چوہدری لیاقت علی
محفلین
قائد اعظم
اک شخص دیکھنے میں نحیف و نزار سا
باطن کی قوتوں میں مگر کوہسار سا
غیروں کے روبرو صفت چوب خشک دار
اپنوں کے واسطے شجر سایہ دار سا
خود ہو گیا غروب مگر دشتِ تیرہ میں
پھرتا ہے اس کی روشنیوں کا غبار سا
وہ کب کا جا چکا ہے مگر چشمِ خیرہ میں
باقی ہے اس کے عکسِ رواں کا خمار سا
آنا اسے نہیں ہے مگر اس کی چاپ کا
کرتی ہے اب بھی ارضِ وطن انتظار سا
ہم خاک ہو چکے ہیں مگر اس کی یاد سے
آتا ہے اپنے ہونے کا کچھ اعتبار سا
اٹھتی ہے خونِ خفتہ میں پھر زندگی کی لہر
ملتا ہے سیلِ جبر پہ کچھ اختیار سا
ایسا ہے وہ تو آﺅ اسے حرزِ جاں کریں
یادوں کے اس کی سمت سفینے رواں کریں
اک شخص دیکھنے میں نحیف و نزار سا
باطن کی قوتوں میں مگر کوہسار سا
غیروں کے روبرو صفت چوب خشک دار
اپنوں کے واسطے شجر سایہ دار سا
خود ہو گیا غروب مگر دشتِ تیرہ میں
پھرتا ہے اس کی روشنیوں کا غبار سا
وہ کب کا جا چکا ہے مگر چشمِ خیرہ میں
باقی ہے اس کے عکسِ رواں کا خمار سا
آنا اسے نہیں ہے مگر اس کی چاپ کا
کرتی ہے اب بھی ارضِ وطن انتظار سا
ہم خاک ہو چکے ہیں مگر اس کی یاد سے
آتا ہے اپنے ہونے کا کچھ اعتبار سا
اٹھتی ہے خونِ خفتہ میں پھر زندگی کی لہر
ملتا ہے سیلِ جبر پہ کچھ اختیار سا
ایسا ہے وہ تو آﺅ اسے حرزِ جاں کریں
یادوں کے اس کی سمت سفینے رواں کریں