کعنان
محفلین
قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر، غلط فہمی دور کریں
ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی28/12/2016
قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی تحریر و تقریر اور مراسلت وغیرہ سے ان کا پاکستان کے بارے میں نقطۂ نظر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آپ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جہاں مغربی جمہوریت نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں قرآن و سنت کے مطابق اہل پاکستان اپنی زندگی گزار سکیں۔
قائد اعظم علیہ الرحمۃ نے جب پاکستان کے حصول کے مقاصد اور نظریہ پاکستان کو مختلف اوقات میں بیان فرمایا تو ناقدین کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ پاکستان اگر ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہوگی، جس کی بنیاد دو قومی نظریہ ہوگا تو ایسی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق یقینی طور پر پامال ہوں گے۔ یہود و و نصاریٰ، ہنود اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا قتل عام کیا جائے گا، اس لیے نظریاتی بنیادوں پر ایک ریاست کا بننا کسی طور پر درست نہیں۔ قائد اعظم نے اس اعتراض کا جواب مختلف اوقات میں اپنی تقاریر میں بار بار دیا تاکہ ناقدین کو جواب مل جائے، اقلیتیں مطمئن ہو جائیں اور نومولود ریاست کو چلانے والے اس معاملے میں اپنی درست راہ متعین کر سکیں۔ اس بات کو عام مسلمان بھی بخوبی محسوس کرتے تھے،
اسی لیے جب پاکستان بننے کے بعد Dawn کا 15 اگست 1947ء کو پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس بات کی وضاحت اس عنوان سے کی گئی:
Minorities under Islam, The Holy Prophet’s Epistle to Christian Minoroty Representative
(1)
(1)
قائد اعظم نے اس اعتراض کے جواب میں جو جوابات دیے، ان تمام میں ایک بات عام ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گی اور اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کا جس طرح تحفظ کیا جاتا ہے، اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی، اور مسلمانان پاکستان کس طرح اقلیتوں کے حقوق کو پامال کر سکتے ہیں جبکہ اس کا حکم قرآن و سنت کی طرف سے انہیں دیا گیا ہے۔
پاکستان روم کی ظالمانہ ریاستوں اور عیسائی دنیا کی ناکام پاپائیت کی طرح ملائیت طرز کی ریاست نہیں ہو گی جہاں اپنے عقیدے کے مخالف پر ظلم ڈھائے جاتے تھے، بلکہ یہاں کا نظام خالص قرآن و سنت کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔
قائداعظم نے جب اپنی تقاریر میں’’ملائیت‘‘ کا رد کیا یا اقلیتوں کو ان کے عقائد کے مطابق آزادانہ عبادت کرنے کی عام اجازت کا اعلان کیا تو ہمارے سیکولر ذہنیت کے افراد نے ایک دو عبارات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اس بات کا لحاظ نہ کرتے ہوئے کہ کس وقت کن سامعین سے خطاب کیا جا رہا ہے، اور کس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ قائد اعظم ایک ’’سیکولر‘‘ یعنی لا دین ریاست چاہتے تھے، جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ جن عبارات کو بار بار پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہیں:
11 اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:
You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State.
(2)
’’تم آزاد ہو۔ تم آزاد ہو کہ تم اپنے مندروں میں جاؤ۔ تم آزاد ہو کہ تم اپنی مساجد میں جاؤ یا اس ریاست پاکستان میں کسی اور عبادت گاہ میں جاؤ۔ اس کا کوئی تعلق ریاستی معاملات سے نہیں ہے۔‘‘(2)
ایک اور مقام پر قائد نے فرمایا:
In any case Pakistan is not going to be a theocratic State to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslims –Hindus, Christians, and Parsis –but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan.
