بہت حیرت ہوئی کہ یہ ایسا اخبار ہے جسکا ویب سائیٹ تک نہیں، اور نہ ہی کوئی ایڈریس یا کانٹیکٹ موجود ہے۔
کچھ بعید نہیں کہ اس اخبار کی ساری ڈویلپمنٹ رائے ونڈ یا لاڑکانہ میں بیٹھ کر ہوئی ہو۔
بہرحال، یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس گھر میں وہ کون سے چار چاند لگے ہوئے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ لوگوں نے الطاف حسین پر کرپشن کے الزامات لگانے شروع کر دیے ہیں؟ یہ ایک عام رہنے کا گھر ہے جو ایک کنال کے پلاٹ سے زیادہ نہیں دکھائی دیتا، جہاں نیچے سیاسی ایکٹیویٹیز جاری رہتی ہیں اور اوپر رہائشی کمرے ہیں۔ اکیلے لاہور ڈیفنس ایسے کئی ہزار گھر بنے ہوئے ہیں جو رقبے و آرائش وغیرہ کے لحاظ سے اس سے کسی صورت کم نہیں۔
انگلینڈ کا سسٹم ہے کہ اس میں بینکوں اور دوسری کمپنیوں سے قرضہ لے کر آسانی سے گھر خریدا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہزاروں نہیں تو بھی سینکڑوں پاکستانی انگلینڈ و امریکہ میں ایسے ہیں جن کے پاس ایسے گھر ہیں۔ ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹرز و انجینئرز اور دیگر بڑی پوسٹوں پر موجود حامی لندن، امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں موجود ہیں جو دل و جان سے الطاف حسین کی حمایت کرتے ہیں۔ تو ایسے گھر کو انسانیت کا "سب سے بڑا جرم" بنا کر پیش کرنے کی پھر کیا وجہ ہے؟ اسکی وجہ بہت صاف ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دوسروں کی آنکھوں کا تنکا شہتیر کی طرح تو دکھائی دیتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
الطاف حسین کا گھر دیکھئیے، اور پھر نواز شریف کے لندن میں موجود گھروں میں سے صرف ایک یہ گھر دیکھ لیں، آپکو خود اندازہ ہو جائے گا کہ تنکا کیا ہے اور شہتیر کیا ہے۔
کچھ آپ کی آنکھیں کھلیں کیا؟
نہیں جناب، آنکھیں کیسے کھل سکتی ہیں۔ جو آنکھیں ایم کیو ایم کی ریلیوں میں لاکھوں لوگوں کو دیکھ کر نہیں کھلیں تھیں، یہ ناممکن ہے کہ وہ اس مسئلے میں کھل جائیں۔
اور اس اخبار کا کینہ تو اُس وقت ظاہر ہو ہی رہا تھا جب نگرانی کے لیے لگے کیمروں کو سنسنی خیز انداز میں بطور سازش بنا کر پیش کر رہا تھا۔ مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اگر نگرانی کے لیے یہ دو تین کیمرے لگے ہوئے ہیں، اور لندن کی پولیس بھی حفاظتی راؤنڈ پر آتی ہے تو پھر ان کو اس پر تکلیف کیا ہے؟ [بہرحال، انہیں جو تکلیف ہے، اس کا بھی اندازہ ہے ہی۔ انہیں ہر ہر وہ چیز تکلیف دے گی جس سے الطاف حسین انکے خونی چنگل میں پھنس کر اپنی جان نہ گنوائے، چاہے یہ کیمرے ہو، لندن پولیس کی نگرانی ہو، یا پھر الطاف حسین کا پاکستان آنا، انکے منہ سے خون رستا صاف نظر آتا ہے)
*****************
۔ جب الطاف حسین پاکستان سے 1992 کے آپریشن سے پہلے گئے تھے تو ان پر ایک بھی مقدمہ نہیں تھا۔
۔ پھر انکی غیر موجودگی میں مقدمات بننا شروع ہوئے اور سینکڑوں جھوٹے مقدمات بن گئے۔ مگر ان میں سے ایک بھی مقدمہ "کرپشن" کا نہیں۔
۔ الطاف حسین کے خلاف کرپشن کا تو ایک بھی ثبوت نہیں، مگر انکے نان کرپٹ ہونے کا مکمل ثبوت موجود ہے۔ لیکن قوم کی بدقسمتی کے لوگوں کو نفرت نے ایسا بنا دیا ہے کہ وہ ان "نان کرپٹ" کے ثبوتوں کو مکمل بھلا دیں گے، اور اگر کسی نے کوئی جھوٹا الزام لگا دیا تو بنا ثبوت طلب کیے آنکھیں بند کر کے اس الزام کو طوطے کی طرح ٹرٹرانے لگیں گے۔
اور الطاف حسین کے نان کرپٹ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت وہ ہے جو برگیڈیئر (ر) امتیاز نے کھلے عام میڈیا پر پوری قوم کے سامنے پیش کیا جب رشوت دینے والا جرنل حمید گل نوٹوں سے بھرا بریف کیس الطاف حسین کو بھجواتا ہے کہ اسے قبول کر لو اور ایجنسیوں کی اطاعت میں آ جاؤ۔ (الراشی و المرتشی کلا ھما فی النار؟؟؟ ) یہ سب کچھ میڈیا پر چلنے کے باوجود حمید گل نے آج تک اسکا انکار نہیں کیا ہے۔ الطاف حسین کے اس نان کرپٹ ہونے کی سزا پھر پوری مہاجر قوم نے اگلے آنے والے سالوں میں ہزاروں ساتھیوں کے خون کی صورت میں ادا کی۔
بہرحال، ان لوگوں کے بغیر ثبوت کے الزامات بھی پتھر پر لکیر ہوتے ہیں (چاہے وہ ایم کیو ایم کا ایجنسیوں کے بنوانے کا الزام ہو یا الیکشن میں لاکھوں لوگوں کو ہاتھوں میں چوریاں پہن کر بیٹھنے کا الزام)۔ اور الطاف حسین کے نان کرپٹ کا ثبوت سامنےبالکل کھل کر آ بھی جائے اور ہزاروں اہل کراچی اس فیصلے کی وجہ سے خاک و خون کی نظر ہو جائیں، تب بھی یہ ثبوت انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