سید زبیر
محفلین
قائد ؒ اور پاک فضائیہ
تحریر : سید زبیر
ایک شام غروب آفتاب کے وقت قائد اعظم لندن میں مکان کی بالکونی سے باہر کا نظارہ کرہے تھے سوائے سگار سے نکلتے ہوئے دھوئیں کے فضا بالکل ساکت تھی قائد اعظمؒ گہری سوچ میں تھے کہ جنوب کی طرف سے ایک جہاز وں کا ایک دستہ نمودار ہوا اور باوقار پرواز کرتا ہوا گزر گیا اس دستہ کو دیکھ کر قائد اعظمؒ کو فضائی قوت کا احساس ہوا ۔ اُن کی دوربین نگاہوں میں مستقبل کی جنگوں میں فضائی قوت کی اہمیت گھوم گئی۔جہازوں کے گزرتے ہی ان کا ذہن ہندوستان کے مسائل میں الجھ گیا ۔ وہ مسلمانان بر صغیر کے لیے ایک آزاد وطن کے بارے میں سوچنے لگے انہیں اُس وقت اس بات کا بھی احساس تھا کہ آزاد وطن کو نہ بدلے جانے والے ہمسایہ ملک کی دشمنی کا بھی سامنا ہوگا ۔ قائد اعظمؒ نہ تو فوجی تھے اور نہ ہی کسی کسی عسکری ادارے کے تربیت یافتہ،وہ تو دلائل اور اصولوں پر بات کرنے والے وکیل تھے مگر اُن کی بصیرت فضائی دفا عی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھی ۔۱۹۲۵ میں جب لیفٹنٹ جنرل اینڈریو سکن ہندوستان پہنچے تو اُن کا مقصد ہندوستان میں ملٹری کالج کے قیام کا جائزہ لیہنا تھا جس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہمارے محبوب قائدؒ بھی شامل تھے ۔ بعد میں ایک ذیلی کمیٹی نے قائد اعظمؒ کی سربراہی میں بیرون ملک عسکری تربیتی اداروں کا دورہ کیا اور ڈیرہ دون میں ملٹری کالج کے قیام میں قائد اعظمؒ کی کوششیں بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ قائد اعظمؒ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے حکومت برطانیہ کو رائل ائر فورس کالج کرین ویل میں ہندوستانی باشندوں کے لیے کوٹہ مخصوصکرنے پر قائل کیا اس طرح ہندوستانی باشندے ہوابازی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رائل ائر فورس کالج کرین ویل پہنچ گئے ۔۱۹۳۶ میں قائد اعظمؒ رائل ائر فورس کے مسلمان افسروں اور جوانوں سے لندن میں ملے ۔ قائد اعظمؒ ان کی تربیت کے معیار کے بارے میں نہایت حساس تھے اُن کی خواہش تھی کہ یہ بہترین پیشہ ورانہ تربیت حاصل کریں ۔ قائد اعظمؒ اُن کو مستقبل کی پاک فضائہ کی بنیاد رکھنے والے سمجھتے تھے انہیں یقین تھا کہ آزادی کے بعد یہی مسلمان پاک فضائیہ کے بانی ہونگے ۔ مستقبل کی فضائی قوت کا دارومدار ان ہی لوگوں پر ہوگا ۔ یہی سوچ تھی جب ۱۹۴۱ میں قائد اعظمؒ علی گڑھ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا " مستقبل کی جنگوں میں فضائی قوت فیصلہ کن کردار ادا کرے گی " وہ مسلمان نوجوانونوں کو کو فضائی قوت کی اہمیت سے آگاہ کرتے اور انہیں اس میں شمولیت کی ترغیب دیتے ۔ رائل ائر فورس کے مسلمان آفیسرز اور ائرمینوں نے جدوجہد آزادی میں بھی فعال کردار ادا کیا اور قائد اعظم کے فنڈ میں دل کھول کر عطیات دئیے ۲۰ مارچ ۱۹۴۶ کو قائد اعظمؒ کی لاہور آمد کے موقعہ پر رائل ائر فورس کے ۳۰۶ موبائل یونٹ ہربنس پورہ کے مسلمان ارکان نے سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک ، ارشد حسین ، کرامت ، ایم ایس بٹ ، سلیم اختر رحمانی کی معیت میں قائد اعظمؒ سے ملاقات کی سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک بتاتے ہیں کہ جیسے ہی قائد اعظمؒ طیارے سے باہر نکلے میں نے وفاداری کے اظہار کے طور پر رقم کی تھیلی پیش کی اور کہا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور پاکستان ائر فورس کے لیے پیغام کی درخواست کی جس پر قائد اعظمؒ نے نہائت پر سکون اور باوقار انداز میں جواب دیا کہ آپ لوگ دعا کریں ۔ سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک نے ایک نعرہ لگایا "مارشل آف پاکستان ائر فورس " جس کا جواب دیگر ارکان نے زندہ باد کے فلک شگاف نعرے سے دیا دوسرے دن اردو اخبارات نے رائل ائر فورس کے مسلمان افسر کے دیگر ارکان کے ہمراہ ہر قربانی دینے کے اظہار کیا کی سرخی سے اس واقعے کو شائع کیا ۔اسی طرح رائل ائر فورس انبالہ میں مسلم ارکان نے ایک قرار داد کے ذریعے مسلم لیگ سے اظہار یک جہتی کیا جو ۲۳ اگست ۱۹۵۴۶ کے روزنامہ ڈان میں نمایاں سرخی سے شائع ہوا ۔
پاکستان ائر فورس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آزادی کے بعدجب قائد اعظمؒ وائسراے ہند کے طیارے میں پہلی دفعہ بطور گورنر جنرل آف پاکستان ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترے تو وہاں موجود رائل پاکستان ائر فورس کے ارکین نے جو وہاں موجود تھے پاک سرزمین پر پہلا سیلوٹ پیش کیا ۔
اگست ۱۹۴۷ میں بھارت کے طول و عرض سے مسلمان مہاجرین پاک سرزمین پر آرہے تھے ان میں وہ چند مخصوص لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے فضائی قوت کی تاریخ میں حوصلے اور جرأت کی نئی تاریخ رقم کرنی تھی ان میں انڈین ائر فورس کے ہواباز،انجینئیر، ڈاکٹر ، منتظم ، اکاوٹنٹ اور ٹیکنیشنز شامل تھے یہ بھارت کے دور دراز علاقوں سے آگ کا دریا عبور کرکے راولپنڈی،پشاور،کراچی اور ڈھاکہ پہنچے اُنہوں نے اس سفر میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں ۔ ساڑھے سات کروڑ لوگوں میں سے اِن کی تعداد صرف ۲۳۳۲ تھی جنہوں نے پاک فضائیہ کو مثالی بنانے کے لیے نہائت مستعدی ، جانفشانی ، لگن سے دن رات کام کیا ۔ آزادی کے بعد اُن کے لیے آرام کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی
قائد اعظمؒ کو پاکستان کی مسلح افواج کی تنظیم نو کی بہت فکر تھی جب بھی منوقعہ ملتا قائد اعظمؒ عسکری اداروں کا دورہ کرتے ۲۳ اپریل ۱۹۴۸ پاکستان ائر فورس کی تاریخ میں نہائت اہمیت کا دن تھا جب قائد اعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل آف پاکستان ، رائل پاکستان ائر فورس کے فلائنگ ٹریننگ سکول رسالپور کے دورے پر تشریف لائے ۔ فضائیہ کے ارکان خوشی و مسرت کے جذبے سے سرشار تھے ۔ پاک فضائیہ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہو ا کہ محبوب قائد نے صرف پاک فضائیہ ہی کے ایک تربیتی ادارے کا دورہ کیا ۔ قائد اعظمؒ کے اس دورے نے رائل پاکستان ائر فورس کے اراکین کو ایک نیا حوصلہ بخشا اُن کا خطاب پاک فضائیہ کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہا قائد اعظمؒ نے فرمایا
" رائل پاکستان ائر فورس کا دورہ میرے لیے باعث مسرت ہے بلا شبہ کوئی بھی ملک بغیر فضائی قوت کے دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اس لیے پاکستان کو جلد از جلد اپنی فضائی قوت تیار کرنی ہوگی جو موئثر اور بے مثال ہو اور برّی و بحری افواج کے شانہ بشانہ ہو کر ملک کے دفاع کو یقینی بنائے "
پاک فضایہ کے اراکین کو قائد اعظمؒ کے ان الفاظ کی اہمیت کا بخوبی احساس ہے اور اس کے ارکان مسلسل محنت اور جانفشانی سے پاکستان ائر فورس کو دنیا میں نمایا مقام حاصل کرنے میں مکامیاب رہے اور یہ دنیا کی واحد فضائی قوت ہے جو صنعت ہوابازی میں بھی داخل ہو گئی ہے اور طیارہ سازی کی صنعت اور دفاعی برآمدات میں نمایاں مقام حاصل کرچکی ہے ۔
پاکستان ائر فورس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قائد اعظمؒ نےجس سیلوٹ کا آخری جواب دیا تھا وہ بھی پاک فضائیہ کے اراکین نے زیارت سے قائد کی روانگی کے موقعہ پر کیا تھا جس کا قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے سٹریچر پر لیٹے لیٹے ہاتھ بلند کرکے جواب دیا ۔