(3)
کسی بھی صورت میں پاکستان ایک Theocratic State نہیں ہو گا جو Priests کے ذریعے دیومالائی مقصد کے تحت چلائی جائے گی۔ ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں جیسے ہندو، نصاریٰ اور پارسی لیکن وہ تمام پاکستانی ہیں۔ وہ یکساں حقوق اور رعایتوں کے مستحق ہوں گے، دوسرے شہریوں کی طرح، اور اپنا جائز کردار پاکستان کے معاملات میں ادا کریں گے۔‘‘(3)
بدقسمتی سے نادان سیکولر حضرات و خواتین، جنہوں نے قرآن پڑھا نہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور نہ ہی اصل مصادر سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے خوبصورت و حسین دور کا مطالعہ کیا، اسلام کے بارے میں ان کا باب علم محض مستشرقین کی بعض کتب یا سطحی طور پر لکھی جانے والی تحریریں یا مغرب زدہ آقاؤں کی تقریریں ہیں، انہوں نے یونانی فلسفہ، یورپ کی سیاسی تاریخ، مذہب کی ریاست سے علیحدگی کے اسباب و اثرات و نتائج سے تجاہل برتتے ہوئے پاپائیت، برہمنیت، یہود کا Gentiles کے ساتھ رویہ اور اس بارے میں ان کی تعلیمات اور بعض غیرالہامی و مسخ شدہ الہامی مذاہب کے احکامات کو دیکھا تو ’’اسلام‘‘ کو ان پر قیاس کرتے ہوئے قائد اعظم کی تقریر کے ان اقتباسات کو اللہ کے دین کے خلاف سمجھا۔ قائداعظم نے جب یہ فرمایا کہ تم اپنے مندروں اور معبدوں میں جانے میں آزاد ہو، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ وہ جس کسی بھی ذات یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست ان کے شخصی طرز عبادت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ آپ کا یہ فرمانا کسی طور پر بھی اسلام کے منافی نہیں،
کیونکہ اسلام میں اقلیتوں کو بعض شرائط کے ساتھ ذمی قرار دیا جاتا ہے، وہ ایک خاص مقدار میں ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ایک ریاستی شہری کی طرح ان کی جان، مال، عزت وغیرہ کی حفاظت کی جاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے خود نجران کے مسیحی وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت عطا فرمائی۔ آرمی چیف اور دیگر افواج کو حکم دیا کہ جنگوں میں مفتوح قوم کی عبادت گاہوں کو مسمار نہ کیا جائے، ان کے مذہبی رہنماؤں کو قتل نہ کیا جائے، الا یہ کہ وہ بھی جنگ میں شریک ہوں۔
فتح بیت المقدس کے وقت خلیفہ ثانی سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کو جو امان نامہ لکھ کر دیا، قائداعظم کے یہ الفاظ اس کے عین مطابق ہیں، اور یہ امان صرف قائداعظم نے نہیں دیا، بلکہ اسی طرح کا امان اقلیتوں کو پوری مسلم تاریخ میں ہر جگہ حاصل رہا ہے. پھر تاریخ میں ایسی مثالیں بھی نظر آتی ہیں کہ مسلمان جب ٹیکس لینے کے باوجود کسی موقع پر خارجی حملوں سے ذمیوں کی حفاظت پر قادر نہ ہو سکے، تو انہوں نے ان کا ٹیکس واپس کر دیا اور وہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس عدل کی وجہ سے جب دوبارہ مسلمان وہاں آئے تو انہوں نے خود ہی اپنے دروازے وا کر دیے۔
ہندوستان میں ہندوؤں کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے ان پر سینکڑوں سال حکومت کرنے کے باوجود ان کو زبردستی مسلمان کیا نہ ان کا قتل عام کیا۔
ان کے مندر کھلے رہے، عیسائیوں کو گرجوں اور سکھوں کو گوردواروں میں جانے کی آزادی رہی. غرض یہ کہ قائداعظم کا یہ فرمانا کہ تمہارے شخصی طور پر اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے ریاست سے کوئی تعلق نہیں، اس کا مطلب ہے کہ تم مندر میں جاؤ یا چرچ میں، لا اکراہ فی الدین، اس میں تم آزاد ہو، ریاست اس معاملہ میں تم پر کوئی جبر نہیں کرے گی۔ اپنے دین پر شخصی اعتبار سے عمل کرنے میں تم آزاد ہو۔ اس اسلامی ریاست پاکستان کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ یہاں اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا جائے گا، ان کا قتل عام ہو گا، ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا جائے گا، ان کو زبردستی مسلمان کیا جائے گا، یہ سب جھوٹ و دجل ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کریں۔
اس بات کی مزید وضاحت ہم قائد کی زبانی سنتے ہیں کہ وہ کن اصولوں کی بنیاد پر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔
قائد نے فرمایا:
’’میں مولوی ہوں نہ ملا، اور نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے، البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے تیئں کوشش کی ہے، اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کا روحانی پہلو، معاشرت، سیاست، معیشت، غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہیں، بلکہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی حقوق کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں‘‘۔
(4)
11 مارچ ۱۹42ء کو مسٹر گاندھی کی ڈان میں ایک مضمون کے بارے میں اپیل کے جواب میں اپنے بیان میں فرمایا:
The Hindus and other communities in pakistan will be treated with justice and fairplay–nay, with generosity. That is the view of every responsible Musalman and, what is more, it is enjoined upon us by the highest authority– the Quran and the Prophet.
