حسان خان
لائبریرین
اے لوگو! میری بات سنو
اور سوچ سمجھ کے ساتھ سنو
وہ جن کے پیدا ہونے کا
تن پیٹ کی ڈلیا ڈھونے کا
سو سالہ جشن منانے کو
تم لوگ یہاں مل بیٹھے ہو
وہ سیدھے سچے راہنما
کہتے ہیں زمانہ بیت چکا
یہ پاپی دنیا چھوڑ چکے
سب ناتے رشتے توڑ چکے
اور کروٹ کروٹ جنت میں
سکھ چین سے اپنی تربت میں
اب پاؤں پسارے سوتے ہیں
اور باپ تمہارے ہوتے ہیں
میں آج انہی کے بارے میں
من موج کے چڑھتے دھارے میں
کچھ کہنے کو منہ کھولوں گا
اور تاک دھنا دھن بولوں گا
ماں باپ قسم، استاد قسم
گھر بار قسم، اولاد قسم
دل جان قسم، ایمان قسم
اللہ قسم، قرآن قسم
وہ بگلے جیسے پیر نہ تھے
سچ مانو ٹیڑھی کھیر نہ تھے
وہ مینا، مرغا، مور نہ تھے
مولانا حلوہ خور نہ تھے
وہ واعظ کلّا پھاڑ نہ تھے
وہ ذاکر چیخم دھاڑ نہ تھے
وہ مفتی فتنہ چھوڑ نہ تھے
علامہ ملت توڑ نہ تھے
وہ سودی ساہوکار نہ تھے
وہ بنیئے ڈنڈی مار نہ تھے
وہ سیٹھ ملاوٹ کار نہ تھے
وہ قاتل بے تلوار نہ تھے
وہ ناپ کے کرتے پاپ نہ تھے
اور بنتے حاجی چھاپ نہ تھے
وہ قومی چاقو گھونپ نہ تھے
وہ کالے دھن کی توپ نہ تھے
وہ نقلی انکل ٹام نہ تھے
وہ گوروں کے گلفام نہ تھے
وہ اپنوں کے خرکار نہ تھے
اغیار کے خدمتگار نہ تھے
وہ بے بس گھر داماد نہ تھے
وہ افسر مادر زاد نہ تھے
وہ منشی پھڈے باز نہ تھے
وہ بابو حیلے ساز نہ تھے
وہ دفتر کی مخلوق نہ تھے
وہ افسر کی بندوق نہ تھے
وہ نوکر رشوت خور نہ تھے
سرکاری ڈاکو چور نہ تھے
وہ صدیوں کا نقصان نہ تھے
وہ پشتوں کا تاوان نہ تھے
بیگار نہ تھے، بھگتان نہ تھے
جن، بھوت، بلا، شیطان نہ تھے
یرقان، دمہ، سرطان نہ تھے
وہ ملک وڈیرے خان نہ تھے
وہ حاکم کے قوال نہ تھے
وہ ظالم کے فٹ بال نہ تھے
وہ دشمن کے دلّال نہ تھے
غڈار کے ہانڈی دال نہ تھے
لچ پال تھے، گھوڑی پال نہ تھے
ہر بھاؤ بکاؤ مال نہ تھے
وہ مٹی کی دیوار نہ تھے
وہ لکڑی کی تلوار نہ تھے
وہ رستم مکھی مار نہ تھے
وہ جھوٹے عزت دار نہ تھے
سرخان نہ تھے، سردار نہ تھے
نوّاب حماقت یار نہ تھے
وہ منہ پر پہنے خول نہ تھے
وہ باتیں کرتے گول نہ تھے
افکار میں ان کے جھول نہ تھے
کردار میں ڈانواں ڈول نہ تھے
وہ ڈھم ڈھم بجتی ڈھول نہ تھے
اور ڈھول کے اندر پول نہ تھے
ہر ڈھولک کے بہلول نہ تھے
ہر بیٹھک کے بغلول نہ تھے
وہ کاٹ کپٹ کی پوٹ نہ تھے
وہ دل میں رکھتے کھوٹ نہ تھے
وہ دھونس سے لیتے ووٹ نہ تھے
اور دیتے جعلی نوٹ نہ تھے
اسلام سے وہ بیزار نہ تھے
وہ نیّا بے پتوار نہ تھے
بے دین سیاست کار نہ تھے
وہ اندھے لاٹھی مار نہ تھے
وہ اوپر سے کعبائی نہ تھے
اور اندر سے عیسائی نہ تھے
وہ گھوڑے کی چولائی نہ تھے
وہ بستی کی بھوجائی نہ تھے
وہ آنکھ لگی گھر لائی نہ تھے
وہ پھاپھا کٹنی مائی نہ تھے
وہ دانشور بے فیض نہ تھے
اغیار کا ہم پر غیظ نہ تھے
وہ شاعر ناہنجار نہ تھے
وہ ایک کو کہتے چار نہ تھے
وہ رند نہ تھے، مے خوار نہ تھے
وہ زانی اور بدکار نہ تھے
گھر کھود نہ تھے، خرگوش نہ تھے
وہ سڑی کڑھی کا جوش نہ تھے
وہ دہنے دادا گیر نہ تھے
وہ قومی رسّہ گیر نہ تھے
وہ چھپ کر کھاتے کھانڈ نہ تھے
وہ کھل کر پیتے مانڈ نہ تھے
وہ قوم کو سمجھے رانڈ نہ تھے
وہ اللہ دینو سانڈ نہ تھے
وہ بائیں بٹوا چور نہ تھے
وہ چوروں کے بھی مور نہ تھے
وہ محلوں کے جمہور نہ تھے
قالینوں کے مزدور نہ تھے
وہ بھیڑ کی اوڑھے کھال نہ تھے
وہ دال میں کالا بال نہ تھے
وہ گھی کے نیچے تیل نہ تھے
وہ باغ کی امبر بیل نہ تھے
وہ کھیت کے دشمن کاگ نہ تھے
وہ پھول سے لپٹے ناگ نہ تھے
وہ لگی لگائی لاگ نہ تھے
گھر پھونک پرائی آگ نہ تھے
وہ تِلیَر تیتر کوئی نہ تھے
وہ کھٹمل مچھر کوئی نہ تھے
وہ منہ کے اوپر اور نہ تھے
اور دل کے اندر اور نہ تھے
وہ حال میں اپنے مست نہ تھے
وہ مال میں اپنے مست نہ تھے
وہ چال میں اپنی مست نہ تھے
وہ کھال میں اپنی مست نہ تھے
وہ میں نے اب تک جو بھی کہا
اور تم نے اب تک جو بھی سنا
واللہ وہ اتنے پست نہ تھے
وہ تم جیسے کم بخت نہ تھے
اس بات کے آگے اے لوگو!
فی الحال نہیں کچھ کہنے کو
میں اپنی بولی ٹھولی میں
اس جلسے، محفل، ٹولی میں
الفاظ کے موتی رول چکا
اور تالو چھوڑے بول چکا
میں اپنی جیسی ہانک چکا
ہل ہانک کے مٹی پھانک چکا
اب باقی کام تمہارا ہے
کر ڈالو تو پو بارہ ہے
دو چار کہیں جب مل بیٹھو
سر جوڑ کے سوچو اور سمجھو
وہ فرطِ عقیدت سے جن کو
تم قائدِ اعظم کہتے ہو
وہ ایسے ایسے ایسے تھے
یا ویسے ویسے ویسے تھے
وہ کیسے کیسے کیسے تھے
وہ جیسے جیسے جیسے تھے
اللہ وہ کتنے اچھے تھے
واللہ وہ کتنے سچے تھے
کچھ تم بھی ان کے جیسے ہو؟
یا بالکل کھوٹے پیسے ہو؟
(رحمٰن کیانی)