اللہ کریم ہمارے محبوب قائد اعظمؒ کے درجات بلند فرمائے (آمین)
تحریر : سید زبیر
ایک شام غروب آفتاب کے وقت قائد اعظم لندن میں مکان کی بالکونی سے باہر کا نظارہ کرہے تھے سوائے سگار سے نکلتے ہوئے دھوئیں کے فضا بالکل ساکت تھی قائد اعظمؒ گہری سوچ میں تھے کہ جنوب کی طرف سے ایک جہاز وں کا ایک دستہ نمودار ہوا اور باوقار پرواز کرتا ہوا گزر گیا اس دستہ کو دیکھ کر قائد اعظمؒ کو فضائی قوت کا احساس ہوا ۔ اُن کی دوربین نگاہوں میں مستقبل کی جنگوں میں فضائی قوت کی اہمیت گھوم گئی۔جہازوں کے گزرتے ہی ان کا ذہن ہندوستان کے مسائل میں الجھ گیا ۔ وہ مسلمانان بر صغیر کے لیے ایک آزاد وطن کے بارے میں سوچنے لگے انہیں اُس وقت اس بات کا بھی احساس تھا کہ آزاد وطن کو نہ بدلے جانے والے ہمسایہ ملک کی دشمنی کا بھی سامنا ہوگا ۔ قائد اعظمؒ نہ تو فوجی تھے اور نہ ہی کسی کسی عسکری ادارے کے تربیت یافتہ،وہ تو دلائل اور اصولوں پر بات کرنے والے وکیل تھے مگر اُن کی بصیرت فضائی دفا عی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھی ۔۱۹۲۵ میں جب لیفٹنٹ جنرل اینڈریو سکن ہندوستان پہنچے تو اُن کا مقصد ہندوستان میں ملٹری کالج کے قیام کا جائزہ لیہنا تھا جس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہمارے محبوب قائدؒ بھی شامل تھے ۔ بعد میں ایک ذیلی کمیٹی نے قائد اعظمؒ کی سربراہی میں بیرون ملک عسکری تربیتی اداروں کا دورہ کیا اور ڈیرہ دون میں ملٹری کالج کے قیام میں قائد اعظمؒ کی کوششیں بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ قائد اعظمؒ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے حکومت برطانیہ کو رائل ائر فورس کالج کرین ویل میں ہندوستانی باشندوں کے لیے کوٹہ مخصوصکرنے پر قائل کیا اس طرح ہندوستانی باشندے ہوابازی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رائل ائر فورس کالج کرین ویل پہنچ گئے ۔۱۹۳۶ میں قائد اعظمؒ رائل ائر فورس کے مسلمان افسروں اور جوانوں سے لندن میں ملے ۔ قائد اعظمؒ ان کی تربیت کے معیار کے بارے میں نہایت حساس تھے اُن کی خواہش تھی کہ یہ بہترین پیشہ ورانہ تربیت حاصل کریں ۔ قائد اعظمؒ اُن کو مستقبل کی پاک فضائہ کی بنیاد رکھنے والے سمجھتے تھے انہیں یقین تھا کہ آزادی کے بعد یہی مسلمان پاک فضائیہ کے بانی ہونگے ۔ مستقبل کی فضائی قوت کا دارومدار ان ہی لوگوں پر ہوگا ۔ یہی سوچ تھی جب ۱۹۴۱ میں قائد اعظمؒ علی گڑھ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا " مستقبل کی جنگوں میں فضائی قوت فیصلہ کن کردار ادا کرے گی " وہ مسلمان نوجوانونوں کو کو فضائی قوت کی اہمیت سے آگاہ کرتے اور انہیں اس میں شمولیت کی ترغیب دیتے ۔ رائل ائر فورس کے مسلمان آفیسرز اور ائرمینوں نے جدوجہد آزادی میں بھی فعال کردار ادا کیا اور قائد اعظم کے فنڈ میں دل کھول کر عطیات دئیے ۲۰ مارچ ۱۹۴۶ کو قائد اعظمؒ کی لاہور آمد کے موقعہ پر رائل ائر فورس کے ۳۰۶ موبائل یونٹ ہربنس پورہ کے مسلمان ارکان نے سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک ، ارشد حسین ، کرامت ، ایم ایس بٹ ، سلیم اختر رحمانی کی معیت میں قائد اعظمؒ سے ملاقات کی سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک بتاتے ہیں کہ جیسے ہی قائد اعظمؒ طیارے سے باہر نکلے میں نے وفاداری کے اظہار کے طور پر رقم کی تھیلی پیش کی اور کہا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور پاکستان ائر فورس کے لیے پیغام کی درخواست کی جس پر قائد اعظمؒ نے نہائت پر سکون اور باوقار انداز میں جواب دیا کہ آپ لوگ دعا کریں ۔ سکواڈرن لیڈر ایم اقبال ملک نے ایک نعرہ لگایا "مارشل آف پاکستان ائر فورس " جس کا جواب دیگر ارکان نے زندہ باد کے فلک شگاف نعرے سے دیا دوسرے دن اردو اخبارات نے رائل ائر فورس کے مسلمان افسر کے دیگر ارکان کے ہمراہ ہر قربانی دینے کے اظہار کیا کی سرخی سے اس واقعے کو شائع کیا ۔اسی طرح رائل ائر فورس انبالہ میں مسلم ارکان نے ایک قرار داد کے ذریعے مسلم لیگ سے اظہار یک جہتی کیا جو ۲۳ اگست ۱۹۵۴۶ کے روزنامہ ڈان میں نمایاں سرخی سے شائع ہوا ۔
پاکستان ائر فورس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آزادی کے بعدجب قائد اعظمؒ وائسراے ہند کے طیارے میں پہلی دفعہ بطور گورنر جنرل آف پاکستان ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترے تو وہاں موجود رائل پاکستان ائر فورس کے ارکین نے جو وہاں موجود تھے پاک سرزمین پر پہلا سیلوٹ پیش کیا ۔
اگست ۱۹۴۷ میں بھارت کے طول و عرض سے مسلمان مہاجرین پاک سرزمین پر آرہے تھے ان میں وہ چند مخصوص لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے فضائی قوت کی تاریخ میں حوصلے اور جرأت کی نئی تاریخ رقم کرنی تھی ان میں انڈین ائر فورس کے ہواباز،انجینئیر، ڈاکٹر ، منتظم ، اکاوٹنٹ اور ٹیکنیشنز شامل تھے یہ بھارت کے دور دراز علاقوں سے آگ کا دریا عبور کرکے راولپنڈی،پشاور،کراچی اور ڈھاکہ پہنچے اُنہوں نے اس سفر میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں ۔ ساڑھے سات کروڑ لوگوں میں سے اِن کی تعداد صرف ۲۳۳۲ تھی جنہوں نے پاک فضائیہ کو مثالی بنانے کے لیے نہائت مستعدی ، جانفشانی ، لگن سے دن رات کام کیا ۔ آزادی کے بعد اُن کے لیے آرام کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی
قائد اعظمؒ کو پاکستان کی مسلح افواج کی تنظیم نو کی بہت فکر تھی جب بھی منوقعہ ملتا قائد اعظمؒ عسکری اداروں کا دورہ کرتے ۲۳ اپریل ۱۹۴۸ پاکستان ائر فورس کی تاریخ میں نہائت اہمیت کا دن تھا جب قائد اعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل آف پاکستان ، رائل پاکستان ائر فورس کے فلائنگ ٹریننگ سکول رسالپور کے دورے پر تشریف لائے ۔ فضائیہ کے ارکان خوشی و مسرت کے جذبے سے سرشار تھے ۔ پاک فضائیہ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہو ا کہ محبوب قائد نے صرف پاک فضائیہ ہی کے ایک تربیتی ادارے کا دورہ کیا ۔ قائد اعظمؒ کے اس دورے نے رائل پاکستان ائر فورس کے اراکین کو ایک نیا حوصلہ بخشا اُن کا خطاب پاک فضائیہ کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہا قائد اعظمؒ نے فرمایا
" رائل پاکستان ائر فورس کا دورہ میرے لیے باعث مسرت ہے بلا شبہ کوئی بھی ملک بغیر فضائی قوت کے دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اس لیے پاکستان کو جلد از جلد اپنی فضائی قوت تیار کرنی ہوگی جو موئثر اور بے مثال ہو اور برّی و بحری افواج کے شانہ بشانہ ہو کر ملک کے دفاع کو یقینی بنائے "
پاک فضایہ کے اراکین کو قائد اعظمؒ کے ان الفاظ کی اہمیت کا بخوبی احساس ہے اور اس کے ارکان مسلسل محنت اور جانفشانی سے پاکستان ائر فورس کو دنیا میں نمایا مقام حاصل کرنے میں مکامیاب رہے اور یہ دنیا کی واحد فضائی قوت ہے جو صنعت ہوابازی میں بھی داخل ہو گئی ہے اور طیارہ سازی کی صنعت اور دفاعی برآمدات میں نمایاں مقام حاصل کرچکی ہے ۔
پاکستان ائر فورس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قائد اعظمؒ نےجس سیلوٹ کا آخری جواب دیا تھا وہ بھی پاک فضائیہ کے اراکین نے زیارت سے قائد کی روانگی کے موقعہ پر کیا تھا جس کا قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے سٹریچر پر لیٹے لیٹے ہاتھ بلند کرکے جواب دیا ۔
اللہ کریم ہمارے محبوب قائد اعظمؒ کے درجات بلند فرمائے (آمین)