(5
’’ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پاکستان میں انصاف اور نیک برتاؤ کا معاملہ کیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ فیاضی اور سخاوت کے ساتھ۔ یہی ہر ذمہ دار مسلمان کا نقطہ نظر ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم پر سب سے اعلیٰ ترین اتھارٹی قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے۔‘‘(5
18 نومبر 1942ء کو پنجاب مسلم لیگ کانفرنس، لائلپور میں آپ نے خطاب فرمایا، جس میں آپ کے ایک بیان کو یوں نقل کیا گیا:
Mr Jinnah assured the Christian and Adharam Associations that the rights of their respective communities would be fully safeguarded according to the injunctions from the highest authority, namely Quran, that a minority must be treated justly and fairly.
(6)
’’مسٹر جناح نے عیسائیوں اور Adharam Associations کو یقین دلایا کہ ان کے مذاہب کے لوگوں کے حقوق کو مکمل طورپر محفوظ کیا جائے گا اور اعلیٰ ترین اتھارٹی قرآن کے مطابق یعنی اقلیت کے ساتھ عدل و انصاف اور نیک برتاؤ کرنا ضروری ہے۔‘‘(6)
یکم فروری 1943ء کو بمبئی میں اسلامیہ کالج سے خطاب میں فرمایا:
We make this solemn declaration and give this solemn assurance that we will treat your minorities not only in a manner that a civilised Government should treat them but better because it is an injunction in the Quran to treat the minorities so.
(7)
’’ہم یہ سنجیدہ اعلان کرتے ہیں اور یہ باضابطہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کی اقلیتوں کے ساتھ نہ صرف ایسا معاملہ کریں گے جیسے ایک مہذب حکومت کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بہتر سلوک کیا جائے گا کیونکہ یہ ایک قرآنی تعلیم ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جائے۔‘‘(7)
24 اپریل 1943ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں سیشن سے ایک فی البدیہہ خطاب میں ارشاد فرمایا:
So far as we are concerned our own history, our Prophet have given the clearest proof that non-Muslims have been treated not only justly and fairly but generously.
8
’’تا حال ہماری وابستگی اپنی تا ریخ سے ہے۔ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں بہت واضح ترین ثبوت عطا کیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ نہ صرف انصاف اور نیک برتاؤ کا معاملہ کیا گیا بلکہ فیاضانہ طور پر ۔‘‘8
14 اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا:
“It dates back thirteen centuries ago when our Prophet not only by words but by deeds treated the Jews and Christians, after he had conquered them, with the utmost tolerance and regard and respect for their faith and beliefs. The whole history of Muslims, wherever they ruled, is replete with those humane and great principles which should be followed and practiced.”
(۹)
’’یہ تیرہ صدیاں قبل کی بات ہے کہ جب ہمارے رسول ﷺ نے صرف لفظی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان پر فتح یاب ہونے کے بعد ان کے عقائد و ایمانیات کے ساتھ انتہائی تحمل اور عزت کا معاملہ فرمایا۔ مسلمانوں کی تمام تاریخ، جہاں کہیں انہوں نے حکومت کی، ان عظیم اور مہربان اصولوں سے مالامال ہے جن کی اتباع کرنی چاہئے اور ان پر عمل ہونا چاہیے۔‘‘(۹)
غرض یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمۃ کی 11 اگست کی تقریر سے قبل اور بعد کی تقاریر و بیانات کو مجموعی طور پڑھنے اور 11 اگست کی تقریر کے متن کو پڑھ کر یہ مکمل واضح ہو جاتا ہے کہ قائد اعظم اقلیتوں کے ساتھ قرآن و سنت کے مطابق عدل کا برتاؤ کرنا چاہتے تھے۔ اگر وہ دیگر مذاہب پر قیاس کرتے ہوئے اسلام کو ریاست سے علیٰحدہ خیال کرتے تو کسی طور پر بھی اقلیتوں کے معاملے میں قرآن و سنت کو سند نہ بناتے۔ یقینا یہ بہت بڑا ظلم ہو گا کہ قائد اعظم کی تمام دیگر تقاریر و تحریروں کو جان بوجھ کر چھوڑ کر محض ایک دو عبارات کو اصل معانی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے مخصوص مفہوم و مقاصد کے تحت بیان کیا جائے اور یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے۔
حواشی
(۱)
Dawn Pakistan Supplement, Aug15, 1947, Page:4
(۲)
Quaid-e-Azam, Page:10
(۳)
Quaid-e-Azam, Pages:92-93
(۴)
گفتار قائد اعظم:ص:۲۶۱
(۵)
Recent Speeches and Writings of Mr. Jinnah,Page:345
(۶)
Recent Speeches and Writings of Mr. Jinnah,Page:431
(۷)
Recent Speeches and Writings of Mr. Jinnah,Page:447
(۸)
Recent Speeches and Writings of Mr. Jinnah,Page:4483-484
(۹)
Quaid-e-Azam, Page:18
(شکریہ د پی کے)
آخری تدوین: