سید زبیر
محفلین
قائد ؒ کے پائلٹ اور پاک فضائیہ کے پہلے ستارہ جرأت
تحریر سید زبیر
ائر کموڈور (ر) مختار ڈوگر مرحوم پاک فضائیہ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے یہ وہ ارکان تھے جنہوں نے پاکستان ائر فورس کو خود اعتمادی ، جذبہ حب الوطنی کی راہ پر گامزن کیا انہی چند بے لوث اور نڈر افراد کی بنائی ہوئی پاک فضائیہ کو دنیا کی چند بہترین فضائی قوتوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جو دنیا کی کسی بھی فضائی قوت کا مقابلہ کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے ۔ ۔
آزادی کے فوراً بعد جہاں پاکستان گوناگوں مسائل کا شکار تھا اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا پاک فضائیہ جو اُس وقت رائل پاکستان ائر فورس کہلاتی تھی گنتی کے چند جہازوں پر مشتمل تھی ان میں سے بیشتر ناگفتہ حالت میں مرمت طلب تھے یہ وہ حالات تھے یہ وہ حالات تھے جب کشمیر کے مہاراجہ نے وادی کی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا جو کہ حق رائے دہی کی صریحاً خلاف ورزی تھی ۔اعلان کی خبر سنتے ہی میر ہپور اور پونچھ کے عوام نے مظفر آباد میں اپنی حکومت قائم کردی ۔گلگت میںبھی قبائلی امور کے لیے پولٹیکل ایجنٹ کی تعیناتی بھی کردی گئی ۔ پاکستانی افواج کا بیشتر اسلحہ بھارت کے اسلحہ خانوں میں پڑا تھا ۔ پاک فضاءیہ ان حلات میں بے بس اور بری فوج کی کسی قسم کی اعانت کرنے سے قاصر تھی ۔اس بے سرو سامانی کی حالت میں گلگت کی محصور عوام کو سامان کی سپلائی بھی اشد ضروری تھی ۔اور پاک فضائیہ کے پاس صرف دو ڈکوٹا مال بردار طیارے تھے اور وہ بھی دوسری جنگ عظیم کے نقصان زدہ تھے ۔ یہ دونوں جہاز کراچی میں ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر تھے ۔جب دسمبر ۱۹۴۷ میں ان کی ضرورت پڑی تو ان میں سے ایک فوری طور پر عملے سمیت رسالپور منتقل ہو گیا جو کہ براہ راست ونگ کمانڈر اصغر خان (پاک فضائیہ کے سابق کمانڈر انچیف) کے ماتحت تھا ان حالات میں جہازوں کی دیکھ بھال اور مرمت بھی ایک گھمبیر مسئلہ تھا ۔خصوصاً نوزائیدہ ملک میں جہاں تربیت یافتہ عملہ اور ورکشاپ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ان حالات میں ڈکوٹا جہاز کی پروا ز ایک مشکل امر تھا ۔ کہ طیار سامان سمیت چیلاش ،بونجی ، گلگت اور سکردو کی سات ہزار سے سترہ ہزار فٹ کی بلند و بالا چٹانوں کے درمیان گھاٹیوں اور وادیوں میں گھرے ہوئے دھائی لاکھ عوام کو اشیائے خوردو نوش اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنا تھی ۔ اتنی تنگ وادیاں اور گھاٹیاں کہ ڈکوٹا واپسی کے لیے مُڑ بھی نہ سکے اور میلوں دور تک زمین کی کوئی ایسی پٹی نہ تھی کہ جہاں ہنگامی حالت میں جہاز کو اتارا جا سکے مگر جذبہ حب الوطنی سے سرشار مجاہدوں کی اس جماعت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تمام مشن کامیابی سے مکمل کیے ۔ بھارتی فضائیہ سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزیاںکر رہی تھی علاقے میں بھارتی طیارے گشت کرہے ہوتے تھے ، ۴ نومبر ۱۹۴۷ کو پاک فضائیہ کا ڈکوٹا جہاز ۳۵۰۰ پونڈ امدادی سامان لے کر روانہ ہوا جسے نوجوان فلائنگ آفیسر مختار ڈوگر اُڑا رہے تھے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سکردو میں مقررہ مقام پر سامان پھینکا ۔ مشن کی کامیابی پر مسرور عملہ پر سکون واپس آرہاتھا کہ پائلٹ فلائنگ آفیسر مختار ڈوگر نے فضا میں موجود دو بھاتی تیمپ سیٹ لڑاکا طیارے دیکھے ۔ خوش قسمتی سے چیلاش کا یہ مقام کچھ کشادہ تھا بھارتی طیاروں نے مختار ڈوگر کو طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑنے کا حکم دیا ۔ ڈکوٹا ایک بالکل نہتا طیارہ تھا جبکہ بھارتی طیارے ہتھیاروں سے لیس لڑاکا طیارے تھے ۔ جواب نہ ملنے پر دوبارہ حکم دیتے ہوئے بھارتی پائلٹ دھمکی دی کہ وہ ڈکوٹا کو تباہ کردے گا ۔ فلائنگ ٓفیسر کمال مہارت سے دائیں بائیں ہو کر دشمن کی زد سے بچ رہے تھے جہاز کا باقی عملہ جس میں پائلٹ ٓفیسر منیر ، فلائنگ آفیسر جگ جیون اور سامان گرانے والا نیک محمد شامل تھے اس صورتحال سے قطعی بے خبر تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ فلاءنگ آفیسر مشن کی کامیاب تکمیل پر مسرور ہو کر فن ہوابازی کے کرتب دھارہے ہیں اور جب اُنہیں اندازہ ہوا تو انہوں نے جہاز کا دروازہ کھول کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی اُس لمحے دشمن نے فائر کا برسٹ مارا جس سے نیک محمد نے جام شہادت نوش کیا ۔ فلاءنگ آفیسر نے اس موقعے پر انتہائی مہارت سے دشمن سے بچنے کے لیے ایک تنگ گھاٹی میں انتہائی نیچے آگئے اور اس طرح وہ دشمن کے لڑاکا طیاروں سے اپنے نہتے طیارے کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے
اُس وقت مختار ڈوگر کے سامنے اپنی ذات کا مسئلہ نیہ تھا بلکہ وہ دشمن کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ مسلمانان بر صغیر نے اتنی قربانی کے بعد جو آزادی حاصل کی ہے وہ اُس کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں ۔ مختار ڈوگر کو قائد اعظم محمد علی جناح کے پائلٹ رہنے کا بھی اعزا حاصل ہے ۔ مختار ڈوگر کو اُن کی بے مثال شجاعت و بہادری کے باعث ستارہ جرأت سے نوازا گیا
مختار ڈوگر ائر کموڈور کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور ۶ جون ۲۰۰۴ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، اللہ کریم اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین)
تحریر سید زبیر
ائر کموڈور (ر) مختار ڈوگر مرحوم پاک فضائیہ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے یہ وہ ارکان تھے جنہوں نے پاکستان ائر فورس کو خود اعتمادی ، جذبہ حب الوطنی کی راہ پر گامزن کیا انہی چند بے لوث اور نڈر افراد کی بنائی ہوئی پاک فضائیہ کو دنیا کی چند بہترین فضائی قوتوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جو دنیا کی کسی بھی فضائی قوت کا مقابلہ کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے ۔ ۔
آزادی کے فوراً بعد جہاں پاکستان گوناگوں مسائل کا شکار تھا اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا پاک فضائیہ جو اُس وقت رائل پاکستان ائر فورس کہلاتی تھی گنتی کے چند جہازوں پر مشتمل تھی ان میں سے بیشتر ناگفتہ حالت میں مرمت طلب تھے یہ وہ حالات تھے یہ وہ حالات تھے جب کشمیر کے مہاراجہ نے وادی کی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا جو کہ حق رائے دہی کی صریحاً خلاف ورزی تھی ۔اعلان کی خبر سنتے ہی میر ہپور اور پونچھ کے عوام نے مظفر آباد میں اپنی حکومت قائم کردی ۔گلگت میںبھی قبائلی امور کے لیے پولٹیکل ایجنٹ کی تعیناتی بھی کردی گئی ۔ پاکستانی افواج کا بیشتر اسلحہ بھارت کے اسلحہ خانوں میں پڑا تھا ۔ پاک فضاءیہ ان حلات میں بے بس اور بری فوج کی کسی قسم کی اعانت کرنے سے قاصر تھی ۔اس بے سرو سامانی کی حالت میں گلگت کی محصور عوام کو سامان کی سپلائی بھی اشد ضروری تھی ۔اور پاک فضائیہ کے پاس صرف دو ڈکوٹا مال بردار طیارے تھے اور وہ بھی دوسری جنگ عظیم کے نقصان زدہ تھے ۔ یہ دونوں جہاز کراچی میں ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر تھے ۔