قائداعظم ثانی بمقابلہ قائداعظم ثانی...حفیظ اللہ نیازی
نواز شریف کی خوش قسمتی کہ مقابلہ عمران خان سے جو موقع گنوانے میں اپنی مثال آپ۔ عمران خان کے وارے نیارے کہ مجادلہ نواز شریف سے جن کو اقتدار میں آنے سے زیادہ جانے میں دلچسپی۔
قومی قائدین کے کرتوت اور کارہائے نمایاں بین الاقوامی، ملکی ایجنسیوں کو ازبر۔ ہمارا قومی پریس اور میڈیا روزِ روشن کی طرح نمایاں وارداتوں کو آشکار کرنے میں رکاوٹ کیوں؟ مملکت ِ خدادادِ پاکستان ایک ، درست کرنے والے کئی۔ قائداعظم ایک ہی، ’’ثانی‘‘ تقریباً دو۔ ایک کا نعرہ ’’بدلیں گے پاکستان‘‘، دوسرے کا اعلان ’’نیا پاکستان‘‘۔ مملکت کو وجود میں آئے قریباً 7 دہائیاں ہونے کو، گارنٹی اس سے پہلے قائداعظم ثانی کی پوزیشن پر ایسا سخت مقابلہ کبھی دیکھنے میں نہ آیا۔ صدر ایوب کو سیاست میں پہلے چند سال پذیرائی ضرور ملی ، موصوف کے مقابلے پر مادرِ ملت آگئیں۔ بھٹو صاحب نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑھے تو قائداعظم ثانی کا احتیاج پیش نہ آیا کہ اپنے تن من دھن پر توکل بہت۔ البتہ بھٹو مرحوم کی حسِ مزاح یا حسِ خوشامد کی داد دینی ضروری، اقتدار کا پہلا زینہ صدر سکندر مرزا کی مرہونِ منت، چھوٹتے ہی اپریل 1958 کو مرزا صاحب کی خدمت ِ اقدس میںایسا خط داغا کہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو، ’’میرے والد مرحوم نے مرنے سے پہلے مجھے آخری نصیحت یہ کی کہ میں آپ کا وفادار رہوں، اس موقع پر میں آپ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتا ہوں۔ مزید براں جب کوئی حقیقی مورخ تاریخ لکھے گا تو اس میں کوئی باک نہیں کہ آپ کا مرتبہ مسٹر جناح سے اوپر رہے گا۔ میں یہ بات برسبیل تذکرہ نہیںکررہا اور نہ ہی آپ کی صدر مملکت کی حیثیت کو سامنے رکھ کر کر رہا ہوں، بلکہ یہ میرے دل کی آواز ہے‘‘۔یہ بات جم چکی کہ بھٹو صاحب کا عظیم قائد سے تعلق خاطر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بے نظیر کی دلچسپی بھی واجبی ۔
قائداعظم ثانی بننے کا جوش نواز شریف میں آیاتو گمان اغلب کہ مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنانے کے لیے ضروری سمجھا۔ قائدثانی کا لقب بطور سند کہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ عمران کی پراپیگنڈہ مشین نے انگلستانی تعلیم، بعض معاشرتی وثقافتی پہلو، چنانچہ دور کی کوڑی لازم کہ خان صاحب اس پوزیشن کے جائز حقدار ۔ قائداعظم کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے توانا کندھوں کی ضرورت، بوجھ اٹھانے کے لیے بے قرار۔ زرداری صاحب تو بے نظیر کی پوزیشن اُچک کر ہی مطمئن، قائداعظم سے زیادہ مسٹر بھٹو کے سحر میں گم سم۔ چنانچہ حریف دو ہی، مقابلہ سخت۔ شوق کا کوئی ’’مُل ‘‘نہیں۔ چکور کو چاند پر چڑھائی سے کون روک سکتا ہے۔ دلچسپی خاطر قائدین کے حالات ِ حاضرہ پر غور فرمائیں، اصول وضوابط کے سیاسی استبداد و استطاعت ، فہم وفراست، سچائی ودیانت، کرداروافکار عش عش کرنے کے لیے کافی۔ ایک بچھو سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کا سردار کون ؟ جواب ملا، جس کے ڈنگ کے قریب آپ کی انگلی ، آپ کا سردار وہی۔ عزیزم علی ریاض ’’ماہر ِ عمرانیات‘‘ سمجھ بیٹھے بلجیم سے سوال
کہ’’ کہیں عمران خان کا نیاابھار ضائع تو نہیں چلا جائے گا ‘‘۔ علی میاں ! اس باری بھی بے وقت نمازہی ، ’’ بے وقت نماز‘‘ہی، فرسٹریشن کے سوا کچھ نہیںملے گا۔ موجودہ مہم جوئی ن لیگ حکومت کے خلاف تو ہے نہیں، البتہ قادری کی سیاست نے حواس باختہ ضرور کردیا وگرنہ بہاولپور کے بے مقصد جلسے کی سیاسی گنجائش تھی ہی نہیں ۔ حضرت بوجوہ وزیرستان آپریشن جلسہ ملتوی کرچکے تھے۔ مزید بدقسمتی کہ تقریر میں ناگفتہ بہ وزیرستان اور بے یارومددگار قبائل یکسر غائب۔ حضور جب آپ بنی گالہ میں اپنے ’’مفاد‘‘ کے لیے نواز شریف کے ساتھ فوٹو سیشن رکھ سکتے ہیں ، تولٹے پھٹے وزیریوں کے لیے بنوں جانے میں شرم کیسی؟4مطالبات اور وہ بھی پُھس پُھسے۔
سابقہ چیف جسٹس کا قصور اتنا کہ وہ بیچارے ریٹائرڈ۔ وگرنہ جسٹس وجیہہ الدین اور محترم حامد خان نے توآپ کو بتا ہی دیا تھا کہ ان کا رول بن ہی نہیں سکتا۔ اگر آج وہ مسند پر ہوتے تو مجال نہ تھی ، جناب کی گھگھی بندھی ہونی تھی۔غیر سنجیدہ ، بوگس، بچگانہ اور مزاحیہ مطالبہ کہ نواز شریف نے 11 بج کر 23 منٹ پر وکٹری تقریر کیوں کی ؟ کس کے کہنے پر کی؟ جلسے سے پہلے اہم اعلانات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ،کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔ سمجھ نہیں آتی کہ چار مطالبات پر بندہ روئے یا ہنسے ۔ لگتا ہے جلسہ ن لیگ حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اور قادری سیاست کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کی واردات تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ملین مارچ تحریک ِ انصاف کی سیاست کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ناکامی کا ہدف عبور کرنے میں اتنی عجلت کیوں؟ کور کمیٹی ،ماورائے دستو ر، نومنتخب پارٹی کھڈے لائن، کے اجلاس میں کچھ آوازیں بلند ہوئیں کہ الٹی میٹم سیاست میں زہر ِ قاتل ہی۔ چیئرمین صاحب اس دفعہ بھی ڈٹ گئے کہ یہ میری سیاست کی زندگی اور موت کا مرحلہ ہے۔ اتنے بڑے مارچ کا اعلان کس کے خلاف، بہاولپور جلسہ ایشو فریم کرنے میں ناکام، تقریر بے مقصد رہی۔ چار مطالبات حس ِمزاح اور کج فہمی کندہ کرگئے۔ ’’14 اگست کو سحری بہاولپور اور افطاری اسلام آباد میں‘‘کے اعلان نے شعائر اسلام کے شعور کا بھانڈہ علیحدہ پھوڑ دیا۔
کوئی اللہ کا بندہ چیئرمین کو بتائے کہ نواز شریف اور سابق چیف جسٹس کا رول کہاں بنتا ہے؟حضورآپ کی شکست توہمیشہ سے نوشتہ ٔ دیوار تھی۔ جون 2012 میں IRI سروے ٹیم کے ساتھ ہماری بنی گالہ میں جناب کی رہائش گاہ پر میٹنگ یہی خبر تو چھوڑ گئی کہ پارٹی فارغ ہوچکی ہے۔اُس سروے رپورٹ میں جہاں چیئرمین کے چھکے چھڑوا دئیے وہاں ہمارے چہروں کی ہوائیاں بھی دیدنی تھیں۔ سیاسی جانچ رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ 10 بجے تک جیت ہار کا تعین ہو جاتاہے۔جناب کا حلقہ NA-71 ،180 کلومیٹر لمبا دوشاخوں میں اور 100 کلومیٹر چوڑائی۔ ایک تہائی بلند قامت پہاڑ ، کچہ ، تھل، سنگلاخ میدان اس کے علاوہ۔ ایک پولنگ
سٹیشن ’’تخت ڑشوڑہ‘‘ جس کا میانوالی سے زمینی فاصلہ 2 دنوں کا ، سب سے آخری رزلٹ عموماََوہاں سے آتا تھا، اس دفعہ 2 گھنٹے میں رزلٹ پہنچ گیا۔ چیئرمین کی فتح کا جشن اور مقامی وکٹری تقریر 10بجے سے پہلے تمام ہوچکی۔ ایسے میں چار مطالبات صرف ٹھٹھے کا سامان ہی ۔
23 مارچ 2013 کو مینار پاکستان پر جب اتنا کہا کہ ’’قوم کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔یہ کہنے کی دیر تھی کہ آسمان گرجا، بجلی کڑکی، سونامی ایسا برسا کہ جلسے کو بہا کر لے گیا، باقی الفاظ حلق میں اٹکے رہ گئے، سبق پھر بھی نہیں سیکھا۔ عظیم قائد کی زندگی سچائی ، دیانت، اخلاص ، تدبر ، اصول ، ضابطے، فراست، آئیڈیلزم سے مزین۔ جھوٹ ، مکر، بے ایمانی، دغا، حرص، مفادپرستی،ابن الوقتی ، بازی گری، سستی شہرت، بدکلامی، بدکرداری قریب سے نہ بھٹکی۔ممکن ہی نہیں کہ قائد کے قول اور فعل میں تضاد ہو۔ آخری دس سال جب دو قومی نظریہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما تو تقاریر ، جدوجہد دیکھیں ، اسلام اوڑھنا بچھونا بن چکاتھا۔ ذاتی انٹرویو دئیے نہ سوانح لکھی۔ محققین کی عرق ریزی ، جستجو اور تحقیق نے لڑکپن سے لے کر آخری سانسوں تک لاکھوں صفحات ، ہزاروں کتابوں میں قائد کی زندگی کا ہر پہلو اجاگر کردیا، خیرہ کن کردار ابھر کر سامنے آیا۔
ہدیہ عقیدت کے طور پر چند چیدہ چیدہ موڑ،ورنہ قائدکی زندگی کا احاطہ میرا علمی مقام نہیں۔ انگلستان پہنچے تو جہاں 3سال میں قانون کی سند بمع بیرسٹری وہاں برٹش میوزیم کی لائبریری جوکہ آج بھی سکالرز کا ’’مرکز‘‘ جانی جاتی ہے، کھنگال ڈالی ۔ شیکسپیئر کے ایسے ماسٹر بنے کہ بقول سٹینلے وولپرٹ لند ن کے مشہور ’’اولڈ وک تھیٹر‘‘ میں رومیو کا رول مل گیا ۔ قبول کرکے اس لیے رد کرنا پڑا کہ والد صاحب سے تعلیم مکمل ہوتے ہی واپسی کا وعدہ تھا۔ مس فاطمہ جناح "My Brother" Jinnah : میں فرماتی ہیں ’’ دوران ِ تعلیم جناح ایک بزرگ خاتون Mrs Page-Drake کے کرایہ دار کے طور پر ان کے ساتھ قیام پذیر رہے ۔جہاں ان کی خوبروبیٹی ان پر مرمٹی اور طرح طرح کے ڈورے ڈالے۔ مجال ہے میرے بھائی کو ورغلا پائی ہو‘‘۔
بقول سٹینلے وولپرٹ انتہائی وجیہ ، سنجیدہ ، خوش شکل، تمکنت ایسا لگے کہ جیسے ایک منجھا ہوا اداکار۔ حیران کن بات کہ دوران قیام لندن ، مجال ہے ایک جنسی سیکنڈل جو جناح کی ذات سے منسوب ہو ۔ 1903میں سیاست میں قدم رکھا تو تین سال کے اندر 30سال کی عمر سے پہلے امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بن چکے تھے۔ اپنی موجودگی کا احساس فوراََدلایا کہ Morley-Minto Reforms جو کہ جداگانہ انتخاب کی ترویج کے لیے تھیں ، کو پنپنے نہ دیا کہ انگریز مسلمان اور ہندو کو لڑوا کر اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا۔ 10سال کے اندر ہی گوکھلے ، نوروجی دادا بھائی، فیروز شاہ مہتہ اور تلک کے ہوتے ہوئے کانگرس کے صفحہ اول کے لیڈر بن گئے بلکہ گوکھلے ، فیروز شاہ مہتہ اور دادا بھائی کے بعد کانگرس کے جائز وارث سمجھے جانے لگے۔ 1912میں مسلم لیگ کو انگریزوں کے اثر سے نکال کر کانگرس کے قریب لائے ۔ 1915 میں لکھنو میں مسلمانوںکے حقوق کے تحفظ کے لیے قرارداد پیش کی جو بعد میں 23 مارچ 1940 کی قراردادکاپیش خیمہ ثابت ہوئی۔گوکھلے ، فیروز شاہ مہتہ، دادا بھائی کی آناً فاناً موت کے بعد کانگرس کو بکھرنے سے بچایا ۔رُولیٹ ایکٹ کا کالا قانون پاس ہوا تو جناح انگلستان تھے ، واپس آتے ہی کونسل کی رکنیت سے سانحہ جلیانوالہ باغ سے پہلے ہی احتجاجاََ مستعفی ہوگئے۔ 1917میں گورنرجنرل اور وائسرائے لارڈ ولیگنڈن سے جنگ عظیم دوئم کی بھرتیوں پر ٹکر لی اور اس کو رسوا کر کے الوداع کرایا۔ بمبئی میں جو ہال لارڈ ولیگنڈن سے منسوب ہونا تھا، جناح ہال کے طور پر جانا گیا ۔ تحریکِ خلافت سے نہرو رپورٹ تک ، گول میز کانفرنس سے 1935کے انتخابات تک ، 1940 کی قرارداد ِپاکستان سے گاندھی کی سول نافرمانی تک ، کیبنٹ مشن پلان سے آزادی پاکستان تک ایک موقع نہیں کہ اپنی سیاست پر آنچ آنے دی ہو، مات کھائی ہو، سمجھوتہ کیا ہو، موقف بدلا ہو،جھوٹ بولا ہو، قانون ، قوائد وضوابط کی خلاف ورزی کی ہو، وعدہ خلافی کی ہویا قول وفعل میں تضاد رہا ہو۔ اپنے وقت کے ’’جن‘‘ سیاستدان مدِ مقابل جبکہ مسلمان قوم بہ یک وقت انگریز اور ہندو کے تسلط میں ، سب کو بچھاڑا۔ پیرومرشد نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا کہ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
سٹینلے وولپرٹ Stanely Wolpert کی کتاب "Jinnah of Pakistan" کے آغاز کے تین فقرے میرے لیے حرفِ آخر۔ ’’چند لوگوں نے تاریخ کے دھارے کو بدلا، اس سے بھی کم لوگوں نے دنیا کا نقشہ تبدیل کیا ، ایک بھی ایسا نہیں جس نے ایک قوم (مسلمان)کے لیے آزاد ملک بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہو۔ محمد علی جناح تاریخ ِانسانی میں واحد انسان کہ جس نے تینوں کام بہ یک وقت سرانجام دئیے ‘‘۔
نواز شریف کی خوش قسمتی کہ مقابلہ عمران خان سے جو موقع گنوانے میں اپنی مثال آپ۔ عمران خان کے وارے نیارے کہ مجادلہ نواز شریف سے جن کو اقتدار میں آنے سے زیادہ جانے میں دلچسپی۔
قومی قائدین کے کرتوت اور کارہائے نمایاں بین الاقوامی، ملکی ایجنسیوں کو ازبر۔ ہمارا قومی پریس اور میڈیا روزِ روشن کی طرح نمایاں وارداتوں کو آشکار کرنے میں رکاوٹ کیوں؟ مملکت ِ خدادادِ پاکستان ایک ، درست کرنے والے کئی۔ قائداعظم ایک ہی، ’’ثانی‘‘ تقریباً دو۔ ایک کا نعرہ ’’بدلیں گے پاکستان‘‘، دوسرے کا اعلان ’’نیا پاکستان‘‘۔ مملکت کو وجود میں آئے قریباً 7 دہائیاں ہونے کو، گارنٹی اس سے پہلے قائداعظم ثانی کی پوزیشن پر ایسا سخت مقابلہ کبھی دیکھنے میں نہ آیا۔ صدر ایوب کو سیاست میں پہلے چند سال پذیرائی ضرور ملی ، موصوف کے مقابلے پر مادرِ ملت آگئیں۔ بھٹو صاحب نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑھے تو قائداعظم ثانی کا احتیاج پیش نہ آیا کہ اپنے تن من دھن پر توکل بہت۔ البتہ بھٹو مرحوم کی حسِ مزاح یا حسِ خوشامد کی داد دینی ضروری، اقتدار کا پہلا زینہ صدر سکندر مرزا کی مرہونِ منت، چھوٹتے ہی اپریل 1958 کو مرزا صاحب کی خدمت ِ اقدس میںایسا خط داغا کہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو، ’’میرے والد مرحوم نے مرنے سے پہلے مجھے آخری نصیحت یہ کی کہ میں آپ کا وفادار رہوں، اس موقع پر میں آپ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتا ہوں۔ مزید براں جب کوئی حقیقی مورخ تاریخ لکھے گا تو اس میں کوئی باک نہیں کہ آپ کا مرتبہ مسٹر جناح سے اوپر رہے گا۔ میں یہ بات برسبیل تذکرہ نہیںکررہا اور نہ ہی آپ کی صدر مملکت کی حیثیت کو سامنے رکھ کر کر رہا ہوں، بلکہ یہ میرے دل کی آواز ہے‘‘۔یہ بات جم چکی کہ بھٹو صاحب کا عظیم قائد سے تعلق خاطر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بے نظیر کی دلچسپی بھی واجبی ۔
قائداعظم ثانی بننے کا جوش نواز شریف میں آیاتو گمان اغلب کہ مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنانے کے لیے ضروری سمجھا۔ قائدثانی کا لقب بطور سند کہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ عمران کی پراپیگنڈہ مشین نے انگلستانی تعلیم، بعض معاشرتی وثقافتی پہلو، چنانچہ دور کی کوڑی لازم کہ خان صاحب اس پوزیشن کے جائز حقدار ۔ قائداعظم کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے توانا کندھوں کی ضرورت، بوجھ اٹھانے کے لیے بے قرار۔ زرداری صاحب تو بے نظیر کی پوزیشن اُچک کر ہی مطمئن، قائداعظم سے زیادہ مسٹر بھٹو کے سحر میں گم سم۔ چنانچہ حریف دو ہی، مقابلہ سخت۔ شوق کا کوئی ’’مُل ‘‘نہیں۔ چکور کو چاند پر چڑھائی سے کون روک سکتا ہے۔ دلچسپی خاطر قائدین کے حالات ِ حاضرہ پر غور فرمائیں، اصول وضوابط کے سیاسی استبداد و استطاعت ، فہم وفراست، سچائی ودیانت، کرداروافکار عش عش کرنے کے لیے کافی۔ ایک بچھو سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کا سردار کون ؟ جواب ملا، جس کے ڈنگ کے قریب آپ کی انگلی ، آپ کا سردار وہی۔ عزیزم علی ریاض ’’ماہر ِ عمرانیات‘‘ سمجھ بیٹھے بلجیم سے سوال
کہ’’ کہیں عمران خان کا نیاابھار ضائع تو نہیں چلا جائے گا ‘‘۔ علی میاں ! اس باری بھی بے وقت نمازہی ، ’’ بے وقت نماز‘‘ہی، فرسٹریشن کے سوا کچھ نہیںملے گا۔ موجودہ مہم جوئی ن لیگ حکومت کے خلاف تو ہے نہیں، البتہ قادری کی سیاست نے حواس باختہ ضرور کردیا وگرنہ بہاولپور کے بے مقصد جلسے کی سیاسی گنجائش تھی ہی نہیں ۔ حضرت بوجوہ وزیرستان آپریشن جلسہ ملتوی کرچکے تھے۔ مزید بدقسمتی کہ تقریر میں ناگفتہ بہ وزیرستان اور بے یارومددگار قبائل یکسر غائب۔ حضور جب آپ بنی گالہ میں اپنے ’’مفاد‘‘ کے لیے نواز شریف کے ساتھ فوٹو سیشن رکھ سکتے ہیں ، تولٹے پھٹے وزیریوں کے لیے بنوں جانے میں شرم کیسی؟4مطالبات اور وہ بھی پُھس پُھسے۔
سابقہ چیف جسٹس کا قصور اتنا کہ وہ بیچارے ریٹائرڈ۔ وگرنہ جسٹس وجیہہ الدین اور محترم حامد خان نے توآپ کو بتا ہی دیا تھا کہ ان کا رول بن ہی نہیں سکتا۔ اگر آج وہ مسند پر ہوتے تو مجال نہ تھی ، جناب کی گھگھی بندھی ہونی تھی۔غیر سنجیدہ ، بوگس، بچگانہ اور مزاحیہ مطالبہ کہ نواز شریف نے 11 بج کر 23 منٹ پر وکٹری تقریر کیوں کی ؟ کس کے کہنے پر کی؟ جلسے سے پہلے اہم اعلانات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ،کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔ سمجھ نہیں آتی کہ چار مطالبات پر بندہ روئے یا ہنسے ۔ لگتا ہے جلسہ ن لیگ حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اور قادری سیاست کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کی واردات تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ملین مارچ تحریک ِ انصاف کی سیاست کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ناکامی کا ہدف عبور کرنے میں اتنی عجلت کیوں؟ کور کمیٹی ،ماورائے دستو ر، نومنتخب پارٹی کھڈے لائن، کے اجلاس میں کچھ آوازیں بلند ہوئیں کہ الٹی میٹم سیاست میں زہر ِ قاتل ہی۔ چیئرمین صاحب اس دفعہ بھی ڈٹ گئے کہ یہ میری سیاست کی زندگی اور موت کا مرحلہ ہے۔ اتنے بڑے مارچ کا اعلان کس کے خلاف، بہاولپور جلسہ ایشو فریم کرنے میں ناکام، تقریر بے مقصد رہی۔ چار مطالبات حس ِمزاح اور کج فہمی کندہ کرگئے۔ ’’14 اگست کو سحری بہاولپور اور افطاری اسلام آباد میں‘‘کے اعلان نے شعائر اسلام کے شعور کا بھانڈہ علیحدہ پھوڑ دیا۔
