loneliness4ever
محفلین
قاتل بھی وہ، مقتول بھی وہ
گلستا ں سارا کا سا راغم میں ڈوبا ہوا تھا، بہار کے موسم نے جیسے خزاں کی شال اوڑھ لی تھی، درختوں کو اپنے پتے گرانے کا من کر رہاتھا، گلاب کی ڈالیوں سے چمٹے تمام خار اپنے آپ کو کوس رہے تھے، کلیاں سہمی ہوئی زاروقطار رو رہی تھیں۔ تمام گلستاں ہوا کی چاپ پر چونک پڑتا تھا، خبر کے خبر ہوجانے کا خوف تمام گلشن پر طاری تھا۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا مگر اب جو ہو گیا تھا اس کو زمانے کی سماعت، اس کی آنکھ سے محفوظ رکھنے کی فکر میں تمام گلشن ہی مبتلا تھا۔ تتلیوں کے رنگ جیسے چرا لئے گئے تھے۔ ہوا کی مستی روٹھ چلی تھی۔ ڈالیوں پر جھکے ہوئے عمر رسیدہ گل اُس کو ہی ملزم قرار دے رہے تھے، کانٹوں کو اپنے لئے بوجھ سمجھنا، ان سے لڑ کر اپنے آپ سے ان کو دور کر لینا، دنیا کو دیکھنے، اُس کو اپنے آپ کو دکھانے کا شوق، وقت سے پہلے سنگھار، زندگی پوری کرتے گلابوں کی نصحیتوں کی ہنسی اڑانا، سر عام تنہا اپنی پنکھڑیوں کو کھول دینا، غرض یہ تمام عادات، شوق، خودسری اوراپنوں کی نصحیتوں کو سنی ان سنی کرنا ہی اس نوخیز کلی کی شادابی، مسکراہٹ چراگئے۔ لاکھ کھلے گلابوں کے منع کرنے کے باوجود اس نے کانٹوں کو ناراض کیا اپنے وجود سے جدا کیا اور پھر دنیا کی رسائی اس تک ہو گئی۔ بھونروں سے دوستی اس کو مہنگی پڑی ۔ اور ایک دن تمام گلابوں کی نظر سے بچ کر اس بند کلی نے وقت سے پہلے اپنا دامن پھیلا دیا، پنکھڑیوں کا تخت بچھا دیا اور پھر اپنی شادابی کی بھینی بھینی خوشبو کو ہوا کے سپرد کر دیا جس کے نتیجے میں کتنے ہی مےخار بھونرے مست ہوکر اس کے پاس امڈ آئے، وہ اپنے آپ کو مرکز ِ نگاہ بنتا دیکھ کر خوش ہونے لگی، بھونروں کے اضطراب، ان کی پیاس کو محسوس کرکے اپنے آپ کو پریوں کا سنگھار سمجھنے لگی۔ نادان بھول گئی تھی کہ یہ نشہ کچھ پل پر محیط ہے اور پھر بھونروں نے اس کو ڈھانپ لیا، فضا پکاری، گلابوں نے شور مچایا، کانٹوں نے ہتھیار اٹھائے مگر اب دیر ہو چکی تھی، بھونرے اپنا کام کر چکے تھے، اس نادان بیقرار پر آنے والی بہار خزاں بن کر اس کی ایک ایک پنکھڑی سے ٹپک رہی تھی۔
س ن مخمور
امر تنہائی