جب دسمبر ۱۹۴۷ میں ان کی ضرورت پڑی تو ان میں سے ایک فوری طور پر عملے سمیت رسالپور منتقل ہو گیا جو کہ براہ راست ونگ کمانڈر اصغر خان (پاک فضائیہ کے سابق کمانڈر انچیف) کے ماتحت تھا ان حالات میں جہازوں کی دیکھ بھال اور مرمت بھی ایک گھمبیر مسئلہ تھا ۔خصوصاً نوزائیدہ ملک میں جہاں تربیت یافتہ عملہ اور ورکشاپ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ان حالات میں ڈکوٹا جہاز کی پروا ز ایک مشکل امر تھا ۔ کہ طیار سامان سمیت چیلاش ،بونجی ، گلگت اور سکردو کی سات ہزار سے سترہ ہزار فٹ کی بلند و بالا چٹانوں کے درمیان گھاٹیوں اور وادیوں میں گھرے ہوئے دھائی لاکھ عوام کو اشیائے خوردو نوش اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنا تھی ۔ اتنی تنگ وادیاں اور گھاٹیاں کہ ڈکوٹا واپسی کے لیے مُڑ بھی نہ سکے اور میلوں دور تک زمین کی کوئی ایسی پٹی نہ تھی کہ جہاں ہنگامی حالت میں جہاز کو اتارا جا سکے مگر جذبہ حب الوطنی سے سرشار مجاہدوں کی اس جماعت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تمام مشن کامیابی سے مکمل کیے ۔ بھارتی فضائیہ سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزیاںکر رہی تھی علاقے میں بھارتی طیارے گشت کرہے ہوتے تھے ، ۴ نومبر ۱۹۴۷ کو پاک فضائیہ کا ڈکوٹا جہاز ۳۵۰۰ پونڈ امدادی سامان لے کر روانہ ہوا جسے نوجوان فلائنگ آفیسر مختار ڈوگر اُڑا رہے تھے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سکردو میں مقررہ مقام پر سامان پھینکا ۔ مشن کی کامیابی پر مسرور عملہ پر سکون واپس آرہاتھا کہ پائلٹ فلائنگ آفیسر مختار ڈوگر نے فضا میں موجود دو بھاتی تیمپ سیٹ لڑاکا طیارے دیکھے ۔ خوش قسمتی سے چیلاش کا یہ مقام کچھ کشادہ تھا بھارتی طیاروں نے مختار ڈوگر کو طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑنے کا حکم دیا ۔ ڈکوٹا ایک بالکل نہتا طیارہ تھا جبکہ بھارتی طیارے ہتھیاروں سے لیس لڑاکا طیارے تھے ۔ جواب نہ ملنے پر دوبارہ حکم دیتے ہوئے بھارتی پائلٹ دھمکی دی کہ وہ ڈکوٹا کو تباہ کردے گا ۔ فلائنگ ٓفیسر کمال مہارت سے دائیں بائیں ہو کر دشمن کی زد سے بچ رہے تھے جہاز کا باقی عملہ جس میں پائلٹ ٓفیسر منیر ، فلائنگ آفیسر جگ جیون اور سامان گرانے والا نیک محمد شامل تھے اس صورتحال سے قطعی بے خبر تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ فلاءنگ آفیسر مشن کی کامیاب تکمیل پر مسرور ہو کر فن ہوابازی کے کرتب دھارہے ہیں اور جب اُنہیں اندازہ ہوا تو انہوں نے جہاز کا دروازہ کھول کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی اُس لمحے دشمن نے فائر کا برسٹ مارا جس سے نیک محمد نے جام شہادت نوش کیا ۔ فلاءنگ آفیسر نے اس موقعے پر انتہائی مہارت سے دشمن سے بچنے کے لیے ایک تنگ گھاٹی میں انتہائی نیچے آگئے اور اس طرح وہ دشمن کے لڑاکا طیاروں سے اپنے نہتے طیارے کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے
اُس وقت مختار ڈوگر کے سامنے اپنی ذات کا مسئلہ نیہ تھا بلکہ وہ دشمن کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ مسلمانان بر صغیر نے اتنی قربانی کے بعد جو آزادی حاصل کی ہے وہ اُس کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں ۔ مختار ڈوگر کو قائد اعظم محمد علی جناح کے پائلٹ رہنے کا بھی اعزا حاصل ہے ۔ مختار ڈوگر کو اُن کی بے مثال شجاعت و بہادری کے باعث ستارہ جرأت سے نوازا گیا
مختار ڈوگر ائر کموڈور کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور ۶ جون ۲۰۰۴ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، اللہ کریم اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین)