپرٹ کی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں لکھی گئی جھوٹی سچی باتوں کو مزے لیکر بیان کرتے ہیں اور کبھی بانی پاکستان کی اہلیہ رتی جناح کو پارسی قرار دے ڈالتے ہیں حالانکہ سٹینلے والپرٹ نے بھی یہ اعتراف کیا کہ رتی نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا اور وفات کے بعد انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ کچھ دن پہلے کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی جریدے نے اپنے ٹائٹل پر بانی پاکستان کی ایک بڑی تصویر شائع کی اس تصویر میں قائداعظم محمد علی جناح کے چہرے پر سفید داڑھی لگا کر ایک تفصیلی مضمون میں یہ سیاپا کیا گیا کہ کچھ لوگ جناح کو مولوی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کچھ عناصر بانی پاکستان کی تقاریر میں سے صرف شریعت تلاش کرتے ہیں جبکہ انصاف، مساوات، رواداری اور جمہوریت کو نظرانداز کردیتے ہیں لیکن جو لوگ بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ بھی علمی بددیانتی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بانی پاکستان نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا لیکن پھر وہ سیاسی ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوئے مسلم لیگ تک پہنچے۔ وہ نہ مولوی تھے نہ سیکولر تھے۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات سے پاک ایک عام سے مسلمان تھے۔ رتی جناح سے محبت کی شادی کی اور ان کا اسلامی نام مریم رکھا۔ سیاست اور وکالت کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو زیادہ وقت نہ دے پائے۔
میاں بیوی میں تعلقات گرم سرد ہوتے رہے لیکن جب بیوی کا انتقال ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح قبرستان میں پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ انہوں نے 1929ء میں غازی علم دین کا عدالت میں دفاع کیا اور 1931ء میں بھگت سنگھ کی مذمت سے بھی انکار کردیا۔ انہوں نے محض سیاسی شہرت اور فائدے کیلئے بڑے بڑے نعرے لگانے سے گریز کیا اور بڑی احتیاط سے آگے بڑھتے رہے۔ اسلامی قوانین کے مطالعے کی طرف انہیں علامہ اقبال نے راغب کیا۔ 28 مئی 1937ء کا علامہ اقبال کی طرف سےقائداعظم کو لکھا جانے والا خط پڑھنے کے قابل ہے جس میں ایک شاعر اور فلسفی اپنے قانون دان دوست کو بتا رہا ہے کہ اگر اسلامی قوانین پر عمل کیا جائے تو ایک مسلم ریاست میں ہر شخص کے لئے حق روزگار کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی خط میں اسلامی شریعت کا بھی ذکر ہے یہی وہ سال تھا جب 16 ستمبر 1937ء کو متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی سے قائداعظم نے ایک شریعت بل منظور کرایا۔ مسلم پرسنل لاء کے بارے میں یہ شریعت بل حافظ محمد عبداللہ نے اسمبلی میں پیش کیا تو سر محمد یامین خان نے کہا کہ مسلمانوں کے ہر فرقے کی شریعت مختلف ہے لہٰذا لفظ شریعت کے استعمال سے یہ بل متنازعہ ہو جائے گا لیکن قائداعظم نے اسمبلی کے تمام شیعہ اور سنی ارکان کو اس بل پر متحد کر کے اسے منظور کرادیا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب نے مفتی محمد شفیع صاحب کے بارے میں اپنی تصنیف ’’حیات مفتی اعظم‘‘ میں قائداعظم کے ساتھ اپنے والد اور دیگر علماء کی ملاقاتوں کا احوال لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ایک طرف کچھ علماء قائداعظم پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے دوسری طرف مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے قائداعظم کے حق میں بولنا شروع کیا اور دارلعلوم دیوبند سے علیحدگی کرلی۔
مفتی محمد شفیع صاحب نے یہ فتوی دیدیا کہ کانگریس کی حمایت کفر ہے۔ پھر 23 مارچ 1940ء کے دن صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی قرارداد منظور نہ ہوئی بلکہ فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں بھی قرارداد منظور ہوئی۔ قائداعظم نے مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمے کیلئے بریلوی، شیعہ، اہل حدیث اور دیوبندی علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد کے ذریعہ اسلامیہ کالج لاہور کی گرائونڈ میں ایک علماء کانفرنس کا انعقاد کرایا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، پیر جماعت علی شاہ، پیر سیال شریف، سید محمد علی، حافظ کفائت حسین، مولانا ابراہیم سیالکوٹی اور دیگر علماء کے اتحاد نے مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا اور یوں 14اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ یہ بھی سن لیجئے کہ قائداعظم اور اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البناء کے درمیان بھی روابط قائم تھے۔
دونوں میں ایک ملاقات بھی ہوئی اور 14نومبر 1947ء کو شیخ حسن البناء نے قیام پاکستان پر قائداعظم کو مبارکباد کا خط بھیجا جس کے بعد اخوان کے ایک وفد نے پاکستان آکر قائداعظم سے ملاقات کی۔ یکم جولائی 1948ء کو قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنکاری کی ضرورت پر زور دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں غیر مسلموں کو وہی حقوق دینا چاہتے تھے جو نبی کریم ؐ نے میثاق مدینہ میں یہودیوں کو دیئے تھے۔ قائداعظم کی گیارہ اگست 1947ُء کی تقریر اور میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دیئے گئے حقوق کا موازنہ کریں تو کوئی فرق نظر نہیں آتا لہٰذا گیارہ اگست کی تقریر سے نہ تو قائداعظم کو سیکولر ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عید میلاد النبیؐ کے موقع پر قائداعظم کے پیغامات اور تقریروں سے انہیں مولوی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک سادہ سے مسلمان تھے۔ نہ سیکولر تھے نہ مولوی تھے۔