کوئی اللہ کا بندہ چیئرمین کو بتائے کہ نواز شریف اور سابق چیف جسٹس کا رول کہاں بنتا ہے؟حضورآپ کی شکست توہمیشہ سے نوشتہ ٔ دیوار تھی۔ جون 2012 میں IRI سروے ٹیم کے ساتھ ہماری بنی گالہ میں جناب کی رہائش گاہ پر میٹنگ یہی خبر تو چھوڑ گئی کہ پارٹی فارغ ہوچکی ہے۔اُس سروے رپورٹ میں جہاں چیئرمین کے چھکے چھڑوا دئیے وہاں ہمارے چہروں کی ہوائیاں بھی دیدنی تھیں۔ سیاسی جانچ رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ 10 بجے تک جیت ہار کا تعین ہو جاتاہے۔جناب کا حلقہ NA-71 ،180 کلومیٹر لمبا دوشاخوں میں اور 100 کلومیٹر چوڑائی۔ ایک تہائی بلند قامت پہاڑ ، کچہ ، تھل، سنگلاخ میدان اس کے علاوہ۔ ایک پولنگ
سٹیشن ’’تخت ڑشوڑہ‘‘ جس کا میانوالی سے زمینی فاصلہ 2 دنوں کا ، سب سے آخری رزلٹ عموماََوہاں سے آتا تھا، اس دفعہ 2 گھنٹے میں رزلٹ پہنچ گیا۔ چیئرمین کی فتح کا جشن اور مقامی وکٹری تقریر 10بجے سے پہلے تمام ہوچکی۔ ایسے میں چار مطالبات صرف ٹھٹھے کا سامان ہی ۔
23 مارچ 2013 کو مینار پاکستان پر جب اتنا کہا کہ ’’قوم کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔یہ کہنے کی دیر تھی کہ آسمان گرجا، بجلی کڑکی، سونامی ایسا برسا کہ جلسے کو بہا کر لے گیا، باقی الفاظ حلق میں اٹکے رہ گئے، سبق پھر بھی نہیں سیکھا۔ عظیم قائد کی زندگی سچائی ، دیانت، اخلاص ، تدبر ، اصول ، ضابطے، فراست، آئیڈیلزم سے مزین۔ جھوٹ ، مکر، بے ایمانی، دغا، حرص، مفادپرستی،ابن الوقتی ، بازی گری، سستی شہرت، بدکلامی، بدکرداری قریب سے نہ بھٹکی۔ممکن ہی نہیں کہ قائد کے قول اور فعل میں تضاد ہو۔ آخری دس سال جب دو قومی نظریہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما تو تقاریر ، جدوجہد دیکھیں ، اسلام اوڑھنا بچھونا بن چکاتھا۔ ذاتی انٹرویو دئیے نہ سوانح لکھی۔ محققین کی عرق ریزی ، جستجو اور تحقیق نے لڑکپن سے لے کر آخری سانسوں تک لاکھوں صفحات ، ہزاروں کتابوں میں قائد کی زندگی کا ہر پہلو اجاگر کردیا، خیرہ کن کردار ابھر کر سامنے آیا۔
ہدیہ عقیدت کے طور پر چند چیدہ چیدہ موڑ،ورنہ قائدکی زندگی کا احاطہ میرا علمی مقام نہیں۔ انگلستان پہنچے تو جہاں 3سال میں قانون کی سند بمع بیرسٹری وہاں برٹش میوزیم کی لائبریری جوکہ آج بھی سکالرز کا ’’مرکز‘‘ جانی جاتی ہے، کھنگال ڈالی ۔ شیکسپیئر کے ایسے ماسٹر بنے کہ بقول سٹینلے وولپرٹ لند ن کے مشہور ’’اولڈ وک تھیٹر‘‘ میں رومیو کا رول مل گیا ۔ قبول کرکے اس لیے رد کرنا پڑا کہ والد صاحب سے تعلیم مکمل ہوتے ہی واپسی کا وعدہ تھا۔ مس فاطمہ جناح "My Brother" Jinnah : میں فرماتی ہیں ’’ دوران ِ تعلیم جناح ایک بزرگ خاتون Mrs Page-Drake کے کرایہ دار کے طور پر ان کے ساتھ قیام پذیر رہے ۔جہاں ان کی خوبروبیٹی ان پر مرمٹی اور طرح طرح کے ڈورے ڈالے۔ مجال ہے میرے بھائی کو ورغلا پائی ہو‘‘۔
بقول سٹینلے وولپرٹ انتہائی وجیہ ، سنجیدہ ، خوش شکل، تمکنت ایسا لگے کہ جیسے ایک منجھا ہوا اداکار۔ حیران کن بات کہ دوران قیام لندن ، مجال ہے ایک جنسی سیکنڈل جو جناح کی ذات سے منسوب ہو ۔ 1903میں سیاست میں قدم رکھا تو تین سال کے اندر 30سال کی عمر سے پہلے امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بن چکے تھے۔ اپنی موجودگی کا احساس فوراََدلایا کہ Morley-Minto Reforms جو کہ جداگانہ انتخاب کی ترویج کے لیے تھیں ، کو پنپنے نہ دیا کہ انگریز مسلمان اور ہندو کو لڑوا کر اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا۔ 10سال کے اندر ہی گوکھلے ، نوروجی دادا بھائی، فیروز شاہ مہتہ اور تلک کے ہوتے ہوئے کانگرس کے صفحہ اول کے لیڈر بن گئے بلکہ گوکھلے ، فیروز شاہ مہتہ اور دادا بھائی کے بعد کانگرس کے جائز وارث سمجھے جانے لگے۔ 1912میں مسلم لیگ کو انگریزوں کے اثر سے نکال کر کانگرس کے قریب لائے ۔ 1915 میں لکھنو میں مسلمانوںکے حقوق کے تحفظ کے لیے قرارداد پیش کی جو بعد میں 23 مارچ 1940 کی قراردادکاپیش خیمہ ثابت ہوئی۔گوکھلے ، فیروز شاہ مہتہ، دادا بھائی کی آناً فاناً موت کے بعد کانگرس کو بکھرنے سے بچایا ۔رُولیٹ ایکٹ کا کالا قانون پاس ہوا تو جناح انگلستان تھے ، واپس آتے ہی کونسل کی رکنیت سے سانحہ جلیانوالہ باغ سے پہلے ہی احتجاجاََ مستعفی ہوگئے۔ 1917میں گورنرجنرل اور وائسرائے لارڈ ولیگنڈن سے جنگ عظیم دوئم کی بھرتیوں پر ٹکر لی اور اس کو رسوا کر کے الوداع کرایا۔ بمبئی میں جو ہال لارڈ ولیگنڈن سے منسوب ہونا تھا، جناح ہال کے طور پر جانا گیا ۔ تحریکِ خلافت سے نہرو رپورٹ تک ، گول میز کانفرنس سے 1935کے انتخابات تک ، 1940 کی قرارداد ِپاکستان سے گاندھی کی سول نافرمانی تک ، کیبنٹ مشن پلان سے آزادی پاکستان تک ایک موقع نہیں کہ اپنی سیاست پر آنچ آنے دی ہو، مات کھائی ہو، سمجھوتہ کیا ہو، موقف بدلا ہو،جھوٹ بولا ہو، قانون ، قوائد وضوابط کی خلاف ورزی کی ہو، وعدہ خلافی کی ہویا قول وفعل میں تضاد رہا ہو۔ اپنے وقت کے ’’جن‘‘ سیاستدان مدِ مقابل جبکہ مسلمان قوم بہ یک وقت انگریز اور ہندو کے تسلط میں ، سب کو بچھاڑا۔ پیرومرشد نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا کہ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
سٹینلے وولپرٹ Stanely Wolpert کی کتاب "Jinnah of Pakistan" کے آغاز کے تین فقرے میرے لیے حرفِ آخر۔ ’’چند لوگوں نے تاریخ کے دھارے کو بدلا، اس سے بھی کم لوگوں نے دنیا کا نقشہ تبدیل کیا ، ایک بھی ایسا نہیں جس نے ایک قوم (مسلمان)کے لیے آزاد ملک بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہو۔ محمد علی جناح تاریخ ِانسانی میں واحد انسان کہ جس نے تینوں کام بہ یک وقت سرانجام دئیے ‘‘۔